غیض و غضب کا شکار مشرکین کا
لشکر اس شان سے مکہ سے روانہ ہوا کہ اس میں کیل کانٹے سے لیس تقریباً ایک
ہزار پُرجوش مردانِ جنگی تھے۔ اس میں ابو سفیان اور ابولہب کے سوا قریش کے
تمام بڑے بڑے سردار عتبہ، شیبہ، ابوجہل، امیّہ بن خلف، اُبیّ بن خلف وغیرہ
اس لشکر کے ساتھ تھے۔ ان میں بیشتر سرداروں کے پیشِ نظر صرف قافلے صرف
قافلے ہی کو بچانا نہیں تھا بلکہ اُن کی نیت یہ تھی کہ مسلمانوں کی نئی
ابھرتی ہوئی قوت کو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیا جائے تاکہ روز روز کا
جھگڑا ختم ہو اور ان کی تجارتی شاہرہ ہمیشہ کے لئے خطرے سے محفوظ ہو جائے۔
اس طوفانی بلکہ شیطانی لشکر کے ساتھ بہت سی گانے بجانے والی عورتیں تھیں جو
مسلمانوں کے خلاف ہجویہ اشعار ترنم کے ساتھ پڑھتی تھیں اور اپنے لشکریوں کو
لڑائی پر ابھارتی تھیں۔ قرآنِ حکیم نے ان کی اکڑ اور نخوت کا ذکر اس طرح
فرمایا ہے:
’’اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اِتراتے ہوئے ﴿یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے
لیے﴾ اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ
سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے ‘‘۔
﴿انفال:۷۴﴾
رسولِ اکرم ﷺ نے جب صحابہ کرام (رض) کو غزوہ بدر کے لئے تیار ہونے کا حکم
فرمایا تو صحابہ کرام کا ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔
ہر کسی کے دل میں شوقِ شہادت انگڑایاں لے رہا تھا۔ جب حضرت سعد بن خثیمہ(رض)
بھی غزوے میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوئے تو اُن کے والد نے شوقِ شہادت سے
مجبور ہو کر اپنے بیٹے سے کہا، بیٹا! ہم دونوں کے سوا کوئی مرد گھر میں
نہیں ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے ایک یہیں رہے۔ تم جوان ہو
اور گھر کی دیکھ بھال بہتر طور پر کر سکتے ہو اس لئے مجھے رسول اللہ ﷺ کے
ساتھ غزوہ میں جانے دو۔ بیٹے ﴿حضرت سعد(رض) نے جواب دیا، ابا جان اگر جنت
کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو میں ضرور آپ کو ترجیح دیتا۔ اللہ نے مجھے
اتنی طاقت دی ہے کہ میں حضور ﷺ کی ہم رکابی کر سکوں اس لئے آپ یہاں ٹھہریے
اور مجھے جہاد پر جانے کی اجازت دیجئے شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کا شرف
بخشے۔ آخر طے ہوا کہ قرعہ اندازی کی جائے۔ قرعہ ڈالا گیا تو بیٹے کا نام
نکلا چنانچہ وہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے
شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ اگلے سال ان کے والد حضرت خثیمہ(رض) کی آرزو
بھی پوری ہوگئی اور وہ غزوہ احد میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔
آنحضور ﷺ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ مدینہ منورہ روانہ ہوئے تو شہر سے تھوڑے
ہی فاصلے پر آپ ﷺ نے لشکر کا جائزہ لیا اور متعدد کم عمر مجاہدوں کو واپس
جانے کا حکم فرمایا۔ ان کم سن مجاہدوں میں حضرت برا(رض)بن عازب، حضرت
اُسامہ بن زید(رض)، حضرت زید بن ثابت(رض)، حضرت رافع(رض) ، حضرت زید بن
ارقم، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمیر(رض) بن ابی وقاص شامل تھے۔ اور تو
سب واپس چلے گئے لیکن حضرت عمیر(رض) بن ابی وقاص زارو قطار رونے لگے کیونکہ
آرزوئے شہادت نے انہیں سخت بے تاب کر رکھا تھا۔ اس پر حضور ﷺ نے انہیں ساتھ
چلنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔
اسلامی لشکر وادی ذفران سے گزر رہا تھا کہ رسولِ اکرم ﷺ کو قافلے اور مکی
