اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ
پاک میں ارشاد فرمایا "﴿تمہارے پیدا کرنے سے﴾ مقصود یہ ہے کہ وہ تم کو
آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے"﴿ھود ۷﴾ "تو اس وقت کیا حال
ہو گا جب ہم ان کو جمع کریں گے ﴿یعنی ﴾ اس روز جس ﴿کے آنے ﴾ میں کچھ بھی شک
نہیں اور ہر نفس اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہیں
کیا جائے گا"﴿آل عمران ۵۲﴾۔ اور فرمایا "جس دن ہر شخص اپنے اعمال کی نیکی
کو موجود پالے گا اور ان کی برائی کو بھی ﴿دیکھ لے گا﴾ تو آرزو کرے گا کہ
اے کاش اس میں اور اس برائی میں دور کی مسافت ہو جاتی اور خدا تم کو اپنے
﴿غضب ﴾ سے ڈراتا ہے اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے "﴿آل عمران ۰۳﴾۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرما دیا کہ آخرت
میں کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اعمال پر ہے۔ اور یہی وہ پیمانہ ہے جس
کے ذریعے جنت اور جہنم کے فیصلے کئے جائیں گے۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات
پر جہاں ایمان کا ذکر آیا وہاں اعمال کا ذکر بھی آیا۔ کسی شخص کا ایمان اُس
وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دل کی تصدیق اور زبان کی گواہی کے ساتھ
ساتھ عملی طور پر اس کا مظاہرہ نہ کرے۔ یعنی اُن اعمال کا اہتمام کرے جن کا
اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے جن کو اعمالِ صالحہ کہتے ہیں اور اُن سے
اجتناب کرے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے،تمام گناہ اسی زمرے میں آتے
ہیں۔
آج کل شیطان نے ایک پٹّی یہ بھی پڑھا دی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا غفور
ورحیم ہے اس لئے اب جو چاہے کرو۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی کو دین سے غفلت کا
احساس دلایا جاتا ہے اور نصیحت کی جاتی ہے تو جواب میں اکثر یہ سننے کو
ملتا ہے کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ نے تو بڑے بڑے گنہگاروں
کو بھی معاف کر دیا لہذہ ہمیں بھی معاف کر دے گا۔ کچھ تو یہاں تک کہہ دیتے
ہیں کہ ابھی دنیا میں تو مزے کرنے دو آخرت میں جو ہوگا دیکھا جائے گا، چلو
تھوڑی بہت مار کھا کر تو جنت میں چلے ہی جائیں گے﴿ایاذ باللہ﴾۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے لیکن ہم نے یہ کیوں
بھُلا دیا کہ وہ جبّار اور قہار بھی ہے۔ ارشادِ پاک ہے "کہہ دو تمہارا
پروردگار صاحب رحمت وسیع ہے مگر اس کا عذاب گنہگار لوگوں سے نہیں ٹلے گا "﴿انعام
۷۴۱﴾۔ "جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے اور یہ کہ خدا بخشنے والا
مہربان بھی ہے"﴿المائدہ ۸۹﴾۔ "بے شک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں
﴿مبتلا﴾ ہیں۔ اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیں گے اب آگ کا مزہ
چکھو"﴿قمر ۷۴-۸۴﴾۔ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی بیشمار عبادت کی لیکن ایک سجدے
سے انکار کرنے پر ملعون اور دوزخ کا مستحق بن گیا۔ اور آج ہمیں اللہ پاک
پانچ وقت سجدے کے لئے بلاتا ہے اور ہم پانچ وقت انکار کر تے ہیں۔ ہم صبح
شام اُس کی نافرمانی پر کمر کس لیتے ہیں اور وہ پھر بھی ہر لمحہ ہم پر اپنی
نعمتوں کی بارش کر رہا ہے، کیا یہ اللہ کی رحمت نہیں؟ اور کچھ نہیں تو صرف
اپنے وجود پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں، یہ آنکھیں، کان، ہاتھ، پیر، منہ سب
کچھ اللہ کی عطا ہے اور ہم ان اعضا کو اُسی کی نافرمانی میں استعمال کرتے
ہیں۔ اور اُس نے آخری وقت تک توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے کہ جتنے بھی گناہ
کر کے آ جاؤ میں سارے ہی معاف کر دوں گا، کیا یہ اللہ کی رحمت نہیں؟ ہمارا
تو ایک ایک لمحہ اُس کی رحمت کا محتاج ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس پر اللہ
تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہم نے اسے اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کا جواز
بنالیا۔ قرآن گواہ ہے کہ بہت سی قومیں صرف ایک خاص گناہ کی وجہ سے ہلاک کر
دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا "جب انہوں نے ہم کو
خفا کیا تو ہم نے ان سے انتقام لے کر ان سب کو ڈبو کر چھوڑا۔ اور ان کو گئے
گزرے کردیا اور پچھلوں کیلئے عبرت بنا دیا" ﴿زخرف۵۵-۶۵﴾۔ اور آج ہم میں وہ
سب گناہ مجموعی طور پر موجود ہیں۔ کیا یہ اللہ کی رحمت نہیں کہ آج ہم پر
اللہ کا عذاب نازل نہیں ہوتا۔ یہ نبی کریم سرکار دو عالم ﷺ کی اُن دعاؤں کا
نتیجہ ہے جو آپ ﷺ نے اپنی اُمّت کے لئے دن رات رو رو کر مانگیں۔ اُس محسنِ
انسانیت ﷺ کے عظیم احسانوں کو بھی ہم بھول گئے جس نبی ﷺ کو ہر وقت اپنی
اُمّت کی فکر لاحق رہتی۔ صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی جب ہر طرف
نفسا نفسی ہوگی، نبی کریم ﷺ کو اپنی اُمّت کی فکر ہوگی۔ آج ہمیں اُس نبی ﷺ
کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے مردوں کو داڑھی رکھتے
ہوئے، ٹخنے کھولتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ہماری عورتوں کو پردہ بوجھ محسوس ہوتا
ہے۔ آپ ﷺ کی سنتوں کو، آپ ﷺ کی تعلیمات کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔کہ
زمانہ کیا کہے گا، آج زمانہ ہمارے لئے اُس عظیم ہستی ﷺ سے زیادہ اہم ہو گیا،
کیسی بے عقلی ہے یہ۔ جس زمانے کے لئے آج ہم اپنی آخرت خراب کرنے پر تُلے
ہوئے ہیں اِن میں سے کوئی بھی ہمارا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
"یہ کہ کوئی شخص دوسرے ﴿کے گناہ ﴾کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ اور یہ کہ انسان
کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی
۔ پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا" ﴿نجم۸۳-۱۴﴾۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا "آدمی کے تین ساتھی ہیں ایک اُس کا پیسہ﴿مال و دولت﴾
ہے، ایک اولاد ﴿عزیزواقارب﴾ اور ایک عمل ہے۔ پیسہ موت تک، اولاد قبر تک اور
عمل حشر تک ساتھ رہیں گے۔ تو کون سا ساتھی ہے جو اصل ہے، حضرت عبداللہ کہنے
لگے یارسول اللہ ﷺ اجازت ہو تو کچھ عرض کروں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہو ، تو
انہوں نے چند اشعار کہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کی موت کا وقت آگیا ہے،
رشتے دار کھڑے ہیں، پیسہ بھی ہے، گھر بھی ہے تو اب وہ کہتا ہے کہ میرے
ساتھیوں مجھے بچاؤ، کوئی میری مدد کرو، مجھے بچانے کیلئے تم کیا کر سکتے ہو؟
پیسہ بولا بھئی میں تو تیرا موت تک کا ساتھی ہوں، اِدھر تجھے موت جھٹکا دے
گی، اُدھر میں پرایا ہو جاؤں گا۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ تُو تو بڑا بے وفا
نکلا! بیٹوں سے بولا کہ تم بولو تم کیا کرسکتے ہو؟ وہ بولے ہم تو آپ کیلئے
بڑی محنت کریں گے، ہسپتال لیکر جائیں گے، علاج کرائیں گے، پیسہ خرچ کریں گے۔
لیکن جب موت آئے گی تو آپ کی جگہ ہم نہیں مرسکتے۔ ہاں ایک کام کرسکتے ہیں،
آپ کے لئے روئیں گے، جو تعزیت کیلئے آئے گا آپ کی تعریف کریں گے کہ ہمارا
