ایکشن فلموں کے سلطان کا اصل نام سلطان محمد تھا
اور وہ سلطان راہی کے نام سے مشہور ہوئے ۔1938 ء کو ہندوستان کے شہر سہارن
پور( اتر پردیس ) میں پیدا ہوئے ۔پاکستان ہجرت کر کے آئے پہلے کراچی پھر
راوالپنڈی میں رہے ۔اس کے بعد لاہور شفٹ ہوگئے ۔سلطان راہی کا تعلق آرائیں
فیملی سے تھا ۔انہوں نے کل 804 فلموں میں کام کیا ۔(بعض جگہ 500 کہیں 700
تعداد لکھی ہوئی ہے جو کہ غلط ہے حتی کہ ان پر شائع ہونے والی کتاب میں بھی
تعداد غلط درج ہے، سنجیدہ محققین نے تحقیق کے بعد 804 فلموں کی تعداد بتائی
ہے )جن میں سے 100 سے زائد اردو اور باقی پنجابی ۔500 فلموں میں بطور ہیرو
کے اداکاری کی ۔اورکم و بیش 100 میں بطور ولن کام کیا ۔جب ان کو قتل کیا
گیا ان کی عمر 58 سال تھی اور تقریبا 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔
سلطان راہی نے 50کی دہائی یعنی 1956 میں ایک بہت ہی معمولی کردار سے اپنے
فلمی سفر کا آاغاز کیا ۔جہاں بہت سی ناکامیوں نے ان کا استقبال کیا ۔انہوں
نے اس دور میں اسٹیج ڈراموں میں بھی کام کیا ۔دو وہائیوں تک مسلسل محنت
کرتے رہے اور وہ 70 کی دہائی میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے ۔
وہ ولن اور ہیرو دونوں روپ میں مشہور ہوئے ،لیکن بطور ہیرو انہیں زیادہ
پسند کیا گیا ۔ان کی جوڑی مصطفے قریشی اور انجمن کے ساتھ بہت مقبول ہوئی ۔پہلے
چھوٹے چھوٹے کردار کرتے رہے، جیسے ،فلم ’’چاچاجی ‘‘اور’’خون کا رشتہ‘‘
وغیرہ اور پھر فلم’’ بدلہ‘‘ میں ولن کا کردار کیا ۔1970 ء میں رنگیلا کی
اردو کی مشہور فلم ’’رنگیلا ‘‘میں بھی ولن کا کردار ادا کیا ۔اس کردار میں
ان کو بہت پسند کیا گیا، اس کے بعد 1971 میں فلم’’ بابل ‘‘میں اداکاری کے
جوہر دکھائے ۔یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ہوئی ۔اور پھر ان کی محنت اور قسمت
رنگ لے آئی ۔ ان کو فلم ’’بشیرا‘‘ میں کاسٹ کر لیا گیا جو کہ 1972 ء میں
ریلیز ہوئی اور اس فلم بشیرا نے پورے ملک میں دھوم مچا دی، جن میں ان کے
کردار کو آج بھی سراہا جاتا ہے ۔
پھر احمد ندیم قاسمی کے ناول گنڈاسہ پر بننے والی فلم ’’وحشی جٹ ‘‘نے ملک
میں دھوم مچائی تو سلطان راہی صف اول کے اداکار بن گئے، اب ان کا نام فلم
کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا ۔1972ء فلم بشیرا ۔اور 1975 ء وحشی جٹ
نے ان کی زندگی کا راستہ متعین کر دیا ۔ اس کے بعد باقی زندگی وہ ہاتھ میں
گنڈاسہ پکڑے دشمنوں سے لڑتے رہے 1976 میں فلم’’ طوفان‘‘ ریلیز ہوئی تو اس
نے طوفان اٹھا دیا ،اس فلم کی خاص بات اس کا انگریزی فلموں جیسا ٹریٹمنٹ
تھا، اس فلم میں ان کا کردار ذرا مختلف تھا ،اس لیے بہت پسند کیا گیا ۔اسی
سال مصطفی قریشی کے ساتھ سلطان راہی کی فلم’’ لائسنس ‘‘نے بھی تہلکہ مچا
دیا ۔مصطفی قریشی حقیقی معنوں میں اس فلم میں مشہور ہوئے ۔
اور ان کی سلطان راہی کے ساتھ جوڑی بنی اس کے بعد۔ 1978 ء میں مولا جٹ نے
اتنی کامیابی حاصل کی، جس کی مثال دینا مشکل ہے ۔مولاجٹ تے نوری نت نے ملک
گیر شہرت حاصل کی، یہ آج تک لافانی کردار سمجھے جاتے ہیں ۔مصطفی قریشی کی
جگہ ہمایوں قریشی آئے آسیہ کی جگہ انجمن نے پر کی مگر سلطان اپنی جگہ پر
قائم رہے ۔انجمن نے جب فلموں کو خیر باد کیا تو اس کی جگہ صائمہ نے لے لی ۔صائمہ
سلطان راہی کی آخری ہیروئین تھی ۔
آسیہ،صائمہ،گوری،نیلی،بابرہ شریف،انجمن ،ممتاز،عالیہ وغیرہ نے سلطان راہی
