فیشن کی حقیقت

فیشن کے معنی انداز، رواج، دستور، طور طریقہ، شکل، وضع قطع وغیرہ کے ہیں۔ یعنی کسی کام کو کسی خاص طریقہ اور ہیت پر کرنے کو فیشن کہا جاتا ہے۔ لیکن آج کل کے دور میں فیشن وہ خطرناک وبا ہے جس نے بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورتوں سب ہی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔ وضع قطع سے لے کر عادات و اطوار تک ہر فعل آج فیشن کا محتاج نظر آتا ہے، یہاں تک کہ مرنے کے لئے بھی کسی خاص فیشن کو اختیار کیا جانے لگا ہے۔ جتنی تیزی سے اس وبا کا حلقہ وسیع ہو رہا ہے اتنی ہی تیزی سے اس میں تبدیلی بھی واقع ہوتی رہتی ہے اس لئے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی نے کچھ نیا فیشن سمجھ کر اختیار کیا تو پتا چلا کہ یہ تو بہت پُرانا ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس موضوع پر بحث مباحثہ روز مرّہ کا معمول بن چکا ہے اور فیشن پرست اس تاک میں رہتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی نیا فیشن آئے تو سب سے پہلے وہ اختیار کرے تاکہ اس فیشن دوڑ میں کوئی اُس سے آگے نہ نکل سکے اور اس پر لوگ کثیر رقوم بھی خرچ کرتے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اور کاروبار اس کام پر چل رہے ہیں، بڑے بڑے عہدے اس کام سے منسوب ہو چکے ہیں، فنون کی فہرست میں اس کا نام آگیا اور اس کی تعلیم و تربیت کے لئے باقاعدہ سکول و کالجز کام کر رہے ہیں جن سے فارغ الفیشن لوگوں کو اسناد وغیرہ سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ کہ یہ سب کام ہو رہے ہیں صرف لوگوں کو اُلّو بنانے کے لئے۔ شائد آپ یہ سوچیں کہ یہاں پر میں نے کچھ غلّو سے کام لیا ہے لیکن اگر آپ بنظرِ انصاف اس مضمون کا مطالعہ کریں تو آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آجکل کے فیشن کی حقیقت لوگوں کو اُلّو بنانے سے کچھ زیادہ نہیں۔ اور فیشن بنانے والے حقیقت میں لوگوں کو اُلّو بنانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔

فیشن کی شکل میں جو بھی نیا انداز یا طور طریقہ ایجاد ہوتا ہے اُس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک صورت تو حادثاتی فیشن ہے جو کافی مشہور بھی ہے اور میری طرح اور بھی بہت سے لوگوں نے اِس کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ اس کی مشہور مثال یہ کہ کسی درزی سے کٹائی یا سلائی میں کوئی غلطی ہو گئی تو اُس نے سوچا اگر میری یہ غلطی ظاہر ہو گئی تو ایک تو میری شہرت پر حرف آئے گا اور دوسرا مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑے گا۔ لہٰذا اُس نے اپنی غلطی پر فیشن کا پردہ ڈال دیا۔ اور وہ نہ صرف نقصان سے بچ گیا بلکہ ایک نئے فیشن کا مؤجد یا تعارف کروانے والا بھی کہلایا۔ لوگوں نے بلا تردّد اس غلطی کو درزی کی مہارت سمجھ کر نہ صرف اپنایا بلکہ اس بات پر اظہارِ مسرّت بھی کیا کہ اُس نے اُن کو تازہ ترین فیشن اپنانے کا موقع فراہم کیا۔ اسطرح اُس درزی نے تو یقیناً اپنی ذہانت سے اپنی شہرت بڑھا لی لیکن لوگوں کو تو اُلّو بنا دیا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے شعبوں کے ماہرین اس حادثاتی فیشن کے ہتھیار کو ضرورت کے تحت بلاتکلف استعمال کرتے رہتے ہیں اور فیشن پرستوں کو اُلّو بناتے رہتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ' اُلّو بننے میں'، میرا مطلب ہے کہ فیشن کی اس صورت کی اس حقیقت میں تو کسی کو شبہ یا اعتراض نہ ہوگا ۔ ویسے تو فیشن کی اس صورت پر مجھے بھی کوئی اعتراض نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس سے کچھ لوگوں کی روزی وابستہ ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ حربہ اب صرف درزی کی سلائی کٹائی کی غلطیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ شریعت کے احکامات میں ردّوبدل کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔

