سرکل بکوٹ ---- 2015 میں کیا کھویا کیا پایا؟

سال2015ء کا آغاز کے پی کے میں مفاہمتی سیاست سے ہوا تھا اور صوبے کے نئے گورنر سردار مہتاب احمد خان نے خود ایئر پورٹ پر جا کر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا استقبال کیا اور انہیں صوبے کی مجموعی صورتحال سے آگاہ کیا،اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں 30 مئی کو بلدیاتی انتخابات کا بھی اعلان کر دیا گیا جس کے نتیجے میں مسلم نون کے مقابلہ میں سرکل بکوٹ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں ایکا ہو گیا تا ہم یہ اتحاد زیادہ عرصہ تو نہ چل سکا مگر اس کے یونین کونسل بکوٹ کے انتخابی نتائج پر اثرات ضرور مرتب ہوئے، ان انتخابات کو لوکل سطح پر عوام کی دہلیز تک لانے کیلئے سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں کو مزید ذیلی ویلیج کونسلوں میں تقسیم کر دیا گیا، اس طرح پہلی بار الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ سرکل بکوٹ کی مجموعی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے، اس سے سرکل بکوٹ کے عوام کے اس دیرینہ مطالبہ کو بھی تقویت ملی کہ تحصیل سرکل بکوٹ کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور اس کی آبادی کے پی کے اور بلوچستان کی کئی ایک تحصیلوں سے زیادہ ہے، اسی سال فروری میں وفاقی حکومت نے ایم این اے صاحبان کو دو دو کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی جاری کئے مگر جون تک ان کے عدم استعمال کی وجہ سے وہ خزانے میں واپس چلے گئے،ٍ مارچ میں بلدیاتی امیدوارون نے اپنی اہنی برادریوں سے رابطے شروع کر دئے اور پارٹی الیکشن کے باوجود برادری ازم بھی بھی ڈٹ کر میدان میں آگیا،بیرسٹر جاوید کی سینٹ میں کامیابی پر سال کی پہلی سہہ ماہی کے اواخر تک مبارکبادوں اور سانحہ پشاور پر مذمتوں کا کا سلسلہ جاری رہا، اپریل میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور بعد میں زلزلہ سے یوسی بیروٹ کی ویلیج کونسل باسیاں میں لینڈ سلائیڈ ہوئی جس میں ڈیڑھ سو خاندان بے گھر ہو گئے تاہم صوبائی حکومت کی ہدایت پر ڈسٹرکٹ انتظامیہ نے ایم پی اے سردار فرید خان کے توسط سے دوسرے روز ہی امدادی سامان کا ایک ٹرک بھجوایا اور نقد امداد بھی دی اس کی دیکھا دیکھی ایک ہفتہ بعد ایم این اے ڈاکٹر اظہر بھی متاثرین کی داد رسی کیلئے آئے ضرور مگر ان کی امداد صرف بیانات تک محدود رہی اور انہیں ایم این اے کے فنڈز سے ابھی تک متاثرین کو ایک پائی بھی نہیں مل سکی ہے، اس موقع پر جماعت اسلامی بیروٹ کے عہدیدار ساجد قریش نے بھی متاثرین کو اراضی عطیہ کرنے کا اعلان کیا، بعد میں سروے کے باوجود ابھی تک زلزلہ متاثرین بھی امداد سے محروم ہیں، سردار ادریس خان نے بلدیاتی انتخابات میں جوڑ توڑ کے سلسلے میں گلیات کے کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں شروع کر دیں اس سے سرکل لورہ میں مسلم لیگ نوں کافی پریشان نظر آنے لگی تاہم وہاں کی مسلم لیگی قیادت نے معاملات کو سھنبال لیا ،اپرہل میں ہی گورنر سردار مہتاب احمد خان نے ایک ہفتہ کی چھٹی لی اور نجی مصروفیات کے ضمن میںوہ نتھیا گلی آ گئے اور اور اپنے پارٹی ورکروں سے بھی ملاقات کی اس دوران ایبٹ آباد میں مسلم لیگ کا کنونشن ہوا جس میں بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کی حکمت عملی طے کی گئی مگر اس موقع پر اپوزیشن بھی جاگ رہی تھی اور اس نے بھی بھی طے کیا کہ سرکل بکوٹ میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا سیاسی اتحاد، بیروٹ کا حاجی اعظم گروپ، نمبل کا گلزار عباسی گروپ اور ملکوٹ کا رزاق عباسی گروپ بلدیاتی انتخابات کو ایزی نہیں لے گا بلکہ وہ اس معرکہ میں نون لیگ کو ٹف ٹائم دیگا، اس صورتحال میں نون لیگ نے سرکل بکوٹ میں کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا گیا جنہیں امیدوارون کو ٹکٹ دینے کے معاملات میں کلی اختیارات دئے گئے مگر اس الیکشن میں نون لیگی ایم پی اے سردار فرید خان غیر اعلانیہ الیکشن مہم میں ہر جگہ نظر آئے جبکہ ایم این اے ڈاکٹر اظہر جدون اس اہم موقع پر کارکنوں کی رہنمائی اور دستگیری کے بجائے لندن کی مست خرام ہوائوں اور نظاروں کو انجوائے کر رہے تھے، بیروٹ میں نون لیگ میں اس وقت دراڑیں پڑتی نظر آئیں جب ضلع کیلئے خالد عباس اور تحصیل کیلئے قاضی سجاول کے نام فائنل کئے گئے جس کی وجہ سے تیس سال سے نون لیگ کے کارکن رضا فرمان عباسی نے عام آدمی اتحاد کے نام سے علیحدہ گروپ تشکیل دیکر ضلعی امیدوار کا اعلان کر دیا جبکہ نو ماہ قبل قاف لیگ کو چھوڑ کر نون لیگ میں شامل ہونے والے سابق جنرل کونسلر حاجی عتیق عباسی نے آزاد حیثیت سے تحصیل کونسلر کے امیدوار کے طور پر انتخابابی معرکہ سر کرنے کا تہیہ کر لیا مگر ان کی یہ امیدواری ان کی اپنی برادری کے تحریک انصاف کے ضلعی امیدوار اور حاجی اعظم خان کے سب سے چھوٹے صاحبزادے رفاق عباسی کی ناکامی کا سبب بن گئی، بعد میں نون لیگ بیروٹ نے ان باغیوں کو بنیادی رکنیت سے بھی خارج کر دیا، انتخابات سے قبل مبصرین اور سیاسی پنڈت یہ پیش گوئیاں کر رہے تھے کہ نذیر عباسی پر چوہدری ریاض کو برتری حاصل ہے مگر نتائج اس کے برعکس آئے جبکہ بوئی دلولہ میں صابر قیوم کے اپ سیٹ کی امیدیں بھی لگی ہوئی تھیں، بکوٹ کے شوکت ارباب کی سیاسی چھلانگیں بھی ان انتخابات میں دیدنی تھیں، مئی کے آخری ہفتے میں وہ ایک روز کیلئے پی ٹی آئی میں گئے اور دوسرے روز واپس نون لیگ میں آ گئے مگر اب وہ مکمل طور پر نومبر سے ایم این اے ڈاکٹر اظہر خان کے سیاسی اور نظریاتی کارکن ہیں، وی سی دروازہ میں ایک اہم سیاسی تبدیلی سامنے آئی کہ مختلف گروپوں میں بٹے حاجیال خاندان میں اتحاد ہو گیا اور انہوں نے اجتماعی طور پر ضلعی امیدوار سردار شمعون خان کی حمایت کا اعلان کر دیا، ریالہ میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ سردار شمعون کے مقابلہ میں مسلم لیگی رہنما راجہ ممتاز کے سگے بتھیجے راجہ مبین الرحمان خان مقابلے میں تھے اور دونوں کی کارنر میٹنگوں سے مقابلہ انیس بیس کا نظر آ رہا تھا، اس الیکشن میں پہلی بار نون لیگ نے سرکل بکوٹ میں اپنی 3 عشروں پر محیط کارکردگی کو بھی اپنی سیاسی معرکہ آرائی میں کیش کرنے کی کوشش کی جن میں رابطہ سڑکوں، تعلیمی و طبی اداروں، واٹر سپلائی سکیموں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں کا خصوصی طور پر ذکر اور موازنہ کیا گیا، تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جواری