مجلس سید احمد شہید

سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’پورا مسلمان‘‘ بنائے. اور ہم سب کو ایمان ِ کامل نصیب فرمائے.آج کی محفل میںبھی حضرت سیّد احمد شہید (رح) کا بابرکت تذکرہ جاری رکھتے ہیں. اُس سے پہلے چند تازہ خبروں پر ایک مختصر سی نظر.﴿۱﴾ پاکستان میں’’اٹھارویں ترمیم‘‘ منظور ہو گئی. یہ عام سا واقعہ ہے کیونکہ حکمرانوں کے نزدیک ملک کا آئین ایک’’کھلونا‘‘ ہے اور حسب خواہش اس سے کھیلتے رہتے ہیں. کل کوئی اور آئے گا تو’’انیسویں ترمیم‘‘ بھی منظور کرا لے گا.﴿۲﴾یورپ میں ایک آتش فشاں پہاڑ نے دھواں اُگلا تو سارا یورپ مفلوج ہو کر رہ گیا. سات دن تک کئی ملکوں میں کوئی جہاز نہیں اُڑا. اور لاکھوں لوگ ہوائی اڈوں پر پھنس کر رہ گئے. یہ ہے ترقی اور یہ ہے طاقت کہ اﷲ تعالیٰ کی ایک ادنیٰ مخلوق کا مقابلہ کر نہیں سکتے اور دعوے کرتے ہیں خُدائی کے.﴿۳﴾ اُدھر امریکہ اور ایران اوپر اوپر سے ایک دوسرے پر برس رہے ہیں جبکہ اندر سے دونوں کے مفادات ایک ہیں. مسلم دنیا میں ایران کی مقبولیت جب کم ہونے لگتی ہے تو امریکہ اُس کے خلاف ایسا شور مچاتا ہے کہ ایران پھر’’کاغذی ہیرو‘‘ بن جاتا ہے. افغانستان میں امریکہ اور ایران اکٹھے کھڑے ہیں.عراق میں امریکہ اور ایران ایک ساتھ بیٹھے ہیں. بلکہ عراق میں امریکہ کو کامیابی ایران کے تعاون سے ملی ہے.﴿۴﴾کشمیر کے معروف اور بزرگ رہنما سیّد علی گیلانی. تہاڑ جیل جا کر بھائی محمد افضل گورو صاحب سے ملاقات کر آئے ہیں. اﷲ تعالیٰ اُن کو اس کارِ خیر پر جزائے خیر عطا فرمائے. انہوں نے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ. افضل گورو صاحب سے ملاقات کر کے میرا ایمان تازہ ہوا ہے. اور میرے ایمانی جذبات کو ترقی نصیب ہوئی ہے. افضل گورو صاحب خوش خرّم، مطمئن اور اپنے ایمانی نظریات پر قائم ہیں. القلم کے قارئین تو محمد افضل گورو صاحب کو جانتے ہیں. کشمیر کا ایک بہادر اور شیر دل نوجوان جو تہاڑ جیل دہلی میں. سزائے موت وارڈ میں ہے.ایک شخص موت کے منہ میں بیٹھا ہے. مگر اپنے ملنے والوں میں’’امیدیں‘‘ اور ’’روشنیاں‘‘ تقسیم کر رہا ہے. اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کے جذبات بانٹ رہا ہے.

سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم.اﷲ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے. اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف. حضرت سیّد احمد شہید(رح) کے تذکرے سے خود مجھے اور قارئین کو الحمدﷲ فائدہ پہنچ رہا ہے.حضرت سیّد صاحب پر اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل تھا. حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی(رح) کی خدمت میں بخارا کے ایک عالمِ دین اصلاح، توجہ اور سلوک و احسان کی تکمیل کے لئے حاضر ہوئے. حضرت شاہ صاحب(رح) نے اُن کو انتظار کا حکم فرمایا. یہاںتک کہ جب حضرت سیّد احمد شہید(رح) دوبارہ حضرت شاہ صاحب(رح) کے پاس تشریف لائے تو آپ نے’’بخاری عالم‘‘ کو حضرت سیّد صاحب(رح) کے سپرد کیا. بخاری عالم نے جب حضرت سیّد صاحب(رح) کی جہادی وضع قطع دیکھی تو دل میں سوچا کہ یہ تو مجاہد آدمی لگتے ہیں یہ مجھے روحانی و باطنی علوم کی کیا تعلیم دیں گے. اور حضرت سیّد صاحب(رح) سے پوچھنے لگے کہ آپ نے کون کون سی کتابیں اور علوم پڑھے ہیں؟. حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی(رح) نے ان کو ٹوک کر فرمایا کہ اس طرح کی گفتگو سے آپ کو کیا مطلب؟ آپ یہ سمجھ لو کہ جو کچھ آپ کو میرے پاس بارہ برس میں ملے گا ان کی خدمت میں وہ سب کچھ بارہ دن میں حاصل ہو جائے گا.﴿وقائع ص ۳۹﴾

ہم بھی حضرت سیّد احمد شہید(رح) کا تذکرہ اس لئے کر رہے ہیں کہ اُن پر اﷲ تعالیٰ کا بہت فضل تھا. اور جن لوگوں پر اﷲ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا ہو اُن کا تذکرہ کرنے سے بہت سی نعمتیں نصیب ہوتی ہیں. آئیے حضرت سیّد احمد شہید(رح) کی صحبت میں چلتے ہیں اور کامیابی کی باتیں سیکھتے ہیں.

نماز کی سخت تاکید
حضرت سیّدصاحب(رح) نماز کی بہت تاکید فرماتے تھے. رسالہ اشغال میں ہے:۔
’’نماز پنجگانہ﴿یعنی پانچ وقت کی نماز﴾ اداکرنا فرض ہے، اور اس کا ترک کُفر ہے، لازم ہے کہ ہر مؤمن جان و دِل سے اﷲ تعالیٰ کا حُکم بجا لائے‘‘
﴿رسالہ اشغال، روحانی رشتے﴾

ہر مسلمان کو چاہئے کہ نماز کے بارے میں یہی عقیدہ اور نظریہ رکھے. حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کا نماز کے بارے میں یہی عقیدہ اور نظریہ تھا. پس ہر مسلمان خود کو اس کاپابند بنائے. اور اپنی آل،اولاد، رشتہ داروں اور اپنے تابعداروں میں نماز کو قائم کرے. اور نماز چھوڑنے کو کافروں والا کام سمجھے.

مساجد کا ادب و احترام
بخارا کے جس عالم دین کا تذکرہ اوپر گزرا ہے. وہ چند دن حضرت سیّد صاحب(رح) کی صحبت میں رہے تو اپنے مقصد کو پہنچ گئے. انہیں اﷲ تعالیٰ کی معرفت کا بہت اونچا مقام نصیب ہوا. ایک روز حضرت سیّد صاحب(رح) اُن کو’’تعلیم‘‘ فرما رہے تھے کہ اچانک اُنہیں قے﴿یعنی اُلٹی﴾ آنا شروع ہو گئی.حضرت سیّد صاحب(رح) نے مسجد کو ناپاکی سے بچانے کے لئے پہلے مٹی کی چلپجی اُن کے آگے کی. مگر وہ چھوٹی تھی تو باقی اپنے دامن میں لیکر آپ اور ملاّبخاری مسجد سے باہر نکلے. اور باہر آکر آپ نے اپنے ہاتھ کپڑے وغیرہ دھو لئے. اس واقعہ کے چھ سات دن بعد آپ نے فرمایا. اُس دن جو ملاّ بخاری کی قے میں نے اپنے ہاتھ میں لی کہ مسجد نجس نہ ہو تو اس کام سے اﷲ تعالیٰ بہت راضی ہوئے اور اﷲ تعالیٰ نے اس پر مجھے بڑی نعمت عطا فرمائی کہ اُس کا شکر ادا نہیں کرسکتا.اور فرمایا کہ تو نے ہماری مسجد کا ادب کیا ہم نے تجھ کو یہ انعام دیا.﴿وقائع ص ۵۹﴾