باپ بڑا اچھا تھا ۔ آپ کا جنازہ لیکر چلیں گے اُس گھر جہاں آپ جانا نہیں
چاہتے اور ہم آپ کو زبردستی لیکر جائیں گے، پھر ہم واپس آجائیں گے کہ ہمیں
اور بھی بہت کام ہیں۔ پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ آپ یوں بھلا دئیے جائیں گے،
جیسے آپ کبھی اس گھر میں آئے ہی نہ تھے۔ کبھی ہم مل بیٹھے ہی نہ تھے ۔ یاد
ہی بھول جائے گی۔ اب عمل بولا میں ایسا نہیں ہوں کہ پیجھے ہٹ جاؤں۔ بلکہ جب
تمہیں موت جھٹکا دے گی تو میں مزید ساتھ ہوجاؤں گا تاکہ تمہاری تکلیف کو
میں برداشت کرلوں اور موت کے جھٹکوں کی جو تکلیف ہوگی اُسکو میں روکوں گا
اور تم پہ آنچ بھی نہیں آئے گی۔ اور میں قبر میں تیرے آنے سے پہلے پُہنچ
چکا ہوں گا۔ تیرا استقبال کروں گا۔ اور یہ سب تو تجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے،
لیکن جب منکر نکیر آئیں گے میں پھر درمیان میں آجاؤں گا۔ میں تیری وکالت
کروں گا۔ تیرے سوالات کا جواب صحیح صحیح دلواؤں گا۔ تیسری گھاٹی آخرت کی ہے۔
تو میں قیامت کے دن تیرے ترازو کے پلڑے میں خود بیٹھوں گا اور تیری نیکیوں
کو جھکا دوں گا اور تجھے اللہ سے ملا دوں گا۔ لہذا مجھے نہ چھوڑنا، چاہے سب
کچھ چھوڑنا پڑ جائے، یہ وہ نیکیاں تھیں جو آپ نے آگے جا کر پالیں"۔
یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں جو بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا۔ نیم کے
درخت بوکر اِن سے آم توڑنے کی اُمید کرنا ایک دھوکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ۔ کیا ان کو ہم ان کی طرح
کردیں گے جو ملک میں فساد کرتے ہیں ۔ یا پرہیز گاروں کو بد کاروں کی طرح
کردیں گے" ﴿ص۸۲﴾ ۔اور فرمایا "کوئی متنفس نہیں جانتا کہ اُن کے لئے کیسی
آنکھوں کی ٹھنڈک چھپاکر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔
بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر
نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُن کے﴿رہنے کے﴾ لئے
باغ ہیں یہ مہمانی اُن کاموں کی جزا ہے جو وہ کرتے تھے۔ اور جنہوں نے
نافرمانی کی اُن کے رہنے کے لئے دوزخ ہے جب چاہیں گے کہ اس میں سے نکل
جائیں تو اس میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور اُن سے کہا جائے گا کہ جس دوزخ کے
عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اس کے مزے چکھو۔ اور ہم اُن کو ﴿قیامت کے﴾ بڑے
عذاب کے سوا عذاب دنیا کا بھی مزہ چکھائیں گے۔ شاید ﴿ہماری طرف﴾ لوٹ آئیں۔
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کو اس کے پروردگار کی آیتوں سے
نصیحت کی جائے تو وہ اُن سے منہ پھیر لے۔ ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے
والے ہیں " ﴿سجدہ ۷۱-۲۲﴾۔
میں نے یہاں صرف چند آیات کا ترجمہ نقل کیا ہیں ورنہ قرآنِ پاک میں جا بجا
اعمال کی جزا سزا کا ذکر موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں ہمیں اپنی
رحمت کا یقین دلایا ہے وہاں اپنے عذاب سے بھی ڈرایا ہے۔ اب شیطان اللہ
تعالیٰ کے خوف اور عذاب سے تو ہمیں غافل کرتا رہا اور صرف اللہ کی رحمت کا
سہارا لے کر ہمیں یہ بھی بھُلا دیا کہ ایک دن ہمیں اللہ کے سامنے اپنے
اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے گناہوں پر جرّی
ہو گئے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ایک جگہ قیامت کا نقشہ اس طرح کھینچا
ہے: "جب آسمان پھٹ جائے گا ۔ اور جب تارے جھڑ پڑیں گے ۔ اور جب دریا بہہ ﴿