بھی اس الیکشن میں کود پڑے تھے اور انہوں نے سرکل بکوٹ کے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کے باقاعدہ ریٹ نکال کر کروڑوں روپے کا سٹہ بھی لگایا، اس الیکشن میں پہلی بار سرکل بکوٹ کی چھوٹی برادریاں راجپوت اور کھن کلاں کے چوہدری بھی میدان سیاست میں کودے اور اپنے اپنے امیداوار سامنے ل کر کامیاب بھی کرائے، انتخابات میں ہر یومین اور ویلیج کونسل سے لگ بھگ 60 سے زیادہ امیدواروں نے حصہ لیا، یہ بھی پہلا موقع تھا کہ سرکل بکوٹ کے تمام امیدوار سرکل بکوٹ کی تعلیمی پسماندگی کے سوال پر ایک صفحہ پر تھے اور انہوں نے اسے علاقے کا نمبر ون مسئلہ قرار دیا، 2015 کے ان بلدیاتی الیکشن میں یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹرز رجسٹر ہوئے اور ہر ووٹر نے پہلی بار سات سات ووٹ بیک وقت کاسٹ کئے، ووٹروں کی اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی تھی مگر اسی فیصد امیدوار یا تو معمولی پڑھے لکھے تھے یا انڈر میٹرک تھے، انتخابات کے موقع پر یو سی پلک اور بیروٹ کو حساس قرار دے کر انہیں فوج کے حوالے کر دیا گیا ، انتخابی مہم کے دوران باسیاں کے امیدواروں نے پہلی بار نصف ماہ تک ایلیان وی سی کیلئے تین پہر کے کھانے اور چائے کا بندوبست کئے رکھا اور یہ بھی ریکارڈ ہے کہ یونین کونسل بیروٹ میں کسی امیدوار نے انتخابی عملہ کو 24 گھنٹے تک چائے پانی کا بھی نہیں پوچھا بلکہ مقامی ہوٹل مالکان نے اس روز اشیائے خورد و نوش کے دام بھی بڑھا دئے اور پولنگ سٹیشنوں کے قریب نیلا پیلا پانی بھی 20 روپے گلاس بکتا رہا،آخر 30 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں سرکل بکوٹ اور گلیات میں نون لیگ اور تحصیل اور ضلع میں تحریک انصاف جیت گئی جبکہ سرکل بکوٹ بھر میں اپنی اپنی پارٹیوں کا ایک باغی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا، بیروٹ میں نون لیگ پینل پر وی سی کے دو امیدواروں کے یکساں ووٹوں کی وجہ سے چیئرمینی کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا، جبکہ ضلع کونسل میں نتائج کے برعکس شیر بہادر خان نے نون لیگ کی حمایت سے ضلعی نظامت کا اعلان کر دیا تا ہم پی ٹی آئی قیادت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار دیا اور نا اہلی کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا جس کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ملکوٹ سے راجہ ممتاز الرحمان بھی ان انتخابات کے نتیجے میں مخصوص نشست پر رکن ضلع کونسل بن گئے دوسری طرف میرٹ پر ہونے کے باوجود پی ٹی آئی نے سرکل بکوٹ کے واحد ضلعی نظامت کے امیدوار نذیر عباسی کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا، ، نو منتخب نمائندوں نے انتخابات کے تین ماہ بعد اگست کے آخری ہفتے میں حلف اٹھا لیا، اگست میں ہی عمران خان نے سردار ادریس کے ہمراہ نتھیا گلی کا دورہ کیا اسی دوران ایم ان اے ڈاکٹر اظہر جدون کے گوشوارے بھی سامنے آئے جن کے مطابق وہ 27 کروڑ، ایم پی اے فرید خان 4 کروڑ، سردار ادریس تین کروڑ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پونے تین کروڑ کے اثاثوں کے مالک نکلے، نومبر کے مہینے میں پی ٹی آئی اور نون لیگ نے ایک