بحرین میں خواتین کے حقوق پر سیمینار
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
میرے ماموں جو کہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور اچھی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں اور میری آمی کو نانا کی جائیداد میں حصہ دینے کیلئے کاغذات لائے ہیں- خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنے ماموں کو کہتا ہوں کہ میں ان کے خلاف کیس بھی واپس لے لونگا-اور پھر یکدم دوست کی آواز سنائی دی کہ بھائی کیا آج جلدی اٹھے ہو اور پھر خواب ٹوٹ ہی گیا- فجر کی نماز کیلئے اذان دی جارہی تھی اور موذن کہہ رہا تھاکہ آؤ فلاح کی جانب ‘ اور میں یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا کہ کاش ہم سب فلاح کی طرف روانہ ہو اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں اپنی بہنوں ‘ ماؤں اور بیٹیوں کے حقوق بھی پورے کرسکیں- |
|
ناشتے میں انڈے کیساتھ پڑے جیم کے بوتل کو
دیکھ کر دل بہت للچایا کہ اب توجیم جیلی کو بھی چیک کرلو کہ آخر اس کا
ذائقہ کیسا ہے - اور جب ذائقہ چیک کیا تو بہت مزہ آیا لیکن اس کی پیکنگ عام
سی تھی اس لئے میں سمجھا کہ شائد پاکستان کے سوئٹزر لینڈ کی حیثیت سے جانے
جانیوالے سوات میں شائد جیم جیلی کیلئے یہی پیکنگ ملتی ہوگی-اس لئے زیادہ
سوال نہیں کئے اور ناشتہ کرلیا- ناشتہ ختم کرنے کے بعد میزبان سے پوچھا کہ
یہ جام جیلی بہت زبردست ہے لیکن اس کی پیکنگ عام مارکیٹ میں بننے والی
پیکنگ سے بہت مختلف ہے اس کی کیا وجہ ہے تو میرے ساتھی کے جواب نے مجھے یہ
کہہ کر حیران کردیا کہ یہ ان کے تربیتی سنٹر میں مقامی خواتین نے دوران
تربیت تیار کی ہیں جس کی تربیت ان کا ادارہ مقامی طور پر خواتین کو دے رہا
ہے- اس سے زیادہ حیران کن امر میرے لئے یہی بات تھی کہ تربیتی سنٹروں میں
خواتین جام جیلی سے لیکر اچار تک خود تیار کرلیتی ہیں لیکن انہیں مارکیٹ تک
رسائی حاصل نہیں- تاہم انہیں مواقع فراہم کرنے کیلئے ابھی کاوشیں کی جارہی
ہیں-
دو دن قبل میرے ایک عزیز دوست نے مجھے فون کیا کہ ان کے ادارے کا ایک
سیمینار ہے او ر اس کیلئے مجھے بھی دعوت ہے- یہ سیمینار مدین کے علاقے میں
ہورہی تھی-جس میں خواتین کی حقوق پر بات ہوگی- مدین کی موسم کا تو پتہ ہی
تھا اس لئے پشاور سے کار میں بیٹھ کر مینگورہ کا رخ کیا-پشاور میں سی این
جی کی سہولت ہم شہریوں کیلئے کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ سخاکوٹ میں سی
این جی پمپوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاروں سے پتہ لگا-کیونکہ پشاور سے سی این
جی فل کرکے جانیوالی گاڑیوں کو سوات میں سی این جی نہیں ملتی اس لئے وہ
وہاں پر گاڑیوں کی فلنگ کرتی ہیں تاکہ واپسی پر انہیں آسانی ہو-سب سے زیادہ
ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے ساتھ بچے یا خواتین ہوتی ہیں اور وہ ان گاڑیوں
میں انتظار کرتے ہیں- چار سال قبل تک طالبانائزیشن کا شکار رہنے والے
مینگورہ سے مدین تک رات کا سفرمشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر جگہ پر باقاعدہ چیکنگ
ہوتی ہیں کہ باہر سے کوئی نہیں آرہا - اور اگر کوئی باہر سے آرہا ہے تو پھر
اسے اپنی رجسٹریشن بھی انہی چیک پوسٹ پر کرنی پڑتی ہے -
مدین جا کر پتہ چلا کہ سردی تویہاں پر منفی چار ڈگری سینٹی گریڈ پڑتی ہے-جس
جگہ پر سونے کا انتظام تھا وہاں پرایل پی جی گیس سلنڈر لگی تھی لیکن اتنی
سردی تھی کہ کمرہ گرم ہی نہیں ہورہا تھا- شکر ہے کہ میزبان نے اخروٹ ‘ مونگ
پھلی اور سیب رکھے تھے وہ سب میں نے کھا لئے کیونکہ دن بارہ بجے سے خالی
پیٹ سوات جانے کیلئے نکلا تھا کیونکہ ڈر تھا کہ کہیں قے )الٹی( کا مسئلہ نہ
ہو - بچپن سے لمبے سفر میں یہی مسئلہ ہے پتہ نہیں یہ مسئلہ ہم شہریوں کو