اب فیشن کی دوسری صورت کی طرف آتے ہیں جس میں کچھ تفصیل درکار ہے۔ یہ فیشن کی وہ صورت ہے جس میں باقاعدہ تحقیق و جدو جہد کے بعد کوئی فیشن منظرِ عام پر لایا جاتا ہے اور اتنا بڑا کارنامہ لوگوں کو دکھانے کے لئے تقریبات اور شوز وغیرہ بھی منعقد کئے جاتے ہیں اور انہیں شوز میں فیشن کی آڑ میں اُس بے حیائی اور عریانی کو بھی خوب فروغ دیا جاتا ہے جس کو پھیلانے میں فیشن نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قسم کا فیشن یقیناً کسی نہ کسی ذہن کی پیداوار ہوتا ہے۔ اب ایک ایسا ذہن جو صحیح اصلاحی و تعمیری سوچ رکھتا ہے اور اسلامی حدود و قیود کا پابند ہے اُسے تو اس قسم کے لغو کاموں سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور وہ ایسے کاموں کو وقت کا ضیاع تصور کرتا ہے۔ لہٰذا عام طور پر یہ فیشن یا تو کسی کافر مشرک کے ذہن کے پیداوار ہوتا ہے یا پھر ایسے مسلمان کے ذہن کی جو ان کافروں مشرکوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اُن کی تقلید کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ان فیشنوں کو اپنانے والے فیشن پرستوں میں بھی یورپ کی تقلید کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ یوں تو اس فیشن پرستی میں مرد بھی کسی سے کم نہیں لیکن عورتیں کو اس فن میں زیادہ خصوصیت و مہارت حاصل ہے ۔ فیشن کو پھیلانے والے فیشن پرستوں کو مختلف طریقوں سے اُلّو بناتے رہتے ہیں اور اس کے سبب لوگ بہت سے خرافات اور گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

وقت اور پیسے کا ضیاع: پہلے اکثر و بیشتر کپڑے گھر میں سلا کرتے تھے، خصوصاً عورتوں کے کپڑے درزی کے پاس بھیجنا بہت معیوب تھا، جب سے فیشن کا دروازہ کھلا سارے گھر کے کپڑے درزیوں کے پاس جانے لگے اس طرح وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور خرچ میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اب چاہے قرض لو یا حصول زر کے ناجائز طریقے اختیار کرو لیکن فیشن کو تو بہرحال پورا کرنا ہے۔ عام طور پر فیشن کی قیمتوں کا انحصار اُس فیشن کی خوبی، معیار یا خوبصورتی پر نہیں بلکہ ان باتوں پر ہوتا ہے کہ فیشن نیا ہے یا پرانا، جتنا نیا فیشن ہوگا اُتنی ہی قیمت زیادہ ہوگی۔ جتنی بڑی کمپنی کی طرف سے فیشن آیا ہوگا اُس کی قیمت اُتنی ہی زیادہ ہوگی اس کے علاوہ اس میں جگہ کا بھی دخل ہے جیسا کہ اس معاملے میں مختلف لوگوں کی پسند اور معیار مختلف ہے، بہت اونچا معیار رکھنے والے یورپ وغیرہ کو پسند کرتے ہیں پھر بعد میں دوسرے ملکوں کا نام آتا ہے اور باقی جو بچے کھچے غریب فیشن پرست ہیں وہ پاکستانی فیشنوں پر یا پھرباہر کے فیشنوں کی نقالی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اب محض ان باتوں کی وجہ سے کثیر رقوم خرچ کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے اور اس سارے ضیاع کا اس کے علاوہ اور کوئی جواز نہیں ہوتا کہ" یہی آجکل کا فیشن ہے"۔

