جب ظلم حد سے بڑھ جائے ،جب باطل حق کے
مقابلہ پر اتر آئے،جب اہل حق کو گھروں سے بے گھر کر دیا جائے ،جب سازشیں
عام ہونے لگ جائیں ،جب دشمن للکارنے لگ جائے،جب نرمیوں سے دشمن شیر ہونے لگ
جائے،جب کفر اپنجے پھیلاناشروع کر دے تو اہل حق کے لئے جنگ ناگزیر ہو جایا
کرتی ہے ۔یہی حالات امن و آشتی کے اس پیغمبر رحمت اللعالمین کے سامنے بھی
پیش آئے کہ جس وجہ سے نرمی اور حسن سلوک کے درس دینے والی اس انتہائی شفیق
ہستی کو بھی تلوار ہاتھ میں پکڑ کر میدان جنگ میں آناپڑا۔ اس نبی رحمت
اللعالمین کا درس اگرچہ صلح اور امن و سلامتی ہی کا تھا ۔لیکن اس کی تعلیم
بہر حال بدھ مت کی اہنسایاعیسائیت کی رہبانیت جیسی نہیں ہو سکتی تھی ۔کہ
ظلم ہو تا رہے ۔کفر چھا رہا ہے تو چھاتا رہے ،عفت وعصمت کے آبگینے چور ہوتے
ہیں تو ہوتے رہیں ،بہنوں کی چادریں پھٹتی ہیں تو پھٹتی رہیں ،دشمن للکار
رہا ہے تو للکارتا رہے ،بے غیرتی حد سے بڑھ رہی ہے تو بڑھتی رہے پرواہ کرنے
کی ضرورت نہیں ہے ۔اپنی اہنسار اور اپنی رہبانیت میں مگن رہو ۔بلکہ اس آقا
ؐ کی تعلیم برائی کو برداشت نہ کرنے اور اسے دبانے کی تھی ۔
مکہ میں آپؐ اور آپکے اصحاب ؓ کو ستایا گیا۔ان پر مکہ کی سرزمین تنگ کر دی
گئی ۔انہیں طرح طرح کی ازیتیں دے دے کر ہجرت پر مجبور کیا گیا اور پھر
مدینہ آنے کے بعد بھی انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا۔کبھی منافقین سے
ساز باز کی گئی ،کبھی یہود کو ابھار نے کی کوشش کی گئی ،کبھی دیگر عرب
قبائل کو مقابلے پر لانے کی کاروائیاں کی گئیں اور کبھی خود مشرکین مکہ ان
پر چڑھ دوڑے اور آمادہ پیکا رہو گئے ۔ان حالات میں طاہر ہے کہ محمد ؐعربی
کے لئے تلوار ہاتھ میں لینا ناگزیر ہو چکا تھا۔اب میدان جنگ میں آنا اور
کفر کو ناکوں چنے چبوانا لازم ہو چکا تھا۔ہادی عالم دوجہاں نے جنگ کی لیکن
آپ ؐ کی جنگ اور جنگ کے عام مفہوم میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔آپ ؐ نے جنگ
کو جہاد میں بدل دیا ۔اسلام سے قبل اقوام کے نزدیک جنگ کے مقاصد عموماًملک
گیری ،ذاتی شہرت اور دبدبہ میں اضافہ ،مال ودولت کا حصول ،دشمن کو
کچلنا،بزدلی کے طعنے سے بچنا،دشمن سے انتقام لینااور اپنی عصبیت کی تسکین
وغیرہ ہوا کرتے تھے ۔اسلام نے جو جہاد کا تصور دیا ہے ۔ اس کے مقاصد اعلائے
کلمتہ اﷲ،ظلم کے خاتمہ کی کوشش،مظلوم کی دادرسی،حق کی اشاعت اور فلاح
انسانیت وغیرہ ہیں ۔اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد جنگ کے ان مقاصد سے کہیں اعلیٰ
ہیں ۔
اسلام نے جنگ کے طریقہ کا ر اور جنگ کی اخلاقیات کو بھی بدلا۔جنگ میں بے
دردی وسفاکی ،املاک کی تباہی ،معاہدوں کی خلاف ورزی،اور ہر قسم کی غنڈہ
گردی روا تھی۔اس کے بر عکس اسلام نے جہاد میں اعلیٰ اقدار کو شامل
کیا۔مثلاًیہ کہ جنگ کے دوران خدا اور اس کے رسول کے احکام کو پس پشت نہ
ڈالنا،عورتوں ،بچوں اور ضعیفوں پر ہاتھ نہ اٹھانا،دشمن صلح پر آمادہ ہو
جائے تو صلح کر لینا۔معاہدوں کی پابندی کرنا ،پناہ طلب کرنے والے کو پناہ
دے دینا ۔غیر جانبدار کافر سیجنگ نہ چھیڑنا ،سوئے ہوئے غافل اور لڑائی سے
معذور افراد پر ہاتھ نہ ڈالنا ۔قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر جہاد کی
