انتہائی نقصان دہ رائے اور مقولہ
بیک گراؤنڈ؛۔ میں نے ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد سولہ سالہ ایئر پورٹ پر
مختلف ایئر لائینز میں کام کیا تھا۔ ایک دن میرے کزن مجھ سے کہنے لگا کہ آپ
کے بیٹے کام پر لگ گئے ہیں بیٹی کی شادی ہو گئی ہے تو اب آپ کو کام کرنے کی
کیا ضرورت ہے۔ اب آپ کے آرام کرنے کا وقت ہے۔ جس پر مجھے ان کی سوچ کو درست
کرنا پڑا تھا۔ یہ مضمون اس تجربے پر لکھا گیا ہے۔غورو فکر کر کے زندگی کے
نتائج نکالنا اس سنت نبو ی ﷺکو اپنی زندگی کے اصول اور عادت کے طور اپنا
لیں ؛۔ نبوت سے پہلے جب نبی کریم ﷺ غار حرا میں عبادت کرتے تھے۔ تو اس
عبادت کی نوعیت کے بارے حضوراکرمؐ ﷺسے پوچھا گیا کہ آپ کی عبادت کی نوعیت
کیا تھی ؟ جواب یہ تھا کہ غورو فکر اور عبرت پذیری (عینی : شرح بخاری)۔
ریفرنس؛ پیغمبر اعظم و آ خر، ڈاکٹر نصیر احمد ناصر۔ ص 254۔ الحمد ﷲ تعالی
کہ اس نے مجھے اس حدیث پر عمل کرنے کی سمجھ اور توفیق عطا کی۔ اور یہی میرے
بڑھاپے کی مشغولیت بن گئی ہے۔
ہمارے یہاں زرعی دور کے تصورات اب تک چل رہے ہیں حالانکہ اب زندگی صنعتی
دور میں بدل چکی ہے۔ پہلے تمام کام جسمانی طاقت کے استعمال سے کرتے تھے
مشقت کے کام ہوتے تھے ۔ فصلیں اگانا، مویشیوں کی دیکھ بھال مشکل تھی اس لئے
جب بچے جوان ہو جاتے تھے اور گاؤں میں ہی رہتے تھے تو یہ مقولہ عام تھا کہ
اب بچے جوان ہو گئے ہیں بیٹیوں کی شادی ہو گئی ہے۔ گھر میں بہو بھی آگئی ہے
تو اب آپ کے آرام کرنے کا وقت ہے۔ تو والدین عموما کام نہیں کرتے تھے بلکہ
پھر فیملی لیڈرشپ کا دور چلتا تھا۔ گھریلو مسائل کے حل والدین اور دادا
دادی ہینڈل کرتے تھے۔ بچوں کی پدائش پر نام بھی دادا دادی یا نانا نانی
رکھتے تھے۔ بچوں کے رشتے بھی والدین یا دادا نانا طے کرتے تھے۔بہت کم لوگ
پڑھے ہوتے تھے۔ سوائے باتیں کرنے اور کوئی مشغلہ نہیں ہوتا تھا۔ اوسط عمر
بھی کم ہوتی تھی۔ ایسے حالات میں یہ اصول چل جاتا تھا کہ بچوں کے بڑے ہونے
پر مشکل کام ان کے حوالے کر دیں ۔
مگر اب صنعتی دور میں شہروں میں یہ مقولہ نہیں چل سکتا۔ اوسط عمر زیادہ ہو
گئی ہے۔ ساٹھ سال کی عمر ریٹائر منٹ کی عمر بن گئی تھے۔ اب اکیسویں صدی میں
اوسط عمر اور بھی بڑھ گئی ہے تو مغربی ممالک میں ریٹائرمنٹ عمر پینسٹھ سال
ہو گئی ہے۔ ایئر لائین پائلٹ بھی پینسٹھ سال تک فلائی کر سکتے ہیں یعنی ان
کی ذہنی صلاحیت بہت اچھی ہوتی ہے۔ تو ان حالات میں یہ کہنا کہ اب آپ کے
آرام کا وقت ہے غلط تصور بن گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا بھی نہیں
سوچا کہ پنگھوڑے سے قبر تک علم حاصل کرتے رہنا فرض ہے۔ دوسری حدیث ہے کہ
اگر قیامت برپا ہونے لگی ہے اورتم پودا لگا رہے ہو تو اس کو مکمل کرو۔ (
یعنی یہ نہیں کہ اس کا کیا فائدہ کہ اب تو مر جانا ہے۔ )۔ یہ احادیث کہہ
رہی ہیں کہ آخری لمحے تک بھر پور زندگی گزارو اور خاص طور پر انسانیت کی
بھلائی کے کاموں میں لگے رہو۔ علم میں اضافے کا مطلب صرف پڑھنا یا سیکھنا
نہیں بلکہ اپنے تجربات کو اگلی نسلوں کو منتقل کرنا بھی بہت اہم ہے تاکہ وہ
وہاں سے شروع ہوں جہاں بزرگ نسل علم کو چھوڑ کر گئی ہے۔
یہ 1977 کی بات ہے کہ ہمارا ایک ساتھی آفیسر کمپیوٹر میں ماسٹر کرنے کے لئے
امریکہ گیا تو واپس آکر اس نے بتایا کہ ان کی کلاس میں دو سٹوڈنٹ کی ٹیم
بنائی گئی تھی اس کی ٹیم میں امریکہ کا ایک ریٹائرڈ نیجر جنرل تھا اس نے
یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی وجہ یہ بتائی کہ اس کے اندازے میں اس کی عمر
تخمینا دس سال باقی ہے تو اس کو معاشرے کے لئے فائدہ مند بنانے کے لئے اس
نے دوسال پڑھنا ہے اور پھر باقی عمر سروس کر کے فائدہ مند انسان بننا ہے۔
اسی طرح 2014 کی ٹورنٹو کی خبر تھی ساس اور بہو نے یوینورسٹی میں داخلہ لیا
تھا۔
ان ہدایات کا ہم نہ ذکر کرتے ہیں ۔ نہ کوئی دینی عالم، معاشرتی بتاتا ہے کہ
ان ہدایات کی اپلائیڈ شکل کیا ہو سکتی ہے اس کی تشریح یا تفصیل بیان کرتا
ہے۔ میں نے جب سے اسلام کا تنقیدی مطالعہ شروع کیا ہے تو مجھے حیرت ہوتی ہے
کہ کیا کیا حکمت کی باتیں ہماری کتابوں میں لکھی ہیں مگر ان کی پریکٹیکل
فارم کیا ہو گی اس پر کسی نے لکھنا ، اس کی تعلیم دینا، بچپن سے تربیت دینا،
احساس دلانا اور سب سے بڑھ کر اس کو عوام کی عادات میں بدل دینے کے طریقے
بتانا ضروری سمجھا ہی نہیں۔ مگر مغربی ممالک یہ سب حکمت کی باتیں ہم سے لے
گئے اور اپنا لی ہیں ۔ ہم صرف حدیث پڑھ لیتے ہیں اس کو اپنی ذاتی زندگی کو
اس کے مطابق کیسے ڈھالنا ہے اس پر غور نہیں کرتے۔
ہمارے یہاں انفرادیت اتنی غالب آگئی ہے کہ اجتماعیت، انسانی بھلائی ،
معاشرتی ترقی، مسلمانوں کو دنیاوی لحاظ سے طاقتور بنانا تا کہ مسلمانوں کا
سیاسی غلبہ قائم رہے کو ہم بھول چکے ہیں ۔ اور صرف آخرت کی بات کرتے ہیں
اور دنیا کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور بھول گئے کہ دنیا کی بہتر زندگی جو کہ
اصولوں اور بہترین معاشرتی سسٹمز مثلا سچ ، امانت، مساوات،انصاف، انسانی
اخوت وغیرہ کے اصولوں پر قائم ہو کا ذکر ہی نہیں کرتے جبکہ ہمیں تو اﷲ سے
دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی دونوں مانگنے کا حکم ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زندگی کا مقصد پیدا کرنے والے نے خود سور
ملک۔۶۷، میں بیان کر دیا ہے آیت نمبر ۔۲۔ وہ پاک ذات ہے جس کے کنٹرول میں
سب ملکیت ہے اور وہ ہر چیزکرنے پر قادرہے۔ جس نے موت اور زندگی پیدا کی تا
کہ آزمائے کہ تم میں سے کون اعمال میں بہترین ہے ۔ تو پھر ہم اس دنیا میں
عمر کے ہم کسی بھی سٹیج پر آرام کرنے کے لئے نہیں بھیجے گئے بلکہ سورہ بلد
میں اﷲ سبحانہ تعالی یہ بھی فرماتا ہے کہ انسان مشقت میں پیدا کیا گیا ہے۔
یعنی یہاں کوئی چیز مفت نہیں ملتی اور نہ ملنی چاہئے۔ اسی لئے پرودگار کلام
پاک میں بار بار یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ۔ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے
کوشش کرتا ہے۔
تو ہمیں اس فرسودہ اور نقصان دہ آئیڈیا سے نکل آنا چاہئے کہ اب آ پ کے آرام
کا وقت ہے۔ اور پیدا کرنے والے اور اس کی پیغامبر کی ہدایات پر عمل کرتے
ہوئے مرتے دم تک انسانی بھلائی کے کاموں میں لگا رہنا چاہئے تا کہ ہم اگلے
جہاں اﷲ کے سامنے یہ کہہ سکیں جیسے کہ قائد اعظم نے کسی کے سوال پر کہ آپ
اتنے کمزور ہیں تو پھر بھی اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ، کہا تھا کہ میں اپنے
اﷲ سے یہ سننا چاہتا ہوں کہwell done Jinnah۔ حضور پاک ﷺ نے بھی حجۃ الوداع
میں لوگوں سے یہی پوچھا تھا کہ کیا میں نے اچھی طرح پیغام پہنچا دیا ہے تو
لوگوں کے جواب کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اﷲ گواہ رہنا۔ اﷲ تعالی ہم سب
کو حکمت کی باتیں سیکھنے اور اپنی زندگیاں ان کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین امتیاز علی۔ ٹورنٹو .7 جنوری2016 |