فحاشی و بے حیائی: مسلمانوں میں پھیلنے والی فحاشی و بے حیائی میں جتنا اہم کردار فیشن نے ادا کیا ہے شائید ہی کسی نے کیا ہو۔ کیونکہ اسلام نے تو وضع قطع اور طرزِ زندگی اپنانے میں کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں اور ایک مسلمان اِن حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی کوئی طور طریقہ اختیار کر سکتا ہے جبکہ فیشن کسی قسم کی حدود و قیود سے بالکل آزاد ہے۔ پہلے جن چیزوں کو اپناتے ہوئے لوگ کم ازم ہچکچاتے تو تھے اب فیشن کے نام پر اُن کو بلاتکلف بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں خصوصی ہدف خواتین ہوتی ہیں۔ یہاں پر بھی کسی سوال یا اعتراض کی صورت میں وہی ایک جواب ملتا ہے کہ" آجکل یہی فیشن چل رہا ہے" ، گویا کہ فیشن کے نام پر ہر چیز کے جائز ہونے کی سند حاصل ہوگئی۔ اور فیشن کا لیبل لگتے ہی شرم و حیا کی اُن ساری پابندیوں کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے جو ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہیں۔ بلکہ اگر فیشن پرستی کی پٹی آنکھوں سے اُتار کر غور کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس فیشن کا ایک بڑا مقصد ہی لوگوں میں شرم و حیا کو ختم کر کے بے حیائی کو فروغ دینا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ روز بروز آنے والے فیشنوں میں اس چیز کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، لباس چست سے چست ، گلے بڑے بڑے، کمر بھی کھلی ہوئی، بازو پہلے کہنیوں تک اور اب کندھوں تک ننگے ہوتے ہیں، کپڑا بہت باریک اور پہلے تو نیچے سے کچھ پہن لیا جاتا تھا تاکہ جسم نظر نہ آئے اور اب اُس کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی جاتی، رسولِ کریم ﷺ نے ایسی عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ "وہ لباس پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوں گی "۔ دوپٹہ پہلے سر سے گلے میں آیا اب وہاں سے بھی غائب ہوگیا۔ کچھ ہوش کے ناخن لیں اور سوچیں کہ یہ شیطان کا رچایا ہوا کھیل ہے اور اس سے مقصود آرائش نہیں بلکہ عریانی اور نمائش ہے۔ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا"جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرے" ۔

نمود و نمائش:اسلام میں آسائش اور آرائش تو اپنی وسعت کے مطابق جائز ہے لیکن نمائش ہرگز جائز ہیں۔ اور فیشن سے مقصود آسائش اور آرائش میں سے تو کچھ نہیں البتہ فیشن پرستوں کا ایک مقصد نمود و نمائش ضرور ہوتا ہے اور اس میں بھی عورتیں مردوں کی نسبت نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ اپنے فیشن کی نمود و نمائش کے لئے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں مثلاً، زیورات اور کپڑے دکھانے کے لئے دوپٹہ اُتار کر رکھتی ہیں اور حیلوں بہانوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں، جو عورتیں دوپٹہ نہیں اُتارتیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح اپنے زیور اور کپڑے وغیرہ دکھا دیتی ہیں، اور بالکل ہی کوئی متوجہ نہ ہو تو خود ہی تذکرہ کر دیتی ہیں کہ یہ میں نے فلاں سے لیا یا بنوایا اور اتنی رقم خرچ ہوئی وغیرہ۔ سردیوں میں سردی لگنے کے باوجود سویٹر وغیرہ نہیں پہنتی کہ کپڑوں کا ڈیزائن چھُپ جائے گا۔اور ایک خاص اہتمام یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جو چیز مثلاً جوڑا کسی ایک محفل میں پہن لیا اور لوگوں نے پہنا ہوا دیکھ لیا تو دوسری دفعہ وہ اُن لوگوں کے سامنے نہیں پہننا بلکہ کوئی دوسرا پہننا ہے، اس لئے عورتوں کو یہ حساب کتاب خوب یاد ہوتا ہے کہ میں نے کونسا جوڑا کونسی محفل میں کس دن پہنا تھا اور کس کس نے دیکھا تھا۔ یہاں تک کہ برقعہ جس کا مقصد ہی پردہ ہے وہ بھی فیشن کی زد سے نہیں بچ سکا اور بعض اوقات یہ بھی نمائش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

