دنیا فانی میں اپنا نام امر کر جانے والی
قد آور شخصیات اور محنت سے نام بنانے کی جستجو میں مصروف عمل مستقبل کے
معماروں کے حوالے سے ایک رپورٹ
ہر دن ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے ،ہر روزہزاروں بچے اس زمین پر آنکھ کھولتے
ہیں اور ہزاروں لوگ اس دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہیں ،یہ معمول کی بات ہے
کیونکہ یہی نظام قدرت ہے ،ہر ذی شعور کو موت کامزہ چکھنا ہے ،موتتو حقیقت
ہے ،ہر انسان کو ختم ہونا ہے اور پھر موت کے بعد ان کا نام و نشان مٹ جاتا
ہے ۔مگراس دنیا میں کئی ایسے نام ہیں جو موت کے بعد بھی زندہ و جاوید رہتے
ہیں ان کا جسم مٹی میں مل جاتا ہے اور ان کی روح عالم ارواح میں پرواز کر
جاتی ہے مگر ان کو زندہ رکھنے والا ان کا ’کام‘ ہوتا ہے جو انہیں موت سے
پہلے بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتا ہے اور مرنے کے بعد بھی۔اور ایسے
لوگ ہوتے بھی بہت کم ہیں ،ان کی تعداد کل آبادی میں 10فیصد ہوتی ہے اور وہ
اپنے اعلیٰ کردار اور منفرد کام سے تمام لوگوں میں نمایاں ہوتے ہیں۔قومی و
بین الاقوامی اعزازت کا متحمل ہونا کوئی آسان نہیں ہے ،اس میں برسوں کی
انتھک محنت اور لاکھوں ان دیکھی مشکلات جن کا سامنا کرنا عام آدمی کے بس کی
بات نہیں ہے لہذا ہمیں ان قومی شخصیات کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے متاثر
ہو کر ان جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہر سال کی طرح 2015نے ہمیں خیر باد کہا اور ہم نے بہت سی ایسی شخصیات
کوکھویا جو اپنے علم و کردار میں سب سے نمایاں و منفرد تھے لوگ ان کا نام
ان کے کام سے جانتے تھے اور انہوں نے انتھک محنت و خلوص سے اپنا نام تاریخ
میں امر کر لیااور آج بھی ان کی موت سے ہم ان کے علم اور صلاحیتوں سے مزید
فیض یاب تو نہیں ہو سکتے مگر ان کی شخصیت تمام نوجوانوں کے لیے مشعل راہ
ضرور ہے،جب ہم بات کرتے ہیں کہ ہم نے 2015میں کیا کیا کھو دیا تو ایک اداسی
ذہن و دل پر چھا جاتی ہے مگر 2015کے روشن پہلوؤں پر نظر دھرائی جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ امید کی کرن باقی ہے اور پاکستان کا روشن مستقبل ان
درخشندہ ستاروں کے ہاتھ میں ہے جو ستاروں پر کمند ڈالنے کا نا صرف خواب
دیکھتے ہیں بلکہ اسے حقیقت بنانے میں بھی پر عزم ہیں ِزیر نظر تحریر میں ہم
ان شخصیات کا ذکر کریں گے جو اس فانی دنیا میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر
کر کے 2015میں ہم سے جدا ہو گئے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 2015میں
نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کی،جنہوں نے محنت و لگن سے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اعلیٰ مقام پایا۔
ادب و صحافت کی دنیا سے ہم نے جن شخصیات کو کھویا ان میں سے چند ایک کا ذکر
کرنا مقصود ہو تو اس فہرست میں’’ ڈاکٹر جاوید اقبال‘‘ کا نام سر فہرست
ہے۔آپ کا صرف یہی اعزاز نہیں کہ آپ فرزند اقبال ہیں بلکہ آپ بذاتِ خود ایک
مشہور ومنفرد مصنف، ڈرامہ نگار، مترجم،عظیم مفکر اور فلسفی دانشور تھے۔ آپ
نے روحِ اقبال کو بھی سمجھا ۔ حیاتِ اقبال پر آپ کی تصنیف شاہکار کی حیثیت
