بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
کتا جو وحشی جانور ہے،وہ چرند پرند تو کیا انسانوں کو بھی تکلیف پہنچانے سے
باز نہیں آتا۔مگر وہ کتنا ہی عجیب اور حیران کن منظر تھا،جب ایک مرغی اپنے
چوزوں کو دانہ دنکا چگوارہی تھی۔اتنے میں ایک چھوٹا کتا کہیں سے آنکلا۔اس
نے مرغی اور اس کے چوزوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا۔مرغی بھی خطرے کو
بھانپ چکی تھی۔اس نے اقدامی پوزیشن اپنائی اور آؤ دیکھا نہ تاؤ ،اس کتے پر
جھپٹ پڑی۔اسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر پنجوں کی بارش برسا دی۔اب تو کتے کا
بچہ اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہوگیا مگر کیا کرتا مرغی نے اسے چار شانوں چت
کر دیا۔مرغی یکے بعد دیگر اچھل اچھل کر اس پر پنجوں سے وار کر رہی تھی۔کتا
مسلسل بھاگنے کا راستہ تلاش کررہا تھا۔مرغی نے تنگ جگہ کا بھرپور فائدہ
اٹھایااور جی بھر کر اپنا غصہ اتارا۔جب اس نے دیکھا کہ اب اس کی بس ہوگئی
ہے،تو دوڑ کر اپنے چوزوں کے پا س چلی گئی۔پھر انہیں دانہ چگوانے لگی۔میں یہ
منظر دیکھ کر حیران ہورہا تھا کہ ماں ،ماں ہی ہوتی ہے چاہے وہ انسانوں کی
ہو یا اس بے زبان مخلوق کی ہو۔وہ کہیں بھی اپنی اولاد کو تکلیف میں مبتلا
نہیں دیکھ سکتی۔وہ اسے ہر خطرے سے بچاتی ہے اگرچہ اس کے لیے اسے جان کی
قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔چند دن قبل ایک دوست نے وٹس ایپ پر ایک ویڈیو
بھیجی جس میں ایک بندریا اپنے چھوٹے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ کہیں سے
خونخوار درندہ آنکلا۔وہ فورا بندریا پر جھپٹا مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس
نہ ہوئی۔کیونکہ اس کا لخت جگردودھ پی رہا تھا۔اس درندے نے اس کا گلا دبوچ
لیا اور اس حال میں وہ کراہنے لگی۔اب وہ درندہ اسے گردن سے دبوچ کرجا رہا
تھا اس حال میں کہ اس کا بچہ اس کے ساتھ لٹک رہا تھا۔بے زبان مخلوق کی اس
قدر اپنی اولاد کے لیے رحمت دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔میں سوچنے لگا کہ جس
رب نے ساری مخلوق پیدا کی اور ان میں یہ رحمت ڈالی جس کی وجہ سے سب آپس میں
نرمی کا معاملہ برتتے ہیں وہ اﷲ خود کتنا رحیم و کریم ہوگا۔اس کی رحمت کی
وسعت کس قدر زیادہ ہوگی۔
ہاں ہاں!میرے اﷲ کی رحمت کی وسعت کا اندازہ کوئی لگا ہی نہیں سکتا۔میرا
مولا تو اتنا مہربان اور رحیم ہے کہ اس کی مخلوق اس کی نافرمانی کرتی رہتی
ہے مگر وہ ان کا رزق ان پر برابر جاری وساری رکھتا ہے۔وہ کافر ،ملحد اﷲ کے
انکاری اور بتوں کے پجاری اﷲ کی نظروں کے سامنے غیراﷲ کے آگے جھکتے ہیں
مگرا ن کا رزق ان کو ملتا رہتا ہے۔اس کی رحمت کی وسعت تو اتنی زیادہ ہے کہ