دوسرے کے مد مقابل شو آف پاور کا مظاہرہ کیا،ایک ہفتہ پہلے ایم این اے ڈاکٹر اظہر جدون نے اپنے سرکل بکوٹ کے پھیرے میں کہو شرقی، نمبل اور دیگر مقامات پر مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا اور تختیوں کی نقاب کشائی کی، ایک ہفتہ بعد گورنر سردار مہتاب احمد خان بھی سرکل بکوٹ کے دورے پر آئے اور انہوں نے بھی انہی منصوبوں کا افتتاح اور تختی پر تختیاں لگائیں جن پر ڈاکٹر اظہر نقاب کشائی کر چکے تھے تاہم گورنر سردار مہتاب نے متعدد مقامات پر اس بات کی تصدیق کی کہ سرکل بکوٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ہیں، انہوں نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا سرکل بکوٹ کیلئے فنڈز دینے پر شکریہ بھی ادا کیا، مبصرین کا کہنا ہے کہ سرکل بکوٹ میں صرف تختیوں کی نقاب کشائی گورنر کا کام نہیں تھا یہ محض ڈاکٹر اظہر کے دورہ کے اثرات مٹانے کی ایک کوشش تھی۔اسی کی دیکھا دیکھی گلیات میں سردار ادریس نے کالا بن اور دھڑہ روڈ کا بھی افتتاح کیا دوسری طرف وسط دسمبر میں ایم پی اے سردار ادریس کے گائوں تاجوال کی بجلی معطل ہوئی جو دو ہفتے تک ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بحال نہ ہو سکی۔

تعلیمی صورتحال
2015 میں سرکل بکوٹ کے تعلیمی ادارے اڑھائی ماہ کی سرامائی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھلے تو میٹرک امتحانات کا آغاز ہو گیا، ان امتحانات میں جہاں پرانی پریکٹیکل کاپیاں ڈھائی ڈھائی ہزار روپے میں طلباء و طالبات کو بیچی گئیں وہاں ہی ان کی نئی کاپیاں بھی رکھ لی گئیں،اسی امتحان میں مبینہ طور پر قابل اور اہل طلباء و طالبات کے کرپٹ امتحانی عملہ کی ملی بھگت سے پرچے بھی فروخت کر کے ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کی کوشش کی گئی، فروری میں صوبائی حکومت نے تا حکم ثانی تعلیمی اداروں میں بھرتیوں پر پابندی عاید کر دی، مارچ میں ضلعی سطح پر سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کیلئے این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیوں کا اعلان ہوا مگر بکوٹ کے امیدواروں کو بائی پاس کرتے ہوئے میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور اس ظلم اور زیادتی پر ایم این اے ڈاکٹر اظہر اور ایم پی اے سردار فرید خان جوں نہیں رینگی، سرکل بکوٹ کے جن جن سکولوں میں غیر مقامی ٹیچرز کی تعیناتی کی گئی وہ جوائننگ کے بعد اب گھر بیٹھے تنخوا لے رہی ہیں یا اپنی جگہ مقامی پرائیویٹ ٹیچرز کے ذریعے پڑھائی کر رہی ہیں جس پر عوامی نمائندے پر اسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اس سال بھی سرکل بکوٹ کے کسی سکول کی عمارت تعمیر ہو سکی نہ پی ٹی سی کے نیم خواندہ ارکان کی بے حسی کی وجہ سے پرائمری سکولوں کی چاردیواریاں ہی مکمل ہوئی ہیں اور فنڈز لیپس ہو گئے ہیں، مارچ میں بکوٹ ہائی سکول کیخلاف حکم امیناعی خارج ہو گیا اور سکول کی تعمیر دوبارہ شروع ہو گئی، بیروٹ میں ایک اور نجی سکول کا قیام عمل میں لایا گیا، اپریل میں ایم این اے ڈاکٹر اظہر نے دعوی کیا کہ صوبے میں تعلیمی ایمر جنسی نافذ ہے حلقے کا ہر سکول مثالی بنائوں گا، مئی میں ضلعی نظامت تعلیم کی نو تعینات ای ڈی او ثوبیہ تبسم نے سرکل بکوٹ کا پہلا اور آخری دورہ کیا، جون کے وسط میں سردار فرید خان نے بیروٹ میں ایک جلسہ عام میں ہائی سکول کی تعمیر نو اور ڈگری کالج کے قیام کیلئے 2 کروڑ 30 لاکھ روپے کے فنڈز کا اعلان کیا مگر بعد میں مالکان اراضی کی کہہ مکرنیوں کی وجہ سے ابھی تک اس منصوبے پر عملدرّمد نہ ہو سکا ہے، اب مالکان اراضی ایک بار پھر حکم امتناعی لیکر آ گئے ہیں، ایم پی اے سردار فرید خان نے اس موقع پر کہا کہ تعلیم میرا فوکس ہے اور بھر پور توجہ اسی جانب دے رہا ہوں، ناقدین کا کہنا تھا کہ کام آّزاد کشمیر کی جس کمپنی کو دیا گیا وہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود کام شروع نہیں کر سکی جس کی وجہ سے سکول کے تعمیراتی میٹیریل کی چوری شروع ہو گئی ہے،مارچ میں ہی ملکوٹ میں نوجوان اتحاد نامی تنظیم کے زیر اہتمام طلباء طالبات کیلئے ایک کمپیوٹر لیب کا قیام عمل میں لایا گیا، اگست میں سرکل بکوٹ میں سکولوں میں نئی بھرتیوں کے لئے پھر این ٹی ایس امتحان لیا گیا مگر سرکل بکوٹ کے امیدوار بدستور حق ملازمت سے محروم رہے، ایوبیہ میں تعلیمی حکام کی مجرمانہ عدم توجہی کیخلاف دھرنا دیا گیا مگر مسائل تا حال موجود ہیں، اگست میں ہی سردار گلزار عباسی نے اعلان کیا کہ اگر 8 اکتوبر تک سرکل بکوٹ کے سکولوں کی عمارات مکمل نہ ہوئیں تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں گے مگر 8 اکتوبر بھی گزر گیا، سرکل بکوٹ کے کسی سکول کی عمارت مکمل نہیں ہو سکی مگر سردار گلزار عباسی کا دھرنا پارلیمنٹ ہائوس تو کجا کوہالہ پل پر بھی نہ ہو سکا،ستمبر میں گرلز ڈگری کالج نتھیا گلی کی زیارت معصوم منتقلی کے اعلان سے گلیات بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور عوامی رد عمل کے سامنے یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔اسی سال کے آغاز میں ای ڈی او زنانہ ایبٹ آباد پر اسامیاں بیچنے کا الزام لگا اور جب وہ اپنا دفاع نہ کر سکیں تو ان کی معطلی کی ہیٹرک مکمل ہو گئی۔ اسی سال یہ بھی انکشاف ہوا کہ جبری کھن کلاں میں دو اور موہڑہ بیروٹ خورد میں ایک خاتون ٹیچر محکمہ تعلیم کی ملی بھگت سے سکولوں سے 24 ماہ سے غیر حاضر ہیں اور ان ٹیچرز نے تا دم تحریر اپنے سکول جوائن نہیں کئے ہیں۔

نئے اخبارات اور نئی کتابیں
سال گذشتہ کے دوران سرکل بکوٹ میں دو اخبارات میدان میں آئے ان میں پہلا ہفت روزہ پیپلز پاور تھا جو معروف صحافی طارق نواز عباسی کی ادات میں ستمبر تک جاری رہا، یکم ستمبر کو سرکل بکوٹ کا پہلا مکمل روزنامہ آئینہ جہاں کا اسلام آباد سے آغاز ہوا جو بہت ہی کم عرصہ میں سرکل بکوٹ سمیت کوہسار کے ہر گھر کی آواز بن گیا ہے، اس کے ایڈیٹر انچیف نامور صحافی اشتیاق احمد عباسی ہیں جن تعلق بھی سرکل بکوٹ سے ہے اور انہیں بہترین صحافیوں کی خدمات حاصل ہیں۔ 2015ء سرکل بکوٹ سے دو کتابیں شائع ہوئیں، پہلی کتاب بیروٹ کے سابق ٹیچر اور آج کل مانسہرہ میں مقیم سید اقبال ایچ شاہ المعروف مخلص بیروٹوی کی دیدہ بینا ہے جس میں ان کی حمدیں، نعتیں اور غزلیں شامل کی گئی ہیں، دوسری کتاب باسیاں کے ممتاز عالم دین قاری تنزیل الرحمان جدون کی تذکرہ پیر اظہر بکوٹی ہے جو صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹی کی یاد میں شایع کی گئی ہے۔