رکھتی ہے۔ ’’ماڈرن اسلامک فلاسفی ‘‘پر آپ کی اشاعت ہی عالمی سطح پر آپ کی
وجہِ شہرت بنیں۔ آپ پاکستانی قومیت، تحریکِ پاکستان اور پاکستان کی نظریاتی
سیاست پرلکھی گئی بیشتر کتب سمیت انگریزی اور اردو کی 12 کتب کے مصنف تھے
جس میں 3 جلدوں پر مشتمل علامہ اقبال کی سوانح حیات بھی شامل ہے۔ ’’مئے
لالہ فام‘‘،’’نظریہ پاکستان‘‘،’’قائداعظم کا ورثہ‘‘،’’افکار اقبال‘‘،’
’افکارِ پریشان‘‘،’’ حیاتِ اقبال‘‘، ’’زندہ رود‘‘،’’خطباتِ اقبال‘‘،’’اسلام
اور پاکستان کی شناخت‘‘،’’اسلامی ریاست کا تصور‘‘، ’’اپنا گریبان چاک
‘‘اور’’ تشکیل و تفہیم‘‘ (علامہ اقبال کے لیکچرز بعنوان تشکیلِ جدید
الہٰیاتِ اسلامیہ کا مطالعہ بہ زبانِ اْردو) آپ کی شہرہ آفاق تصانیف شمار
کی جاتی ہیں۔ 1960ء میں آسٹریا کے شہر کینبرا میں ایشیا میں آئین کا مستقبل
کے مذکراہ میں شرکت کی۔ تین مرتبہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رکن کی
حیثیت سے شریک ہوئے۔ 1961ء میں حکومت امریکہ کی دعوت پر وہاں گئے اور
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ’’اقوام متحدہ کا مستقبل‘‘ پر لیکچر دئیے۔
1965ء میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر اور 1971ء میں لاہور
ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے ہائیکورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دانشور کی
حیثیت سے سرگرم رہے۔آپ کینسر کے مریض تھے۔ 3 اکتوبر 2015ء کی صبح آپ شوکت
خانم ہسپتال میں وفات پا گئے۔91 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو
محض فرزند اقبال نہیں ممتاز قانون دان، محقق اور فلاسفر جسٹس ڈاکٹر جاوید
اقبال کے طور پر رخصت ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ادب کا ایک بڑا نام ’’جمیل الدین
عالی‘‘ کا ہے آپ ایک شاعرو ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نقاد، پلے رائٹر،
مضمون نگار، کالم نویس ،سفرنامہ نگار اور ایک معروف دانشور بھی ہیں
تھے۔’’جمیل الدین عالی‘‘ کا اصل نام مرزا جمیل الدین احمد خاں اور عالی
تخلص ہے۔ آپ 20 جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہوء آپ نے غزلیں، نظمیں، گیت
اور دوہے لکھے۔ آپ کے لکھے ہوئے ملی نغمے بھی بے حد مقبول ہوئے جن
میں،’’جیوے جیوے پاکستان‘‘، ’’اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے
ہیں‘‘،’’ہم مصطفوی مصطفوی ہیں‘‘،’’میرا پیغام پاکستان‘‘ ،’’جو نام وہی
پہچان۔۔پاکستان پاکستان‘‘،’’اتنے بڑے جیون ساگر میں،تو نے پاکستان
دیا‘‘،’’یہ کویتا پاکستانی ہے ‘‘اور ’’ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں‘‘جیسے
خوبصورت ملی نغمات شامل ہیں۔جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی
ہیں’’پاکستان رائٹرز گلڈ ‘‘قائم کرنے میں عالی صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔ آپ
معتمد اعزازی انجمنِ ترقی اردو پاکستان ہیں۔ آپ کو ان کی فنی خدامت کے صلے
میں متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جن میں ’’صدارتی اعزاز برائے حسنِ
کارکردگی‘‘، ’’ہلالِ امتیاز‘‘ ،’’آدم جی ایوارڈ‘‘،’’ داؤد ادبی ایوارڈ‘‘،