کیوں ہوتا ہے شائد یہ نفسیاتی مسئلہ ہے لیکن اس کا نقصان یہی ہوتا ہے کہ
پشاو سے سوات کا سفر جو کہ چھ گھنٹے تک کا ہے مسلسل خالی پیٹ رہنے سے چوہوں
نے لمبی ریس شروع کردی تھی اخروٹ اور مونگ پھلی نے ریس ختم کردی-
صبح اٹھ کر پتہ چلا کہ پروگرام مدین کے بجائے بحرین میں ہے اسلئے وہاں جانا
پڑے گا- منفی چار ڈگری سینٹی گریڈ میں مدین سے بحرین جانے کا سفر تو بہت
مشکل ہے راستے میں پتہ چلا کہ اس علاقے میں چینی کمپنی بجلی بنانے کے
منصوبے پر کام کررہی ہیں اور علاقے سے گزرنے والی سڑک جو کسی زمانے میں
خراب تھی اب اتنی زبرست تعمیر کی گئی ہیں کہ مدین سے بحرین تک سفر کا مزہ
آتا ہے - سردی کی موسم میں کوئی مشکل سے یہاں پر آتا ہے وہ بازار جو سیزن
میں لوگوں کی رش کی وجہ سے ٹریفک کا مسئلہ پیدا کرتا ہے ان دنوں میں
قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوتی ہیں- بحرین آکر یہ بھی پتہ چلا کہ چونکہ
یہاں کے نوجوان بھی رات گئے" فیس بک" پر مصروف رہتے ہیں اس لئے یہاں کی صبح
گیارہ بجے ہوتی ہیں اس علاقے کے رہائشی کچھ لوگ کراچی جبکہ بعض بیرون ملک
مقیم ہوتے ہیں اس لئے نوجوانوں کی سرگرمیاں سوشل میڈیا پر زیادہ ہیں- شائد
یہی وجہ ہے کہ یہاں آکر پتہ چلا کہ شانگلہ کے نوجوان کیساتھ فیس بک پر
دوستی کرنے والی خاتون امریکہ سے اس کے پیچھے چلی آئی-واہ رے قسمت...
خواتین کو تعلیم کا حق دینے سمیت انہیں شادی میں مرضی کا دینے سے متعلق
سیمینار میں باتیں تو بہت ساری ہوئی-سب سے خوبصورت بات یہی تھی کہ پاک فوج
کے نمائندگی بھی وہاں پر تعینات ایک کیپٹن نے کردی جس سے اندازہ ہوگیا کہ
پاک آرمی نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کیلئے پرعزم ہے بلکہ وہ معاشرتی
مسائل پر بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں اور وہ سوات جیسے علاقے میں- جو کہ
خوش آئند اقدام ہے - سب سے خوبصورت بات یہاں سے منتخب ہونیوالے مقامی
حکومتوں کے نمائندے تھے جنہوں نے علاقے کے مشران کی موجودگی میں یہ قرارداد
پیش کی کہ جو خواتین صنفی تشدد کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی حکومت نے 2011ء
میں بنائے ہیں انہیں پاٹا بالخصوص سوات تک توسیع دی جائے تاکہ اس علاقے میں
پائی جانیوالی تعلیمی پسماندگی ختم ہو اور خواتین کے بہت سارے مسائل جسے ہم
"دا پختنو معاشرہ دہ"کہہ کر چھپاتے ہیں پر بات کی-اور اس حوالے سے ایک
قرارداد بھی منظور کی گئی جسے باقاعدہ طور پر حاضرین نے پڑھ کر سنایا-
مقامی حکومتوں میں منتخب ہونیوالے ایک باریش صاحب کی سب سے خوبصورت بات تو
یہی تھی کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کی مثال دی-
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ نبی
آخر زمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی کا رشتہ تو آسمان پر طے ہوا تھا
اور وحی بھی آئی تھی لیکن پھر بھی پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے
بیٹی کوبلا کر اس سے انکی مرضی معلوم کی- مقامی لوگوں کی نمائندگی کرنے
والے افراد نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو حق وراثت
سے محروم رکھتے ہیں- اور ہم اسے پختون ولی کا نام دیتے ہیں کہ پٹھانوں کے
معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے حالانکہ یہ اقدام نہ صرف اسلام بلکہ پختونوں کے
شان کے بھی خلاف ہیں- سیمینار میں سب سے خوبصورت بات یہی تھی کہ شہروں میں
مختلف عہدوں سے مقامی حکومتوں کیلئے منتخب ہونیوالے نمائندے اختیارات اور
فنڈز کی بات کرتے ہیں لیکن بحرین جیسے علاقے میں جہاں تعلیم ‘ ترقی کی شرح
بہت کم ہیں وہاں پر منتخب نمائندے خواتین کو حقوق دینے سمیت ‘انہیں تعلیم
