سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت خالد بن
ولید رضی اﷲ عنہ کی زیر کمان مسلمانوں کالشکرمختلف ممالک میں فتوحات اسلامی
کے ڈنکے بجارہاتھااور اﷲ تعالیٰ کی فتح ونصرت کے پرچم اڑارہاتھا۔اسی سلسلہ
میں شہرحیرہ کے باغی وطاغی کافروں کی شرارت وعہدشکنی کی خبرپاکرحضرت خالد
بن ولید رضی اﷲ عنہ نے حیرہ کارخ کیا۔بہادران اسلام کی آمدکی خبرسنتے ہی
اہل حیرہ اپنے قلعوں میں گھس کرقلعہ میں بندہوگئے۔حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ
عنہ نے سب قلعوں کوگھیرے رکھااور لڑائی اس لئے نہ چھیڑی کہ شاید یہ لوگ راہِ
راست پرآجائیں۔لیکن جب ان کی طرف سے کوئی ایسی تحریک نہیں دیکھی توحضرت
خالد رضی اﷲ عنہ نے حملہ کرکے شہرکی آبادی اور اس کے اندرکے دیروں اور
کنیسوں پر قبضہ کرلیا۔قبضہ کرلینے کے بعدعمروعبدالمسیح جوکہ نہایت
بوڑھاپیرفانی تھااپنے قلعہ سے نکل آیا۔مسلمانوں نے اسے حضرت خالد رضی اﷲ
عنہ سامنے پیش کیا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے عمروبن عبدالمسیح کی طرف توجہ
فرمائی اور دریافت کیا،تمہاری عمرکتنی ہے؟عمرونے کہا’’سیکڑوں برس‘‘۔بوڑھے
کے ہمراہی خادم کے پاس ایک زہرکی پڑیانکلی۔اس پر حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے
پوچھااسے ساتھ کیوں لائے ہو؟اس نے کہاـ:اس خیال سے کہ اگرتم نے میری قوم کے
ساتھ اچھاسلوک نہ کیاتومیں اسے کھاکرمرجاؤں اور اپنی قوم کی ذلت وتباہی نہ
دیکھوں۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے اس پڑیاسے زہرنکال کراپنی ہتھیلی پررکھااور
اس سے کہا’’بے موت کوئی نہیں مرتا‘‘اگرموت کاوقت نہ آیاہوتوزہربھی اپناکچھ
اثرنہیں کرسکتا۔یہ کہہ کرحضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے ’’بِسْمِ اللّہِ
خَیْرِالاَسْمَاءِ رَبِّ الاَرْضِ وَالسَّمَآءِ الَّذِیْ لاَ یُضُرُّ مَعَ
اِسْمِہٖ دَاءٌ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘۔یہ کلمات اداکرکے وہ زہرپھانک
لیا۔اس بوڑھے کافر نے یہ اعتقاد اور خداپر اعتمادکامنظردیکھاتوششدر رہ
گیااور وہ تمام لوگ بھی حیران رہ گئے جوقلعوں سے نکل آئے تھے۔اور عمروبن
عبدالمسیح کی زبان سے تویہ کلمہ بے اختیار نکل گیاکہ’’جب تک تمہاری شان
کاایک شخص بھی تم میں موجودہے تم اپنے مقصد میں ناکام نہیں رہ سکتے‘‘۔(تاریخ
اسلام،ج۲،ص؍ ۳۷۶،سچی حکایات،حصہ دوم،ص۱۹۷)
سلطنتِ روم سے مدبھیڑ
اس زمانے میں دنیاکی سب سے بڑی دوحکومتیں تھیں روم اور فارس۔پہلے روم کی
حکومت تمام یورپ،مصراورایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کامرکزاٹلی
کاشہرروم تھا۔بعد میں اس حکومت کے دوٹکڑے ہوگئے۔مغربی حصے کادارالحکومت
توروم ہی رہالیکن مشرقی حصے کادارالحکومت قسطنطنیہ ہوگیا۔مشرقی روم
کاشہنشاہ بھی قیصرروم کہلاتاتھااور اس کانام ہرقل تھا۔ہرقل کی حکومت میں
مصر، حبشہ، فلسطین ، شام ، ایشیائے کوچک اور بلقان کے ممالک تھے۔ہرقل کی
حکومت مذہباًعیسائی تھی۔سلطنت روم میں شام ایک خوبصورت علاقہ ہے۔اس کی سرحد
