جنگ احد ۔۔۔ فتح کے بعد شکست
راہ خدا میں جہاد، رضائے خدا کا حصول اور آئین اسلام کی نشر و اشاعت کے
علاوہ مجاہدین اسلام کا کوئی اور مقصد نہ تھا وہ آخری وقت تک بہادری کےساتھ
جنگ کرتے رہے اور نتیجہ میں فتح یاب ہوئے لیکن فتح کے بعد بہت سے مسلمان اس
مقصد سے ہٹ گئے اور ان کی نیت بدل گئی۔ قریش نے جو مال غنیمت چھوڑا تھا اس
نے بہت سے لوگوں کے اخلاص کی بنیادیں ہلا دیں۔ انہوں نے فرمان رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے جنگ کے مقصد کو بھلا دیا۔ دشمنوں کے تعاقب سے
چشم پوشی کرکے مالِ غنیمت کی جمع آوری میں مشغول ہوگئے۔ انہوں نے اپنی جگہ
یہ سوچ لیا تھا کہ کام ختم ہوگیا۔درہ کی پشت پر جو نگہبان موجود تھے انہوں
نے جب مجاہدین کو مالِ غنیمت جمع کرتے دیکھا تو جنگی حکمت عملی کے اعتبار
سے اس اہم درہ کی حفاظت کی اہم ذمہ داری کو بھلا دیا اور کہا کہ ہم یہاں
کیوں رکے رہیں؟ خدا نے دشمن کو شکست دی اور اب تمہارے بھائی مالِ غنیمت جمع
کرر ہے ہیں چلو ان کے ساتھ شرکت کریں۔ عبداللہ ابن جبیر نے یاد دلایا کہ
کیا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اگر ہم قتل
کر دیئے جائیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور اگر ہم کامیاب ہوگئے اور مال غنیمت
جمع کرنے لگیں جب بھی ہمارے ساتھ شرکت نہ کرنا اور پس پشت سے ہماری حفاظت
کرتے رہنا؟ عبداللہ نے ان کو بہت سمجھایا کہ تم کمانڈر کے حکم سے سرتابی نہ
کرو لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے غنیمت کے لالچ میں اپنی جگہ کو
چھوڑ دیا اور اس سے دور نکل آئے عبداللہ صرف دس افراد کے ساتھ وہاں باقی رہ
گئے۔
خالد بن ولید نے جو کہ دشمن کی فوج کے شہ سواروں کا سردار تھا جب درہ کو
خالی دیکھا تو اس نے اپنے ماتحت فوجیوں کو لے کر حملہ کر دیا اور چند بچے
ہوئے تیر اندازوں پر ٹوٹ پڑا ۔عکرمہ بن ابی جہل نے اپنی ٹولی کے ساتھ خالد
بن ولید کی پشت پناہی کی، جن تیر اندازوں نے درہ نہیں چھوڑا تھا۔ انہوں نے
مردانہ وار مقابلہ کیا یہاں تک کہ ان کے ترکش کے تمام تیر خالی ہوگئے، اس
کے بعد انہوں نے نیزے پھر شمشیر سے جنگ کی یہاں تک کہ سب شہید ہوگئے۔
جب سپاہیانِ اسلام یہاں اطمینان کے ساتھ مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے۔
اس وقت خالد بن ولید لشکر اسلام کی پشت پر تھا۔ ایک طرف مشرکین اپنے فرار
کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس نے جنگی حکمت عملی والے اہم حصہ کو فتح کرلیا
تھا۔ وہ چلا چلا کر شکست خوردہ لشکر قریش کو مدد کی دعوت دے رہا تھا۔ اسی
ہنگام میں بھاگنے والوں کی عورتوں میں ایک عورت نے کفر کے سرنگوں پرچم کو
لہرا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کا بھاگا ہوا لشکر واپس آگیا اور شکست
خوردہ لشکر پھر سے منظم ہوگیا۔ سپاہ اسلام افراتفری اور بدنظمی کی وجہ سے
تھوڑی ہی دیر میں سامنے اور پیچھے سے محاصرہ میں آگئی اور پھر نئے سرے سے
