حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ ﴿حجۃ الوداع میں یومِ عرفہ کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت بھی
دی﴾ لوگوں! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو اللہ کی امن
کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے۔ اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے
لئے حلال ہوئی ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا ﴿گھر میں آنا اور ﴾
تمہارے بستروں پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع
نہ دیں، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو ﴿تنبیہ و تادیب کے طور پر﴾ تم
سزا دے سکتے ہو، جو سخت نہ ہو، اور تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر انکے کھانے
کپڑے ﴿وغیرہ ضروریات﴾ کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ ﴿مسلم﴾
اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو عورتوں کے با
اختیار اور صاحب امر سربراہ ہیں وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذہ اور
محاسبہ سے بے پرواہ ہو کر عورتوں پر استعمال نہ کریں، وہ ان کے معاملہ میں
اللہ سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان اللہ ہے،
اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کئے ہوئے ضابطہ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی
بنی ہیں اور ان کے لئے حلال ہوئی ہیں، اور وہ اللہ کی امان میں انکی ماتحت
اور زیرِ دست بنائی گئی ہیں، یعنی ان کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اللہ کی
امان اور پناہ حاصل ہے۔ اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اللہ
کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے۔ یہ عورتوں کے لئے کتنا
بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کو کتنی سخت آگاہی ہے کہ وہ یہ
بات یاد رکھیں کہ ان کی بیویاں اللہ کی امان میں ہیں۔
انسان کے باہمی تعلقات میں ازدواجی تعلق کی جو خاص نوعیت اور اہمیت ہے اور
اس سے جو عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں
’’نیز زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک اسی کی خوشگواری اور
باہمی الفت و اعتماد پر موقوف ہے۔ پھر جیسا کہ ظاہر اس کا خاص مقصد یہ ہے
کہ فریقین کو پاکیزگی کے ساتھ زندگی کی وہ مسرتیں اور راحتیں نصیب ہوں جو
اس تعلق ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور آدمی آوارگی اور پراگندگی سے محفوظ رہ
کر زندگی کے فرائض و وظائف ادا کرسکے اور نسلِ انسانی کا وہ تسلسل بھی
انسانی عظمت اور شرافت کے ساتھ جاری رہے جو اس دنیا کے خالق کی مشیت ہے۔
اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد بھی اسی صورت میں بہت طریقے پر پورے ہو سکتے ہیں
جبکہ فریقین میں زیادہ سے زیادہ محبت و یگانگت اور تعلق میں زیادہ سے زیادہ
خوشگواری ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں جو
ہدایات دی ہیں ان کا خاص مقصد یہی ہے کہ یہ تعلق فریقین کے لئے زیادہ سے
زیادہ خوشگوار اور مسرت و راحت کا باعث ہو، دل جڑے رہیں اور وہ مقاصد جن کے
لئے یہ تعلق قائم کیا جاتا ہے بہتر طریقے سے پورے ہوں۔
بیوی کو چاہیئے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے سب سے بالاتر سمجھے، اس کی وفا
دار اور فرمانبردار رہے، اس کی خیر خواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے،
اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے۔ اور شوہر کو
چاہیئے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے، اس کی قدر اور اس سے
محبت کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائے تو چشم پوشی کرے، صبر و تحمل و دانش مندی
سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح
پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔ ان تعلیمات کیی صحیح
قدر و قیمت سمجھنے کے لئے اب سے قریباً ۰۰۴۱ سال پہلے پوری انسانی دنیا اور
خاص کر عربوں کے اس ماحول کو سامنے رکھنا چاہیئے جس میں بے چاری بیوی کی
حیثیت ایک خرید کردہ جانورسے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی اور اس غریب کا کوئی
حق نہ سمجھا جاتا تھا۔ |