صحافت عوامی مسائل کواجاگر کرنے اورمعاشرے
کی برائیوں کی نشان دہی کرنے کانام ہے اس پیشے سے وابستہ افرادکوصحافی کے
نام سے مخاطب کیاجاتاہے جبکہ صحافی کومعاشرے کا آئینہ داربھی کہتے ہیں
کیونکہ وہ اپنی پیشہ وارنہ خدمات کواحسن انداز میں سرانجام دیکرمعاشرے میں
تبدیلی لانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور اس تبدیلی کولانے کیلئے مثبت
سوچ کے ساتھ ساتھ تحقیق کوبھی پروان چڑھانے میں اہم کرداراداکرتے ہیں
اگرتبدیلی مثبت سوچ والی تحقیق کے ساتھ کی جائے توصحافت کے مقدس پیشے کا حق
ادا کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے اوراسی سوچ ,فکراورفلسفے والے کوحقیقی
صحافی کہا جاتا ہے اور اگرتبدیلی بغیرتحقیق کے کی جائے تومثبت اثرات کی
بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ تحقیق کے بغیر صحافی کی خبر بھی
نامکمل تصورکی جاتی ہے مگربلوچستان میں منشی گری کرنے والے اپنے مفادات
کوعزیزرکھنے والے اور نام نہادجعلی ونقلی صحافیوں کاظہور مقدس پیشے پرکاری
ضرب لگنے کے مترادف جبکہ تحقیقی صحافت کے فقدان میں معاون ومددگار ثابت
ہورہا ہے موجودہ دورمیں صحافتی تحقیق نام کی حدتک محدودہوکررہ گئی ہے اپنے
آپکوصحافت کاسمندرکہنے والے ملک کے بڑے بڑے سینئر نام بھی اندرسے کھوکھلے
اورتحقیقی صحافت کی معلومات سے بھی ناواقف ہیں پھریہ دعوی کہ ہم معاشرے میں
تبدیلی لانے میں اہم کرداراداکررہے ہیں محض جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اسکی
مثال بول نیوزچینل میں جانے والے صحافیوں کی دی جاسکتی ہے کہ
ایگزیکٹیوکمپنی میں جانے والے مکروہ دھندے سے ناآشنا تھے اورملک کے صحافی
بھی اس دھندے سے لاعلم رہے جبکہ نیویارک ٹائمز میں کام کرنے والے صحافی نے
پاکستان ,دبئی اورفرانس کے دورے کرکے اتنے بڑے اسکینڈل کوبے نقاب
کیاجوپاکستان کی صحافی برداری پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیاواضح رہے کہ
بلوچستان جہاں دیگرمسائل میں پسماندہ ہے وہی پر تحقیقی صحافت کے فقدان
کابھی شکارہے اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں چند قابل ِ ذکر ہیں کہ یہاں صحافت
کومقدس مشن کی بجائے کرپشن اوراقتدارکی خوشامد کیلئے عوام کوپسِ پشت ڈال
کروقف کیاجاتاہے اورپروفیشنل ازم کی بجائے یلوازم کوفروغ دے کرنئے ٹیلنٹ ,نئے
سوچ اورنئے جذبے کوآگے آنے سے روکاجاتاہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص سوچ ,مکتبہ
فکریاگروہ کوفوائد دیکرذمہ داراوردیانت دارافراد دلبرداشتہ ہوکرتحقیقی
صحافت سے لاتعلقی اختیارکرلیتے ہیں جبکہ بلوچستان کے بیشتر صحافی ذمہ درانہ
صحافت سے بھی عاری ہیں کیونکہ وہ اداروں ,ایم پی اے ,ایم این اے اورعلاقے
کے نوابوں ,سرداروں اوروڈیروں کی منشی گری کرنے پرفخراورجیب گرم ہونے پر
تعریفی بیانات چلاکرزرد صحافت کوپروان چڑھا نے کا کام کرتے ہیں اورانکے
خلاف ہونے والی ہرخبرکوبھی روک دیتے ہیں اورجوانکے مکروہ دھندوں کوبے نقاب
کرنے کیلئے تحقیقی راستہ اختیارکرتے ہیں انکوپہلے توپیسوں کی آفردیکر صحافی
کے ضمیر کوخریدنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر صحافی اپنے پیشے سے مخلص ہے تو
انکی آفرکوٹھکرادیتا ہے اورپھراسکوڈرانا ,دھمکانا,اغواء کرنا اورجان سے
مارنے کے علاوہ مختلف اندازمیں پریشر میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ رپورٹ شائع
کرنے سے گریز کرئے نیزبلوچستان میں صحافیوں کودرپیش خطرات جن میں ڈرانہ ,دھمکانہ
,اغواء کرنا قتل کرنا مختلف اندازمیں پریشر میں لانا بچوں ,عورتوں اوراہل
خانہ کو نقصان پہنچانا نیزصحافتی خدمات سے روکناجیسے مسائل کاسامنا ہے جبکہ
ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوتحقیقی صحافت سے عدم دلچسپی اختیارکرکے ٹی وی ,اخبار
یا نیوزایجنسی کے کارڈپر توجہ مرکوزکرکے شہرت کے حصول کا متلاشی اوراپنے
مقاصد کی تکمیل کیلئے تحقیقی صحافت سے راہ فراراختیارکرتاہے اورجوصحافی
سرکاری ملازم ہوتے ہیں انکومحکمہ کے افسران کی جانب سے بتادیاجاتاہے کہ آپ
نے ملازمت کرنی ہے صحافت نہیں جبکہ صوبے میں تحقیقی صحافت کے فقدان میں ایک
اہم وجہ صحافیوں کی ذ ہنی وعملی تربیت نہ ہونابھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ
اکثر صحافی تحقیقی صحافت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ انھیں علم تک نہیں کہ
تحقیقی صحافت کس طرح کی جاتی ہے نیزبلوچستان میں آزادی صحافت کانام ونشان
تک نہیں یہاں جس کی لاٹھی اسکی بھینس والی کہانی چل رہی ہے جب آزادی صحافت
ہے ہی نہیں تو تحقیقی صحافت کا کیاوبال ہوگا تحقیقی صحافت تو دور کی بات ہے
یہاں پرتو حق اورسچ لکھنے والوں کو بھی طرح طرح سے اذ یتیں دی جاتیں ہیں
انہی خدمات کی پاداش میں بلوچستان کے42سے زائد صحافیوں کوانکی خدمات کی
انجام دہی میں قتل کردیاگیا ہے ایک لحاظ سے بلوچستان صحافیوں کیلئے ریڈزون
ہے یہاں تحقیقی صحافت کرنا آتش فشاں کے دھانے پر چلنے کے مترادف ثابت
ہوگامگران مسائل کے باوجود تحقیقی صحافت پرکام کرنے کی اشد ضرورت ہے ملکی
سطح پرتحقیقی صحافت کیلئے سیمینارتومنعقد کیئے جاتے ہیں مگر عملی طورپر
سکھانے کاکوئی خاص احتمام نہیں کیا جاتاجس کے سبب بلوچستان میں تحقیقی
صحافت کافقدان ہے جبکہ تحقیقی صحافت سے ہی انسان ارسطو,افلاطون سقراط ,حکیم
لقمان کے مقام تک پہنچا ہے اورتحقیق کی بدولت ہی سمندروں میں تیرنا,خلاؤں
میں اُڑنااورانسان نے پڑھناولکھناسیکھا ہے تحقیقی صحافت کابنیادی مقصد ہی
نئے حقائق کی دریافت ہے جوبلوچستان میں معدوم ہوچکی ہے جوصحافی تحقیقی
صحافت کیلئے کام کرتے ہیں انکوان ادارے والے حکام (جس ادارے میں صحافی کام
کرتا ہے) منع کرتے اورروکتے ہیں نیزسرپرستی نہ کرنے کی وعیدبھی سنادیتے ہیں
ایسے حالات میں کون ہوگا جواپنے آپکوآگ میں جلانے کی کوشش کرئے گامگرپانچ
اگلیاں برابرنہیں کوئی ایسا ادارہ بھی ہوگا جوتحقیقی خبرپراپنے صحافی کی
حوصلہ افزائی بھی کرتا ہوگاجبکہ ابلاغ عامہ کاعمل تحقیق کے بغیرمکمل نہیں
ہوسکتا اس میں فیڈبیک لینے کیلئے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے اشتہارات میں
تحقیق کی بڑی اہمیت ہے آج کل بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پراڈکٹ کی
اہمیت,فروخت کافیڈبیک جاننے کیلئے تحقیقی مراکزقائم کرچکی ہیں کیونکہ
قارئین,سامعین,ناظرین کے عقائد ,رسوم,نظریات,احساسات,فریم آف
ریفرنس,ضرورتوں اور وسائل کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرکے انکی روشنی
میں اپنے پیغام ,چیز,پراڈکٹ کوبہتربنانے میں مددملتی ہے یہ ساراکام تحقیق
سے عبارت ہے ابلاغ عامہ میں تحقیق کی ضرورت ہرقدم پرپیش آتی ہے اخبارات
ورسائل ہوں ریڈیو,ٹی وی ,انٹرنیٹ یاکوئی اورذریعہ ابلاغ ان سے جوکچھ بھی
پیش کیا جائے اسکا حقائق پرمبنی ہونااوردرست ہونا بے حدضروری ہے اوراس
کیلئے تحقیق لازم ملزوم کی طرح ہے ابلاغی تحقیق میں خبریں,ادارئیے,ٹی وی
تجزیئے اورمعلوماتی پروگرامزکے علاوہ اخبارات میں شائع ہونے والے فیچروکالم
میں تحقیق کی جاتی ہے غرض ابلاغ عامہ کے ہرشعبے میں تحقیق کی اہمیت مسلمہ
ہے بلوچستان میں تحقیق کے عمل کی طرف راغبت دلانے کیلئے ذہنی وعملی تربیت
کے علاوہ صحافیوں کی جان ومال کاتحفظ یقینی بناکرانھیں تحقیقی صحافت سے
روشناس کرانا ہوگااور موجودہ دورمیں ملکی سطح پرہونے والی تحقیقی صحافت
کوپروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی انکے تقاضے پورے کرنیکی
اہمیت کواجاگرکرناہوگااور اس مقصد صالحہ کومکمل کرنے کیلئے صحافی اپنی بے
پناہ محنت ,لگن اورسچائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کودورکرنے کیلئے اپنی جان
کی بازی لگاکراس مقدس مشن کوپایہ تکمیل تک پہنچاسکے گا۔ |