جنوب میں عرب کے ساتھ ملتی تھیں۔حلب،حمص اور دمشق شام کے ممتاز اوربڑے
شہرتھے۔شام کے مغرب میں انطاکیہ،بیروت،صور،عکّہ،جافہ،بحیرہ اور روم کے ساحل
پر بندرگاہیں تھیں۔خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے شام میں
جہاد کرنے کے لیے سات سات ہزار کے چارلشکربنائے ۔حضرت عمر وبن عاص
کوفلسطین،حضرت یزید بن ابوسفیان کودمشق،حضرت شرجیل بن حسنہ کواردن اور حضرت
ابوعبیدہ بن الجراح کوحمص کے محاذ پرمقررفرمایاگویاکہ چار سالاراور چاروں
کے محاذمختلف۔خودہرقل قسطنطنیہ سے مسلمانوں سے آٹھ گنازیادہ لشکرلے کرشام
آیاتو امیرالمومنین نے فرمایا:’’واﷲ!میں خالد بن ولیدکے ذریعے رومیوں اور
شیطان کے ساتھیوں کونیست و نابودکروں گا‘‘۔(طبری،بحوالہ:حضرت خالدرضی اﷲ
عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۲۶)چنانچہ امیرالمومنین نے آپ کوخط لکھ کرمطلع
فرمایاکہ شام پہنچ کراسلامی فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے خدمات انجام دو۔
چنانچہ آپ انتہائی دشوار گزارراستوں سے انتہائی قلیل مدت میں ملک شام
پہنچے۔آپ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے بصریٰ،اجنادین،دمشق اور دیگرعلاقوں
کوفتح کیا۔یہ تمام فتوحات ۱۳؍ھ بمطابق ۶۳۴ء میں واقع ہوئیں۔(مرجع سابق،ص؍۲۶)
غیرمسلموں سے فیاضانہ سلوک
اپنی غیر مسلم رعایاسے جس فیاضانہ سلوک کااسلام نے حکم دیاہے اور اسلامی
فوجوں کودشمنوں کے ملک میں داخل ہوکرجس ضابطۂ اخلاق کاپابند اسلام نے
بنایاہے،اس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصرہے اور انشاء اﷲ ابدالآباد
قاصرہی رہے گی۔سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے دورِخلافت میں جب شام میں فوج
کشی کاحکم ہواتوحضرت خالد ،یزیدبن ابی سفیان ،ابوعبیدہ بن جراح اور عمروعاص
رضی اﷲ عنہماکوعلیحدہ علیحدہ دستوں کاسپہ سالار اور سب کے اوپرابوعبیدہ رضی
اﷲ عنہ کوامیرلشکر بناکرروانہ فرمایاگیا۔جب فوجیں روانہ ہوئیں تو حضرت
ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے فوج کے افسروں کوہدایت فرمائی:’’تم ایک ایسی قوم
کو پاؤگے جنہوں نے اپنے آپ کوخداکی عبادت کے لئے وقف کردیاہے،انہیں مت
جھڑکنا،میں تمھیں دس وصیتیں کرتاہوں(۱)کسی عورت،بچے اور بوڑھے کوقتل نہ
کرنا(۲)پھل داردرخت کومت کاٹنا(۳)کسی آبادی کوویران نہ کرنا(۴)کھانے کی
ضرورت کے سوابکری اور اونٹ کوبیکار ذبح مت کرنا(۵)نخلستان نہ جلانا(۶)مالِ
غنیمت میں غبن نہ کرنا(۷) بزدلی مت دکھانا‘‘۔حیرہ نامی مقام کے عیسائیوں نے
جب اطاعت قبول کی توعہدصدیقی میں جومعاہدہ اہل اسلام اور ان عیسائیوں کے
درمیان ہواتھااس میں یہ الفاظ بھی تھے۔(۸)ان کی خانقاہیں اور گرجے نہیں
ڈھائے جائیں گے اور نہ کوئی ان کاایسا محل گرایاجائے گاجس میں بوقت ضرورت
دشمنوں کے مقابلے کے لئے قلعہ بند ہوتے ہوں(۹)انہیں ناقوس بجانے کی ممانعت
نہ ہوگی اور(۱۰) نہ وہ اپنے مذہبی تہواروں میں صلیب نکالنے پرروکے جائیں
گے‘‘۔(نورانی حکایات،ص؍۶۳) |