اُس نے بڑے تلخ لہجے اور دانتوں میں تیلی
گھماتے ہو ئے مایوسی سے کہا اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اُن صاحب نے پان کی پچکاری کھلی سڑک پے دے ماری،
وہ میرے چہرے سے جان گےُ کہ یہ حرکت بڑی نازیبا تھی۔ ارے میاں یہاں یہ سب
عام ہے کیونکہ ہمیں اس زمین سے محبت ہے، شاید ان بھائی صاحب کے گھر کے کمرے
کچھ ایسے ہی لال سڑک کے منظر کی عکاسی کرتے ہونگے میں آگے چل پڑا یہ سوچتے
ہوئے کہ شاید علم کی کچھ زیادہ ہی کمی ہے۔
کچھ آگے جاتے ہو ئے میرے پاوٗں کا مڑنا اور مجھے گرتے ہوئے میرے کندھوں سے
پکڑ کر مجھے بچانا مانو جیسے فرشتہ بن کر کوئی آیا ہو۔ اُن بھائی صاحب کے
ملگجے کپڑے دیکھ کر ا حساس ہوا کہ وہ مزدور ہے، عمر اور جسامت میں مجھ جیسا
ہی لگا خیر میں نے اسے شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا کیا کرتے ہو؟ عطر بیچتا
ہوں، ضرور پڑھائی کر تے ہوگے ؟ نہیں صاحب پہلی جماعت کے درمیان میں فیس نہ
ہونے کے سبب اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔ افسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی حیثیت
کے مطابق اُسے سو کا نوٹ نکال کر دیا ٰ اُس نے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا
نہیں صاحب محنت کا ایک روپیہ اس سو کے نوٹ سے بہتر ہے۔ بھائی مجھے بچانے کی
اُجرت ہی سمجھ کر رکھ لو، صاحب میری ماں نے مجھے انسانیت کا سبق سکھایا ہے
اور یہ کام تو ہم سب کا فرض ہے، مجھے اس کی باتوں نے سوچنے پر مجبور کردیا
کہ جیب خالی ہونے کے باوجود دل کا امیر ہے یہ عطر والا ۔
روز مرہ کی طر ح بائیک پر گھر کی طرف روانگی تھی کہ سرخ بتی نے اپنی طرف
متوجہ کیا، ایک گاڑی کے ہارن نے مجھے آگے ہونے پر مجبور کردیا ، اگر میں
رُکتا تو دوبارہ بریک لگانے کے لائق نا بچتا، او بھائی نئے آئے ہو کیا؟ پتہ
نہیں کیا یہاں سگنل کے مطابق چلنا نہیں ہوتا، ہر طرف سے لوگ میرے قانون کی
پیروی کرنے کو ایسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے اور چیخ و پکار کر رہے تھے
جیسے میں نے قانون توڑا ہو۔
اُو میرے خدا پھر سے وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے سب گاڑیاں رُکی ہیں ہر
طرف نفسا نفسی کا عالم جسے دیکھو اپنی فکر میں تھا، کچھ لوگ عام ملبوسات
میں اور کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن ادنیٰ تربییت کے مالک ظاہر ہو رہے تھے،
اُنہی لوگوں میں سے ایک شخص بزرگ کو گردن سے دبوچ کر دھمکی دے رہا تھا اور
تماش بین اُس بزرگ کو بچانے کے بجائے اپنے موبا ئل فون سے ایسے عکسبندی میں
مشغول تھے جیسے کسی فلم کا کوئی منظر محفوظ کر رہے ہوں، جب تک اُس بزرگ تک
پہنچتا یہ معاملہ ٹھنڈا ہوچکا تھا، اس افرا تفریح میں ایک کونے ہوکر سب کو
دیکھنے کے دوران ایک دس برس کے بچے پر نظر گئی جو اپنے جوتے اُتار کر اپنے
ہم عمر کے ایک غریب بچے کے پاوٗں میں اپنے ہاتوں سے پہنا کر خود ننگے پاؤں
چلنے لگا، مجھے بڑی حیرانگی ہوئی ۔
خیر میں نے جوں توں اپنے پندرہ منٹ کا سفر ایک گھنٹے میں مکمل کیا ، راستے
بھر یہی سوچتا رہا کیا وہ شخص زیادہ پُر اثر تھا جو ہر ایک سے مایوس تھا یا
پھر وہ جو نام نہاد اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر تربیت میں ناپید تھا یا پھر وہ
عطر والا جس کے پاس تربیت کے علاوہ کچھ نہ تھا جس کا کام تو عطر بیچنا تھا
مگر خوشبو اس کی باتوں سے آرہی تھی یا پھر وہ جو ننھا سا بچہ جسے اپنی
تکلیف سے زیادہ دوسروں کی تکلیف کا احساس تھا ، انہی سوچوں میں احساس ہوا
کہ سانحہ سفورا گوٹھ میں ظلم کرنے والے بھی تو تعلیم یافتہ تھے پر ان میں
انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی اور اس کے برعکس ہمارے آباواجداد دنیاوی
تعلیم سے محروم مگر شاندار تربیت کے مالک ہوا کرتے تھے جو اب کے دور میں دس
فیصدی ہی رہ گئی ہے، لیکن سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول میں بچوں اور اساتذہ
کو اس بے دردی سے شہید کرنا جانوروں کے اصولوں کے بھی خلاف ہے، ایسے ظالموں
کا نہ تو دل ہے اور نہ ہی ضمیر کیونکہ جس مذہب میں پانی کے اسراف پر پابندی
ہو وہاں بھلا کسی کا ناحق خون بہانے کا حکم کیسے ہوسکتا ہے؟ ایسے لوگ ذہنی
طور پر بیمار ہیں ۔آج ہم نے جتنی بھی ترقی کرلی ہو مگر ہم میں تربیت کی کمی
کی وجہ سے یہ ترقی کی چمک ماند پر چکی ہے۔ اگر ہمیں آنے والی نسل کو بچانا
ہے تو ان کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت دینی ہوگی ا ور شیطانی
سوچ کو ختم کرنا ہوگا تاکہ ہم آنے والے کل کو سنوار سکیں۔ |