ہم سے بچھڑنے والے
گزشتہ سال کا سب سے بڑا سانحہ ارتحال صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹی کا تھا، وہ یرقان اور ہیپا ٹائٹس کے مریض تھے ، انہوں نے راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہا جبکہ انہیں بکوٹ شریف میں سپرد خاک کر دیا گیا، دوسرا بڑا سانحہ تحریک آزادی کشمیر کے ممتاز رہنما، آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان کی وفات تھی، انہیں بھی اپنے ابائی گائوں غازی آباد میں سپرد خاک کیا گیا ۔ اکتوبر میں سردار گلزار خان کی والدہ کا انتقال ہوا جس میں ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اور نومبر میں گورنر کے پی کے سردار مہتاب احمد خان بھی تعزیت کیلئے ان کے گھر نمبل گئے اور دوران گفتگو گلزار خان کو سیاست میں اپنا استاد قرار دیا۔

جرائم
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ دہشتگردی کے الزام میں سرکل بکوٹ کا کوئی شخص ملک کی کسی جیل میں موجود نہیں نہ ہی کئی سالوں سے کوئی مجرم سزائے موت کا ہی منتظر ہے، یہاں کے لوگ نہایت پر امن ہیں اور یہاں جرائم کی نوعیت معمولی ہوتی ہے تاہم 2015 میں سرکل بکوٹ کا پہلا قتل چھانگلہ گلی میں ہوا جہاں زیارت معصوم کا رہائشی نوجوان کو قتل کر دیا گیا اور گلیات کی تاریخ میں پہلی بار اہلیان علاقہ نے میت روڈ پر رکھ کر پولیس کی خلاف احتجاج کیا جس کا نوٹس ایس ایس پی گلیات کو خود لینا پڑا اور روڈ 12 گھنٹوں کے بعد کھل سکی، سرکل بکوٹ میں اس وقت تشویش کی لہر دوڑ گئی جب بیروٹ کے سابق ناظم آفاق عباسی اور وی سی کے موجودہ چیئرمین ندیم عباسی نے ایک منشیات فراوش کو لوگوں کے تعاون سے پکڑ کر اس کے قبضہ سے اڑھائی کلو چرس بر آمد کر لی اور ملزم کو بکوٹ پولیس کے حوالے کر دیا مگر پولیس نے مک مکا کر کے اس مبینہ منشیات فروش کو فرار کروا دیا اس پر بکوٹ پولیس کیخلاف عوامی طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور ایبٹ آباد انتظامیہ نے اسے ٹرانسفر کر کے لائن حاضر کر دیا، اس سال کا آغاز نتھیاگلی پولیس اور ایلیٹ فورس کے گورنر ہائوس سے متصل غاروں پر آپریشن سے ہوا جس میں 3 دہشتگرد گرفتار اور 11 فرار ہو گئے اور نہایت خطرناک اسلحہ پولیس کے ہاتھ لگا، مگر دوسری طرف ڈونگا گلی پولیس نے گلیات کو جرائم پیشہ مجرموں کے حوالے کئے رکھا جنہوں نے 4 مکانات نذر آتش کر دئے، بکوٹ پولیس نے مقامی علمائے کرام کیخلاف ایپلی فائر ایکٹ کی خلاف ورزی پر 15 ایف آر کاٹیں، جون کے آخری ہفتے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے الرٹ جاری کیا کہ مری ایوبیہ، بھور بھن اور گلیات میں دہشتگرد داخل ہو چکے ہیں اس لئے وی آئی پیز ان علاقوں میں نہ آئیں،سال کے آخری ماہ کے وسط میں نا معلوم افراد کی پولیس چوکی کوہالہ کے قریب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں شرقی کوہالہ میں ایک صحافی سمیت 2 افراد زخمی ہو گئے، اس واقعہ کی بکوٹ پولیس کی مس ہینڈلنگ سے کوہالہ پل بند کر کے ٹریفک روک دی گئی تا ہم مذاکرات کے عد یہ بحال ہو سکی۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 64770 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More