دو لشکروں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ مسلمان حواس باختہ ہوگئے اور اس طرح
وہ دشمن کے ہاتھ سے مارے گئے اور بدحواسی کے عالم میں نہ پہچاننے کی بناء
پر ایک دوسرے کو بھی مار دیتے تھے۔
اس غیر مساوی جنگ کے ہلڑ ہنگامہ میں جو دوبارہ شروع ہو چکی تھی ابن قمہ نے
اسلام کے لشکر کے افسر مصعب بن عمیر پر حملہ کر دیا جو پیغمبر کا دفاع کر
رہے تھے اور وہ خدا سے عہد و پیمان کی راہ میں اپنے خون میں غلطاں ہوگئے۔
مصعب نے لڑائی کے وقت اپنے چہرہ کو چھپا رکھا تھا تاکہ وہ پہچانے نہ جائیں۔
ابن قمہ نے سوچا کہ اس نے پیغمبر کو قتل کر دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ چلایا
کہ”اے لوگوں! محمد قتل کر ڈالے گئے۔ اس خبر سے قریش اس قدر خوش تھے کہ آپس
میں شور و غل مچا کر کہہ رہے تھے۔ محمد قتل ہوگئے، محمد قتل ہوگئے۔(مغازی
ج۱ ص ۲۲۹، ۲۳۲)
اس بے بنیاد خبر کا پھیلنا دشمن کی جرات کا باعث بنا اور لشکر قریش سیلاب
کی طرح امڈ پڑا اور مشرکین کی عورتوں نے مصعب کے جسم پاک اور شہداء میں سے
بہت سے افراد کے جسد اطہر کو مثلہ کر دیا۔
دوسری طرف اس خبر نے جنگ کی حالت میں مجاہدین اسلام کو بہت بڑا روحانی صدمہ
پہنچایا وہ اس طرح کہ اکثر لوگوں نے ہاتھ روک لیا اور پہاڑ پر پناہ لینے کے
لئے بھاگ گئے۔ بعض ایسے حواس باختہ ہوئے کہ انہوں نے یہ سوچا کہ کسی کو
فوراً مدینہ میں عبداللہ بن ابی کے پاس بھیجیں تاکہ وہ واسطہ بن جائے اور
قریش سے ان کے لئے امان مانگے جبکہ دوسری جانب پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم مسلمانوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے اور فرماتے تھے اے بندگان خدا! میری
طرف آؤ۔ اے فلاں فلاں تم میری طرف آؤ۔ لیکن اس دستہ نے اپنی جان بچائی جس
کے پاس ایمان نہیں تھا اور جیسے بھاگ رہا تھا ویسے ہی بھاگتا رہا۔ ان میں
سے بعض پہاڑ پر بھاگتے وقت اپنے خیال میں وعدہ فتح سے بدگمان ہوگئے اور
جاہلی افکار نے ان کا پیچھا کرنا شروع کیا بعض نے قرار پر فرار کو ترجیح دی
اور مدینہ چلے گئے اور3 دن تک اپنے آپ کو چھپائے رکھا۔ (تاریخ کامل ج۲ ص
۱۰۹)
پیغمبر کا دفاع کرنے والوں کی شجاعت
درہ میں چند افراد رہ گئے تھے اور ایسی شجاعت کے ساتھ دشمن کے پے درپے حملہ
کو دفع اور پیغمبر کا دفاع کر رہے تھے جس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ حضرت
علی علیہ اسلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی میدان کو نہیں چھوڑا۔ آپ اپنی تلوار
سے پے درپے دشمن کے سر پر موت کا مینہ برسا رہے تھے اور ایک دستہ کو قتل کر
کے دوسرے دستہ کو فرار پر مجبور کر رہے تھے۔ اس دوران انہیں بہت زخم آئے
لیکن پھر بھی نہایت تیزی کے ساتھ شیر کی طرح غرا کر شکار پر حملہ کرتے تھے
اور پروانہ وار پیغمبر کے گرد چکر لگا رہے تھے مبادا کوئی ان کی شمع وجود
کو جو نور خدا ہے۔ خاموش نہ کر دے، ایسا منظر بار بار آتا رہا، خدا اس
