بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب میں دہشت گردی اور بغاوت کے الزام میں ایک شیعہ عالم سمیت
47افراد کے سرقلم کئے جانے پر سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات
تشویشناک حد تک کشیدہ ہوگئے ہیں ۔ ادھر ایران میں سعودی سفارت خانہ جلائے
جانے کے بعد عراق میں بھی پچیس سال بعد کھولے گئے سفارت خانہ پر راکٹ حملہ
کر کے اسے سخت نقصان پہنچایا گیا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے بعد بحرین و
سوڈان نے بھی ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے ایرانی سفیروں کو ملک
چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی ایران سے اپنے سفیر کو واپس
بلا لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ خلیجی ممالک کے معاملات میں مداخلت پر
تہران سے سفارتی تعلقات محدودسطح تک رکھے جائیں گے۔ اسی طرح ایرانی سفارتی
عملہ کی تعداد بھی کم کی جارہی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے مابین فضائی و
تجارتی رابطے بھی ختم کر دیے گئے ہیں جبکہ سعودی عرب کی طرف سے اعلیٰ ظرفی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب بھی ایران سے مکہ اور مدینہ آنے والے
زائرین کو خوش آمدید کہاجائے گااور انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائیں
گے۔
سعودی عرب کو حرمین شریفین کی وجہ سے مسلمانوں کا روحانی مرکز ہونے کی
حیثیت حاصل ہے اس لئے دشمنان اسلام کی شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح
اسے کمزور کیا جائے اور یہاں فتنہ و فساد کے بیج بوئے جائیں کیونکہ وہ
سمجھتے ہیں کہ جب اس مقدس سرزمیں پر عدم استحکام کی صورتحال ہوگی تو پوری
مسلم امہ کے حوصلے پست ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ صلیبیوں و یہودیوں کی جانب سے
ہمیشہ سے وہاں بدامنی پھیلانے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ
سے خاص طور پر برادر اسلامی ملک میں تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھانے کی
کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں مختلف شہروں میں شیعہ مساجد اور دیگر مختلف
مقامات پر بم دھماکے ہوئے اورمتعدد مقامات پر شورش بپا کرنے کی کاوشیں کی
جاتی رہی ہیں لیکن یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ سعودی حکومت نے دہشت گردی
کی ان کارروائیوں پر سخت ایکشن لیا اور بغیر کسی تفریق کے دہشت گردی میں
ملوث عناصر کو گرفتار کر کے نا صرف جیلوں میں ڈالا گیا بلکہ عدالتوں میں
مقدمات چلاکر انہیں سخت سزائیں دی گئی ہیں۔ سعودی عرب میں حدود اﷲ کے نفاذ
اور اسلامی شریعت کی روشنی میں دی جانے والی انہی سزاؤں کا اثر ہے کہ دنیا
بھر کی نسبت وہاں سب سے زیادہ امن ہے اور یہی صورتحال دنیائے کفر کیلئے
ناقابل برداشت ہے۔ حال ہی میں سعودی عدلیہ کی جانب سے جن47 افراد کو پھانسی
کی سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں سے ایک شیعہ عالم شیخ ا لنمر بھی ہے ۔
زیادہ تر افراد جنہیں چند دن قبل پھانسی دی گئی وہ القاعدہ کی طرف سے ہونے
والے حملوں میں ملوث تھے۔سعودی حکومت نے اپنے ان شہریوں کے نام بھی جاری
کئے ہیں جنہیں موت کی سزادی گئی ہے۔یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے تکفیری نظریہ
اختیار کیا، دہشت گرد گروپوں میں شمولیت اختیار کی اور عام شہریوں و
سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ شیعہ عالم شیخ النمرپر بھی الزام ہے کہ
انہوں نے شیعہ علاقوں کو علیحدہ کر کے الگ ریاست بنانے کی تجویز دی۔ اکتوبر
2011ء میں انہوں نے سعودی سکیورٹی حکام کو ظالم و جابر قرار دیا اورعوام
الناس کو سعودی حکمرانوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیت دی ۔ شیخ النمر کو
سعودی عرب کے مشرقی خطہ میں عدم استحکام پھیلانے والا خطرناک ترین فرد قرار
دیا جاتا ہے۔ان پر سکیورٹی فورسز کیخلاف برسرپیکار دہشت گردوں کی حمایت کا
بھی الزام ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر انہیں بغاوت کے مقدمہ کے تحت
پندرہ اکتوبر 2014کو سزائے موت سنائی گئی جس پر چند دن قبل عمل درآمد کیا
گیا ہے۔ سعودی عرب میں عدالتوں کا نظام بہت صاف شفاف ہے اور جن افراد کے
سرقلم کئے گئے ہیں ان پر باقاعدہ کیس چلاکر دونوں اطراف کے دلائل سننے کے
بعدفیصلے سنائے گئے ہیں۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ برادراسلامی ملک کا
داخلی معاملہ ہے اور سب کو وہاں کے عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ
بالکل ویسے ہی ہے جس طرح افواج پاکستان دہشت گردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب
میں مصروف ہیں اور جولوگ ملکی مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے دہشت گردی میں