کر ایک دوسرے سے مل ﴾ جائیں گے۔ اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی تب ہر شخص
معلوم کرے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا ۔ اے
انسان تجھ کو اپنے پروردگارِ کریم کے باب میں کس چیز نے دھوکا دیا"۔ "بے شک
نیکو کار نعمتوں ﴿کی بہشت﴾ میں ہوں گے۔ اور بد کردار دوزخ میں"﴿انفطار
۱-۶،۳۱﴾۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے رحمت اور مغفرت کی
اُمید نہیں رکھنی چاہیے بلکہ رحمت کی اُمید غالب ہونی چاہیے۔ البتہ اتنا
خوف مطلوب ہے جو ہمیں گناہوں سے روک دے۔ لیکن آج ہم جس بے باکی سے فسق و
فجور میں مبتلا ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کا خوف ہمارے دلوں سے نکل
چکا ہے۔ آجکل گناہوں کے بے لگام گھوڑے کے لئے خوف کے کوڑے کی ضرورت ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ"ایمان خوف اوراُمید کے بین بین ہے"۔ چناچہ حضرت عمر
فاروق (رض) نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ "اگر اللہ پاک کا حکم صادر ہو کہ
ساری مخلوق میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا تو میں اُمید کرتا ہوں کہ
وہ شخص میں ہی ہوں گا۔ اور اگر یہ فرمان صادر ہو کہ دوزخ میں صرف ایک ہی
شخص داخل ہوگا تو مجھے خوف ہے کہ وہ شخص کہیں میں ہی نہ ہوں"۔ یہ مساوات ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ"مسلمان کو مرتے وقت اپنے خدا سے نیک گمان رکھنا چاہیے"۔
اس حدیث کی تشریح میں امام غزالی (رح) فرماتے ہیں "نیک گمان اسی وقت ہوگا
جب کہ کچھ نیک اعمال بھی پاس ہوں۔ کیونکہ انسان جب کاشت کے لیے زمین میں
بیج ڈالتا ہے اور نیو لانے یا پانی دینے کے متعلق اپنی جیسی سعی سب کچھ
کرلیتا ہے تو اسی وقت خدا کے فضل پر بھروسہ کر کے پیداواری اور بوئے ہوئے
کے کاٹنے کی امید رکھ سکتا ہے۔ اور جب بیج ہی نہیں ڈالا اور ایسی حالت میں
اناج کی طلب وخواہش رکھی تو اس کو رجا و امید نہیں کہتے، بلکہ تمنّا اور
ہوس کہتے ہیں اور تمنّا و ہوس شیطانی دھوکہ ہے "۔آگے فرمایا" خوفِ عذاب کے
باعث معاصی اور خدا کی نافرمانیوں سے رُکنا چاہئے اور امیدِ رحمت کے سبب
نیکیوں میں رغبت پیدا ہونی چاہئے ۔ پس خوف کو اسی وقت معتبر سمجھو جبکہ وہ
تم کو معصیت سے روکے اور گناہ کی جرأت نہ ہونے دے ۔ اور اگر یہ حاصل نہ ہو
تو وہ خوف نہیں ہے"﴿تبلیغِ دین﴾۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے "اور اس روز ﴿اعمال کا﴾ تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے
﴿عملوں کے﴾ وزن بھاری ہوں گے وہ تو نجات پانے والے ہیں۔ اور جن کے وزن ہلکے
ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اس لیے کہ ہماری
آیتوں کے بارے میں بے انصافی کرتے تھے"﴿الاعراف۸-۹﴾۔اور فرمایا"جن لوگوں کو
ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطمئن ہو
بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہورہے ہیں ۔ ان کا ٹھکانہ ان ﴿اعمال﴾ کے
سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے
ان کو پروردگار ان کے ایمان کی وجہ سے ﴿ایسے محلوں کی ﴾ راہ دکھائے گا اور
ان کے نیچے نعمت کے باغوں میں نہریں بہہ رہی ہوں گی" ﴿یونس۷-۹﴾۔ اس ارشادِ
پاک کو بار بار دل کی گہرائیوں سے پڑھیں، یہاں تک کہ غفلت کی نیند میں سوئی
ہوئی غیرتِ ایمانی بیدار ہو جائے اور اُمید رحمت کے ساتھ ساتھ خشیت الہیٰ
سے بھی دل معمور ہو جائے۔
زندگی اِک دن گزرنی ہے ضرور
قبر میں میّت اترنی ہے ضرور
آخرت کی فکر کرنی ہے ضرور
جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے ضرور |