’’یونائیٹڈ بنک لٹریری ایوارڈ‘‘ اور’’ اکادمی ادبیات پاکستان کا کمال فن
ایوارڈ‘‘ شامل ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمیل الدین عالی ادب اپنی ذات میں
ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے آپ90برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہوجانے کے
باعث23نومبر2015کو انتقال کرگئے ۔اسی طرح ایک اور نام’’ علی سفیان آفاقی
‘‘کا ہے وہ ایک پاکستانی صحافی، ادیب، سفرنامہ نگار، فلم ساز اور ہدایت کار
تھے۔آپ روزنامہ "تسنیم" ، ہفت روزہ "چٹان" اور روزنامہ "نوائے وقت‘‘،
روزنامہ "آفاق" اور م ش کے ہفت روزہ "اقوام" اورروزنامہ "زمیندار" کی بندش
کے بعد روزنامہ "آثار" سے وابسطہ رہے۔1957ء میں شباب کیرانوی کی شراکت میں
فلم "ٹھنڈی سڑک" بنائی۔فلم کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ لکھا۔ 1958 میں
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد صحافت سے قطع تعلق کرنے کے بعد کل وقتی طور پر
فلم سے وابستگی اختیار کی۔ "آدمی" کے مکالمے اور منظرنامہ لکھا۔ دوستووسکی
کے ناول "کرائم اینڈ پنشمنٹ" کو "فرشتہ" کے نام سے اخذ کیا اور بھی کئی
فلموں کا تحریری کام کیا۔ 1965 میں بطور فلمساز و مصنف حسن طارق کے اشتراک
سے "کنیز" بنائی۔ اس کے بعد "میرا گھر میری جنت" بطور مصنف و فلمساز بنائی۔
حسن طارق سے علیحدہ ہو کر ’’سزابنائی۔ آپ 27جنوری2015کو وفات پا گئے۔
ادب وصحافت کی طرح دیگر شعبہ جات کا جائزہ لیا جائے تو قانون کی دنیا میں
’’رانا بھگوان داس‘‘ کا نام کون نہیں جانتا،آپ 20 دسمبر 1942ء کو نصیر
آباد، ضلع قمبر شہداد کوٹ، سندھ میں ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ عدالت
عظمی پاکستان کے نگران منصف اعلی رہ چکے ہیں۔آپ نے قانون کے ساتھ اسلامیات
میں ماسٹرز کیا۔رانا 1965ء میں بار میں شامل ہوئے۔ محض سال کی پریکٹس کے
بعد 1967 میں عدلیہ کا حصہ بنے ، کئی سال سیشن جج کے طور پر فرائض انجام
دیے۔ میں سندھ ہائیکورٹ کے جج بنے اور2000 ء میں سپریم کورٹ کے جج تعینات
ہوئے۔9 مارچ 2007 ء کو جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے بعد جسٹس رانا
بھگوان داس کو پرویز مشرف نے قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا۔ اس دوران
بھگوان داس پاکستان میں موجود نہیں تھے۔ جسٹس رانا بھگوان داس اعلی عدلیہ
میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے پہلے جج تھے، وہ انتہائی اچھی شہرت کے
حامل تھے اور اپنے پوری خدمت کے دوران ہمیشہ غیر متنازع ثابت ہوئے۔آپ کا
انتقال 23 فروری 2015 ہوا تھا۔اسی طرح’’ مریم مختار‘‘ شہادت کے مرتبے پر
فائز ہونے والی پاک فضائیہ کی پہلی خاتون فلائنگ آفسیر ہیں ان کالڑاکا
طیارہ میانوالی کے قریب کنڈیاں کے علاقے میں24نومبر 2015کوگر کر تباہ ہوا
تھا،یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ا سکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی اور معاون
فلائنگ آفیسرمعمول کے آپریشنل مشن پر تھے ،دوران پرواز ہی ہنگامی صورت حال
پیدا ہوئی ،دونوں ہوا بازوں نے پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورت
حال سے نمٹنے اور عوام کی جان و مال بچانے کی بھر پور کوشش کی۔حادثے کے بعد