اس سلسلے کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیّد صاحب(رح) حضرت شاہ عبدالقادر صاحب(رح) کی مسجد میں رہتے تھے. حضرت شاہ عبدالقادر صاحب(رح) نے قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر’’موضح قرآن‘‘. جس کو عام طور سے’’موضح القرآن‘‘ کہا جاتا ہے اسی مسجد میں تحریر فرمائی. حضرت سیّد صاحب(رح) نے خواب میں دیکھا ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ یہ مسجد جب سے بنی ہے اس کی چھت کو کبوتروں اور ابابیلوں کی بیٹ سے کسی نے پاک نہیں کیا. صبح بیدار ہو کر آپ(رح) نے تحقیق فرمائی تو یہی معلوم ہوا کہ مسجد کی چھت بہت طویل مدت سے پاک نہیں کی گئی. مسجد کی چھت بہت اونچی تھی. آپ(رح) نے حضرت شاہ اسماعیل شہید(رح) کو حکم دیا کہ کئی سیڑھیاں جوڑ باندھ کر اونچی سیڑھی تیار کی جائے. پھر آپ(رح) اس سیڑھی کے ذریعہ چھت پر چڑھے اور بہت محنت سے صفائی، دُھلائی کی. اور بھی کئی لوگ اس مبارک کام میں آپ(رح) کے ساتھ شریک ہو گئے. اس واقعہ کے کئی دن بعد حضرت سیّد صاحب(رح) نے فرمایا. اﷲ تعالیٰ جلّ شانہ نے اس چھت کو صاف کرنے کے بدلے مجھے بڑی نعمت عطا فرمائی کہ اس کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا.﴿وقائع ص ۴۰۱ تسہیل﴾

ان دو واقعات سے حضرت سیّد صاحب(رح) کی زندگی کا ایک اور خوبصورت اور قابل تقلید پہلو ہمارے سامنے آگیا. مساجد سے محبت، مساجد کی خدمت، مساجد کی صفائی،مساجد کا احترام. اور مساجد کے لئے محنت. حضرت سیّد صاحب(رح) جہاں بھی گئے آپ(رح) نے مسجد کو آباد فرمایا. کئی جگہوں پر نئی مساجد تعمیر کروائیں. کئی گمراہ بدعتیوں نے جب توبہ کی تو آپ نے اُن کے امام باڑوں کو مساجد میں تبدیل فرما دیا. ایک غریب آدمی سے آپ(رح) نے فرمایا کہ تم. مسجد کے پانی، روشنی اور لوٹوں وغیرہ کا بندوبست اپنے ذمہ لے لو تو اﷲ تعالیٰ تمہیں رزق کی وسعت عطا فرمائے گا.اُس آدمی نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے لی مگر وہ حیران تھا کہ اُس جیسے غریب آدمی سے یہ کام کیسے ہوپائے گا؟. اُس نے اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر مسجد کی خدمت شروع کر دی تو اﷲ تعالیٰ نے اُس کی روزی اور رزق میں خوب برکت عطا فرما دی. مسجد کی تعمیر، مسجد کی آبادی اور مسجد کی خدمت یہ وہ صفات ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو دعوت دیتے ہیں. ہم سب کو چاہئے کہ مسجد کی صفائی کیا کریں. جو مسجد ہمارے زیرِ انتظام ہو وہ شیشے کی طرح صاف شفاف ہونی چاہئے. اگر مسجد کی چٹائی پھٹ گئی ہو تو ہم نئی خرید لائیں. مسجد میں جب جائیں تو ادب سے جائیں. آواز بلند نہ کریں، شور شرابا نہ کریں. اور دنیا کی باتیں نہ کریں. مسجد کی خدمت کا موضوع بہت طویل ہے آج بس اتنا ہی کافی ہے.

