وہ ریت ابھی تک باقی ہے

لاکھوں کروڑوں درود پاک آپ ؐ کی ذات اقدس پر جس کے صدقے ہمیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔ آپؐ کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے اس پر تمام عالم اسلام کا متفقہ اجماع ہے۔ پھر یہ قانون صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برا بھلا کہنے والا عیسائیت میں بھی واجب القتل ہے اور اس کا اطلاق امریکہ کے قانو ن میں بھی موجود ہے۔ پھر ناموس رسالتؐ کو کالا قانون کہنا یہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی ممکن تھا جہاں ہر شخص خود کو مفتی اعظم سمجھ کر فتویٰ دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جس کو دین کی الف ب بھی نہ آتی ہو وہ بھی دین کا ٹھیکیدار بن سکتا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اس قانون کی زد میں آنے والا کوئی بھی شخص آج تک سزائے موت تک پہنچ کر جہنم واصل نہیں ہوا۔انسانیت کے چمپئن اس قانون پر عمل درآمد کروانے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں لیکن ایسے وقت میں جب کہ ربیع الاوّل کی آمد ہوئی ممتاز قادری کی سزائے موت کا پروانہ ایسی سپریم کورٹ سے جاری ہوا ہے جو سود کے مطابق کہتی ہے کہ جس نے سود نہیں لینا وہ نہ لے اور جو سود لیتا ہے اس سے اﷲ پوچھے گا۔ بے شک اﷲ آپ سے ہی نہیں ہم سے بھی پوچھے گا کہ کون کون اﷲ کے خلاف جنگ میں شریک مجرم رہا ہے۔
قانون اندھا ہی نہیں ہوتا بلکہ احساس سے بھی عاری ہوتا ہے اس کا اندازہ ہمیں ہے لیکن قانون ہی کی کتابوں میں کہیں پڑھا تھا کہ سیلف ڈیفنس میں قتل کرنے والا مجرم نہیں ہوتا۔ آپ کے ماں باپ کوکوئی گالی دے اور آپ خاموش رہیں یہ تو شاید ممکن ہے لیکن ہمارے آقا حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو سزائے موت کے قانون کا کالا قانون کہنا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو گا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و پیارا نہ ہو جاؤں۔‘‘(بخاری، کتاب الایمان)

ناموس رسالتؐ کے قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے آج یہ دن آگیا ہے کہ ہر شخص اس قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس پر عمل درآمد کررہا ہے۔جس کو کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جب قانون کی رٹ قائم نہیں ہوگی تو لوگ تو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں گے اور ویسے بھی قانون اپنے فیصلوں کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں کھلونا بن کررہ گیا ہے۔ ایک طرف سینکڑوں لوگوں کو سرعام بے جرم میں قتل کرنے والے اپنے انجام کے منتظر بیٹھے ہیں اور دوسری طرف ممتاز قادری جیسے لوگ ۔ جن پر قانون کے سارے اصول لاگو ہوتے ہیں۔

انگریزوں کے دور میں یہی غلطی ایک کوچوان غازی علم دین نے کی تھی جس کا مقدمہ قائد اعظم نے لڑا تھا۔لیکن اسے بھی اس وقت کے قانون کے مطابق سزائے موت دی گئی تھی۔ آج قائد اعظم کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انہی انگریزوں کے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

اب ممتا زقادری کی سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کا صرف ایک ہی دروازہ رہ گیا ہے اور وہ ایسے صدر مملکت کے پاس جاتا ہے جو سود میں بھی رعایت کے قائل ہیں ۔لیکن س معاملہ میں بلارعایت کیسے دی جاسکتی ہے۔ ممتاز قادری کو سزائے موت دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو ہمت نہ ہوکہ وہ اپنی محبت کا عملی دعویٰ کرسکے۔
وہ ریت ابھی تک باقی ہے۔۔۔۔ یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا۔۔۔ دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
جب پرچمِ جاں لے کر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اْس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت جاری ہے
کس زعم میں تھے اپنے دشمن؟ شاید یہ انہیں معلوم نہیں
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی۔۔۔۔ اور جان تو سب کو پیاری ہے
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 42777 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.