دونوں کو کمانڈ ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں قوم کی بیٹی زخموں کی تاب
نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئی۔’’حمید گل‘‘معروف ہائی رینکنگ پاکستانی فوجی
آفیسر تھے۔آپ آئی ایس آئی کے سربراہ ر ہے، آپ20 نومبر 1936کو پیدا ہوئے آپ
نے پاک بھارت جنگ 1965ء ،پاک بھارت جنگ 1971ئاور افغانستان میں سوویت جنگ
میں بھی شمولیت اختیار کی۔فوجی خدمات کے بدلے حکومت پاکستان نے
انہیں’’ستارہ بسالت‘‘اور’’ہلال امتیاز‘‘سے نوازا15 اگست 2015 کو جنرل حمید
گل اپنے اہل خانہ کے ساتھ مری گئے تھے، ان طبیعت خراب ہوگئی جس کے بعد ان
کو ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہاں کچھ دیر کے بعد انتقال کرگئے۔ان کی وفات
کی وجہ دماغ کی شریان بتایا جاتا ہے۔
آئیے اب بات کرتے ہیں ان درخشاں ستاروں کی جنھوں نے امید کی شمع روشن کی
اور اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر پوری دنیا میں اپنا نام روشن
کروایا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 8اکتوبر 2005ء کے تباہ کن زلزلے
سے پاکستان کے شمالی علاقوں کو شدید نقصان اْٹھانا پڑا تھا،’’ انشا افسر‘‘
بھی اس زلزلے سے متاثر ہونے والے ہزاروں افراد میں سے ایک تھیں۔اس المناک
دن جب ان کا گھر گرگیا، تو وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئیں۔ لیکن انہوں
نے اپنا شوق پورا کرنے سے خود کو نہیں روکا۔اور ’’یو ایس سکیٹنگ چیمپیئن شپ
‘‘ میں حصہ لیا۔اس نے ’’لون ماؤنٹین ‘‘سے تربیت حاصل کی اور اعلیٰ پوزیشنز
بھی حاصل کر چکی ہے۔انڈر 14ٹینس سٹار بچی’’ ایمان‘‘ نے نیشنل وومن کپ میں
پہلا انعام حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستانی کسی سے کم نہیں ہیں ،صرف
یہی نہیں ایمان ’’آل ایشیاء ٹینس فیڈریشن ‘‘ میں 17نمبر پر ہیں اور یہ
اعزاز پہلی پاکستانی بچی کا حاصل ہے۔9سالہ ’’ہاشم حادی خان‘‘ کا تعلق بھی
پاکستان سے ہے اور اس نے کولمبو (سری لنکا ) میں ہونی والی چھٹی ’’انٹر
نیشنل سکربیل چیمپئین شپ ‘‘ میں حصہ لے کر ثابت کر دیا کہ پاکستانی بچے کسی
طرح بھی بڑوں سے کم نہیں ہیں۔ہاشم نے سری لنکا میں نامور کھلاڑیوں کو ہرا
کر اپنا نام’’گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں شامل کر لیا۔لاہور کے درمیانے
طبقے سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی نے ’’سرٹیفائیڈ ہیکرز ‘‘ہونے کا اعزاز
حاصل کیا۔9سالہ احمد اور 14سالہ’’ مسفرہ‘‘ کویہ اعزاز (CEH)سرٹیفائیڈ
ایتھیکل ہیکرزکی ٹیم نے دیا۔’’حمزہ شہزاد‘‘ ایک ایسا بچہ ہے جس نے ارفع
کریم سے متاثر ہو کر مائیکرو سافٹ پروفیشنل بننے کا ارادہ کیا اور لندن کے
مائیکرو سافٹ انسٹی ٹیوٹ میں امتحان دے کر پاکستان کا دوسرا مائیکرو سافٹ
پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔2015میں پاکستان جہاں عظیم اور قابل فخر
شخصیات سے محروم ہوا ،مگر وہیں یہ قابل اور پاکستان کے مستقبل بچے دنیا بھر
میں اپنی ذہانت کا لوہا منوا رہے ہیں اور امیدکی جاتی ہے کہ پاکستان کا
مستقبل محفوظ اور قابل ہاتھوں میں ہے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو
گا۔ |