خدارا بھوک کا امتحان مت لو

آج کے کالم کی شروعات ایک ایسے واقعے سے کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں میں خودبھی نہیں کہ سکتا کہ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے کیونکہ اس واقعے سے متعلق میرے پاس کوئی حوالہ موجودنہیں ہے مگر اس واقعے کے جو کردار ہیں اس قسم کے کردار ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور اس واقعے سے ملتے جلتے واقعات روز پیش آتے رہتے ہیں ۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ کہیں ایک خاندان رہتا تھا جومیاں بیوی ایک بیٹا اور ایک بیٹی پر مشتمل تھا بچوں کا والد کئی عرصوں سے بیمار بستر مرگ پر پڑا تھا،غربت کی حالت یہ تھی کہ تین تین ،چارچار دن تک گھر میں کھانا نہیں پکتا تھا اور خودداری کے سبب وہ کسی کے سامنے ہاتھ بھی پھیلانے سے قاصر تھے ۔ ایک دن ہوا یوں کہ انکا والد اس دنیا فانی کو الوداع کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تو ہمسایوں نے تین چار دن تک انکے گھر میں کھانا پکانے نہیں دیا ویسے بھی پکانے کو گھر میں کچھ تھا بھی نہیں بلکہ تین چار دن تک ان کو مختلف ہمسایوں کے گھروں سے کھانے آتے رہے مگر تین چار دنوں کے بعد پھر فاقوں کا وہی دور شروع ہوا جو پہلے تھا،پھر تین تین چار چار دن تک چولھانہیں جلتا تھا ، پھر ایک دن ہوا یوں کہ بیٹے کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو اداس چہرے کے ساتھ چار دن سے بھوکی بیٹی اپنے ماں سے کہنے لگی کہ امی ہمارا بھائی آخر کب مرجائے گا؟؟ ماں نے حیران ہوکر پوچھا کیوں ؟تو بیٹی کہنے لگی کہ امی پچھلی دفعہ جب ہمارا ابو مرگیا تھا تو لوگوں نے ہمیں کھانا دیا تھا اور ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا اب اگر بھائی مرجائے گا تو لوگ پھر ہمیں کھانا دیں گے اور ہم پھر تین چار دن تک پیٹ بھر کرکھائیں گے۔۔۔۔۔۔ شاید یہ واقع سچا نہ مگر اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں روز پیش آتے ہیں ۔کہیں کسی ماں سے اپنے بچوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی ہے تووہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کاگلا دبا کر خود پھندا لگا کر لٹک جاتی ہے تو کہیں کوئی ماں اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے اپنے گردے بیچ رہی ہوتی ہے تو کہیں اسی ماں کی ممتا اپنے ننھے پھولوں کی بھوک مٹانے کی خاطر ہمارے معاشرے کے خون خوار درندوں کے حوس کا نشانہ بن رہی ہوتی ہے ۔۔

میں نے درج بالا بکواسات اس لئے درج کئے کیونکہ چند دن پہلے کراچی میں ایک دوست سے ملنے گیا تو وہاں ایک اور دوست آیا جو کہ اس دوست کا دوست تھا بیٹھے بیٹھے اس جناب نے کچھ باتیں ایسی کیں کہ جن کے بعد مجھے اوپر درج مغالضات بکنے پردل نے مجبورکیا چونکہ لباس اور گاڑی سے اندازہ ہوتا تھا اس جناب کا تعلق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے ہے ۔ باتوں باتوں میں وہ جناب فرمانے لگے کہ دو دن پہلے اس نے ٹونی اینڈ گائز سے اپنے بال کٹوائے تھے( ٹونی اینڈ گائز ایک انٹر نیشل ہیئر ڈریسنگ کمپنی ہے) جس نے صرف بال کاٹنے کے آٹھ ہزار روپئے لئے ابھی میں اسی واقعے پر ششدر تھا اور سوچ رہا تھا کہ کچھ دیر بعد اس جناب نے ایک اور واقعہ بیان کردیا کہ جب وہ کالج میں پڑھتے تھے تو اس کو بین اینڈ جیری کے آئس کریم کھانے کا دل چاہا( بین اینڈ جیری آئس کریم کی ایک انٹر نیشنل برانڈ ہے مگر پاکستان میں اسکا کوئی برانچ نہیں ہے) تو اس نے ابو سے ضد کی کہ اسے ہر صورت میں بین اینڈ جیری کے آئس کریم کھانے ہیں تو96گھنٹے کے ویزے پر وہ اور اس کی والدہ محترمہ آسٹریلیا صرف اور صرف بین اینڈ جیری کے آئس کریم کھانے گئے اور آسٹریلیا سے بین اینڈ جیری کے آئس کریم کھا کرواپس آگئے ۔۔۔۔

