جنگ احد میں شکست کے اسباب،
شہداء کا احوال اور مدینہ کی خواتین
جنگ کے پہلے مرحلہ میں سپاہ اسلام کی فتح اور بعد کے مرحلہ میں ان کی شکست
کی وجہ احد کے واقعات دیکھنے کے بعد بڑی آسانی سے واضح ہو جاتی ہے لیکن
یہاں وحی کی زبان سے مسلمانوں کی شکست کی وجوہ مختصراً بیان کی جاتی ہیں وہ
وجوہ مندرجہ ذیل ہیں۔
جنگ کے لئے منظم نہ ہونا، سردار کی نافرمانی، جنگی اعتبار سے اہم جگہ کو
چھوڑ دینا مسلمانوں کی شکست کے اہم وجوہات رہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ” خدا نے
احد میں دشمنوں پر فتحیابی کا تم سے سچا وعدہ کیا۔ اس موقع پر تم اس کے
فرمان کے مطابق جنگ کر رہے تھے اور یہ کامیابی جاری تھی یہاں تک کہ تم سست
ہوگئے اور اپنے کام میں نزاع کرنے لگے۔ جس چیز کو تم دوست رکھتے تھے (دشمن
پر غلبہ کو) اس چیز کو تمہیں دکھا دیا گیا مگر تم نے نافرمانی کی۔
ایمان کی کمزوری اور دنیا پرستی، نئے نئے مسلمان ہونے والوں میں ایک گروہ
نے دشمن کا پیچھا کرنے کے بجائے مالِ غنیمت جمع کرنے کو ترجیح دی اور اسلحہ
رکھ کر غنیمت جمع کرنے لگا۔ قرآن مندرجہ بالا آیات کے آخر میں کہتا ہے کہ”
تم میں سے بعض دنیا طلب تھے اور بعض آخرت کے خواہاں اس کے بعد اللہ نے تم
کو ان سے منصرف کر دیا اور تمہاری کامیابی شکست پر تمام ہوئی تاکہ تم کو
آزمائے۔
پیغمبر کے قتل کی افواہ اور وہ اس طرح کہ بعض مسلمان اسلام کی بنیاد ہی سے
ناامید ہوگئے تھے۔ قرآن اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ” محمد صرف رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ تو کیا اگر وہ
مر جائیں یا شہادت پا جائیں تو کیا تم اپنے جاہلیت کے دین پر پلٹ جاؤ گے۔ (آل
عمران:۱۵۲، ۱۴۴)
لشکر مشرک کے میدان جنگ سے نکل جانے کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
لشکر اسلام کے مجاہدین کے ساتھ شہیدوں کی میت پر حاضر ہوئے تاکہ ان کو سپرد
خاک کر دیں۔ جب حضرت نے شہیدوں کے مثلہ اجسام، خصوصاً سید الشہداء حضرت
حمزہ علیہ اسلام کے پارہ پارہ بدن کو دیکھا تو ان کا دل غم سے پاش پاش
ہوگیا اور مشرکین کی طرف سے آپ کے دل میں مزید غصہ اور نفرت کا طوفان اٹھ
کھڑا ہوا۔ وہاں مسلمانوں نے یہ عہد کیا کہ اگر دوسری لڑائی میں وہ مشرکین
پر فتح پائیں گے تو ایک آدمی کے بدلے میں کافروں کے30 اجسام کو مثلہ کریں
گے۔ لیکن درج ذیل آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں نے اس خیال کو ترک کر دیا۔
”اگر تم چاہتے ہو کہ ان کو سزا دو تو اپنی سزا میں میانہ روی اختیار کرو
اور حد اعتدال سے خارج نہ ہو جاؤ اور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنےوالوں کے
لئے بہتر ہے۔(شرف النبی ص۳۴۷)
پھر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت حمزہ علیہ اسلام کے پاکیزہ جسم پر
نماز پڑھتے ہیں اور ان کے پہلو میں ایک ایک کو لٹا کر ہر ایک پر الگ الگ
نماز پڑھتے ہیں اس طرح70 نمازیں پڑھیں گئیں۔ (مغازی)
حضرت حمزہ کی بہن ”صفیہ“ اپنے شہید بھائی کا جنازہ دیکھنے آئیں۔ تو ان کے
بیٹے زبیر نے ان کو روکنا چاہا۔ تاکہ بہن اس حال میں بھائی کو نہ دیکھے
لیکن جناب صفیہ نے فرمایا کہ ”مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کو مثلہ کیا گیا
ہے۔ بخدا اگر میں ان کے سرہانے پہنچوں گی تو اپنے غمگین ہونے کا اظہار نہیں
کروں گی اور راہ خدا میں اس مصیبت کو برداشت کروں گی، لوگوں نے ان کو چھوڑ
