برہنگی کے شہر میں لباس کی تلاش ہے!!!

انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو اس کے جسم پر نہ کپڑا ہوتا ہے اور نہ ہی خود اسے اپنی برہنگی کا احساس ہوتا ہے،وہ سرتاپا بالکل برہنہ ہوتا ہے، مگر جوں جوں وہ بڑا ہوتارہتا ہے اور اس کے احساسات وجذبات جوان ہوتے رہتے ہیں، تو وہ اپنے اعضاوجوارح کو طرح طرح کے لباس میں چھپانے لگتاہے، کہ کہیں کسی غیر کی اس کے جسم پر نظر نہ پڑ جائے،نیزلباس شطرپوشی کے ساتھ جسم کو زیبائش بھی عطاکرتا ہے، جب تک بچہ چھوٹا ہوتا ہے، ماں اس کو کپڑے اور گدڑیئے میں چھپائے رکھتی ہے اور جب کسی کو اس کو بہلانے کے لیے دیتی ہے، تو اسے خوب بنا سنوار کر اچھے کپڑے پہنا کر گال پر کاجل لگادیتی ہے کہ کسی کی اس کو نظر نہ لگ جائے، صبح وشام اس کے کپڑے کا خیال رکھتی ہے، جب کپڑا گیلا ہوجاتا ہے، تو اس کو بدل دیتی ہے اور دوسرا کپڑا زیب تن کراتی ہے۔ اور جب گھر میں کوئی مہمان آتا ہے، تو اس وقت اس کی شطر پوشی کے ساتھ دیدہ زیب لباس کا اور زیادہ اہتمام کرتی ہے،والدین لڑکیوں کے سلسلہ میں کچھ اور ہی زیادہ احتیاط برتتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برہنگی گو انسان کی خلقت ہے ، مگر لباس سے اس کی تہذیب و ثقافت کاپتہ چلتا ہے اورفی الحقیقت معاشرے میں جس کا لباس جتنا پردہ دار ہوتا ہے اس کواسی قدر مہذب اور شائستہ تصور کیا جاتا ہے، برہنگی انسانی شرست کا نہ تو کل حصہ تھی اور نہ آج ہے، چنانچہ اس سرزمین کا پہلا انسان جسے ہم آدم وحوا سے تعبیر کرتے ہیں، جب انہیں اس دنیا میں برہنہ ڈال دیا گیا،تو وہ درختوں کے پتوں سے اپنے اپنے شطروں کو چھپانے لگے، حالانکہ وہ دونوں آپس میں شوہرو بیوی تھے اور پھر وہاں ان کے علاوہ کوئی تیسرا انسان بھی نہیں تھا، مگر ان لوگوں نے ایک دوسرے کے کھلے ہوئے بدن کو دیکھنا مکروہ تصور کیا؛اس لیے کہ انسان صرف ایک حد تک ہی ننگا پن کو برداشت کرسکتا ہے اوروہ ہے صغر سنی، مگر جب اس کے احساسات شباب کو پہنچ چکے ہوں، تو وہ کبھی یہ گوارہ نہیں کرتا کہ کوئی دوسرا اس کا جسم دیکھے، خواہ کوئی کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلہ میں کوئی کوئی بچہ تو اتنا باشعور ہوتا ہے کہ غسل کے وقت ماں جب زیرِ جامہ اتارنے کو کہتی ہے، تو رونے لگتا ہے ، خودآپﷺ کی سیرت طیبہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ بنائے خانہ کعبہ کے وقت جب کہ جب آپ کی عمر شریف بہت کم تھی، خواجہ ابو طالب کے ساتھ آپ بھی ان کے شریکِ کار تھے، ممکن ہے کہ آپ کا کپڑا شاید کام کرنے میں دشواری پیدا کررہا ہو، انہوں نے آپ کاتہ بند کھول دیا، اس کاکھلنا تھا کہ آپ ﷺبے ہوش ہوگئے۔یہ تو اس طفلِ مہ جبیں کی بات تھی جس کی حیاء وپاک دامنی پرخدا کو بھی ناز تھا، لیکن آج بھی معاشرے میں کئی ایک بچے ایسے ہوتے ہیں، جو بر ہنگی کو ناپسند کرتے ہیں،بہرکیف انسان ہرچندکہ برہنہ پیدا ہوتا ہے، مگر وہ لباس اور شطر پوشی کو اپنی تہذیب وثقافت کا جزوے لاینفک تصور کرتاہے اور اس کو مہذب ترین سمجھتا ہے جس کا لباس زیادہ باپردہ ہو ، در حقیقت پردہ انسانی تہذیب وثقافت کی معراج ہے ۔

