باس از آل ویز رائٹ

لوگوں کو بھوک پیاس سرکاری معالجہ گاہوں کے آلودہ فرش پر ایڑیاں رگڑتے اور اندھیروں میں ڈوبا دیکھتا ہوں تو بےچین ہو جاتا ہوں۔ ہوٹلوں پر بچوں کو برتن صاف کرتے اور چائے کا ٹرے پکڑے‘ گئی رات کے ننھی اور معصوم آواز میں گرم آنڈے کا آوازہ مجھے سونے نہیں دیتا۔ انڈے فروش بچہ جا چکا ہوتا ہے لیکن اس کی آواز کی بازگشت میرے حواس پرقبضہ جمائے رکھتی ہے۔ دوسری طرف عیش وعشرت کی زندگی حیرت میں غرق کر دیتی ہے۔ اتنا بڑا تضاد؟

سوچتا ہوں یہ کوئی الگ سے مخلوق ہے۔ بدقسمتی سے انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ موج میلے اور عیش کی کو اپنا حق سمجتے ہیں۔ کسی سے چھین لینے اور اس کے حق پر ڈاکے کو خوشحال زندگی کا پہلا اور آخری حق سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی زندگی اور زندگی کا مقصد بھی ہے اور اس کے بغیر زندگی‘ زندگی کہلانے کی مستحق نہیں۔

میری بیگم گلفشانی فرماتی ہے اور اس کے دہن تقدس مآب سے پھر کرکے یہ جملہ نکلتا ہے
"تمہیں اوروں کی تو فکر رہتی ہے اپنے گھر کے لیے کیا کیا ہے۔"

میں نے پوری دیانت داری سے محنت کی ہے۔ مجھے ہمیشہ ان لوگوں کی فکر رہی ہے۔ وہ ایمانداری اور دیانت داری کو منہ زبانی کی بات قرار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک نماز روزہ حج وغیرہ ہی ایمان اور دیانت ہیں اور ان ہی کے حوالہ سے شخص کی پہچان ہوتی ہے جب کہ میرا موقف یہ ہے کہ نماز روزہ حج وغیرہ اسلام نہیں بلکہ اسلام میں ہیں۔ وہ یہ مانتی ہی نہیں وہ کیا کوئی بھی نہیں مانتا۔ میں تاریخ کا طالب علم بھی رہا ہوں اور میں نے تاریخ کے ہر پنے کا غیر جانبداری سے مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں
١۔ تخت اور اقتدار کو حرف آخر کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
٢۔ تخت اور اقتدار کو جو چیلنج کرتا ہے کتے کی موت مرتا ہے۔
٣۔ آئین اور قانون تخت اور اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
٤۔ ملک کے ادارے تخت اور اقتدار کے لیے فرائض انجام دیتے ہیں۔
٥۔ عوام تخت و تاج کے لیے کماتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ شاہ کو کسی قسم کی تھوڑ نہ آنے دیں۔ تھوڑ آنے کی صورت میں شاہ کا آئینی حق ہے کہ وہ زبردستی ان کے منہ کا نوالہ چھین لے۔
٦۔ حاکم کے منہ سے نکلی پہلے حکم پھر اصول پھر قانون اور اس کے بعد آئین
کے درجے پر فائز ہوتی رہی ہے۔

یہ ضرب المثل سنے کو عام ملتی ہے۔ باس از آلویز رائٹ۔ یہ صرف زبانی کلامی کی بات نہیں چھوٹے بڑے تمام دفاتر کا نظام اس اصول کے تحت چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے۔ اسی طرح لفظ ٹی سی بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ باس کے کہے پر انگلی رکھ کر تو دیکھیے بستر کے نیچے سے رسی نہیں نکلے گی۔ خفیہ رپورٹ تو اسی نے لکھنی ہوتی ہے۔ یس سر ڈی میرٹ کو میرٹ میں بدل دیتا ہے۔ انکار اور تنقید کے نتیجہ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پسلیاں چاباڑیاں اور ٹانگیں ٹوٹ سکتی ہیں۔ جان جا سکتی ہے۔ اشخاص اور لاشوں کی بازیابی قاضی سے بھی مشکل ہو جاتی ہے۔