دیا وہ اپنے بھائی کے سرہانے آئیں اور ان کے لئے خدا سے دعائے مغفرت کی۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ قبریں کھودی جائیں اور ان
اجسام کو ان میں دفن کر دیا جائے شہدا اپنے لباس کے ساتھ دفن ہوئے اور جس
کے پاس مناسب لباس نہ تھا ان کے جسم کو ایک پارچہ سے ڈھک دیا گیا۔ اکثر
شہدا کو اسی میدان جنگ میں سپرد خاک کیا گیا کچھ لوگ اپنے شہداء کو مدینہ
لے گئے اس طرح سے شہیدوں کا پہلا قبرستان مدینہ کے نزدیک کوہ احد کے دامن
میں بنا۔ (مغازی و اقدی ج۱ ص ۲۶۷)
ان کو یہیں دفن کر دو ان کی دعا مستجاب ہوئی
ہند، عمرو بن حرام کی بیٹی جس کے شوہر عمر بن جموح، بیٹے خلاد اور بھائی
عبداللہ عمرو اس مقدس جہاد میں شہید ہوئے تھے احد میں آئیں تاکہ اپنے
عزیزوں کے جنازہ کو مدینہ لے جائیں۔ ہند نے ان تینوں کے جنازہ کو اونٹ پر
رکھا اور مدینہ کا راستہ لیا۔ مدینہ جاتے وقت کچھ عورتیں ملیں جو پیغمبر کی
صحیح خبر پانے کے لئے احد کی طرف آرہی تھیں۔ عورتوں نے ہند سے رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حال دریافت کیا اس نے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا
کہ الحمدللہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں۔ گویا اس نعمت کے
مقابل تمام مصیبتیں ہیچ تھیں۔ دوسرا مژدہ یہ ہے کہ خدا نے کافروں کے رخ کو
پھیر دیا جبکہ وہ غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے عورتوں نے اس سے پوچھا کہ ”یہ
جنازے کس کے ہیں؟ اس نے کہا کہ ایک میرا شوہر، دوسرا میرا بیٹا اور تیسرا
میرا بھائی ہے۔
وہ عورت اونٹ کی مہار کو مدینہ کی طرف کھینچ رہی تھی لیکن اونٹ بڑی مشکل سے
راستہ طے کر رہا تھا۔ ان عورتوں میں سے ایک نے کہا کہ شاید اونٹ کا بار بہت
گراں ہے۔ ہند نے جواب دیا۔ نہیں یہ اونٹ بہت آسانی سے دو اونٹوں کا بار
اٹھاتا ہے۔ ہند جب اونٹ کو احد کی طرف پلٹاتی تو اونٹ بڑی آسانی سے چلنے
لگتا۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے پاس دوڑی ہوئی آئی اور آپ سے ساراماجرا بیان کیا۔ حضرت نے ہند سے
سوال کیا کہ جب تیرا شوہر گھر سے باہر نکلا تو اس نے خدا سے کیا مانگا تھا؟
ہند نے کہا کہ اے اللہ کے رسول وہ جب گھر سے باہر نکلے تھے تو اس وقت ان کی
دعا تھی، خدایا مجھے میرے گھر واپس نہ پلٹانا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے کہا کہ تیرے شوہر کی دعا مستجاب ہوئی، خدا نہیں چاہتا کہ یہ جنازہ
گھر کی طرف واپس جائے تم تینوں جنازوں کو احد ہی میں دفن کر دو اور یہ جان
لو کہ یہ تینوں افراد دوسری دنیا میں بھی ساتھ ہی رہیں گے۔ جس پر ہند نے
کہا” اے اللہ کے رسول آپ خدا سے دعا کیجئے کہ میں بھی ان کے پاس رہوں۔
(مغازی ج۱ ص ۲۶۴، ۲۶۶)
جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے شہید اصحاب کو دفن کرچکے تو انہوں
نے مدینہ کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا۔ بہت سے مسلمان زخمی تھے۔ جناب
فاطمہ زہراء کے ساتھ زخمیوں کے مداویٰ کے لئے احد میں جو 14 عورتیں آئی
تھیں وہ آنحضرت کے ساتھ تھیں۔
کچھ لوگ پیغمبر کے دیدار اور استقبال کے لئے شہر سے باہر آئے تاکہ رسول
اللہ کی سلامتی کا اطمینان حاصل کریں۔ قبیلہ بنی دینار کی ایک عورت نے جب
اپنے باپ، شوہر اور بھائی کے شہید ہو جانے کی خبر سنی تو اس نے کہا کہ رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کیا خبر ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم ٹھیک ہیں۔ اس عورت نے کہا کہ ذرا مجھے راستہ دے دو تاکہ