بہادری کا شاہد ہے۔ جبرئیل نے آسمان سے آواز بلند کی۔
لافتی الاعلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاسیف الاذوالفقار
اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ اہلسنّت کے مؤرخ ابن ہشام لکھتے ہیں کہ احد
کے جنگ میں قریش کے زیادہ تر افراد کو حضرت علی علیہ السلام نے واصل جہنم
کیا ۔(سیرة ابن ہشام ج۲ ص ۱۰۰)
شہادت حضرت امیر حمزہ علیہ سلام اور دیگر جانثاران پیغمبر اسلام کا احوال
شجاعت
احد کے معرکہ میں بہادری کا جوہر دیکھانے والوں میں سے جناب حمزہ بن
عبدالمطلب سردار لشکر اسلام بھی تھے جنہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا دفاع کرتے ہوئے بہت سے مشرکین کو واصل جہنم کیا ۔ابوسفیان کی بیوی
ہند نے وحشی سے جو جبیر ابن مطلعم کا غلام تھا یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم
محمد، حمزہ، یا علی کو قتل کر دو تو آزاد ہو جاؤ گے۔ وہ رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم تک تو نہ پہنچ سکا اور علی علیہ السلام بھی میدان جنگ میں
ہر طرف سے چوکنہ تھے۔ اس نے جب جناب حمزہ کو دیکھا کہ وہ شدت غیظ و غضب میں
اپنی طرف سے بے خبر ہیں تو وہ ان کا تعاقب کرنے لگا جناب حمزہ شیر کی طرح
قلب لشکر پر حملہ کر رہے تھے اور جس شخص تک پہنچتے اس کو خاک و خون میں
غلطاں کر دیتے تھے۔ وحشی ایک پتھر کی آڑ میں چھپ گیا اور جب حمزہ مصروف جنگ
تھے اس وقت اس نے اپنے نیزہ کا نشانہ ان کی طرف لگا کر ان کو شہید کر دیا
اور ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے جناب حمزہ علیہ اسلام کے جسم پاک کو مثلہ
کیا۔ لشکر توحید کا دفاع کرنے والوں میں سے ایک ابودجانہ بھی تھے مسلمانوں
کے میدان جنگ میں واپس آجانے کے بعد جب آتش جنگ دوبارہ بھڑکی تو رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تلوار لی اور فرمایا کہ” کون ہے جو اس تلوار
کو لے اور اس کا حق ادا کرے؟ چند افراد اٹھے، لیکن ان میں سے کسی کو آپ نے
تلوار نہیں دی اور پھر اپنی بات دہرائی۔ اس دفع ابودجانہ اٹھے اور انہوں نے
کہا یا رسول اللہ میں آمادہ ہوں۔
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس شمشیر کا حق یہ ہے کہ
اسے دشمن کے سر پر اتنا مارو کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے اور سا بات سے مکمل طور
پر ہوشیار رہو کہ کہیں دھوکہ میں تم کسی مسلمان کو قتل نہ کر دینا۔ یہ کہہ
کر آپ نے وہ تلوار ان کو عطا فرمائی۔ (سیرة ابن ہشام ج۲ ص ۶۸)
ابودجانہ نے ایک سرخ رنگ کا کپڑا اپنے سر پر باندھا اور دشمن کی طرف مغرور
حملہ آور ہوئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کی چال
کو خدا دشمن رکھتا ہے مگر یہ کہ جنگ کہ ہنگام ہو، ابودجانہ نے راہ خدا میں
قلب دشمن پر حملہ کیا اور ان کے سروں پر اتنی تلوار ماری کہ تلوار خم
ہوگئی۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |