ڈیرہ اسماعیل خان کی ٹریفک کی حالت زار
(Muhammad Muaaz, Rawalpindi)
شہر ڈیرہ اسماعیل خان جو کہ موجودہ وقت میں
مسائل میں لپٹا ہوا شہر ہے ،ایک طرف صحت و تعلیم کے مسائل تو دوسری جانب
آسمان سے باتے کرتے مہنگائی نے عوام کو زہنی مریض بنا کے رکھ دیا ہے نہ گھر
میں ڈھنگ کا سکون میسر آاتا ہے اور نہ ہی گھر سے باہر ہر کوئی اپنے غم کا
رونا روتا نظر آتا ہے، گزشتہ دنوں ایک معروف شاہراہ پر چکن سوپ کی چسکیاں
لینے میں مگن تھے کہ ساتھ بیٹھے شخص کی باتوں نے ہمیں چونکا دیا جو کہ
ٹریفک پولیس پر لعن طعن کر رہا تھا ہم نے ان سے اپنا مختصر سا تعارف کروایا
اور پوچھا کہ آپ جو ابھی ٹریفک پولیس پر لعن طعن کر رہے تھے یہ سب کیا
ماجرا ہے وہ بھائی چلا اٹھے اور کہنے لگے کہ نہ پوچھو بھائی ان پولیس والوں
نے تو ہمارا جینا حرام کر دیا ہے ہم اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے مزدوری
کرنے نکلتے ہیں اور یہ ہم پر چالان پے چالا ن کرتے ہیں بس اپنا مختص کردا
کوٹا پورا کرتے ہیں اور چالان بھی صرف ان کو کرتے ہیں جن کے ساتھ سفارش
نہیں ہوتی اور وہ بھی بلاوجہ ․․․․․․ ہم نے لمبی سانس لی اور ان کی ہمت
بڑھاتے مہوےء کہا کہ بس ان کو اﷲ ہدایت دے اور غور کیا کہ واقعی ٹریف کا
مسلۂ ایک گھبیر مسلۂ ہے
موجودہ وقت میں ٹریفک کی حالت انتہائی نازک موڑ پے ہے بازاروں میں دنداتی
گاڑیاں ،رکشوں کا بے ہنگم ہجوم،پھٹے سلنسروں کا شور ،تجاوزات کی بھر مار نے
مجھ سمیت عوام کا جینا محال کر دیا ہے صبح سے لے کر شام تک چاروں بازاروں
میں ٹریفک جام رہتی ہے میری نظر جب بھی ڈیوٹی پر موجود ٹریفک اہلکار وں پے
پڑی میں نے ان کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھا جبکہ حکومتی ادارے سب کچھ
دیکھتے ہوئے بھی چپ کی تصویر بنے ہوئے ہے-
شہر کے پر ہجوم سڑکوں،بازاروں میں پھرتے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہر بندہ
پریشانی کا شکار ہے ٹریفک کا بے ہنگم ہجوم ،ر کشوں کی بھرمار ، دوسری طرف
کئی فٹ تجاوزات نے عوام کو زلیل کرکے رکھ دیا ہے گزشتہ دن بازار میں جانا
کیا ہوا ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی عذاب نے گھیر لیا ہو آٹھ فٹ کے
بازار میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر ایک سو ساتھ درجے کا بخار ہو گیا
ہر طرف شور نے وقتی طور پر دردِسر کا مریض بنا دیا تھاراقم بازار کے باالکل
عین درمیان پہنچ چکا تھا اب واپسی بھی ناممکن تھی آگے بھی گاڑیوں کی قطاریں
اور پیچھے بھی جام ٹریفک تو دوسری طرف ہزاروں کی تنخواہ لینے والے ٹریفک
اہلکار سایئڈ پے بیٹھے سیٹیاں بجانے میں مصروف نظر آرہے تھے ،دوسری طرف لوگ
آپس میں ایک دوسرے پہ غصہ کرتے نظر آئے کہی پیدل افراد اپنی آپ کو اس عذاب
سے نکالنے میں مصروف تھے ِ․․․․․․․․․․․․․میرے ذہن میں کئی قسم کے خیالات جنم
لے رہے تھے جب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ، برداشت ختم ہوتی نظر
آئی تو چشم زون میں لوگوں کے درمیان درمیان یوں راستہ بناتے ہوئے نکلے کہ
ہمیں خود پہ حیرانی ہونے لگی -
تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد بھی دکانداروں کی بے حسی نیراہ چلتے لوگوں
کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رکھا ہے دکاندار کی تجاوزات اور دوچا ر
تہزیب سے نا آشنا بے فکرے گپ شپیوں میں مصروف ہوتے ہئں ہے تو پیدل چلتے
لوگوں کے لیئے وہاں سے گزرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے بازاروں کا تو اب
یہ حال ہے کہ سڑکوں پر راہ چلتے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اژدھا آرہا ہو
․․․․․․․کم عمر چنگچی ڈرائیوروں کی بھر ما ر ہے ہر طرف چنگچیاں لہراتے نظر
آتے ہیں تو دوسری طرف بازار میں موٹرسائیکلوں پے بھی کئی منچلے ون ویلنگ
کرتے نظر آتے ہیں اب تک اس حوالے سے کتنی قیمتی جانوں کا ضیا ع ہو چکا
ہیلیکن نوجوانی کا نشہ کھولتے خون میں ان حادثات کیطرف دھیان بہت کم ہی
جاتا ہے بہت سے نوجوان ون وہلنگ کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
ہیں اور کئی ہمیشہ کے لئے جسمانی معذوری کا شکار بن گئے یہاں سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ ون ویلنگ کی کیوں جاتی ہے؟ یہ انسانی نفسیات ہے کہ انسان کو
نمایاں ہونے کا بہت شوق ہے اور نوجوانوں میں تو یہ جزبہ عروج پر ہے انہیں
اس کی بہت خوشی ہوتی ہت کہ لوگ ان کی بہادری سے متاثر ہوتے ہیں اور تو اور
نہ سمجھی میں آکر سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ․․․․․․․ وہ
بیچارے اس بات سے بے خبر ہی رہتے ہیں کہ اس قسم کی حرکات سے متاثر تو کوئی
نہیں ہوتا البتہ لوگ ان کی اوچھی حرکتوں سے تنگ بھی بہت ہوتے ہیں ،ساتھ ہی
ساتھ ہمیں یہ دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو اﷲ کی عطا کر دہ
نعمت کا کوئی خیال ہی نہیں کوئی احساس ہی نہیں ہے زندگی تو بہت بڑی نعمت ہے
اس کی ناقدری وناشکری کرنا کرنا انسان کو زیب نہیں دیتا اس وقت موٹر سایئکل
وہ سواری ہے جو تقریباً ہر دوسرے بندے کے پاس ہے اگر کوئی نقد قیمت ادا کر
کے نہیں خرید سکتا تو اسے آسان اقساط میں باآسانی مل جاتاہے اور پھر موٹر
سایئکلوں کے بازار ہر دن صبح شام لگتے ہیں اگر آپ فوارہ چوک سے مغربی سرکلر
روڈ کی طرف جائے تو سینکڑوں موٹر سایئکلے آپ کو نظر آئے گی اور ہر دکاندار
نے اپنی موٹر سایئکلے سرکلر روڈ کے فٹ پاتھوں پے کھڑی کی ہے جس سے سرکلر
روڈ پر چلنے والے پیدل حضرات کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے عید
قربان کے دنوں میں ان ہی فٹ پاتھوں پر آپ کوکئی قسم کے اعلی نسل کے جانور
ملے گے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ ہم سب کے
لیے لمحہ فکریہ ہے․․․․․ گاڑیاں ،رکشے،موٹر سایئکل اتنی کثیر تعداد میں آپ
کو ڈیرہ شہر کی سڑکوں پر دنداتے نظر آئے گے ہر چوک،گلی،کوچہ،بازار،سرکل،شہر
کے تمام بڑے چوراہوں میں ٹریفک جام کے مناظر دیکھائی دیتے ہیں بازاروں میں
ٹریفک جام ایک جگہ عوام کے لیے دردــسر تو دوسری طرف تھکے ہارے اہلکار بھی
اپنی ڈیوٹی سے بیزار نظر آتے ہیں ․․․․․․ یہاں ہر طرف ہر ٹائم ٹریفک جام
رہتی ہے اس کا صحیح حل تو یہ تھا کہ یہاں پر ٹریفک پولیس اپنے فرائض
ہوشیاری سے سرانجام دیتی اور اس چوکوں پے موجود ٹریفک اہلکار ایک لمحے کے
لیئے بھی اپنی ڈیوٹی نہ چھوڑتے تاکہ ٹریفک کے بہاو میں فرق نہ آتا لیکن ہر
وقت ڈیوٹی پر موجود رہنا بھی ان عالی شان اہلکاروں کو گوارہ نہیں کرتا اس
لیئے ٹریفک پولیس نے اس کا آسان حل یہی نکالا ہے کہ بس ڈیوٹی آرام دہ کرسی
پر بیٹھ کر کرنی ہے ․․․․․․․جبکہ دوسری طرف ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ رکشہ
ڈرایؤروں سے ہم خاص طور پے نالاں ہے ان ہی کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی ہے
اور اس کے نتیجے میں صورتحال اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ ٹریفک کھولنے میں دو
سے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں ہمیں یہ بات سن کر حیرانی ہوئی کہ اگر رکشہ
ڈرائیوروں کا علاج ٹریفک پولیس کے پاس بھی نہیں ہے توپھر ان کا علاج کون
کرے گا؟؟؟؟؟ |
|