مسلمانو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ!

السلام علیکم۔
گفتگو کا آغاز اس امر سے کرتا ہوں کہ اے اﷲ اپنے محبوب پاک ﷺ کی امت کو ایک کردے اور انہیں ہنودو یہود اور صلیبیوں کی چالوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین ۔ اسلام میں ریاست کا تصور ہے لیکن علیحدگی کا تصور نہیں۔ اسلام کی بنیاد وحدت پر ہے۔ معبود ایک جو ساری کائنات کا خالق ہے۔ رسول ﷺ وہ جو تمام رسول کے امام اور وجہ تخلیق ِ کائنات ہیں۔ کتاب اﷲ قرآن کریم ام الکتاب، دنیا و آخرت کے علوم کا خزانہ اور تمام انسانی مسائل کا حل، قبلہ وہ جو روئے زمین پر پہلا کعبہ تمام جہانوں کے لیئے مرکز ہدائت۔ تو بات سمجھ جانی چاہیئے کہ ہم دنیا میں پیداہوئے مرنے کے لیئے۔ دنیا آزمائش اور عمل کا گھر ہے۔

اوپر لکھی گئی بنیادوں پر عمل کرکے فلاح ِ اخروی کا حصول ممکن ہے۔ لیکن فطرتِ انسانی پر شیطان کا غلبہ ہوجاتا ہے تو انسان اپنی حقیقت اور مقصد زیست کو بھلا دیتا ہے۔جس بنا پر فسادات کے دروازے کھل جاتے ہیں اور خود انسان اپنا سکون غارت کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر جان اور مال کے بچاؤ کے لیئے اپنی پیدائشی آزادی سلب کرا دیتا ہے۔ مسلمان درحقیقت اﷲ کا سپاہی ہے جسے اﷲ تعالیٰ کے احکامات خود اپنے اوپر اور دنیا کے انسانوں پر لاگو کرنے کا منصب دیا گیا ہے۔ جس طرح فوج کے سپاہیوں میں کسی بھی مہم کو سر کرنے کے لیئے یک جان ہوکر کام کرنا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی سپاہ کا کچھ حصہ سستی کا مظاہرہ کرے کچھ دوسرے امور میں مصروف ہوجائے یا اختلاف رائے کرے تو ایسی سپاہ شکست سے دوچار ہوگی۔ کامیابی اسے ہوتی ہے جو یکدم اور یکبارگی حملہ کرتے ہیں۔ بعینہ مسلمان دنیا کے کسی خطہ کا ہو، وہ کوئی زبان بولتا ہولیکن سب کا مقصد ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو انہی اصولوں کی تربیت دی۔ جب کسی مہم پر جانے کا اعلان ہوجاتا تو حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم جس حال میں ہوتے بلاتاخیر حاضر ہوجاتے۔ یہی وجہ ہے کہ غزوہ تبوک کے لیئے جانے والے لشکر سے جو حضرات پیچھے رہ گئے تھے ان پر عتاب ہوا اور بعد میں انکی آہ وزاری پر انہیں معافی ملی۔بڑے وسیع علاقے فتح ہوئے جیسے یمن کہ وہاں رسول اﷲ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو گورنر بنا کر بھیجا۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو آپنے موجودہ ملکوں کو صوبے بنا کر حاکم مقرر فرمائے۔ مسلمانوں میں وحدت کے سوا علیحدہ علیحدہ ملک تشکیل دینے کا جواز ہی نہیں۔ فتوحات جاری رہیں اور تمام علاقوں کو اسلامی سلطنت کا نام دیا جاتا تھا اور سربراہ مملکت ایک ہی ہوتا تھا، وہی گورنر یا عامل مقرر کرتا، سپہ سالاروں کا تقرر بھی فرد واحد کے ہاتھ میں تھااور ان امور کیے لیئے مجلس شوریٰ بھی ہوتی تھی۔ ابتداء میں اہل مدینہ جو فیصلہ کرتے اسے دنیائے اسلام تسلیم کرتی تھی۔ حج کے موقع پر کھلے عام حکمرانوں یا عاملوں کے خلاف شکایات سنی جاتی تھیں۔ اور ان پر عمل درآمد ہوتاتھا ۔ صرف کتاب اﷲ و سنت رسول اﷲ ﷺ کو بالا دستی حاصل تھی، باقی خلیفہ سے لے کر عام آدمی تک برابر تھے۔ میں یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ صرف اندلس سمندر پار ہونے اور دور ہونے کی وجہ سے مرکزِ خلافت سے علیحدہ رہا اور دوسری وجہ یہ بھی کہ ایک خاندانی مملکت بن گئی تھی ۔ عبدالرحمٰن اول الداخل اموی خاندان کا شاہزادہ وہاں پہنچا اور اقتدار سنبھالا۔ اسی خاندانی تفاخر نے اندلس کی عظیم اسلامی ریاست مٹادی یہاں تک کہ صلیبیوں نے وہاں مسلمان اکابرین کی قبریں بھی مٹادیں۔باقی تمام دنیا ئے اسلام کا دارالخلافہ بغداد تھا۔ پھر ابنِ علقمی خبیث کی خباثت کے نتیجے میں دجلہ خون بن کر رواں ہوا ۔ تاتاریوں نے ایک دفعہ تو اسلامی ریاست پر تباہی پھیر دی۔ مسلمان دوبارہ طاقت بن کر جبھی ابھرے کہ عباسی خاندان کے ایک فردکے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ خلیفہ پر اﷲ کی رحمت ہوتی ہے جب وہ لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے چلے تو تاتاریوں کا قتل عام کیا ۔ وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بالآخر تاتاری مسلمان ہوئے۔ برصغیر کو جب بھی کسی نے تاراج کیا تو مرکز اسلام دربار خلافت سے سند حکمرانی حاصل کی ۔ خلافت کا مرکز بغداد سے ترکی چلا گیا۔ مگر سلطان ترکی کو اﷲ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی تھی مثل مشہور ہے کہ سلطانِ ترکی کے کھنگھورے سے یورپ کے حکمرانوں کا پیشاب نکل جاتا تھا۔ جب مسلمانوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنا اتحاد پارہ پارہ کیا۔

خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی، صوبے اور چھوٹے علاقوں پر ریاستیں وجود میں آگئیں ، مرکز سے کٹ گئے۔ طوائف الملوکی نے رنگ دکھایا کہ پہلی جنگ عظیم میں صلیبیوں نے صدیوں سینے میں جلتی آگ کا انتقام مسلمانوں سے لے لیا، مملکت ِ اسلامیہ کو روند ڈالا، خلافت ختم ہوگئی، پھر ٹکڑے کردیئے گئے، موجود اسلامی ملک در حقیقت مملکت اسلامیہ کے صوبے ہیں۔ صلیبیوں نے مسلمانو ں کی فکرِحکمرانی ہی تبدیل کردی۔ چاہیئے تو تھا کہ آزادی حاصل کرتے ہی پھر سے خلافت ترکیہ بحال کی جاتی مگر وہاں لادینیت کا زور تھا۔ خود ترکی میں مصطفٰے کمال نے اسلامی حکومت کا خاتمہ کیا۔ لیکن وہاں کے مسلمانوں کے دلون پر وہ حکومت نہ کرسکا۔ وہ کٹر مسلمان تھے ،رہے اور آج بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پھر سے اسلام کی حکمرانی آگئی ہے۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم بنی تو اسے اسلامی ریاست کے قیام کا کام کرنا تھا لیکن وہ بھی یہودو نصاریٰ کی آلہء کار بن گئی۔ اس طویل بحث کے بعد میں اپیل کرتا ہوں کہ تمام اسلامی ممالک خلافت ترکیہ زندہ کریں ۔ جسے ختم ہوئے اب ایک صدی ہونے والی ہے۔ طیب اردگان صاحب عباسی خاندان کے فرزند ہیں اور رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق آپکے چچا کی اولاد ہی خلافت پائے گی۔ تمام ممالک صوبوں کی حیثیت اختیار کریں۔ کچھ امور خلافت کے ماتحت رہیں اور کچھ میں صوبوں کو اندرونی خود مختاری حاصل ہو۔ ہر صوبے کا گورنردربار خلافت سے مقرر ہو۔ نظام عدل پہلے کی طرح بلا تفریق قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ مسلمہ اسلامی مکاتب ِ فکر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانا بند کریں۔ اﷲ کے حکم کے مطابق اختلاف کا حل قرآن و سنت سے حاصل کیا جائے۔ صوبوں کی عدالت عالیہ اپنے مسائل کا حل دربار خلافت کی عدالت عظمیٰ سے حاصل کریں۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہی کچھ ہوگا جو ابھی سعودی عرب اور مشرقی پاکستان(نام نہاد بنگلہ دیش میں ہورہا ہے) مجھے معلوم نہیں کہ سعودی حکومت نے سینتالیس آدمیوں کو تہہ تیغ کیوں کیا؟ پھر اگر اسکا اندرونی معاملہ ہے ۔ ایران کا احتجاج یہ سبھی کچھ عجیب سے معاملا ت ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں اور انگریزوں کو خوش کرنے کے لیئے پاکستان کے حامی دیندار لوگوں کو پھانسی دینے کا عمل کیوں جاری ہے ؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ بھارتی افواج اور مکتی باہنی نے اسلامی ریاست پر حملہ کیاتو محبِ وطن مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا۔ پاکستابنانے والی جماعت مسلم لیگ کی تاسیس تو ڈھاکہ میں ہوئی اور اس کے بانی سبھی تو مشرقی پاکستان کے تھے۔ بھارتی افواج کے حملہ اور غداروں کی غداری کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو۔ لیکن کیا وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو اپنے اسلامی ملک کی بقا کے لیے لڑنے کا حق نہ تھا؟ یہ بالکل اسی طرح ہوا کہ جیسے انگریز نے برصغیر پر قبضہ کے بعد ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا کہ انہوں نے انگریز سے بغاوت کی جبکہ غاصب انگریز تھا۔ اسی طرح مسلمان اب بھی سازشوں کا شکار ہیں۔ سزائے موت تو ایک انتہائی اقدام ہے۔حیرت ہے کہ سعودی عرب میں موت کی سزا پانے والوں کے بارے ایران نے احتجاج کیا اور سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے سعودی سفارت خانے کو آگ لگا دی۔ مانا کہ انکے ہم مسلک لوگوں کو سزائے موت دی گئی لیکن صبر و تحمل بھی کوئی چیز ہے۔ ردِ عمل میں دیگر کئی ممالک نے ایران سے سفارتی تعلقات توڑ لیئے ۔ لیکن ایران یا دوسرے کسی ملک نے مشرقی پاکستان میں بلاوجہ پرامن شہریوں کو پھانسیاں دینے پراحتجاج نہیں کیا۔ کیا وہ مسلمان نہیں؟کوئی ہمارا ہم مسلک ہوتو اسکے بارے احتجاج کیا جائے اور جو ہمارا ہم مسلک نہ ہواس کے قتل ناحق پر آواز نہ بلندکرنااسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہی فرقہ واریت ہے جو مجموعی طور پر مسلم امہ کی تباہی کا سبب ہے۔ مسلکی و فقہی وابستگی کو ایک طرف رکھ کر صرف مسلمان کی بات کریں۔ ہمارے حکمران کیا سوچ دے رہے ہیں؟ یہودو ہنود اور صلیبیوں کو خوش کررہے ہیں۔ شرم آنی چاہیئے ۔ اﷲ پاک سے ڈرو ۔اپنے اندر غیرت و حمیت اسلامی پیدا کرو۔کل رسول اﷲ ﷺ کو کیا منہ دکھاؤ گے۔ ان کی امت کو تم لوگ اپنے اقتدار کے لیئے ذلیل و خوار کررہے ہو۔ مسلمان بنو۔ اﷲ اور سول کے حکم پر چلو۔ خلافت قائم کرو۔ اپنے فیصلے قرآن وسنت کے مطابق کرو۔ مسلمانوں کے جان و مال کو تحفظ دو۔ ورنہ اﷲ کے عذاب سے تمہیں یہ اقتدار نہ بچاسکے گا۔ اﷲ تمہیں ہدائت دے۔ آمین
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140728 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More