کے ساتھ بطور ہیروئین کام کیا ۔سلطان راہی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان
کی ایک ہی دن 12 اگست 1981کو پانچ فلمیں ،شیر خان ،ظلم دا بدلہ،اتھراپتر،چن
وریام اور سالا صاحب ریلیز ہوئی تھیں،جنہوں نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کر
دئیے۔
سلطان راہی اردو فلموں کے لیے ان فٹ نہیں تھے، جیسا کہ ان کے لیے عام طور
پر کہا جاتا ہے، انہوں نے بہت سی اردو فلموں میں کام کیا جن میں سے درج ذیل
بہت مشہور ہوئی مثلا’’ ان داتا’’راستے کا پتھر‘‘دل لگی‘‘اور ’’آگ‘‘وغیرہ
اردو فلموں میں انہوں نے منفرد کردار ادا کئے ۔ایک اردو فلم جاسوس میں
ممتاز کے مقابل ہیرو آئے اور رومانٹک کردار ادا کیا ۔اصل میں ان پر ایک
مخصوص چھاپ لگا کر ایک جیسی فلمیں بنائی گئیں ۔ جس میں ان کا قصور نہیں ہے
۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو استعمال نہ کیا گیا ۔جس
کردار میں وہ ایک بار لوگوں کو پسند آئے پھر وہی کردار ان کو دے دیا گیا ۔ان
کی بہت سی فلمیں بھی ایک جیسی ہیں، جن کی کہانیاں بھی ایک جیسی ہیں ۔صرف
نام یا گانے مختلف ہیں ۔یہ خامی اب شان کی فلموں میں بھی ہے ۔فلموں میں ہی
کیا ہمارے ہاں تو سیاست میں بھی ایسا ہی ہے ۔
فلموں میں بدمعاشی تو ان کا ایک کردار تھا ،جو کہ اس معاشرے میں انصاف نہ
ملنے کی وجہ سے اسے پسند کیا گیا۔ فلموں میں سلطان راہی اپنا انصاف لینے کے
لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا کرتے ۔ان کے گنڈاسے سے عدلیہ ،پولیس،بدمعاش
،جاگیر دار ،سرمایہ دار نہ بچ سکتے تھے ۔بعض فلموں میں وہ خود کو آخر میں
قانون کے حوالے کر دیتے تھے ۔بعض میں دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے وہ
خود بھی قتل ہو جاتے ۔
لیکن حقیقی زندگی میں وہ بطور انسان ایک خدا ترس ،نیک ،درویش صفت ،انسان
تھے ۔پوری زندگی زمین پر سوئے ،کھانے میں جو بھی ملتا کھا لیتے ۔انہوں نے
انتہائی غربت سے زندگی کی ابتدا کی اور تنگی کے بعد آسانی بھی دیکھی ۔انہوں
نے بہت سے حج کئے ۔اپنے گھر میں ایک مسجد بنائی۔ ایک مسجد سٹوڈیو کے اندر
بھی تعمیر کروائی۔ وہ غریبوں کی مدد کو فرض سمجھتے تھے۔ ایک بار انہوں نے
کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ غربت کس بلا کا نام ہے ۔اس لیے غریبوں کی مدد کو
اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سلطان راہی کا نام ورلڈ ریکارڈگینزبک میں درج ہے
۔لیکن میری تحقیق کے مطابق سلطان راہی دنیا کی سب سے زیادہ فلمیں بنانے
والے ایک ہی ہیرو کے طور پر دوسرے نمبر پر ہیں کیونکہ ان کی 804 فلمیں ہیں
،جب فوت ہوئے تو 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں اگر ان کی تکمیل ہو جاتی تو وہ
دنیا کے سب سے زیادہ فلموں میں کام کرنے والے ورلڈ ریکارڈگینزبک ادکار کے
طور پر میں درج ہو جاتے فعل حال سب سے زیادہ فلموں میں اداکار کے طور پر
کام کرنے والے جنوبی ہندوستان کے ایک اداکار کا نا م ورلڈ ریکارڈگینزبک میں
درج ہے انہوں نے 857 فلموں میں کام کیا تھا۔
سلطان راہی پر ایک کتاب بھی لکھی گئی ’’سلطان راہی ۔پاکستانی فلموں کا
سلطان ‘‘ یہ کتاب جناب زاہد عکاسی نے تحریر کی اس کتاب میں بے پناہ اغلاط
موجود ہیں ۔ درست معلومات تک درج نہیں ایسے جیسے جلدی میں کتاب مکمل کی گئی
ہو ۔یہاں تک کہ فلموں کی مکمل فہرست ،زندگی کے حالات تک درست طور پر اس میں
درج نہیں ہیں ۔ضرورت اس کی ہے کہ سلطان راہی پر ایک کتاب لکھی جائے جس میں