کہ اپنے بندوں کو مشکلات میں رہنے نہیں دیتا جب بھی کوئی غمگسار،پہاڑوں کی
غاروں اور بے آب و گیاہ صحرا میں پھنس کر اﷲ کو پکارتا ہے تو اﷲ کریم کوئی
نہ کوئی سبیل نکال دیتا ہے۔اس کی رحمت ازل سے برابر برس رہی ہے۔وہ تو اتنا
رحیم کریم ہے کہ جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا ان کو بھی مقررہ وقت تک رزق
دیتا رہا اس سے پہلے انہیں نہیں پکڑا یہ اس کے عظیم و رحیم ہونے کی نشانی
ہے۔ اس نے تو یہ کہہ دیا ’’اِنَّ رَحْمَتِیْ غَلَبَتْ غَضَبِیْ(صحیح
البخاری:3194)’’کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔‘‘کوئی ساری عمر غلطیوں
اور سر کشیوں میں گزار دے اور روح حلق سے نکلنے سے پہلے،پہلے سچے دل سے
توبہ کرلے،وہ معاف کردیتا ہے۔وہ سو انسانوں کے قاتل کو سچی توبہ پر معاف
کردیتا ہے۔(صحیح مسلم:2766)اس رحمن و رحیم کی وسعت رحمت کا اندازہ لگا نا
ہو تو اس سے لگائیے کہ اپنے بندوں کی ہدایت اور ان کوجہنم سے بچانے کے لیے
انبیاء و رسل کا سلسلہ برابر جاری وساری رکھا ۔ ان پرآسمانی کتب اورآخر میں
قرآن مجید نازل کیا تاکہ اس کے مطابق زندگی بسر کرکے اﷲ کے غضب اور جہنم سے
بچ جائیں۔وہ تو اتنا رحیم ہے کہ جب ساری انسانیت سو رہی ہوتی ہے وہ رات کے
تہائی حصے میں آسمان دنیا پر آکر یہ آواز لگاتا ہے کہ:’’کوئی ضرورت مند ہے
جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں،کوئی معافی مانگنے والا ہے میں اسے معاف
کروں،کوئی سوال کرنے والا ہے میں اس کا سوال پورا کروں۔‘‘(سنن ابن
ماجہ:1367)’’اس کی کل سو رحمتیں ہیں جس میں سے صرف ایک رحمت دنیا والوں کو
عارضی طور پر عطا کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ہم جنس آپس میں رحم کا معاملہ
کرتے ہیں اور قیامت والے دن پھر اسے واپس اٹھا لے گا پھر اس کی رحمتیں سو
ہوجائیں گی۔‘‘(صحیح مسلم:2752)
اتنا رحیم کریم ہونے کے باوجود وہ زلزلے کیوں بھیجتا ہے؟یہ سیلاب کیوں آتے
ہیں؟یہ آندھیاں ،طوفان،اور طرح طرح کے عذابوں کا نزول کیوں ہوتا ہے؟اس سب
کے ذمہ دار ہم انسان ہیں۔یہ ہماری ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس
کا وبال بے زبان مخلوق پر بھی آن پڑتا ہے۔انسانوں کی غلطیوں کی وجہ سے وہ
بھی انسانو ں کے ساتھ غضب الٰہی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ہاں ہاں!’’میرا رب
بڑا ہی رحمن اور رحیم و کریم ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا عذاب بھی بڑا
المناک ہے۔‘‘(الحجر:49,50)وہ ایک حد تک انسانوں کوبار بار مواقع دیتا
ہے،مگر جب انسان اس حد کو پھلانگتا ہے توان پر غضب الٰہی کا کوڑا آن برستا
ہے۔مگرا س میں بھی رب کی رحمت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔کیونکہ یہ دنیا میں
