آج معاشرے کی پہلی ضرورت ’’امن‘‘ ہے۔ امن ہی کی
بدولت معاشرہ ترقی کرتا ہے اور معاشرے میں سدھا ر پیدا ہوتا ہے، جبکہ معاشی
ترقی بھی امن ہی کی مرہون منت ہے۔ پرامن معاشرے کا قیام ریاست اولین ذمہ
داری ہوتی ہے ۔ اگر ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری سے غفلت و لاپرواہی برتیں
تو پائیدار معاشرہ ہرگز قائم نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ پاکستان کی بہادر افواج
ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے برسر پیکار ہے، لیکن دہشت گردی کے
ساتھ ساتھ ملک سے بدامنی ، لاقانونیت، کرپشن کے خاتمے کی بھی ضرورت ہے ،
کیونکہ ان کے سبب ہی دیگر جرائم جنم لیتے ہیں۔ آج عوام پاکستان کرپشن ،
اقرباء پروری کی وجہ سے بے یقینی اور افراتفری کا شکارنظر آتے ہیں۔ اس
صورتحال نے عوام و خواص سب کا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ سب سے پریشان کن
بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل دہشت گردی، لاقانونیت ، کرپشن، اقربا پروری کے
اس ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے، اور خوف و دہشت کے سائے میں پلنے والی نسل
پیچیدہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجایا کرتی ہیں۔ اس خوفزدہ نسل میں
انتہاپسندی، جذباتیت، عدم برداشت اور بے حوصلگی اس طرح گھر کرجاتی ہے کہ
پھر نکالے نہیں نکلتی۔ منفی خیالات اور انتقامی رویے انفرادی زندگی سے لے
کر اجتماعی زندی تک سب پر اثر انداز ہو تے ہیں۔ منفی رویے تخریب کو جنم
دیتے ہیں جب کہ مثبت رویے تخلیق کو جنم دیتے ہیں۔ تخریب تباہی ہے، جبکہ
تخلیق تعمیر اور ترقی ہے۔ جاپان نے امریکہ سے جنگ کے بعد جب نئے سرے سے
اپنی تعمیر کا کام شروع کیا تو سب سے پہلے اس نے اپنے لوگوں کو منفی طرز
فکر سے آزاد کیا، اس نے نفرت اور انتقام سے اوپر آ کر امریکیوں کے ساتھ
مفاہمت کا رویہ اختیار کیا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ جاپان نے اپنی طاقت کو
غیر ضروری منفی کارروائیوں میں صرف کرنے کی بجائے اس قوت کو اپنی تعمیر اور
ترقی میں لگا دیا۔ تخریب کے بعد ایک دوسرا چانس ایک دوسرا آپشن ضرور موجود
ہوتا ہے وہ تعمیر نوآپشن ہے جو کسی بھی صورت میں موجود رہتا ہے۔ تعمیری سوچ
منفی سوچ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتی ہے جسے جاپان نے ثابت کر دکھایا۔
اس نے نہ صرف اپنے لوگوں کو منفی رویوں سے پاک کیا بلکہ مثبت اور تعمیری
طرز فکر اوربلند معیار کو ان کی زندگیوں کا حصہ بنا دیا۔ جاپان کی ترقی
احتجاج الزامات اور دعووں کی سیاست کے ذریعے نہیں بلکہ قوم کا شعور بیدار
کر کے حاصل کی گئی ہے۔ جاپان نے ترقی اور تعمیر نو کا سفر پاکستان کے بعد
شروع کیا تھا لیکن آج جاپان پاکستان سے سو سال آگے کھڑا ہے۔ اس کی وجہ
ہمارے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کے منفی اور انتقامی رویے ہیں۔ جس نے
پاکستانی قوم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے عدم برداشت کے رویے کو فروغ
دیا ہے۔ انہی رویوں کی وجہ سے قوم میں مایوسی اور انتشار پیدا ہو رہا ہے۔
آج تبدیلی ، روشن پاکستان اور انقلاب کے نعرے تو لگائے جاتے ہیں لیکن کسی
کو بھی اپنی سمت کا تعین نہیں ہے۔ ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس کی تیاری کی
جاتی ہے اس کے لئے زمین کو تیار کیا جاتا ہے۔ قومی زندگی میں انقلاب بپا
کرنے لئے ضروری ہے کہ مختلف اجتماعی عوامل بھی اس کے مطابق ہوں۔ بد قسمتی
سے پاکستانی قوم کے سفر کی کوئی سمت متعین نہیں ہو سکی بلکہ مفاد پرست
حکمرانوں اور راہنماؤں نے اسے کبھی ایک قوم بننے ہی نہیں دیا، ہر حکمران
جماعت کو اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں ۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے عطاء کردہ
منفی روئیے ہمارے اندر سرایت کر چکے ہیں۔ ہمارے ہاں تربیت کا بھی فقدان ہے
کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں قوم کی تربیت کا اہم فریضہ ہے وہ خود منفی
رویوں کا شکار ہیں ۔ قوم میں عدم برداشت ، مایوسی اور انتشار بڑھتا ہی
جارہا ہے۔ ترقی کرنے والی تمام قوموں کا ایک ہی طرز عمل رہا ہے انہوں نے
ایک قوم بن کر یک جہتی کے ساتھ منزل مقصود کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ہے۔
ہمارے ہاں ہر سیاسی راہنما، ہر سیاسی جماعت اور ہر صوبے کی حکومت کی اپنی
ایک الگ منزل ہے۔ملک کے سیاسی رہنماؤں نے پاکستانی عوام کو نہ کوئی مشترکہ
منزل دی ہے، اور نہ ہی کسی منزل تک پہنچنے کے لئے اجتماعی جدوجہد کا شعور
دیا ہے۔ انہوں نے عوام کے اندر تبدیلی اور ترقی کی تڑپ کو صرف اپنے مفادات
کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بھی صرف اپنے
ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اس کے لئے ہر جائز اور
ناجائز طریقہ استعمال کرنا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ کیونکہ ملک میں برسر
اقتدار قیادتیں بھی ایسا ہی کر رہی ہیں۔ حضور نبی اکرم محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’ لوگ اپنے حکمرانوں کا طرز عمل اپناتے ہیں‘‘۔ یہی
وجہ ہے کہ کرپشن، بدعنوانی، بددیانتی اور خیانت ایوانوں سے نکل کر ہر دفتر
اور گلی محلے تک پھیل چکی ہے۔ جائز کاموں کے حصول کے لئے بھی مثبت راستوں
کو بند کر دیا گیا ہے۔ بلند معیار زندگی کسی بھی طرح ہماری قوم کی ترجیحات
میں شامل نہیں رہا۔ بے راہ قوم بے راہ روی کا ہی شکار ہوا کرتی ہے ۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی رہنماء اور سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کی
بجائے ملکی مفادات کو اہمیت دیں ۔ اور ملک کو دہشت گردی، لاقانونیت، کرپشن
، بدعنوانی سے پاک کرکے قوم کو ایک روشن منزل دیں، تاکہ معاشرے سے انتشار
کا خاتمہ ہو اور عوام پاکستان سکون کا سانس لے سکیں۔
٭……٭……٭ |