اپنوں کے زخم

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم نہیں لڑتے اللہ کے راستے میں ان کمزوروں﴿مظلوموں﴾ کی خاطر جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی کھڑا کیجئے اور ہمارے لئے بھیج دیجئے اپنے پاس سے کوئی مددگار" ﴿نسائ ۵۷﴾۔

آج ہر طرف مسلمان جس طرح ظلم و ستم کا شکار ہیں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان مظلوم مسلمانوں کے احوال سن کر جس قدر دل دکھتا ہے اس کا اندازہ تو کوئی درد مند دل رکھنے والا ہی لگا سکتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف اور اذیت اُس وقت ہوتی ہے جب اپنے مسلمانوں کی زبان سے بھی اُن مظلوم مسلمانوں اور مجاہدین پر طعنہ و تشنیع سُنی جاتی ہے اور اُن کو طرح طرح کے القابات دیئے جاتے ہیں۔ اور عملی طور پر بھی اس کا مظاہرہ کرنے میں ہمارے حکمرانوںاور بعض عوام نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یاد کیجئے بعیت رضوان، جس میں رسول اللہ ﷺ کو یہ جھوٹی خبر ملی کہ حضرت عثمان(رض) کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر نبی کریم ﷺ بے چین ہوگئے اور اپنے اصحاب میں اعلان کر دیا کہ جب تک میں عثمان(رض) کا بدلہ نہ لوں واپس نہ ہوں گا۔اُس وقت آپ(ص) حدیبیہ کے مقام پر تشریف فرما تھے ۔ اس نازک اور بہت اہم موقع پر آپ (ص)نے اپنے اصحاب کو طلب فرمایا اور "بعیت علی الموت" یعنی ہر ایک سے اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے کا اقرار لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جاں نثاری اور فدا کاری کی قدرومنزلت فرمائی اور ان سب کو اپنی رضا و خوشنودی کا پروانہ عطا فرمایا اور قرآنِ پاک میں اس واقعہ کو ذکر فرما کر قیامت تک کے لئے مشعلِ راہ بنا دیا۔ "﴿اے نبی(ص)﴾ جو لوگ آپ سے بعیت کر رہے ہیں وہ اللہ سے بعیت کر رہے ہیں، اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے، لہٰذا جو کوئی عہد توڑے گا تو اُس کے عہد توڑنے کا وبال اُسی پر پڑے گا اور جو کوئی عہد کو پورا کرے گا جو اُس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا" ﴿فتح ۰۱﴾۔ چنانچہ مشرکین ِ مکہ کو جب اس بعیت کا علم ہوا تو مرعوب اور خوفزدہ ہو کر صلح کے لئے نامہ و پیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضور ﷺ اس نازک مرحلے میں صرف ایک صحابی (رض) کے لئے تقریباً پندرہ سو صحابہ کرام (رض) کو خطرے میں ڈالنے کے لئے کیوں تیار ہو گئے جس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ(رض) کرام بھی شامل تھے ؟ اُس وقت آپ(ص) نے مفاہمت و مصلحت پر غور کرنے کی بجائے سب صحابہ(رض) سے موت پر بعیت لی اور خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عزم فرمایا۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ جانتے تھے کہ ایک مسلمان کی قدروقیمت کیا ہے اور آپ(ص) کو علم تھا کہ اگر ایک مسلمان کے خون کو نظر انداز کر دیا گیا یا ایک مسلمان کی حفاظت کو اہمیت نہ دی گئی تو پھر کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں رہے گا اور کافر انہیں تر نوالہ سمجھ کر نگل جائیں گے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "ایک مسلمان کی حرمت اللہ کے نزدیک بیت اللہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے"۔ حالات کے پیشں نظر اگر کبھی کسی مسلمان کو اپنی جان بچانے کے لئے زبانی طور پر کفریہ کلمات بھی بولنے پڑیں تو یہ جائز ہے بلکہ بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے لیکن اس نازک مرحلے میں بھی اگر اپنی جان بچانے کے لئے کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنا پڑے تو یہ ہرگز جائز نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا "ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایک عمارت کی مانند ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت پہنچاتا ہے، پھر آپ(ص) نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں"۔ نبی کریم ﷺ کے اس ارشادِ پاک کو دیکھتے ہوئے ذرا غور کریں کہ آج اگر ہم نے کچھ مسلمانوں کو بچانے کے نام پر دوسرے مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کی نہ صرف اجازت دے دی بلکہ اس کی حمایت اور مدد بھی کی تو کیا اس سے باقی مسلمانوں کے قدم مضبوط ہوگئے اور اُن کی بقا محفوظ ہوگئی؟ ہرگز نہیں بلکہ ہم نے خود اپنی عمارت کا ایک حصہ گرا کر اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا اور اس کی بنیادوں کو مزید کمزور بنا دیا۔ کیا اب بھی کوئی اسے عقلمندی قرار دے گا؟