درج بالا دونوں واقعات ہمارے معاشرے کے ہی دو رخ ہیں ہمارے معاشرے میں جہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے بچوں کے بھوک مٹانے کی خاطر گردے بیچ ڈالتے ہیں یا ان کے بچے انکی آنکھوں کے سامنے بھوک سے بلک بلک کر جان دیتے ہیں مگر وہ کچھ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جن کو اپنے بچوں کیلئے کوئی چھت دستیاب نہیں ہوتی دسمبر کی سرد راتوں کو بھی ان کے بچے کسی فٹ پاتھ پر پڑے ہوتے ہیں اور جون کی کڑکتی گرم دھوپ میں بھی ان کے بچے اسی فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے ہوتے ہیں تو دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہمارے معاشرے میں ہیں جو روزانہ لاکھوں روپئے فضول خرچ کر رہے ہوتے ہیں جو صرف آئس کریم کھانے آسٹریلیا جاتے ہیں جو آٹھ ہزار کی بال کٹواتے ہیں جو معمولی معمولی چیزوں کو جاکر انتہائی ہائی فائی شاپنگ مالوں سے مہنگے داموں خرید تے ہیں آج حکمران طبقے نے اپنے مفادا ت کے پیش نظراس ناسورسرمایہ دارانہ نظام کو اتنا مظبوط کیا ہے کہ ہرروز غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اور امیر امیرتر ہوتا جارہا ہے اس گٹھیا نظام کی وجہ سے زر صرف ایک طبقے کے گرد گھوم رہاہے ریاست اپنے فرائض نبھانے سے مکمل قاصر ہے ۔ عدلیہ سے لیکر مقننہ تک قانون ساز اداروں سے لیکر دفاعی اداروں تک نیز سب کے سب ریاستی ادارے اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کیلئے سرگرم ہیں ، سیاست سرمایہ داروں کے اشاروں پر ناچتی ہے ، غریب کو گٹر کے کیڑے سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ ایک قحط زدہ علاقہ تھر (جہاں سینکڑوں بچے خوراک نہ ملنے کے سبب زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے )کے دورے پر آنے والے ایک اعلی عہدے دار کیلئے تھر میں 32 قسم کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں ۔جب معاشرے کے ان دونوں تصویروں کو پر نظر پڑتی ہے تو دل سوچنے لگتا ہے کہ کاش آج بھی وہی حکمران ہوتے جو فرماتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا جواب بھی قیامت کے دن عمر ؓ کو دینا پڑے گا مگر ۔۔۔۔مگر۔۔۔۔مگر بس زبان کاش اور مگر پر آکر اٹک جاتی ہے ۔ لیکن بقول شاعر۔۔۔۔۔۔۔
؂تم نے تو ظلمتوں کی حد کردی ہے
پھر بھی یہ مجبوردل اک عرض کرتا ہے
چاہو تو کاٹ ڈالو اس بد تمیززبان کو
مگر دستور محبت اس عرض کو فرض کرتا ہے

تو حکمرانو! خدارا غریب کی بھوک کا اتنا بھی امتحان مت لیجئے کہ بھوک کا مارا یہی غریب اتنا تنگ ہو کہ آپ کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تو اس وقت آپ کے محلات اور قلعے منہدم ہوجائیں گے ،پھر بڑی بڑی دیواریں بھی آپ کی حفاظت کیلئے کم پڑ جائیں گے ، پھرآپ کی حفاظت پر مامور فوج ظفر بھی آپ کے کام نہیں آئیں گے۔ خدار ااس بھوک کا مذید امتحان مت لو۔

Hizbullah Mujahid
About the Author: Hizbullah Mujahid Read More Articles by Hizbullah Mujahid: 12 Articles with 9209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.