جسمانی و ذہنی تکلیف: فیشن کا ایک مقصد اگر آسائش ہوتا تب بھی اسے کچھ فائدہ مند قرار دیا جا سکتا تھا لیکن فیشن کو اختیار کرتے وقت آسائش کو بھی مدِّنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ بعض اوقات اس کے باعث جسمانی و ذہنی کوفت و کلفت بھی اُٹھانی پڑتی ہے۔ مثلاً اس بات کو پینٹ پہننے والے حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پینٹ کی نسبت کُرتا شلوار زیادہ آرام دہ ہے لیکن پھر بھی فیشن کی خاطر جینز کی اور چست سے چست پینٹ شرٹ پہننا بھی گوارا ہے۔ اسی طرح مرد شدید گرمی میں بھی تھری پیس پہننے پر مجبور ہیں۔ عورتیں گرمیوں میں شدید الجھن اور تکلیف کے باوجود بھی ریشمی لباس پہنتی ہیں، زیوروں کا بوجھ اپنے اوپر لادتی ہیں۔ اور سردیوں میں سردی برداشت کرلیتی ہیں لیکن بازو ضرور ننگے رکھتی ہیں اور اگر ڈیزائن دکھانا ہو تو سویٹر بھی نہیں پہننا۔ بھنوؤں کے بال نوچتی ہیں، جس سے نہ صرف تکلیف ہوتی ہے بلکہ فطری حسن بھی زائل ہو جاتا ہے اور چہرہ بدنما دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا " اور شیطان نے یوں کہا کہ میں اُن کو ﴿اور بھی﴾ تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے" ﴿نسائ ۹۱۱﴾ ۔ یہ سب تکالیف سہنا گوارا ہے لیکن فیشن کی غلامی کا طوق گلے سے نکالنا گوارا نہیں۔ مجھے افسوس ہے فیشن پرستوں کی بے بسی پر کہ اپنی پسند نا پسند اور آرام و سہولت کے انتخاب کی بھی آزادی نہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی لباس میں اِن کو کونسی جسمانی مضرت یا نقصان محسوس ہوتا ہے۔ آخر کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب شیطان کا چکر ہے۔

اسلامی اقدار سے انحراف اور غیر مسلموں اور فاسقوں کی مشابہت: اس فیشن پرستی نے اسلامی اقدار کو جس طرح پامال کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ غیر مسلموں کی تقلید کے شوق میں فیشن کے نام پر اُن کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے بلکہ یہ مشابہت بھی بذاتِ خود ایک فیشن بن گئی ہے۔ اور اکثر اوقات کسی فیشن کے جواز میں یہ جملہ بھی سننے میں آتا ہے کہ یہ فیشن فلاں مشہور آدمی نے اختیار کیا تھا یا یہ فلاں اداکار کا طریقہ ہے، چاہے حقیقت میں وہ طریقہ نہایت بُرا ہی کیوں نہ ہو۔ ان لوگوں کو حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد کو ضرور مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ" جو شخص ﴿وضع وغیرہ میں﴾ کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہے"﴿احمد، ابو داؤد﴾۔ یعنی اُس کا حشر بھی اُنہیں کے ساتھ ہوگا۔ چنانچہ داڑھی ہی کو لے لیں کہ اسلام نے جو داڑھی کا حکم دیا اُس کو تو فیشن پرست حضرات بوجھ اور پابندی سمجھتے ہیں، بلکہ اُلٹا چکر چل رہا ہے کہ داڑھیاں صاف کرائی جا رہی ہیں اور مونچھیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ یہ شرعی داڑھی رکھنے والوں کو تو دقیانوسی اور فرسودہ خیال کرتے ہیں اور خود کافروں مشرکوں کی تقلید میں عجیب و غریب ڈیزائن کی داڑھیاں رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پہلے وہ فرنچ داڑھی کا رواج تھا کہ تھوڑی کے اردگرد ذرا سی داڑھی بڑھا لی۔ اس کے تو نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ غیر مسلموں کی مشابہت اور تقلید ہے۔ اور اب تو روز نئے نئے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں کسی نے کانوں سے تھوڑی تک دو لکیریں بنائی ہیں کسی نے ہونٹوں کے نیچے ذرا سا نشان بنایا ہے غرض چہروں پر طرح طرح کی لکیریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسی طرح سر کے بال بھی مختلف نمونوں کے ملتے ہیں کسی نے پیالہ بنایا ہوا ہے، کسی نے بال چہرے پر گرائے ہوئے ہیں وغیرہ۔ لباس کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے کہ پینٹ شرٹ نہ تو اسلامی لباس کی شرائط پر پورا اُترتا ہے نہ یہ ہمارا قومی لباس ہے تو پھر اس کے علاوہ اس کا اور کوئی جواز نہیں کہ یہ غیر مسلموں کی تقلید اور آجکل کا فیشن ہے۔ پھر پینٹوں میں بھی آئے دن نئے نئے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسلام نے جو ٹخنے کھلے رکھنے کا حکم دیا وہ تو فیشن پرستوں کی نظر میں دقیانوسی اور ناقابلِ عمل ہے لیکن نیکر اور بنیان پہن کر بازاروں میں پھرنا، پینٹوں کو آدھا پھاڑ کر پہننا یا صرف گھٹنوں کا حصہ پھاڑ دینا مہذب ہونے کی علامت ہے۔ بہت ہی باریک لباس پہننے کا فیشن اب مردوں میں بھی چل نکلا ہے۔ مولویوں کا سر سنت کے مطابق ڈھکا ہوا اچھا نہیں لگتا لیکن عجیب و غریب نمونوں کی ٹوپیاں اور چشمے پہننا فیشن ہے۔ ایک احمقانہ فیشن جسم پر نقش و نگار بنانے کا بھی چل پڑا ہے جس کا نام"ٹیٹو" ہے اور اس بے ہودہ کام کے لئے بھی بڑی بڑی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ حیرت ہے ایک طرف تو لوگ چہرے کے کیل مہاسے دور کرنے اور رنگ گورا کے لئے دنیا جہان کی کریمیں استعمال کرتے ہیں اور دوسری طرف جسم کھدوا کر تکلیف برداشت کرکے نقش و نگار بنوانا بھی فیشن ہے۔ سچ ہے کہ جہالت کی کوئی حد نہیں۔ عورتیں کا تو غیر مسلموں کی مشابہت اور تقلید کے معاملے میں جواب نہیں جن عورتوں کو زیادہ باہر نکلنے کا موقع نہیں ملتا اُن کے لئے ٹی وی اس کا بہترین ذریعہ ہے اس لئے وہ ٹی وی کے پروگراموں میں لباس و انداز اور زیورات وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہیں بلکہ بعض تو کچھ مخصوص پروگرام دیکھتی ہی اسی غرض سے ہیں۔ انہیں خوب یاد ہوتا ہے کہ فلاں پروگرام میں فلاں کے بال ایسے تھے، زیور ایسے تھے، فلاں نے ایسا جوڑا پہنا تھا اُس کا رنگ یہ تھا، اُس پر ایسی پھول بوٹیاں بنی ہوئی تھیں وغیرہ۔ جیسے ہی کوئی نیا فیشن دیکھ لیا بس اب جب تک اس جیسا نہیں بنایا چین نہیں آئے گا۔ پھر بعد میں اس پر تبصرے بھی بہت ہوتے ہیں۔ زیورات سے تو کبھی جی بھر ہی نہیں سکتا اسی لئے کانوں اور ناک میں اب کئی کئی سوراخ کرنے پڑتے ہیں اور پورے پورے بازؤں کا چوڑیوں سے بھرنا بھی فیشن ہے۔ بالوں کے فیشن جن میں جوڑا بھی باندھتی ہیں جسے حدیث میں قربِ قیامت کی نشانیوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چہرے کے فیشن، چال ڈھال، گفتار کے فیشن اور نہ جانے کون کون سے فیشن چل نکلے ہیں، غرض اس فیشن کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں کی شباہت بناتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی شباہت بناتی ہیں ﴿بخاری﴾۔ لیکن اسی فیشن کے نام پر ہی مرد عورتوں کی اور عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کر رہی ہیں، چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ مرد عورتوں کی طرح بال رکھ رہے ہیں، زیورات پہلے تو صرف عورتوں کے ساتھ مخصوس تھے لیکن مرد حضرات نے سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں اس لئے انہوں نے بھی کانوں میں بالیاں، ہاتھ پیر میں کڑے، گلے میں لاکٹ اور ریشمی لباس وغیرہ پہننے شروع کر دیے۔ ٹخنے کھولنے کا حکم مردوں کے لئے تھا لیکن جب مردوں نے اسے چھوڑ دیا تو عورتوں نے مردوں کی برابری کا حق ادا کرنے کے لئے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح عورتیں مردوں جیسے بال رکھتی ہیں البتہ اس کا نام "بے بی کٹ" رکھ لیا ہے۔ مردوں کی طرح پینٹ شرٹ پہنتی ہیں جو بے حیائی کا سبب بھی ہے۔ ایک جگہ کا واقعہ ہے کہ کسی جگہ دعوت تھی، مرد اور عورت ایک ہی جگہ موجود تھے، ایک نو عمر کو دیکھا کہ رواج کے مطابق میز پر کھانا لگا رہا ہے، کسی کی زبان سے یہ نکل گیا کہ "لڑکا بڑا ہونہار ہے، سلیقہ مندی سے کام کر رہا ہے"، اس پر پیچھے سے آواز آئی کہ"میاں کیا فرما رہے ہیں، یہ لڑکا نہیں، میری لڑکی ہے" ان صاحب نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور ایک نظر ڈال کر کہا" معاف کیجئے، مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اس کی والدہ ہیں" اس نے فوراً جواب دیا کہ "میاں! آپ صحیح دیکھا کیجئے، میں والدہ نہیں، اس کا والد ہوں"۔

یہ تو میں نے چند ایک مثالیں نمونے کے طور پر پیش کردیں ورنہ اس فیشن کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اب ذرا خود ہی اپنے ان فیشنوں کو عقل کی عدالت میں پیش کریں تو اپنی حماقتیں نظر آجائیں گی۔ ورنہ پھر عوام کے سامنے ہی پیش کریں۔ ایسے لوگوں کی بھی ایک کثیر تعداد ملے گی جو خود شریعت کے پابند نہیں لیکن محض اپنی عقل کی بنا پر ان فیشنوں کو بے ہودہ اور احمقانہ سمجھتے ہیں۔ ان تہذیب یافتہ فیشن پرستوں سے میرا ایک سوال ہے کہ اسلامی وضع قطع کو تم دقیانوسی خیال کرتے ہو لیکن ہمارے پاس تو ایک ضابطہ, معیار اور نمونہ ہے جو خالقِ کائینات نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ "تم لوگوں کے لئے رسول اللہ ﴿کی ذات﴾ میں ایک عمدہ نمونہ ہے " ﴿احزاب ۱۲﴾ ۔ اور یہی ہمارے لئے حجت اور دلیلِ قطعی ہے۔ لیکن تمہارے پاس کسی طریقہ کو اپنانے کا کیا معیار ہے سوائے اس کے کہ یہ فیشن ہے چاہے وہ کسی درزی کی غلطی ہو، یا کسی جاہل کی حماقت، یا کسی فتنہ پرور ذہن کی سازش۔ فیشن پرست کبھی کسی ایک فیشن پر متفق نہیں ہوسکتے اور کسی بھی فیشن کا کوئی ایک معیار اور ضابطہ نہیں بتا سکتے، ایک چیز ایک کی نظر میں پسندیدہ اور بہتر ہے تو دوسرے کی نظر میں ناپسندیدہ اور فضول۔ گرگٹ کی طرح وقتاً فوقتاً رنگ بدلنے میں کیا خاک عزّت رکھی ہے کہ ٹکٹکی باندھے ہوئے یورپ کو دیکھ رہے ہیں جو فیشن اور لباس انہوں نے اختیار کیا وہی لباس اور فیشن ان عاشقانِ مغرب نے بھی اختیار کر لیا۔ جو کسی کا عاشق بنے گا اس کو معشوق کے سامنے ذلیل و خوار بن کر رہنا پڑے گا۔ اب اختیار ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اور خلفائے راشدین(رض) کے اور اُن کے معاشرہ کے عاشق بن جاؤ یا یورپ کے معاشرہ اور فیشنوں کے عاشق ہوکر بے عقلوں کے ہاتھوں اُلّو بنتے رہو۔ خوب سمجھ لو کہ عشق کی بنیاد تذلیل پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس غلامی سے نجات عطا فرمائے اور اسلامی طرزِ حیات اپنانے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔ ﴿آمین﴾۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 198429 views A Simple Person, Nothing Special.. View More