ہمیشہ جہاد کی تیاری
سیرت سیّد احمد شہید(رح) میں ہے:
’’یوں تو عبادت وسلوک کے ساتھ جہاد کی تیاری آپ ہمیشہ کرتے رہتے تھے ، لیکن﴿رائے بریلی کے﴾ اس قیام میں اس طرف سب سے زیادہ توجہ تھی.جہاد کی ضرورت کا احساس روز بروز بڑھتا جاتا تھا اور یہ کانٹا تھا، جو آپ کو برابر بے چین رکھتا تھا. دن رات اسی کا خیال رہتا تھا. زیادہ تر یہی مشاغل بھی رہتے﴿یعنی جہاد کی تیاری، ٹریننگ وغیرہ﴾آپ اکثر اسلحہ لگاتے تاکہ دوسروں کو اس کی اہمیت معلوم ہو اور شوق ہو.دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیتے‘‘
﴿روحانی رشتے ص ۱۶﴾

ہر مسلمان کو جہاد کی ایسی ہی فکر اور تیاری رکھنی چاہئے. یہ اسلام کا تقاضا اور ایمان کامل کی شرط ہے.

پردے کی تاکید
حضرت سیّد صاحب(رح) نے عورتوں کی اصلاح کے لئے بھی بہت کام کیا. آپ(رح)جہاں بھی تشریف لے جاتے وہاں مردوں کے ساتھ عورتوں کی بیعت بھی لیتے. اور انہیں وعظ ونصیحت فرماتے. جو عورتیں حلال مال میں سے آپ(رح) کو کوئی ہدیہ پیش کرتیں تو آپ(رح) قبول فرماتے اور دعا سے نوازتے. لیکن اگر ہدیہ کسی حرام مال سے ہوتا تو آپ(رح) وہ واپس فرما دیتے. اور بہت خیرخواہی کے ساتھ حرام کاموں سے بچنے کی تلقین فرماتے. عورتوں کی اصلاح کا یہ سارا معاملہ پردے کے پیچھے سے ہوتا تھا. سفر حج کے راستے میں ایک بار ایک بڑے رئیس نے آپ(رح) کی دعوت کی اور بیعت ہوئے. پھر وہ آپ کو عورتوں کی بیعت کے لئے گھر کے اندر لے گئے. حضرت یہ سمجھ کر اُن کے ساتھ چلے گئے کہ خواتین پردے کے پیچھے ہوں گی. مگر وہاں تو خواتین سامنے بیٹھی تھیں.حضرت فوراً باہر نکل آئے اور آپ(رح) نے اُس رئیس کو پردے کی بہت تاکید کی اور ارشاد فرمایا:

’’پردہ نہ کرنا کفار کا طریقہ ہے اور اس میں بڑے بڑے فساد اور بہت قباحتیں ہیں اور اس میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور رسول کی نافرمانی ہے‘‘﴿وقائع ص ۲۰۹ تسہیل﴾

پھر آپ(رح) صحیح پردہ کروا کے اندر تشریف لے گئے اور عورتوں سے بیعت لی. اور آپ(رح) نے سر ننگا کر کے بہت عاجزی و آہ و زاری سے اُن عورتوں کی اصلاح کی دعا فرمائی. راوی کہتے ہیں کہ دعا قبول ہوئی اور اُس علاقے کی عورتوں میں بہت حیا اور دینداری عام ہوئی.

ہم سب مسلمانوں کو پردے کا خوب اہتمام کرنا چاہئے. اور خواتین پردے کو رسم یا مجبوری سمجھ کر نہیں بلکہ شان اور عبادت سمجھ کر خوشی اور ایمانداری سے اختیار کریں.

سیّد صاحب(رح) کی بیٹی کا صدقہ
حضرت سیّد صاحب(رح) کو اﷲ تعالیٰ نے توکّل اور سخاوت کی صفت عطا فرمائی تھی. آپ(رح) نے جب سے ہوش سنبھالا کسی محتاج سائل کو حتی الامکان خالی ہاتھ واپس نہیں فرمایا. جن دنوں آپ بالاکوٹ تشریف لے جانے کے لئے قصبہ’’راج دواری‘‘ میں اپنے جانثار مجاہدین کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے. وہاں ایک دن اشراق کے بعد چارپائی پر لیٹے ہوئے اپنے رفقا کو کچھ وعظ و نصیحت فرما رہے تھے. اسی وعظ میں آپ(رح) نے ارشاد فرمایا:

’’بعض اوقات کوئی چھوٹا سا عمل اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسا مقبول ہوتا ہے کہ نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے. اور بعض اوقات کوئی بڑا عمل جس میں بہت مال خرچ ہوا قبولیت کے اس مقام تک نہیں پہنچتا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ غنی ہے اس کو تھوڑے، زیادہ کی کوئی پروا نہیں. چنانچہ ایک دن کا قصہ ہے کہ میں اپنے تکیہ کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ ایک محتاج فقیر نے سوال کیا. اس وقت میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں تھا میں اس کو ٹھہرا کر اپنے گھر گیا اور گھر کی عورتوں سے کہا کہ اس وقت کسی کے پاس کوئی پیسہ ہو یا کچھ کوڑیاں ہوں ہم کو دے، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت عطا کرے گا.سب نے جواب دیا کہ اس وقت ہمارے پاس پیسہ، کوڑی کچھ نہیں ہے۔ اُس وقت ہماری بیٹی’’سارہ‘‘ کھیل رہی تھی اُس نے سنا تو مجھ سے کہا میاں! چھدام کی کوڑیاں میرے پاس ہیں، اگر اتنی کوڑیوں کے دینے سے جنت ملتی ہے تو میں لیتی ہوں، میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس کو پروردگار جنت دیوے وہ پاوے. دیکھو تو چھوٹی سی بچی کس طرح اس بات کو سمجھ گئی ، یہ اﷲ تعالیٰ کی عنایت ہے، پھر وہ’’کوڑیاں‘‘ سارہ سے لیکر میں مسجد میں گیا اور اس سائل کو دے کر رخصت کیا﴿وقائع ،تسہیل ۰۸۱۲﴾

ہم سب مسلمانوں کو صدقہ، خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا چاہئے. اور اپنی اولاد میں بھی اس مقبول عمل کی عادت ڈالنی چاہیے.

اسلام کے پانچ اہم فرائض
رنجیت سنگھ کا ایک فوجی آفیسر فرانسیسی تھا. نام اُس کا جنرل وینٹورہ تھا. یہ جنرل دوبار حضرت سیّد صاحب(رح) کے مقابلے میں اترا مگر دونوں بار اُسے بھاگنا پڑا. یہ کافی سمجھدار اور مذاہب کا علم رکھنے والا شخص تھا. دوسری لڑائی سے پہلے اس نے حضرت سیّد صاحب(رح) سے مراسلت بھی کی اور اپنا کوئی نمائندہ بات چیت کے لئے بھیجنے کا کہا. حضرت سیّد صاحب(رح) نے اپنی جماعت کے ایک صاحب علم، فہیم، بہادر اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا خیرالدین شیر کوٹی کو’’جنرل ونیٹورہ‘‘ کے پاس بات چیت کے لئے بھیجا حضرت مولانا خیرالدین شیر کوٹی(رح) نے اس ملاقات میں حضرت سیّد صاحب(رح) اور اُمت مسلمہ کی بہترین ترجمانی فرمائی. اور جنرل ونیٹورہ کو لاجواب کردیا.جنرل ونیٹورہ نے جب مولانا سے یہ پوچھا کہ حضرت سیّد صاحب(رح) کو اپنے علاقے میں بڑی عزت حاصل تھی پھر وہ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ کیا اپنے سے بہت زیادہ طاقتور دشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے چلے آنا کوئی دانشمندی ہے؟. تو حضرت مولانا(رح) نے ارشاد فرمایا:

’’سیّد صاحب(رح) کے آنے کا سبب یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ دینِ اسلام میںپانچ احکام’’فرض‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں، جن کی ادائیگی کی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سخت تاکید ہے اور وہ نماز ، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد ہیں۔﴿جب ایمان کی بہار آئی ص ۷۶۱﴾

یہ تھا جہاد کے بارے میں حضرت سیّدصاحب(رح) اور اُن کی جماعت کا عقیدہ. اور یہی وہ عقیدہ ہے جو قرآن پاک نے. اور جناب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے. اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اسی عقیدے پر زندہ رکھے اور اسی پر شہادت نصیب فرمائے. آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علٰی سیّدنا محمد النبی الامی بقدر علمہ وکمالہ وحُسنہ وجمالہ وعلیٰ ال محمد وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210746 views A Simple Person, Nothing Special.. View More