چھوٹے،چھوٹے جھٹکے جہنم کے عذاب سے بچانے کے لیے دیے جاتے ہیں تاکہ یہ
نافرمانیوں سے باز آجائیں۔اﷲ کا قرآن اس پر شاہد ہے دیکھیے (سورہ
السجدۃ:21)مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔پچھلے کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ
کبھی سیلاب تو اکثر زلزلے آرہے ہیں۔مگر ہم اپنی بری روش سے ہٹنے کا نام تک
نہیں لے رہے۔ہر جگہ سرِعام اﷲ کی نافرمانی،شرک کے اڈے،بے حیا لباس میں
ملبوس عورتیں،ناچ، گانا،قباخانے،منشیات کے اڈے،زناکاری کے اڈے،شراب کی
فروخت،سودی کاروبار(جو اﷲ اس کے رسول سے جنگ کے مترادف ہے)،جوا،چوری،ڈکیتی،
دھوکہ،فراڈ،ناپ تول میں کمی بیشی،غرض کون سی برائی ہے جس کی وجہ سے سابقہ
امتیں عذابِ الہٰی کا شکار ہوگئیں اور وہ برائی ہم میں نہ پائی جاتی ہو؟
سرعام گانا بجانا،ساز پر تھرکتے نرم نازک برہنہ جسم،نائٹ کلب،جدھر دیکھو بے
حیائی و عریانی،حد تو یہ ہو گئی ہے کہ کسی کمپنی کا اشتہار ہو چاہے اس چیز
کا عورت سے دور تک رشتہ بھی نہ ہو مگر اس کی تشہیر کے لیے قدآدم سائز
بورڈزپر کوئی برہنہ عورت کی تصویر آپ کو نظر آجائے گی۔آخر کیوں ہماری غیرت
کا جنازہ نکل چکا ہے؟ کیوں ہم مغربی طرز معاشرہ کو اپنا کر تباہی کے راستے
پر گامزن ہوچکے ہیں؟ کیوں...........آخر کیوں؟ اﷲ کا ڈرہمارے دلوں سے نکل
گیا ہے؟ہمارے دل تو پتھروں سے بھی سخت ہو چکے ہیں۔کیونکہ بعض پتھر بھی اﷲ
کے خوف سے گرکر ٹوٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی بہہ پڑتا ہے۔
قارئین کرام !اس سے پہلے کہ کوئی بڑا زلزلہ یا سیلاب آئے اور ہمیں بہا کر
لے جائے،آپ خود ہی زلزلے اور سیلاب برپا کر لیجئے۔تاکہ ان بڑے زلزلوں اور
سیلابوں سے محفوظ رہا جاسکے۔اپنے دل میں خوفِ الہٰی کا زلزلہ اور آنکھوں
میں آنسوؤں کا سیلاب برپا کرکے اپنے رب کو راضی کر لیجئے۔وہ رحیم و کریم رب
ہم سے روٹھنانہیں چاہتا ،بلکہ ہمیں معاف کرکے جنت کا وارث بنانا چاہتا ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ روے منزل ہی نہیں
مگر ہم اپنی خواہش کے پیروکار بن کر بصیرت و بصارت گنوانا چاہتے ہیں۔یہ
دنیا اور اس کی چمک دمک ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔انسان دنیا میں بے لباس
آیا اور کفن پہن کر خالی ہاتھ جائے گا۔یہ مال اور جاہ و جلال سب ادھر ہی رہ
جائے گا۔یہ اولاد و اہل و عیال اﷲ کے عذاب سے بچا نا پائیں گے۔لہٰذا سے
دھوکے سے نکل کر اپنی آخرت کی فکر کیجئے۔کیونکہ اﷲ کل بھی مہربان تھا اورا
ٓج بھی مہربان ہے۔کمی ہے تو صرف ہماری طرف سے ۔کہیں یہ نہ ہو کہ ہماری
زندگی کا اگلا لمحہ موت کا پیغام لیے کھڑا ہو،اور میں نافرمانی کی حالت میں
ہی مر جاؤں۔لہٰذا ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔
|