تاریخ ظلم وستم توڑنے والے حاکموں کی لکھی جاتی ہے۔ مظلوم کا اتا پتا نہیں ملتا۔ سب سے زیادہ علاقہ فتح کرنے والے کو عظیم حاکم قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کے کالے کرتوتوں پر سوالیہ ڈالتا ہے تو اس سے جینے کا حق چھین لیا جاتا کہ دیکھو جی اتنے عظیم حاکم پر انگلی رکھ کر کفر کر دیا گیا ہے۔ گویا انسان کو‘ انسان جو غلطی بھی کرتا ہے‘ رہنے نہیں دیا جاتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر حاکم نبی سے دوچار انچ ہی نیچے رہا ہو گا۔ لوگ بےچارے کیوں تاریخ کو دیکھتے پھریں۔ وہ مورخ اور اس کے درس کاروں ہی کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔

میں نے انٹرنٹ پر دیکھا چالیس ہزار مسلمانوں کی ہڈیوں سے گرجا گھر تعمیر کیا گیا۔ ہر کوئی معاملے کو مسلم یا عیسائی عینک سے دیکھے گا۔ اول اول میں نے بھی اسے مسلمان کی عینک سے دیکھا۔ میں ساری رات سو نہیں سکا۔ صبح پانچ بجے میری نظر عصر حاضر کے احوال پر پڑی۔ امریکہ کو اسامہ درکار تھا‘ میں نہیں جانتا اس کا کیا جرم تھا میں صرف اتنا جانتا ہوں اس پر گرفت کے لیے بچوں بوڑھوں بیماروں عورتوں سے زندگی چھین لی گئی۔ ان بےچاروں کوعلم تک نہ تھا کہ ان سے زندگی کیوں چھینی جا رہی ہے۔ جس کا باپ بیٹا بھائی ماں بلاجرم مار دی گئی وہ خاموش بیٹھے گا؟

اب اس کی طرف سے ردعمل آتا ہے تو یہ غیرفطری نہیں اور اسے دہشت گردی قرار دینا‘ دہشت گردی یا شدت پسندی نہیں ہے؟

اس قریب قریب نبی فاتح حاکم نےعسائیوں کی لاشیں بچھائی ہوں گی جواب میں عسائیوں نے کمزور اورغیر فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو گا اور اسی سے چرچ تعمیر کیا گیا ہو گا۔ کسی سے زندگی چھین لینا انتہائی برا فعل ہے اور یہ فعل انجام دینے والا مردود‘ سو فیصد مردود ہے۔ یہ فتوی صرف غیر مسلم لوگوں کے لیے تیار رکھنا بعید از انصاف ہے لیکن یہ رویہ عام ہے۔ ہمارے اسلام دوست طبقےوہ وہ خوبیاں تلاشتے ہیں جو اس حاکم کے اپنے خواب بھی نہیں رہا ہوتا۔ چونکہ وہ مسلمان حاکم تھا اس لیے اس میں کوئی برائی نہیں رہی ہو گی بلکہ اس سے برائی سرزد ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جو برائی نکالے گا اسے پاپ لگے گا۔

اگر یہ چرچ فوجیوں کی لاشوں سے تعمیر ہوا ہوتا تو یہ الفاظ میرے قلم سے نہ نکلتے۔ مارنے اور علاقہ فتح کرنے گئے تھے‘ مارے گئے۔ جنگ میں یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ایسا ہوتا ہی رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ عوام کا مرنا قابل افسوس ہے۔

جنگیں شاہوں کے کھیل کا حصہ ہے۔ اگرچہ حاکم کوئی نہ کوئی نعرہ دے کر میدان کارزار میں اترتا ہے۔ فتع ہو گئی تو پاؤ بارہ شکست کی صورت میں بھگنا رعایا کو ہی پڑتا ہے جن کا‘ شاہ کی اس عیاشی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔

یہ معاملہ اسلامی تاریخ تک ہی محدود نہیں غیرمسلم حاکم بھی ایسے ہی تھے۔ اسلامی مولوی کی طرح پنڈت پادری بھی اپنے لوگوں کے پاڑشے اتارتے رہے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ہم میں مسلمان کون ہیں۔ آپ تلاش لیں وہابی‘ دیو بندی‘ بریلوی‘ شعیہ وغیرہ وغیرہ مل جائیں گے‘ مسلمان نہیں ملیں گے۔ یہ ایک دوسرے کو مشرک اور کافر قرار دیتے آئے ہیں۔

تقسیم کی پالیسی انگریز نے دی تھی اور اس کی یہ پالیسی بڑی کامیابی سے چل رہی ہے۔ فورٹ ولیم کالج نے بڑی دیانت سے اس خطے کی زبان کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ فوج کے لیےرومن خط قرار پایا۔ اس طرح حضرت ہند بن حضرت حام بن حضرت نوح کی سنتان ایک دوسرے سے کوسوں دور چلی گئی۔ یہ کون سا اسلام ہے جس میں انسان' انسان سے دور چلا جائے بلکہ ایک دوسرے کا جانی دشمن ہو جائے۔