لشکر دونوں کے بارے میں پتا چل گیا کہ دونوں کس کس مقام پر ہیں۔ آپ(ﷺ) تمام
صحابہ(رض) کو جمع کر کے ان کے سامنے ساری صورتحال بیان فرمائی اور اپنی
رائے کا اظہار بھی فرمایا۔ چونکہ ان میں سے کچھ اصحاب صرف قافلے پر حملہ
کرنے کے خیال سے آئے تھے، اس لئے انہوں نے مکی لشکر سے ٹکر لینے میں تذبذب
ظاہر کیا۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق(رض) اٹھے اور کہا، یارسول اللہ ﷺ! ہمیں
اللہ کے بھروسے پر مشرکین کے لشکر کا مقابلہ کرنا چاہیے پھر حضرت عمر
فاروق(رض) اٹھے اور انہوں نے پُرجوش لہجے میں کہا، یا رسول اللہ ﷺ یہ قریش
کے سردار ہیں، جب سے انہیں عزت ملی انہوں نے ذلت کا مزا نہیں چکھا اور جب
سے انہوں نے کفر اختیار کیا ہے، ایمان کے نور سے روشناس نہیں ہوئے۔ یہ آپ
سے ضرور لڑیں گے اس لئے لازم ہے کہ ان کے پر غرور سر پر فیصلہ کن ضرب لگائی
جائے۔ اس لئے ہماری جانیں حاضر ہیں۔ ان کے بعد حضرت مقداد(رض) بن عمرو اٹھے
اور یوں عرض پیرا ہوئے:
’’یا رسول اللہ! ہم وہ نہیں ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح کہہ
دیں کہ تو اور تیرا رب جا کر لڑے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں
چلئے جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے۔ اُس اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت
میں ہماری جانیں ہیں اور جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ہم آپ کے
دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے واللہ جب
تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کرتی ہے آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔‘‘
ان مہاجر اصحاب کے جوشِ ایمان نے حضور اکرم ﷺ کو بہت مسرور کیا لیکن آپ ﷺ
انصار کی مرضی معلوم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ(ص) نے اپنا سوال دہرایا۔ اس
پر حضرت سعد بن معاذ انصاری (رض) اُٹھے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! معلوم
ہوتا ہے کہ حضور کی منشا ہماری ﴿انصار﴾ کی مرضی معلوم کرنا ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں
حضرت سعد(رض) بن معاذ نے اب یوں عرض کی: ’’یارسول اللہ! ہم آپ(ص) پر ایمان
لائے اور آپ(ص) کی تصدیق کی کہ آپ(ص) جو کچھ لائے ہیں، وہ حق ہے اور آپ(ص)
سے سمع و اطاعت کا پختہ عہد کیا پس اے اللہ کے رسول! جو بھی مرضی مبارک ہو
وہ کر گزریے، قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ(ص) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر
آپ(ص) سمندر میں بھی اتر جائیں تو ہم آپ(ص) کے ساتھ رہیں گے ﴿یعنی ہم بھی
سمندر میں کود پڑیں گے﴾ ہمارا ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ جب دشمن سے
مقابلہ ہوگا تو آپ(ص)دیکھیں گے کہ ہم جنگ میں کس طرح ثابت قدم رہتے ہیں اور
جانبازی کا حق ادا کرتے ہیں اور عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری بدولت ایسی
مسرت عطا کرے جس سے آپ(ص) کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ پس اللہ کی برکت کے
بھروسے پر آپ(ص)ہمیں ساتھ لے کر پیش قسمی فرمائیں۔‘‘
حضرت سعد بن معاذ(رض) نے جس پُرجوش انداز میں انصار کے جذبہ جانثاری کی
ترجمانی کی اسے دیکھ کر حضور اکرم ﷺ کا چہرۂ مبارت فرطِ مسرت سے چمک
اُٹھا۔
مہاجرین اور انصار کے مشورہ کے بعد فیصلہ ہو گیا کہ لشکرِ کفار ہی کے
مقابلے کے لئے چلنا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے صحابۂ کرام (رض) کو بدر
روانہ ہونے کا حکم فرما دیا۔ |