اور مرضی کی شادی دینے سے متعلق قوانین کو اپنے علاقے میں لاگو کرنے کا
مطالبہ کررہے تھے- علاقے کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور سب ڈویژنل پولیس
آفیسر نے علاقے میں جرائم کی شرح میں کمی پر بات بھی کی لیکن انہوں نے ساتھ
میں یہ بھی کہا کہ تعلیم یافتہ ماں ہی مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے- جسے وہاں
پر موجود لوگوں نے بہت سراہا-مقامی خواتین کو تربیت دینے والی ایک خاتون کے
بقول مقامی خواتین کو اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ان سے شادی جیسے اہم
مسئلے پر کوئی پوچھتا بھی نہیں- جبکہ اس کمیونٹی میں یہ بات بے عزتی کی
سمجھی جاتی ہے کہ کوئی خاتون دوسرے خاتون کو اپنے ساتھ ہونیوالی تشدد پر
بات کرے کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے لوگ مجھ پر ہنسیں گے - اس خاتون
کے بقول جب بھی ایسی کوئی خاتون آتی ہے تو تشدد کی بات کرتی ہیں تو ہم ان
سے کہتے ہیں کہ آپ خود بھی تبدیل ہوں شائد آپ کی تبدیلی آپ کے میاں او ر
گھر والوں کے روئیے کو تبدیل کردے-
پروگرام میں سب سے آخر میں کھانے کا پروگرام تھا جہاں پر آکر پتہ چلا کہ ہم
کچھ معاملات میں بھی صنفی امتیاز برتتے ہیں جو کھانا خواتین کو پہلے دینا
چاہئیے تھے انہیں شرکاء پروگرام کے کھانے کے بعد دیا گیا دلیل تو پروگرام
ترتیب دینے والے دوست نے اچھی دی کہ یہ یہاں کے رواج کے خلاف ہیں کہ مرد
بعد میں کھائیں اور خواتین پہلے جبکہ دوسرے مہمان پہلے کھاتے ہیں بعد میں
میزبان کھانا کھاتے ہیں-پروگرام ترتیب دینے والے دوست کے اس تشریح کو ٹھیک
ہے کہہ کرمیں تو نکل آیالیکن اس معاملے میں پاک فوج کی خوبصورت بات یاد آئی
کہ کسی بھی پروگرام میں سب سے پہلے خواتین کو ہی کھانا سرو کیا جاتا ہے -
جس ہوٹل میں پروگرام ترتیب دیا گیا تھا وہاں پر انٹرنیٹ کی سہولت بھی خیر
خیریت تھی شکر ہے کہ مقامی دوست نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا کیونکہ خبر
بھیجنا سب سے بڑا مسئلہ تھا- رات کو ایک دوست نے ٹراؤٹ مچھلی کھلانے کا
پروگرام بنایا تھا سرد پانی میں پائی جانیوالی ٹراؤٹ مچھلیاں دو ہزار روپے
فی کلو تک ملتی ہیں اور اس میں کانٹے نہیں ہوتے جبکہ اس کو کھانے کا اپنا
ہی مزا ہے-ہمارے ایک میزبان دوست اتنے بدقسمت نکلے کہ باتوں باتوں میں پتہ
چلا کہ موصوف مچھلی کا شکارتو شوق سے کرتے ہیں لیکن مچھلی کھانہیں سکتے
بقول ان صاحب کہ وہ دودھ بھی نہیں پی سکتے اور میں دل ہی دل میں اسے بدقسمت
خیال کرتا رہا کہ اللہ تعالی کی اتنی خوبصورت نعمتوں سے محروم رہنا بھی
کتنی بدقسمتی کی بات ہے-لیکن اسے نصیحت بھی کی کہ صبر کرو ڈئیر شادی ہو
جائیگی تو پھر ہماری طرح ہو جا ؤ گے - شادی سے پہلے ہم بھی ایسے ہی تھے اب
توشلجم ٗ توری ٗ کدو سمیت بیگم کی باتوں کی مار بھی خوشی سے کھاتے ہیں اور
وہ میزبان سر ہلا کر کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گیا-ٹراؤٹ کھانے کے
بعد گپ شپ کرتے ہوئے سو گیا او رپھر ..... میرے ماموں جو کہ اعلی تعلیم
یافتہ ہیں اور اچھی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں اور
میری آمی کو نانا کی جائیداد میں حصہ دینے کیلئے کاغذات لائے ہیں- خواب میں
دیکھتا ہوں کہ میں اپنے ماموں کو کہتا ہوں کہ میں ان کے خلاف کیس بھی واپس
لے لونگا-اور پھر یکدم دوست کی آواز سنائی دی کہ بھائی کیا آج جلدی اٹھے ہو
اور پھر خواب ٹوٹ ہی گیا- فجر کی نماز کیلئے اذان دی جارہی تھی اور موذن
کہہ رہا تھاکہ آؤ فلاح کی جانب ‘ اور میں یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا کہ کاش
ہم سب فلاح کی طرف روانہ ہو اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں اپنی
بہنوں ‘ ماؤں اور بیٹیوں کے حقوق بھی پورے کرسکیں- |
|