مفتی کے شوقین... خدمت اور ڈیوٹی

لوگوں کے پیسوں پر پلنے والے ان جیسے لوگ اپنے آپ کو ہرچیز سے مبرا سمجھتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکے گا اور اگر کوئی کہنے کی کوشش کریگا تو "کار سرکار " میں مداخلت کے الزام میں "اندر" کرنا کونسا مشکل کام ہے-مفت خوری کے اس کام میں غلطی صرف ان پولیس اہلکاروں کی نہیں ان لوگوں کو مفت خوراک فراہم کرنیوالوں کا بھی قصور ہے جو معمولی چائے ‘ پراٹھا کہہ کر انہیں حرام خوری کا موقع فراہم کرتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہی لوگ لاکھوں ‘ کروڑوں روپے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اور سارا معاشرہ کرپشن کے اس گند میں لتھڑ جاتا ہے
ابے وہ....کے بچے ... گاڑی سائیڈ پر کرلو ....سٹاپ پررش بن رہا ہے. یہ کہنا تھا کہ پولیس اہلکار کا‘ جو پشاور کے ایک معروف شاہراہ کے سٹاپ کے سائیڈ پر بنے ہوٹل میں کھڑا چائے پی رہا تھا اس کے ساتھ اس کا ساتھی بھی چائے ‘ ملائی اور پراٹھے کھا رہاتھا- ایک اہلکار نے کلاشنکوف میز پر رکھی تھی اور چائے پی رہا تھا جبکہ دوسرے جس کے ہاتھ میں جرمانے لگانے والی کاپی تھی وہ بھی چائے پی رہا تھا-

کھڑے ہو کر چائے پینے والا اہلکار نے کالے رنگ کی عینک لگا رکھی تھی اور اس نے مخصوص وردی پہن رکھی تھی جسے حال ہی میں خیبر پختونخواہ کے وارڈ سسٹم کیلئے متعارف کروایا گیا ہے دونوں انہی عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے جوان تھے اور باقاعدہ گالیوں سے سٹاپ پر آنیوالی ٹیکسیوں کو نواز رہے تھے چونکہ دونوں چائے پی رہے تھے اس لئے وہ گالیوں اور اشاروں سے سٹاپ پر آنیوالی گاڑیوں کو کنٹرول کررہے تھے تاکہ ان کا پیٹ بھی چلتا رہے اور ٹریفک کی روانی میں بھی کوئی فرق نہ آئے-

گالی کھا کر گاڑی کھڑی کرنے کی کوشش کرنے والا ٹیکسی ڈرائیور موٹر کار لیکر بھاگ گیا جبکہ چائے پی کر سگریٹ سلگانے کے بعد ٹریفک اہلکار واپس آکر سڑک کنارے کھڑا ہوگیا اور گاڑیوں کو کنٹرول کرنے لگا- میں دور سے اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے والا اہلکار شائد اپنی چائے ‘ پراٹھوں اور ملائی کے پیسے دے لیکن وہ بھی باپ کا مال سمجھ کر اٹھ گیا اور وہ بھی اسی سٹاپ پر کھڑا ہو کر عوام کی " خدمت "کرنے لگا- میں ہوٹل والے کے پاس گیا کہ پوچھو کہ چائے کس کھاتے میں دے رہے ہو تو ہوٹل والا آئیں بائیں شائیں کرنے لگا میرے سوالات کی وجہ سے وہاں پر موجود ایک ہوشیار شخص جو اسی ہوٹل سے تھا کہنے لگا اگر دو پراٹھوں ‘ ملائی اور چائے کے ایک چینک پر جان چھوٹتی ہے تو پھر بھی خیر ہے- اس کے بعد کسی نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی اور ہوٹل کے لوگ ایک سائیڈ پر ہوگئے-

لوگوں کے پیسوں پر پلنے والے ان جیسے لوگ اپنے آپ کو ہرچیز سے مبرا سمجھتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکے گا اور اگر کوئی کہنے کی کوشش کریگا تو "کار سرکار " میں مداخلت کے الزام میں "اندر" کرنا کونسا مشکل کام ہے-مفت خوری کے اس کام میں غلطی صرف ان پولیس اہلکاروں کی نہیں ان لوگوں کو مفت خوراک فراہم کرنیوالوں کا بھی قصور ہے جو معمولی چائے ‘ پراٹھا کہہ کر انہیں حرام خوری کا موقع فراہم کرتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہی لوگ لاکھوں ‘ کروڑوں روپے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اور سارا معاشرہ کرپشن کے اس گند میں لتھڑ جاتا ہے-

