بھٹہ جات اور چائلڈ لیبر

الحمرا ہال میں وزارتِ محنت، پولیس اور انتظامیہ کے افسران اکٹھے ہوئے، سر جوڑ کر بیٹھے، مسئلے پر غور وفکر کیا اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ معاملہ زیر بحث یہ تھا کہ بھٹہ جات پر چودہ سال سے کم عمر بچوں سے کام نہ لیا جائے۔ اس کے لئے پولیس انتظامیہ نے بھٹہ جات کے مالکان کو سات روز کی مہلت دی، کہا گیا کہ اگر سات روز کے بعد چودہ سال سے کم عمر کا کوئی بچہ بھٹہ پر کام کرتا پایا گیا تو بھٹہ مالک یا ٹھیکیدار کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہوگی۔ اس سیمینار میں مندرجہ بالا محکمہ جات کے افسران کے علاوہ بھٹہ مالکان بھی موجود تھے۔ خبر سے یہی تاثر ملتا ہے کہ جس صاحب نے بھی گفتگو کی اس میں بھٹہ مالکان کے بارے میں سخت الفاظ ہی استعمال کئے گئے، اور مسلسل دھمکی آمیز انداز اپنایا گیا۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہم سب لوگوں کا یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے واضح احکامات آپ لوگوں تک پہنچا دیئے جائیں۔ بھٹہ مالکان کے لئے یہ بھی حکم ہے کہ وہ والدین کو مجبور کریں کہ بھٹہ مزدوروں کے بچے کام کرنے کی بجائے سکول جائیں۔ بھٹہ پر چائلڈ لیبر کو قانوی جرم اور گناہ قرار دیا گیا۔لاہور بھٹہ یونین کے صدر نے بھی خطاب کیا ، حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا، اور بھٹہ مزدوروں کو مجبور کردینے کی بھی یقین دہانی کرائی کہ ان کے بچوں کو سکولوں میں داخل کروایا جائے گا۔تقریب میں انتظامیہ نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلہ میں ہر ہفتے جائزہ میٹنگ ہوا کرے گی، جس میں فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ خبر چونکہ صرف لاہور کی ہے، ہوتا بھی یہی ہے کہ بات لاہور سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد جلد یا بدیر قرب وجوار اور بالآخر دوردراز تک پہنچ جاتی ہے۔ یوں کہیے کہ پہلے لاہور میں اس حکم پر عمل کرکے دوسروں کے لئے ماڈل قائم کردیا جائے گا۔ یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ چائلڈ لیبر کو صرف بھٹہ جات کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لعنت ، یا جرم، یا گناہ تو گلی گلی میں ہورہا ہے، کوئی بیکری ہے تو اس کے کچن میں چائلڈ لیبر سے کام لیا جاتا ہے، کوئی ورکشاپ ہے تو وہاں دسیوں لڑکے کام سیکھ رہے ہیں، کوئی حجام ہے تو اس کی دوکان میں بھی لڑکے کھڑے ہیں، اسی طرح جس شعبے پر بھی نگاہ ڈالیں، اس میں بچے کام سیکھ رہے ہیں۔ بہت سے کام میں تو محض مزدوری ہی ہوتی ہے، وہ جتنا کام بھی کرلے وہ اس کا چند روپوں کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ البتہ جو بچے کسی کاریگر کے پاس کوئی کام سیکھتے ہیں، ان کا معاملہ ذرا مختلف ہے، تاہم ایسے مقامات پر بھی لڑکوں کو ’’ہنر مند‘‘ بننے تک سالہاسال ’’چھوٹا‘‘ بن کر رہنا پڑتا ہے، ’استاد‘ کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کی طرف سے مغلظات اور مار پٹائی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ’چھوٹے‘ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور یہ معمول جاری ہے۔ ممکن ہے ان لڑکوں یا بچوں کی تعداد میں کچھ معمولی کمی آئی ہو، مگر واضح تبدیلی قطعاً نہیں آئی۔

حکومت کے دعووں اور منصوبوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چائلڈ لیبر اول تو ختم ہوچکی ہے، یا ایک آدھ برس میں اس کا وجود حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اقدامات میں کاروائیاں زیادہ ہوتی ہیں، عمل کی نوبت کم آتی ہے۔ حکومت نے سکولوں میں داخلے بڑھانے کے بہت زیادہ اہداف مقرر کر رکھے ہیں، مگر انہیں بھی بوگس طریقے سے ہی پورا کیا جاتا ہے، کاغذی کاروائی مکمل کرلی جاتی ہے، جس کا زمینی حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ کاغذات میں پانچ سے سولہ سال کے لاکھوں آؤٹ آف سکول بچے داخل کرلئے جاتے ہیں، مگر نہ تو سکولوں میں بچوں کی حاضری میں اضافہ ہوتا ہے، اور نہ ہی چائلڈ لیبر میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اگر لاہور انتظامیہ نے بھٹہ جات پر چائلڈ لیبر کے خاتمے کا تہیہ کرلیا ہے تو یہ اقدام بھی سراہے جانے کے لائق ہے، مگر ضرورت کاروائیوں کی بجائے عمل کی ہے۔ دوسری طرف بھٹہ جات پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کے لئے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے اپنی سکیم ’’نیو سکول پروگرام‘‘کا اعلان کیا ہے، آغاز میں جنوبی پنجاب کے تین اضلاع ملتان، لودھراں اور مظفرگڑھ شامل ہیں، ان سکولوں میں بھٹہ مزدوروں کے بچے اور دیگر غریب اور مستحق بچے تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ اس منصوبے کو اصلی اور عملی قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں باتیں نہیں کام ہوگا۔ اسی سکیم کو شہروں کے مضافات میں نہایت ہی غریب آبادیوں اور دوردراز کے علاقوں میں جاری کر کے چائلڈ لیبر کا خاتمہ اور شرح خواندگی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434421 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.