اس مسکین انسان کے ساتھ شروع سے ڈرامے ہوتے آ رہے ہیں۔ عوام کو استعمال کیا جاتا رہا ہےاور ہر معاملہ عوام کی جھولی میں ڈالا گیا ہے۔ چند ووٹ حاصل کرنے والا عوامی نمائندہ ٹھرا ہے۔
انیس سو چھے میں ہونے والے اجلاس میں کون لوگ تھے کوئی بتانے کی جرات کرسکتا ہے؟
خط آئین قومی منشی شاہی توہین عدالت عدالتی سزا مخصوص کا احتجاج الگ الگ المناک کہانیاں ہیں۔
مورخ وہی لکھے گا جس کے دام ملیں گے۔ ان کے عظیم کارناموں کی کہانیاں چلیں گی بالکل اسی طرح جس طرح خطبہ الہ آباد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتا کہ اس میں ہے کیا؟
سب راز ہے اور آج آتے کل کو راز رہے گا۔
اورنگ زیب‘ ٹوپیاں سینے والا عظیم بادشاہ ہی رہے گا۔

کاش کوئی رحمان بابا کا کلام یا اس عہد کے شعرا کا کلام پڑھ دیکھے سب کھل جائے گا۔ یہ بھی کھلے گا کہ زوال کا موڈھی یہ ٹوپیاں سینے والا درویش بادشاہ ہی تھا۔
....................
"There is a church in the city of Sedelik of the Czech Republic made of parts of
Muslims. In the year of 1218, the Pope of that time ordered the construction of
a church using the bones of 40,000 Muslims killed for its construction. "
https://message.snopes.com/showthread.php?t=65207

انسان' ہاں وہ ہی انسان جسے الله نے' احسن تخلیق فرمایا' حیرت' افسوس اور کرب کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے اور اس سوچ میں گم ہو جاتا ہے' کہ 1218 کا پوپ جسے سراپا پاپ کہنا زیادہ مناسب ہو گا' کس عیسائیت کا نمائندہ تھا۔ یہ اس عیسائیت سے متعلق تھا ہی نہیں' جو پیار اور محبت کا درس دیتی ہے۔ ایک گال پر تھپڑ مارنے والے سے' بدلہ لینے کی بجائے' دوسرا گال پیش کرنے کا سبق دیتی ہے۔ اطراف میں کسی مذہب کے پیرو نہیں' بپھرے ہوئے انسان دشمن ڈنگر تھے۔ زندہ ہوتے' تو ان کی ہدایت کی دعا مانگتے کہ شاید درستی آ جاتی' اب یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ الله انہیں غریق لعنت کرے اور ان سے موجود لوگوں کو' الله ہدایت عطا فرمائے۔

انسان' خواہ کسی بھی مذہب علاقہ اور رنگ و نسل سے ہو' اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ فوج حفاظت کے لیے ہوتی ہے' اس ذیل میں مخالف کی فوج ہی کیوں نہ ہو' بےبس' بےہتھیار اور جنگ سے غیر متعلق لوگوں کی حفاظت کرئے۔ حفاظت نہیں کرتی' کم از کم لوگوں کی جان اور مال کونقصان نہ پہنچائے۔ انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دے۔

'پر کیا کریں
جنگ کی ہی لوٹ مار اور قتل و غارت کے لیے جاتی ہے۔

ناگہانی حوادث میں' متاثرین ہم دردی اور پرخلوص مدد کے مستحق ہوتے ہیں' لیکن باظاہر انسان باطنی سطع پر درندے' اسے عطیہءخداوندی سمجھ کر' اندھیر مچا دیتے ہیں۔ انہیں متاثرین کی جان سے زیادہ' جیب پیاری ہوتی ہے۔ ہاتھ پر بندھی کم قیمت گھڑی بھی' اس نہج کی مدد سے' محفوظ نہیں رہ پاتی۔