مفت کھانے کی عادت صرف پولیس اہلکاروں تک محدود نہیں - مال مفت دل بے رحم کے مصداق اس چکر میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں - پشاور میں کسی زمانے میں اعلی انتظامی عہدوں پر تعینات رہنے والے ایک شخصیت جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ بھی مفت خور ہیں- بھاری بھر کم شخصیت ‘ سفید داڑھی اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس شخص کسی بھی سیمینار ‘ ورکشاپ ‘ تربیتی پروگرام جوکہ مختلف ہوٹلوں میں ہوتے ہیں کو دیکھ کر آپ حیران ہونگے کہ آخر ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس شخص میں کونسی ایسی خاصیت آگئی ہے کہ ہرجگہ یہی موصوف نظر آتے ہیں اور وہ بھی جہاں پر خصوصی طور پر کھانے پینے کا پروگرام ہو - پروگرام کے اختتام پر جب کھانے کا دور چلتا ہے تو پھر "اللہ دے او ربندہ لے" موصوف ایسے یلغار کرتے ہیں کہ جیسے یا تو موصوف نے تین دن سے کچھ کھایاہی نہیں یا موصوف کاا ونٹ کی طرح اگلے سات دن کیلئے پیٹ میں کھانا جمع کرنے کا پروگرام ہے- موصوف کی یہی عادت ان کے شعبے سے وابستہ ہر شخص کو بدنام کررہی ہیں -

کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ایک صحافیوں کے ایک تربیتی پروگرام میں شمولیت کا موقع ملا- تربیتی پروگرام کیلئے وقت آٹھ بجے صبح رکھا گیا تھا کئی دن تک جاری رہنے والے اس تربیتی پروگرام میں سب سے زیادہ رش اس وقت ہوتی تھی جب کھانے کا وقت آتا - ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ صرف چھوٹے شہروں کے صحافی مفت کے کھانے کے شوقین ہوتے ہیں لیکن مفت کے کھانوں کے شوقین تو اسلام آباد کے صحافی بھی نکلے- کھانے کے وقت اتنی رش دیکھنے کو ملتی کہ دل خوش ہوتا تھا کہ صحافی تربیت لینے میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن یہ دلچسپی کھانے کے وقفے تک بہت زیادہ ہوتی تھی اس کے بعد پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی.. -فارسیمثل کے بقول" ہر سہ برو خو عادت نہ برو" یعنی ہر چیز انسان بھول سکتا ہے لیکن عادت انسان نہیں بھولتا" اور ہر جگہ پر وہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبو ر ہوتا ہے-یہی مفت خوری کی عادت ہیں جو اس شعبے میں مخصوص لوگ ہی کرتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے پوری کمیونٹی بدنام ہیں-

آپ جب بھی کسی مفت خورے خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں سپورٹ کرنے والا ہر ایک یہی کوئی یہی کہتا ہے کہ بھائی یہ لوگ ہماری خدمت کرتے ہیں اس لئے اگر مفت میں کھانا کھا لیا تو کونسی قیامت آگئی. آج تک ہم خدمت کی تشریح نہیں کرسکے ہیں - بھائی اگر پولیس آٹھ کے بجائے چودہ گھنٹے ڈیوٹی کررہا ہے تو اس کے اس کو پیسے ملتے ہیں- صحافی اگر بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے تو اس کے اسے تنخواہ ملتی ہیں اس میں خدمت کہاں سے آگئی - خدمت اللہ کے رضا کیلئے ہوتی ہیں- جبکہ ہمارے ہاں تو لوگ ڈیوٹی کو بھی خدمت میں ڈال دیتے ہیں جس کیلئے انہیں باقاعدگی سے تنخواہیں ‘ پنشن ملتی ہیں لیکن یہاں لوگ یہی کہتے ہیں کہ نہ تو ان کے بارے میں کچھ لکھو یا انہیں کچھ کہو کیونکہ یہ تو معمولی خدمت گار لوگ ہیں- جبکہ بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ لوگ تو سارا پاکستان کھا گئے ہیں اگر ان غریب لوگوں نے مفت کا کھانا کھا لیا تو پھر کونسی قیامت آجائیگی -

آخر مفت کھانے کی بیماری ہم لوگوں میں کیوں پھیل گئی ہیں- پیٹ سب کے پاس ہوتا ہے لیکن یہ پیٹ بہت نیچے ہیں لیکن ہم لوگ اس چیز کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے- یہ ٹھیک ہے کہ ہم سب اس پاپی پیٹ کو بھرنے کیلئے گدھوں کی طرح بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن کیا یہ پیٹ اتنا ہی طاقتور ہے کہ یہ ہم سے ہماری انا ٗ خود داری ٗ شخصیت ٗ حرام و حلال کی تمیز بھی ہم سے ختم کروا سکتا ہے- سوچنے کی بات ہے جسے معاشرے کے ہر شخص کو سمجھنے کی ضرورت ہے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 424954 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More