یہ اس وقت کی بات تھی جب انسان اپنی آفرینش کی تاریخ سے قریب تر تھااورجب وہ اپنی تاریخ سے دور ہوتا گیا، ماضی کا مستقبل سے کوئی رشتہ نہیں رہا، بلکہ ماضی مستقبل کو منور کرنے سے قاصر ہوگیا ، توترقی پسند لوگوں نے اس دوری اور زمانے کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا اوراپنی جدت کو ترقی ، بے حیائی اور برہنگی کو روشن خیالی اور آزاد خیالی کا نام دیا۔ فکری رجحان میں بھی تبدیلی آگئی اوراب اس معاشرے میں جو جتنا زیادہ برہنہ ہوا، وہ اتنا ہی زیادہ مہذب اور شائستہ کہلانے لگا،یہاں تک کہ اب برہنگی کو اعلیٰ تہذیب تصور کیا جاتا ہے اورپہلے جن چیزوں کو معاشرہ مخالف اور غیر فطری سمجھا جاتا تھا، آج اس میں ترقی کا راز بتایا جاتا ہے، آپ دنیا کی جس آفس اور کمپنی میں چلے جائیں ہر جگہ آپ کوتقریباً ایسے ہی خیالات کے حامل لوگ ملیں گے،مگر یہ بات میرے گلے سے نہیں اترتی کہ مرد حضرات خود تو کوٹ پینٹ اور ٹائی میں ملبوس نظرآتے ہیں ،مگر خاتون اسکاٹ اور برہنگی کے لباس میں نظرآتی ہیں، کبھی کبھی تو ان کا جسم اس قدر برہنہ ہوتا ہے کہ اے سی کی ٹھنڈک سے وہ یخ بستہ ہوجاتی ہیں اورمکان کے کسی کونے میں گرمی کی تلاش میں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں ،اس پر بھی انہیں احساس نہیں ہوتا ،کل ہوکر پھر اسی لباس میں اپنے جسم وحسن کا جلوہ بکھیرنے آجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ یہ واقعہ سننے کو ملا کہ دیہات کا ایک شخص شہر میںآیا ، تو وہاں اس نے لڑکیوں کو جگہ جگہ نیم برہنہ پایا، اس نے اپنے گھر والوں کو خط لکھا کہ یہاں تو اور زیادہ غربت ہے، یہاں کی عورتوں کے پاس پہننے کو ٹھیک سے کپڑے بھی نہیں ہیں کہ وہ اپنے پورے بدن کو چھپا سکیں، اس لیے گاؤں سے عورتوں کے پرانے کپڑے وغیرہ یہاں بھیج دیں، تاکہ ان کی شطر پوشی کرسکوں۔

ظاہر ہے آج کے روشن خیال لوگ اسے بیوقوف اور دیوانہ ہی سمجھیں گے، لیکن حقیقت وہی تھی جو اس کے دل نے کہا؛ اس لیے کہ انسان جب تک کسی غیر فطری عمل کا عادی نہ ہو، اسے ہر وہ چیز جو فطرت کے خلاف ہو بری لگتی ہے اور وہ اسے بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسا کہ اس واقعہ سے معلوم ہوا۔ بہر کیف آج جس طرف نگاہ دوڑائیں،خواہ وہ اسکول ہو، کالج ہو، یونیورسٹی ہو، یا پھر کوئی کمپنی یا کل خارنے، ہر جگہ برہنگی اور بے پردگی کا بازار گرم نظر آئے گا، اسی پر بس نہیں، پارک ،گارڈن اور ساحلی علاقے پر آپ کو ایسے جوڑے بھی مل جائیں گے ،جوکل کی شرافت کی چادر کو اتار کر آج کے روشن خیال بن چکے ہوں گے۔ یہ کوئی ایک شہر ، ایک صوبہ اور کسی ایک ملک کی بات نہیں ہے، بلکہ ساری دنیامیں بے شمار لوگ اس حمام میں ننگے نظر آئیں گے، بیٹی کو نہ باپ کی غیرت کی پرواہے اور نہ باپ بھائی کو بہن بیٹی کی عزت کا خیال ،ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں محو ومگن ہے،نہ کوئی سمجھانے والا ہے اور نہ کوئی سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا، انسانیت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ دم توڑ چکی ہے ، تہذیب وثقافت کے بھی دم گھٹنے لگے ہیں،ہر کوئی شاہ راہِ عام ،خلوت وجلوت میں اپنے لباس کا سودا کرتا نظرآرہا ہے، پہلے جو شرفا تصور کیے جاتے تھے آج ان کی بہو بیٹیاں بھی ننگی ہوتی جارہی ہیں،باپ خود بیٹی کے ساتھ اور ماں اپنے بیٹے کے ساتھ محفلوں میں فحش گانوں پر ناچتے ہیں،جام سے جام لڑاتے ہیں اور پھر جی بھر کر عیش موج کرتے ہیں اور اسی کوآج کے روشن خیال لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں، طرفہ کی بات تو یہ ہے کہ جو جتنا پڑھ لے رہا ہے،وہ اتنا ہی زیادہ آزاد خیال ہوتا جارہا ہے اور بعض لوگ ان کی اتباع میں اس قدرحد سے تجاوز کرجاتے ہیں کہ وہ دینی ، معاشرتی واخلاقی اور فطری امور میں بھی اپنے آپ کو سیکولر سمجھتے ہیں اور پھر برسرِ عام یہ کہتے ہیں کہ بھائی میں تو سیکولر ہوں، بالفاظِ دیگر وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم پر دینی ، فطری اور اخلاقی کسی بھی قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔خود ہمارے ملک میں بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ وہاں سے گذرنا مشکل ہوجاتا ہے ، جس کے اندر کچھ بھی غیرت باقی رہتی ہے، تو وہ اس علاقے میں ہی جانا چھوڑدیتا ہے، مگر وہ جہاں بھی جاتا ہے ہر طرف اس کو وہی نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے ، اللہ رحم کرے اگر کسی کے گھر کے سامنے مسجد ہے، تووہاں بھی بعض لوگ ایسے آباد ہوجاتے ہیں اور روشن خیالی میں اس قدر تجاوزکرجاتے ہیں کہ انہیں اس کا بھی خیال نہیں رہتا کہ ان کے گھر کے سامنے اسلامی شعار بھی ہے ، وہاں پر بھی اپنی برہنگی کے اظہار سے چکتے نہیں۔در حقیقت آج کے معاشرہ میں پردہ کو برا خیال کیا جاتا ہے، بعض ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اس وجہ سے استعفی دے دیتی ہیں کہ اس کمپنی یا ادارے میں پردہ ناگزیر ہوتا ہے، یا سرے سے ایسے ادارے ہی کا رخ نہیں کرتیں، بلکہ حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ آج کے معاشرے میں پردہ کا تصور کرنا نمک کے کان میں میٹھاس کی تلاش کے مترادف ہوگیا ہے.......

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66070 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.