جنگ میں مفتوح کے زخموں سے' جیتے کو کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس کی لاش' مردہ کتے سے کم تر حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ زخموں سے بہتا لہو' ان کے دل و دماغ پر' دستک نہیں دیتا۔ ناگہانی حوادث میں' صورت حال اس سے مختلف نہیں ہوتی۔ وہ مرے کو مزید مارنے پر' یقین رکھتے ہیں اور اس میں ہی انسانیت اور انسان دوستی کے مخفی راز تلاشتے ہیں۔ مرنے والا تو مر گیا' اشیا اس کے کس کام کی۔ ہاں زخمی کی مدد' ان کا نہیں' حکومت کا فریضہ ہے۔ آخر فضول اور بےفضول بھاری ٹیکس' کس لیے وصولے جاتے ہیں۔

کاش ان پر یہ کھل جائے' کہ ٹیکس عوامی بہبود کے لیے نہیں' تاج محل اور نور محل بنانے اور ویگرا کی خرید کے لیے' ؤصولے جاتے ہیں. لوٹ مار میں' وہ ان کے بھی پیو ہوتے ہیں۔

سماوی آفات اہل ریا کے لیے' من وسلوی سے کم نہیں ہوتیں۔ لوٹ مار تو کرتے ہی ہیں' انسان دوست طبقوں کی طرف سے فراہم کی گئی چیزوں کو بھی ہڑپتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے والوں سے' لوٹ کا حصہ اور قیمتی اشیا کے تحائف بھی' وصولتے ہیں۔ نہ دینے والے' باغی ملک دشمن اور غدار سمجھے جاتے ہیں۔ وہ شاید اپنی سطع پر درست بھی ہوتے ہیں' انہیں کون سے' مخبری اور قوم و وطن سے غداری کے صلہ میں' جاگیریں' ٹائیٹل اور تمغے ملے ہوتے ہیں۔ لے دے کر' ان وچاروں کے پاس' یہ ہی بالائی آمدن کا ایک حقیر اور معمولی سا ذریعہ ہوتا ہے۔ باقی رہ گیے متاثرین' ان کا الله مالک ہے۔ آخر ایک نہ ایک دن اپنے پاؤں پر اٹھ ہی کھڑے ہوں گے۔

حاضر سروس کی دڑکیاں تو لگتی رہتی ہیں اور لگتی ہی رہیں گی۔ زندہ بھاگتا دوڑتا ہی اچھا لگتا ہے۔ ریٹائر ہونے اور مرنے والے' تقریبا ایک سے ہوتے ہیں۔ دفتر شاہی کے حضور' تقریبا مردہ' پٹھانے خاں کی لے میں راگ الاپتا اور مائیکل جیکسن کی طرح رقص کرتا' نظر آتا ہے۔ یہ سب انسان دوستی کے زیر اثر کیا جاتا ہے۔ ان کے بیوی بچے' بلاشبہ اعلی درجہ و نسل کے انسان ہوتے ہیں۔ راگ اور رقص کے منکر' اپنی گربت یا اکڑ خانی کی پاداش میں' دھکے کھاتے ہیں۔ آخر ایک روز' ملک الموت کو ان پر رحم آ جاتا ہے۔ پس ماندگان کو منشی شاہی کی عزت و احترام کے صلہ میں' مرنے والے کی موت پر شکرانے کی صورت میں' کچھ زیادہ میسر آ جاتا ہے۔

یہ چند مثالیں ہیں۔ اس قماش کے لوگوں کو انسان ہونے دعوی ہوتا ہے۔ دکھنے میں بھی' وہ ہو بہو انسان ہوتے ہیں۔ کئی ایک قدم بڑھ کر' مذہبی یا مذہبی سے بھی ہوتے ہیں۔ بھلائی اور اچھائی سے متعلق بڑا جامع اور پرخوص سا لیکچر پلا سکتے ہیں' پلاتے بھی ہیں۔ کچھ نے اس قسم کی کمائی سے' عمرہ بھی کیا ہوتا ہے۔ کچھ پنج وقتے نمازی ہوتے ہیں۔ چرچ' مندر' گرو دورے اور مذاہب کے اس قماش کے لوگ' اپنی اپنی عبادت کا باقاعدگی سے رخ کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھتے ہوئے' گمان گزرنے لگتا ہے کہ یہ تو کمال کے انسان ہیں۔ شاید یہ مہاورہ ان کے حوالہ سے :تخلیق پایا ہو گا
ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور کھانے کے اور
میں یہاں جتنی بھی پرخلوص بکوس لکھ دوں' یہ مقولہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گا
..............
طاقت
یعنی
باس از آل ویز رائٹ
..............

چوری خور مورکھ اور قصیدہ گھوں شاعر' انہیں کرپالو اور دیالو رقم کرتا رہے گا'
کرتا رہے گا۔
.........................
......................
..........................
 

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 2 Articles with 1337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.