فلمی صنعت کے اس لافانی کردار کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔اور درست
معلومات اس میں درج ہوں ۔
سلطان راہی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کو ڈیڑھ سو سے زائد فلمی ایوارڈ
ملے۔اور وہ چار دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔
سلطان راہی اپنی ہر فلم میں 10سے 600 تک افراد کو موت کی نیند سلاتے
رہے۔فلم سٹارآسیہ کے ساتھ کی جوڑی بن گئی اور سلطان راہی غیرت کی علامت بن
گئے ۔یعنی جاگیرداروں ،سرمایہ کاروں کے خلاف عوام میں جو نفرت پائی جاتی
تھی اس کا استعارہ بن گئے ۔اس طرح ملک میں پسے ہوئے ،غریب ،مفلس عوام کی
آواز بن گئے ۔ظالموں ،جابروں ،پولیس کے غنڈوں کو موت کی نیند سلاتے ہوئے،
جب ان کو عوام دیکھتی جو خود تو کچھ نہیں کر سکتی تھی اس ظالم نظام سے ٹکرا
نہیں سکتے تھے ۔ لیکن ان کے دلوں میں جاگیرداروں ،وڈیروں ،پولیس کے خلاف جو
نفرت پائی جاتی تھی سلطان راہی کو جب ان کی مٹی پلید کرتے ہوئے دیکھتے تو
ان کے دل کی بھڑاس نکل جاتی تھی ۔یوں وہ غریب و مفلس ،مظلوم و لاچار عوام
کے ہیرو بن گئے ۔
مصطفی قریشی نے ایک بار کہا تھا کہ ’’مجھے سلطان راہی محروم کی آج بھی شدت
سے یاد آتی ہے‘‘ ۔الیاس کشمیری کا سلطان راہی کی وفات پر کہنا تھا کہ’’ آج
فلم انڈسٹری یتیم ہو گئی‘‘ ۔صائمہ نے کہا کہ ’’مجھے اس مقام تک پہنچانے میں
سلطان راہی نے بہت اہم کردار ادا کیا‘‘ سلطان راہی کو 9 جنوری 1996 میں
پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ کے نزدیک نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل
کر دیا ۔وہ اسلام آباد سے لاہور آ رہے تھے ۔اب تک ان کے قاتلوں کا سراخ
نہیں لگایا جا سکا ۔جب ان کو قتل کیا گیا ان کی عمر 58 سال تھی اور تقریبا
54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔
ان کی نجی زندگی ،بچپن ،وغیرہ کے بارے میں زیادہ تر خاموشی پائی جاتی ہے
۔نہ ہی خاندان میں کوئی اور اتنی شہرت حاصل کر سکا، ہاں ان کا ایک بیٹا
حیدرسلطان کسی حد تک مشہور ہوا۔شائد ایک دو فلموں میں کام بھی کیا اور ٹی
وی پر بھی اداکاری کی ،لیکن زیادہ شہرت حاصل نہ کر سکا ۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے ،ان کی چند کامیاب فلموں کی نامکمل فہرست (جگہ کی
تنگی کے باعث )بالترتیب دی جارہی ہے ۔1971 میں دل اور دنیا ،خان چاچا۔1972
میں سلطان ،بشیرا،بنارسی ٹھک۔1973 میں زرق خان،مغلز کشمیری،دل لگی۔1974 میں
الٹی میٹم،راستے کا پتھر،دادا،سدھا رستہ ۔ 1975 وحشی جٹ،شریف بدمعاش۔طوفان
۔1976 میں جگا گجر ،لاہوری بادشاہ۔1977 میں قانون ،جیرا سائیں ۔1978 میں
مولاجٹ،رنگا ڈاکو،جٹ سورما۔1979 میں وحشی گجر،گوگا شیر۔1980 میں بہرام
ڈاکو،بائیکاٹ،ہٹلر ،انوکھا داج،شیر میدان دا،ملے گا ظلم دا بدلہ،جی دار،جٹ
ان لندن ۔1981 میں شیر خان ،ظلم دا بدلہ،اتھراپتر وریام ،چن وریام ، سالا
صاحب ،دو بگھا زمین۔1982 میں رستم،راکا،لاوارث،دارا بلوچ۔1983 میں رستم خان
،مراد خان ،شان ،بگھی شیر،کالیا ،شعلے ۔1984 میں قاتل حسینہ،جابر
خان،قسمت۔1985 میں عجب خان ،جگا۔1986 میں قیدی ،اﷲ رکھا ،قیمت۔1987 میں
دلاری ،ناچے ناگن،مولابخش،بادل ،مفرور۔1988 میں روٹی ،حکومت،حسینہ
420۔1989میں کالکا،بلاول،سلطانہ،
ڈکیٹ،رنگیلے جاسوس،مجرم ،خدا بخش۔1990 میں کالے چور،شیر دل۔1991 میں چراغ
بالی،بدمعاش ٹھگ،قاتل قیدی۔ 1992 میں ماجھو۔1994 بالاپیرے دا۔1996 سخی
بادشاہ۔ |