پردہ سکرین پر ہزاروں کو ایک ہی پل میں گولیوں سے چھلنی
کر دینے والا خود گوجرانوالہ کے قریب نامعلوم افراد کی گولیوں سے9 جنوری
1996ء کو لقمہ اجل بن گیا وہ دن پاکستان فلم انڈسٹری کے لئے ایک منحوس خبر
لے کر طلوع ہوا اس روز ایک پر امن ،پیار کرنے والا،ہمدرد،محبتیں بانٹنے
والا اور ملنسار انسان ظلم و بربریت کا نشانہ بن گیا مرحوم فلموں میں
ظالموں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوا کرتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے
ظالموں کے خون کی ندیاں بہا دیتا تھا لیکن جب خود کو ایک ہی گولی لگی تو
ڈھیر ہوگیا سڑک پر موت و حیات کی کشمش میں بے یارومددگارپڑا رہا ، کوئی اس
کی مدد کو نہ پہنچ سکااور بے بسی کی موت مارا گیا وہ جو ایک بڑھک لگا کر
دشمنوں کو بھگا دیتا تھا مرتے وقت سرگوشی تک نہ کر سکاحتی کہ اپنے ہمسفر کو
بھی آواز نہ دے سکااور چپکے سے نیند کی وادیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی
نیند سو گیا 9جنوری 1996ء کو چار دھائیوں تک پردہ سکرین پر حکمرانی کرنے
والافن کا سلطان ،سلطان راہی اپنے چاہنے والوں کو اکیلا چھوڑ گیا ،اچانک
موت سے پاکستان فلم اندسٹری کو تقریبا مجموعی طور پر ایک ارب روپے کا نقصان
اٹھانا پڑا ۔
فلم سٹار سلطان راہی 1938 میں پڑوسی ملک بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع
بجنورکے مظفر نگر میں پیدا ہوئے تھے ان کا اصل نام سلطان محمد تھا بعد ازاں
صدر راولپنڈی منتقل ہوگئے ہوش سنبھالا تو ’’ فلمیریا ‘‘ کے مریض بن گئے
مرحوم نے 1958ء میں پاکستان فلم انڈسٹری میں قدم رکھا انہوں نے فلموں میں
ایکسٹرا کے بے شمار رول کئے انتہائی ثانوی کرداروں میں جلوہ گر ہونے لگے
کہا جاتا ہے کہ مرحوم نے انڈسٹری میں اپنا مقام بنانے کے لئے بڑا عرصہ دھکے
کھائے ان کی بیشمارفلمیں ایسی تھیں جن میں صرف مرحوم کو ہی علم تھا کہ کس
جگہ ان کا شاٹ تھا مثال کے طور پر اگر کسی فلم کی شوٹنگ سربازار میں ہو رہی
ہے تو کیمرہ شوٹنگ دیکھنے والوں پر چلا گیا تو شوٹنگ دیکھنے والوں میں
سلطان راہی بھی شامل تھے تو وہ فلم بھی شمار ہو گئی یعنی انہوں نے ایسی
فلموں میں بھی کام کیا ۔
موقع کی مناسبت سے آج کے معروف ہدایت کار فلم ساز اور ہیرو جاوید شیخ کا
سچا واقعہ جو لطیفہ کی مانند ہے یاد آگیاجو کہ قارئین کے لئے حاضر خدمت ہے
یقینا آپ پڑھ کر محظوظ ہوں گے جاوید شیخ نے جب پہلی فلم میں کام کیا تو فلم
کی ریلیز کے موقع پرخوشی خوشی اپنے دوستوں کوفلم دیکھنے کی دعوت دے ڈالی
دوست احباب بڑے اہتمام سے فلم دیکھنے گئے فلم کے اختتام پہ دوستوں نے پوچھا
’’جیدی تم فلم میں کس جگہ تھے ہمیں تو کہیں نظر نہیں آئے ‘‘ تو شیخ صاحب نے
برجستہ جواب دیا
’’ فلم میں جو جلوس تھا میں بھی بقلم خود شامل تھا ‘‘
بالکل اسی طرح کے کردار مرحوم سلطان راہی نے ابتدائی سالوں میں بے شمار
فلموں میں ادا کئے تھے مرحوم ابھی فلم نگر میں نئے نئے آئے تھے اس وقت کے
ایک مشہور فلم ساز کے پاس گئے اور ان سے فلم میں کام مانگا تو اس فلم ساز
نے کہا ’’ یہ منہ(چہرہ) میری فلم میں کام نہیں کر سکتا‘‘ پھر ایک وقت ایسا
بھی آیا کہ پاکستان فلم اندسٹری میں آغا جی کا ڈنکا بجنے لگا تو وہی فلم
ساز سلطان راہی کے پاس گئے اور انہیں اپنی نئی فلم میں بطور ہیرو کام کرنے
کی آفر کی تومرحوم نے موقع کی مناسبت سے پرانی انہی کی کہی ہوئی بات دہرائی
’’ یہ منہ(چہرہ) آپ کی فلم میں کام نہیں کر سکتا‘‘مرحوم نے مرتے دم تک اس
فلم ساز کی کسی بھی فلم میں کوئی بھی رول نہیں کیا
1968
ء میں ہدایت کار حید چوہدری نے اپنی فلم ’’بدلہ‘‘ میں پہلی بار مکمل ولن کے
طور پہ پیش کیا یہ ایک نغماتی اور کامیاب فلم تھی
1971ء میں نامور ہدایت کار اقبال کاشمیری کی ’’بابل‘‘ میں ایک بدمعاش کا
کردار اداکیا یہی فلم سلطان راہی کو منظر عام پہ لے آئی تھی جس کا مشہور
گانا یہ تھا’’ میں کھولاں کہڑی کتاب نوں میں کہڑا سبق
پڑھاں‘‘۔انورا،ٹھاہ،خان چاچا،دھی رانی،جناب عالی،عشق دیوانہ،دو پتر اناراں
دے ،دنیا مطلب دی یہ وہ فلمیں تھی جس میں ان کی فلم نگر میں شناخت ہوئی اور
ان فلموں میں بطور ولن کام کیا 1972 ء میں’’بابل‘‘ کے بعد ہدایت کار اسلم
ڈار کی فلم ’’ بشیرا‘‘ نے تو مرحوم کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اس فلم
کا مشہور گیت تھا ’’ بنوں رانی بڑی دلگیر وے‘‘۔حمید چوہدری کی اردو فلم
’’زندگی کے میلے‘‘پہلی فلم تھی جس میں مرحوم نے بطور ہیرو کام کیا انہوں نے
کئی اردو فلموں میں یادگار رول ادا کئے مگر ان کی جسمانی ساخت اردو فلموں
والی نہ تھی ’’راستے کا پتھر ‘‘میں ان کا رول ینگ ٹو اولڈ تھا جو انہوں نے
بڑی خوب صورتی سے نبھایا اس فلم کے ہیرو وحید مراد تھے ہدایت کار ایم اکر م
کی ڈائمنڈ جوبلی فلم’’سلطان ‘‘ نے انہیں فلم نگر کا’’ سلطان ‘‘ بنا دیا
1975ء میں ’’وحشی جٹ‘‘میں راہی صاحب گنڈاسہ لیکر پردہ سکرین پہ جلوہ گر
ہوئے اسی فلم کا اگلا حصہ ہدایت کار یونس ملک نے 11فروی1979کو ’’ مولا
جٹ‘‘بنا کر ریلیز کیاجو شاہکار بن گیا اس فلم نے فلم نگر میں ایک انقلاب
برپا کر دیا اس فلم نے کامیابی کے تمام ریکارتوڑ دیئے اس فلم میں راہی صاحب
نے ٹائٹل رول ادا کیا جبکہ ’’نوری نت‘‘ کا کردار مصطفی قریشی نے ادا کیا وہ
بھی امر ہوگیا ’’نواں آئیاں ایں سوہنیا‘‘نوری نت کا ایک مقبول ڈائیلاگ تھا
جو زبان زدعام ہوا ان دونوں کی جوڑی نے بے شمار کامیاب اور شاہکار فلمیں
پیش کیں1976میں انہوں نے ایک فلم ’’تقدیر کہاں لے آئی ‘‘بطور فلم ساز بنائی
جو شائقین فلم میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی
سلطان راہی نے اپنے چالیس سالہ فلمی کیریر میں 800سے زائد فلموں میں کام
کیا500فلموں میں ہیرو آئے ان کی مشہور فلموں میں بابل،بشیرا،وحشی
جٹ،مولاجٹ،جیرا سائیں ،وحشی گجر،جٹ دا کھڑاک،شیرخان،قیدی،چن وریام،سالا
ساحب ،شعلے،طوفان ،ضدی گجر،چوہدری بادشاہ اور قسمت ودیگر شامل ہیں یوں تو
سلطان راہی کے ساتھ بہت سے فلمی ہیروئن نے کام کیا شائقین فلم نے سب سے
زیادہ ان کے ساتھ آسیہ کو پسند کیا ’’مولا جٹ ‘‘ میں ’’مکھو جٹی ‘‘ کا رول
بھی آسیہ ہی نے ادا کیا تھا انجمن گوری اور صائمہ کو بھی ان کے ساتھ خوب
سراہا گیا ان کے بیٹے حیدر سلطان بھی فلم نگر میں آئے لیکن وہ پذیرائی نہ
مل سکی جو مرحوم کے خصہ میں آئی۔
مرحوم صوم و صلوۃ کے بہت پابند تھے ایک مرتبہ سردیوں میں ایک فلم کی آؤٹ
ڈور شوٹنگ کے لئے پہاڑی علاقے میں گئے ہوئے تھے فلم کی شوٹنگ کے بعد فلم
سٹار محمد علی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوئے ہوئے تھے رات کے پچھلے پہر
محمد علی کی آنکھ کھلی تو انہیں کمرے میں نہ پایا اور فکرلاحق ہوئی اتنی
سردی میں کہاں چلے گئے باہر تلاش کرنے کے لئے نکلے تو بہت حیران ہوئے راہی
صاحب دنیا سے غافل رب کائنات کے آگے سجدہ ریز تھے اس واقعہ سے بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ مرحوم کتنے سچے مسلمان تھے ایور نیو اسٹوڈیو میں انہوں
نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی انہوں نے کئی حج کئے اور تعلقات والے جوحج کرنے
کی استطاعت نہیں رکھتے تھے انہیں بھی اپنے خرچے پہ حج کرانے کی سعادت حاصل
کی ،ایسے غیر معروف اور معروف فنکارو ہنر مند جن کا چولہا نہیں جلتا تھا
انہیں ہر ماہ باقاعدگی سے خرچہ دیا کرتے تھے کیونکہ رب کائنات نے ان کے دل
میں غریبوں کے لئے ہمدردی اورنرم گوشہ پیدا کر رکھا تھااﷲ رب العزت مرحوم
کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس
میں اعلی مقام دے آمین ثم آمین۔ |