ملوث پائے گئے انہیں پھانسیوں کے پھندوں پر لٹکایا جارہا ہے۔ اگر اس پر
کوئی اعتراض کرتا ہے تو پاکستان کسی صورت یہ بات برداشت نہیں کر سکتا‘ یہی
معاملہ سعودی عرب کا ہے۔ وہاں بھی سعودی حکومت کو اسی نوعیت کے مسائل درپیش
ہیں اور تکفیر و خارجیت کا شکار جماعتیں سرزمین حرمین شریفین پر خلفشار
پیدا کرنا چاہتی ہیں جسے ناکام بنانا سعودی حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں
شامل ہے۔ اگر حالیہ پھانسیوں کی بات کی جائے تو یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی
چاہیے کہ یہ سعودی حکومت نہیں عدلیہ کا فیصلہ ہے اور عدالتیں اگر ثبوتوں کی
بنیاد پر سزائیں سناتی ہیں تو سعودی حکومت ان پر عمل درآمد کی بات ہے۔ اس
پر قطعی طورپر ایسا اشتعال انگیز ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے جس طرح ایران
میں سعودی سفارت خانے کو جلا کر کیا گیا ہے۔ سفارت خانوں کا تحفظ حکومتوں
کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم اپنے ملک کا ہی جائزہ لے لیں‘ یہاں بھی مظاہرے
ہوتے رہے ہیں اور سفارت خانوں کی طرف جانے کی کوشش کی گئیں لیکن اﷲ کا شکر
ہے کہ پاکستانی پولیس اور دیگر اداروں نے کبھی کسی دوسرے ملک کے سفارت خانہ
کے قریب بھی کسی کونہیں پھٹکنے دیا۔چند سو مظاہرین کی حکومتی وسائل اور
فورسز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن اگر آنکھیں بند کر لی جائیں تو
پھر وہ سبھی کچھ کر سکتے ہیں تاہم ایسی صورتحال کو عوامی ردعمل نہیں کہا
جاسکتا۔ کہاجارہا ہے کہ سعودی سفارت خانہ پر حملہ کرنے والے کئی افراد کو
گرفتار کیا گیا ہے اور ان کیخلاف تحقیقات کی جارہی ہیں مگر یہ کافی نہیں
ہے۔آج لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ایران میں حکومت کا کنٹرول اس قدر کمزور ہے کہ
ان کی مرضی کے بغیر بعض لوگ وہاں آزادانہ طور پر حملہ آور ہوں اور تمامتر
اخلاقی آداب اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سفارت خانہ کو ہی
جلا دیا جائے۔ یہ بات درست محسوس نہیں ہوتی اور اس سے پوری دنیا میں ایران
کی بدنامی ہوئی ہے۔پاکستان کی جانب سے بھی اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ لوگ
یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ایران میں کتنے ہی ایسے سنی عالم دین تھے جنہیں
پھانسیوں کے پھندوں پر لٹکا دیاگیا اور سخت سزائیں دی گئیں‘کیا سعودی عرب
یا کسی اور ملک کی جانب سے بھی کبھی اس طرح کا متشددانہ ردعمل کا اظہار کیا
گیا؟ یقینا کبھی ایسا نہیں ہوا۔ میں سمجھتاہوں کہ ایسے طرز عمل کی ہر کسی
کو حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایران میں سفارت خانہ
جلائے جانے کے بعد عراق میں بھی سعودی سفارت خانے پر راکٹ حملہ کیا گیاہے۔
اسی طرح پاکستان سمیت مختلف ملکوں میں سعودی عرب کیخلاف مظاہرے کئے جارہے
ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض افراد کی جانب سے بائیکاٹ حج
کا ٹرینڈ چلایا گیا جس پر سنی مسلمانوں نے شدید ردعمل کا اظہا رکرتے ہوئے
لبیک اللھم لبیک کا ٹرینڈ چلایا جو ٹاپ پر رہا تاہم اس دوران بعض نوجوان
فیس بک اور ٹویٹر پر سعودی عرب اور ایران کی حمایت میں ایک دوسرے کے ساتھ
الجھتے نظر آئے۔ عوامی سطح پر اس قسم کے ردعمل سے دوریاں پیدا اور نفرتیں
بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔بیرونی قوتیں تو پہلے ہی یہی چاہتی ہیں کہ مسلمان
ملکوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کیاجائے۔اس لئے ہمیں اس مسئلہ کو فرقہ
وارانہ رنگ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے اور کسی قسم کے ایسے اشتعال انگیز
ردعمل کا مظاہرہ نہیں کر نا چاہیے جس سے دشمنان اسلام کو اپنے مذموم ایجنڈے
پروان چڑھانے کا موقع ملتا ہو۔ حوثی باغیوں کے مسئلہ پر بھی ساری مسلم دنیا
ایک طرف اور ایران دوسری جانب ہے جبکہ حالیہ پھانسیوں کے معاملہ میں بھی
سعودی عرب کے بعد بحرین، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے سفارتی
تعلقات ختم یا محدود کرنے سے ایران سفارتی طور پرتنہا ہو رہا ہے۔اس لئے اسے
خود کو مسلم امہ سے الگ تھلگ نہیں رکھنا چاہیے ۔اس وقت سب سے زیادہ ضرورت
اس امر کی ہے کہ پوری مسلم دنیا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو ۔ سعودی عرب کی
قیادت میں مسلم دنیا کا جواتحاد تشکیل دیا گیا ہے‘ اسے سب مل کر مضبوط
بنائیں اورامریکہ، یورپ واسرائیل جو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر سرزمین
حرمین شریفین کا گھیراؤ اور وہاں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں ‘ مسلم ممالک کو
بھی چاہیے کہ وہ متحد ہو کران سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بھرپور کردارادا
کریں اوردہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سعودی عرب کی کھل کر مددوحمایت کی جائے۔ |