ذرا ایک نظر واقعہ کربلا کے حالات پر ڈالیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو راستے میں ہی خطرات سے آگاہ کر دیا گیا تھا مگر وہ نہیں پلٹے۔ کیا حضرت حسین(رض) کو معلوم نہ تھا کہ جنگ کا انجام یہ ہوگا؟انہیں یہ جنگ لڑ کر کیا حاصل ہوا؟ اسباب و وسائل نہ ہوتے ہوئے کئی گنا زیادہ طاقت ور اور مسلح دشمن سے مقابلے کا کیا جواز ہے؟ان حالات میں آپ(رض) ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور شیر خوار بچوں کو جلو میں لے کر دشمن سے کیوں ٹکرا گئے؟ ان سوالوں کا جواب تو صرف وہی شخص جان سکتا ہے جس کے دل میں جذبہ ایمانی زندہ ہے اور جس کی نظر میں اسلام کی عزت اپنے جان مال اور عزت و آبرو سے بڑھ کر ہے۔ حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ کوفہ چلا تو ان کا مقصد مال و دولت، حکومت و اقتدار نہیں تھا بلکہ وہ شریعت کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاز کے لئے قربانی کی تاریخ لکھنے جارہے تھے۔ اسباب، وسائل، ٹیکنالوجی اور اسلحہ میں حضرت حسین(رض) کا مقابل افواج سے کوئی مقابلہ نہ تھا مگر فیصلہ کن لمحے میں آپ(رض) نے مصلحت بینی، سپر اندازی، مصالحت، مذاکرات اور سودے بازی جیسی رسوا کن راہوں کی بجائے ایک ہی اٹل فیصلہ کیا...جہاد...جہاد...جہاد...، مائیں، بہنیں، بیٹیاں بھی حضرت حسین(رض) کے ہمراہ تھیں مگر انہوں نے ان دلگداز رشتوں کو بھی اپنے پاؤں کی زنجیر نہ بننے دیا۔ حضرت حسین(رض) کو غدار، باغی، عاقبت اندیش، جلد باز، ناتجربہ کار اور نجانے کیا کچھ کہا گیا مگر وہ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن رہے، فضا میں ہر طرف حضرت حسین(رض) کی شرافت، نجابت اور صداقت کے نعرے لگنے لگے۔
شہیدِ کربلا کا مشن ابھی جاری ہے، حضرت حسین(رض) کے سچے وارثوں کا اہلِ باطل سے فیصلہ کن معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا، اگر یہ معرکہ لڑنے والے سب کے سب قتل ہوگئے تو بھی حضرت حسین(رض) کی طرح کامیاب ہوں گے۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حق کے لئے لڑتے ہوئے جان دے دو لیکن باطل کے آگے جھکو نہیں۔ سب کچھ لُٹ جائے لیکن اسلام کی عزت اور شان و شوکت پر حرف نہ آنے پائے۔ کوئی مسلمان جب خلوصِ نیت سے اللہ کے راستے میں نکلتا ہے تو سر پر کفن باندھ کر نکلتا ہے۔ اُس کے پیشِ نظر دنیاوی مقاصد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لئے اس راستے میں ہار ہے ہی نہیں جیت گیا تو غازی کہلائے گا اور مارا گیا تو شہید، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا "اور کوئی شخص ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اپنی جان کو بیچ ڈالتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں پر بہت مہربان ہے"﴿بقرہ ۷۰۲﴾۔