میں خود ان کی زیارت کروں اور جب اس نے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کو زندہ و سلامت دیکھا تو کہا کہ اے اللہ کے رسول جب آپ زندہ ہیں تو اب اس
کے بعد ہر مصیبت آپ کے وجود کی وجہ سے ہیچ ہے۔ (سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۹۹)
حمنہ بنت حجش رسول خدا کے پاس آئیں تو آنحضرت نے ان سے فرمایا”
”حمنہ“ میں تجھے تعزیت دے رہا ہوں۔
انہوں نے پوچھا :کہ کس کی تعزیت؟
آپ نے فرمایا: تمہارے ماموں حمزہ کی
”حمنہ“ نے کہا: ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ خدا ان کی مغفرت کرے اور ان پر
اپنی رحمت نازل فرمائے انہیں شہادت مبارک ہو۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا میں پھر تعزیت پیش کرتا ہوں۔
”حمنہ“نے کہا: کس کی تعزیت؟
رسول خدا نے فرمایا: تمہارے بھائی عبداللہ بن حجش کی۔
حمنہ نے کہا: خدا ان کی مغفرت کرے اور ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور ن کو
بہشت مبارک ہو۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا کہ: میں پھر تم کو تعزیت پیش
کرتا ہوں۔
حمنہ نے پوچھا :کہ کس کی تعزیت؟
آپ نے فرمایا: کہ تمہارے شوہر مصعب بن عمیر کی۔ حمنہ نے ایک آہ سرد بھری
اور گریہ کرنا شروع کیا۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شوہر جو مقام عورت کے دل میں
رکھتا ہے۔ وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد لوگوں نے حمنہ سے پوچھا کہ تم اس
قدر کیوں غمزدہ ہوگئیں؟ حمنہ نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کی یتیمی کو یاد
کیا تو میرا دل بھر آیا۔ (سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۹۸)
شہید عمرو بن معاذ کی ماں کبشہ آگے بڑھیں اور انہوں نے بڑے غور سے رسول
اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دیکھا اور اس کے بعد کہا” اب جب میں نے
آپ کو صحیح و سالم دیکھ لیا تو مصیبت کا اثر میرے دل سے زائل ہوگیا۔ رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بیٹے عمرو بن معاذ کی شہادت پر ان کو
تعزیت پیش کی، دلاسہ دیا اور فرمایا کہ اے عمرو کی ماں میں تمہیں مژدہ
سناتا ہوں اور تم شہیدوں کے اہل و عیال کو مژدہ سنا دو کہ ان کے شہداء بہشت
میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور ہر ایک اپنے عزیزوں اور خاندان والوں کی
شفاعت کرے گا۔ عمرو کی ماں نے کہا کہ اے پیغمبر اب میں خوش ہوگئی اور اس کے
بعد عرض کی کہ” اے پیغمبر اس کے پسماندگان کے لئے آپ دعا فرمائیے۔ رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح دعا کی۔ خدایا ان کے دلوں سے غم کو زائل
کر دے۔ ان کے مصیبت زدہ دل کے زخموں پر مرہم رکھ اور ان کے پسماندگان کےلئے
بہتر سر پرست قرار دے۔ (مغازی ص ۳۱۵، ۳۱۶)
بلال نے اذان دی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں اس حالت میں
تشریف لائے کہ لوگ ان کے شانوں کو پکڑے ہوئے تھے۔ آپ نے نماز پڑھی واپسی پر
دیکھا کہ نالہ و شیون کی آواز میں شہرت مدینہ ڈوبا ہوا ہے۔ لوگ اپنے شہیدوں
کی عزاداری اور ان پر رونے میں مصروف ہیں۔ حضرت نے فرمایا: ”لیکن حمزہ کا
کوئی نہیں ہے جو ان پر گریہ کرے۔ مدینہ کی عورتیں رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے گھر آئیں اور مغرب سے رات گئے تک نوحہ و عزاداری میں مصروف
رہیں۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |