اسلام اتحاد، امن،محبت اور رواداری کا مذہب
ہے نہ کہ تفریق کا لیکن ہمارا معاشرہ بد قسمتی سے امن محبت اور رواداری سے
محروم ہو چکا ہے۔
آج اسلامی جمھوریہ پاکستان میں مسلکی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے سے نفرت
کی جاتی ہے تشدد اور عدم برداشت عام ہو چکا ہے۔ ہر انسان کا مذہبی عقیدہ
رکھنا اس کا حق ہے لیکن کسی دوسرے کو اس کے مختلف عقیدے کی بنا پر نشانہ
بنانا بڑا ظلم ہے۔
ایک جگہ ڈاکٹر مبارک علی صآحب اپنی کتاب (تاریخ اور مذھبی تحریکیں) (میں
لکھتا ہے کہ ہمارے پیارے وطن میں کوئی اور انڈسٹری چلے نہ چلے لیکن مذھبی
انڈسٹری برسوں سے چل رہی ہے پھل پھول رہی ہے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی
ہے، یہ انڈسٹری اربوں ڈالر مالیت کی ہے۔) اگر اس انڈسٹری کے بڑوں یا پھر اس
سے جڑے افراد کے خلاف بات کی جائے تو وہ قتل فی سبیل اللہ کا فتویٰ جاری
کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرتے اس انڈسٹری سے جڑے لوگوں کا ذریعہِ آمدن
معصوم اور سادہ لوح انسان ہوتے ہیں جن کی معصومیت کا وہ غلط اور ناجائز
فائدہ اٹھا کر ان کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ان سے پیسے
بٹورتے ہیں اور دوسرہ ذریعہِ آمدن قبروں کے کاروبار سے ہوتا ہے قبروں پر جو
عقیدت مند آتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ نذرانہ ضرور دیکر جاتے ہیں لیکن یہاں پر
یہ بات بھی نہیں بھولنی چاھیے کہ مدارس میں جو اکابر نامی بت کی پرستش
سکھائی جاتی ہے وہ بت اپنی سوچ کو لوگوں پر مسلط کرتے ہیں اور پھر اس سے
اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ان کے ماننے والے اپنے خاص مسلک کے مذھبی
رہنماو ں کی سوچ کے علاوہ دنیا میں کوئی دوسرا سچ اور حقیقت نظر نہیں آتی
اسی طرح وہ لوگوں کے عقلوں پر تالہ لگا دیتے ہیں اور پھر لوگ ان مذھبی
رہنما ئوں کی تقلید میں ہرکام کر گزرتے ہیں مثال کے طور پر۔غلطی سے کبھی
خطا کار، گنہگار انسان ان کے اکابرین کے خلاف کچھ کہدے تو پھر ملک بھر میں
رضا کارانہ طور پر اس شخص کے خلاف بلا کسی تعطل کے احتجاجی مظاھروں کا اور
نجی ملکیتوں کو جلا نے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس انڈسٹری کے تمام
'پراڈکٹس' ملک بھر میں مفت دستیاب ہیں اور بہت پر کشش بھی ہیں نہ چاہتے ہوے
بھی لوگ دن بدن کھینچے چلے آرہے ہیں۔ جو لوگ اس انڈسٹری میں کسی مخصوص طبقے
کے رکن بن جائیں تو پھر خود کو جنت کا مکین اور دوسروں کو جہنم کا مکین
کہنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو عقائد کی بنیاد پر کبھی نہیں پرکھنا چاھیے
کیوں کہ فطرت کا انصاف محظ عقائد پر نہیں بلکہ اعمال کا تقاضا کرتا ہے -
کوئی بھی انسان اگر وہ ایسے اعمال اختیار کرتا ہے جس سے معاشرہ خوشحا
لی،انصاف،امن،برابری،احساس کا گہوارہ بنتا ہے- اور جن کا یہ ایمان ہے کہ"
جرم اور دوسروں کا نقصان کرنے والے کا انجام برا ہی ہوتا ہے" ان لوگوں کا
یہ ماننا اسے ہی ہے جسے خدا کو ماننا - تو ایسے انسان اور معا شرے کے لئے
دنیا کی زندگی بھی بہتر ہے اور دنیا کے بعد کی زندگی بھی پرسکون ہے --
اور یہی فطرت کا قانون ہے جو سب انسانوں پر برابر لاگو ہوتا ہے -اور سب کے
لئے ایک ہے۔
سیانے کہتے ہیں نہ کہ جب تک میں اور تو کو نہیں مٹائیں گے تب تک لڑائی چلتی
رہے گی ....
|