ترغیب دے کر اور جہاد ،مجاہدین اور شہدا،کے فضائل بیان کر کے جہاد کی اہمیت
و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے ۔ارشاد آیا ت قرآن۔(و جاھدوا فی سبیلہ لعلکم
تفلحون ) ترجمہ ۔اور اس کی راہ میں جہاد کر و تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ)
حضور اکرم ﷺ جنگی زندگی میں اور عام زمدگی میں بھی انتہائی بہادر ،شجاع ،نڈر
اور بے خوف تھے ۔آپ ؐ خود فرماتے ہیں (کہ انا اشجع الناس۔ترجمہ۔میں لوگوں
میں سے سب سے زیادہ شجاع ہوں )ایک دفعہ رومی حملے کا خطرہ ہر وقت مسلط تھا
کہ اچانک رات کے وقت ایک شور سا سنائی دیا۔صحابی اکرام ؓ نے یہی سمجھا کہ
رومیوں نے اچانک حملہ کر دیا ہے ۔چند صحابہ کرام ؓ تحقیق احوال کے لئے شور
کی سمت نکلے تو دیکھا کہ حضور اکرم ﷺپہلے ہی بے خوفی کے ساتھ بالکل اکیلے
حالات کا مشاہدہ کر کے واپس آرہے ہیں ۔آپ ؐنے آکر صحابہ ؓ کو تسلی دی کہ
کوئی حملہ وغیرہ نہیں ہو رہا۔ایک دفعہ آپ ؐسو رہے تھے کہ ایک کافر نے آپ ؐپر
تلوار سونت لی ۔ آپ ؐ کی آنکھ کھل گئی وہ کافر کہنے لگا کہ آج تجھے میرے
ہاتھ سے کون بچائے گا۔آپ ؐکے چہرے پر کوئی گھبراہٹ ،پریشانی ،ڈریا خوف عیاں
نہیں ہوا۔نہایت سکون سے جواب میں فرمایاکہ ’’اﷲ‘‘کافر پر ایسا رعب طاری ہوا
کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔
آپ ؐایسے سپہ سالا رتھے کہ ساری فوج آپ کی محبت میں سرشار ہوتی تھی ۔مجاہدین
آپ ؐ پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہوتے تھے ۔آپ ؐ میں بہترین قائدانہ صلاحیتیں
موجود تھیں ۔آپ نے اپنے مجاہدین کے دلوں کو مسخر کر کے انہیں چلایا۔اپنی
فوج کو بہترین انداز میں آگے بڑھاتے اور جنگ کے ہر پہلو پر نظر رکھتے ۔نہایت
عمدہ اور بہترین حکمت عملی اختیار کرتے حالات کی مناسبت سے فوری اور درست
فیصلہ فرماتے اور اس کے مطابق اقدام کرتے ۔آپ ؐ کبھی بھی اپنا فیصلہ یا حکم
زبردستی نافذ العمل نہ قرار دیتے بلکہ اپنے اصحاب ؓ کے جذبات و احساسات کا
بھی خیال رکھتے ۔جنگی صورتحال کے متعلق ہر اہم موقع پر صحابہ اکرام سے
مشورہ فرماتے تھے۔
آپ ؐ اپنی سپاہ کی حربی اور اخلاقی تربیت بھی فرمایا کرتے تھے ۔موقع کی
مناسبت سے مناسب ہدایات دیا کرتے تھے ۔اپنے مجاہدین کی جہادی تیاریوں میں
ان کی راہنمائی فرمایا کرتے تھے ۔حضور اکرم ﷺپوری کائنات کی انسانی تاریخ
میں سب سے زیادہ کامیاب سپہ سالا ر تھے صرف دس سال کے قلیل عرصہ میں دس
لاکھ مربع میل کو فتح کر لینا اور وہ بھی انتہائی کم جانی نقصان کے ساتھ
اور پھر اس پر بہترین انداز میں کنٹرول بھی رکھنا یہ صرف آپ ؐ ہی کا
کارنامہ ہے اس عظیم سپہ سالار کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ بھی تھی کہ اس نے
صرف علاقے ہی فتح نہیں کئے بلکہ لوگوں کے دل بھی مسخر کئے۔کیونکہ عزت اور
ذلت دینے والا صرف اﷲ ہے تو پھر وہ اپنے پیار ے حبیب کو کیسے ذلت سے دوچار
کرسکتے تھے ۔
ہمارے پیارے نبی نے صرف اور صرف اﷲ پر یقین رکھا۔ حضور اکرم ﷺ میدان جنگ
میں صرف اﷲ کی مدد پر یقین رکھتے اور اﷲ ہی سے مدد کی دعا مانگتے تھے ۔اس
لئے ہر بار فتح نے آپ ﷺ کے قدم چومے ۔ |