لیکن افسوس کہ آج اہلِ عزیمت پر غیر تو کیا اپنوں کی بھی زبانیں اتنی دراز ہوگئیں کہ کوئی اعتراض اور الزام ایسانہ تھا جو اُن پر نہ تھوپا گیا ہو۔ پہلے تو غیر مسلم ہی مسلمانوں کو انتہا پسنداور دہشت گرد قرار دیتے تھے لیکن ہماری حکومت نے اسلام مخالف اقدامات کر کے اس بات کا اعتراف کر لیا اور دشمنانِ اسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دل میں بھی جہاد کے خلاف نفرت کا زہر بھرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہاں تک کہ آج ہر داڑھی والے کو ناصرف غیرمسلم بلکہ بعض ماڈرن اسلام کے حامی مسلمان بھی مشکوک اور نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ دینداری کو فرسودہ رسم و رواج قرار دیا جا رہا ہے۔ تمام اسلام دشمن طاقتیں انتہا پسندی کا نام دے کر مسلمانوں کے اندر سے جذبہ جہاد ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کو اپنی غلامی کا طوق پہنانا چاہتے ہیں جو اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد زندہ ہے۔

حقیقت کا علم ہو جانے کے باوجود بھی جن لوگوں کو اپنے جان و مال اسلام کی عزت اور شان و شوکت سے زیادہ عزیز ہیں اور جو کمزور ایمان اور مصلحتوں کو جواز بنا کر بزدلی کی زنجیروں میں قید رہنا چاہتے ہیں تو بیشک رہیں لیکن کم از کم جو لوگ اپنے ایمان کو مضبوط کر کے اللہ کے بھروسے پر اللہ کے راستے میں نکل کھڑے ہوئے ہیں اُن پر تو اعتراضات اور طعنہ و تشنیع سے باز رہیں۔ باقی رہی نیت کی بات تو یہ معاملہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اپنے گھر میں امن و سکون کی زندگی گزارتے ہوئے کسی پر اعتراضات لگا دینا تو بہت آسان ہے لیکن کاش ہم اس بات کا تصور کرتے ہیں کہ اگر ہم پر اس طرح ظلم و ستم کے پہار توڑے جا رہے ہوتے، ہمارے گھر بار لوٹے جار ہے ہوتے، ہمارے بچوں بڑوں کو قتل کیا جارہا ہوتا، ہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کی جارہی ہوتی تو ہمارے کیا جذبات ہوتے اور کیا ردّ عمل ہوتا۔ اور ہمارے ردِ عمل پر ہمیں کوئی انتہا پسند قرار دیتا، اور پھر ہمارے ہی مسلمان بھائی ہم پر طنز و تنقید کرتے تو ہم پر کیا گزرتی ۔ اگر ہم اپنے لئے یہ پسند نہیں کرتے تو پھر دوسروں کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں کیا ہمیں رسولِ کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے ﴿مسلمان﴾ بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے"۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود بھی ہم کامل مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب مومن ایک شخص کی مانند ہیں جب اس کی آنکھ دکھتی ہے تو سارا جسم دکھتا ہے اور اگر سر میں درد ہوتا ہے تو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے"۔ یعنی اگر کسی ایک مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچی تو اس کا اثر تمام مسلمانوں پر ہوتا ہے اور آج اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی امّتِ مسلمہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی بلکہ اُلٹا مسلمانوں کی زبانیں اپنے ہی مظلوم مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں ذرا بھی جھجک اور شرم محسوس نہیں کرتیں۔

اصل میں مسئلہ پاکستان کے مفاد اور بہتر کارکردگی کا نہیں بلکہ فرعونی طاقتوں کے اعتماد و اطمینان حاصل کرنے کا ہے لیکن اہلِ مغرب کے مطالبات تسلیم کرنے سے یہ طوفان رکنے والا نہیں بلکہ اس کی شدّت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے " اور آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کی ملت کا اتباع نہ کرلیں" ﴿بقرہ ۰۲۱﴾۔ اس لئے ان کا علاج بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ "لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے ان چیزوں کو جن کو اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل ﴿ماتحت﴾ ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں" ﴿توبہ ۹۲﴾۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور غیرتِ ایمانی عطا فرمائے اور جذبہ جہاد ہمارے دلوں میں زندہ و راسخ فرمادے۔﴿آمین﴾۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210735 views A Simple Person, Nothing Special.. View More

Apno Ka Zakham - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Apno Ka Zakham and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Apno Ka Zakham.