اردو زبان کا عملی نفاذ ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتا ہے

حال ہی میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا یہ وہ فیصلہ ہے جسے قیام پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد اس وقت کے آئین تیار کرنیوالے تھنک ٹینک نے آئین کے اندر ایک شق میں سنا دیا تھا مگر بد قسمتی سے اس کا عملی نفاذ نہ ہو سکا اور ہم غیر فطری طور پر دستور کے حکم کی ہی نفی کرتے رہے اور یوں یہ سلسلہ کئی سالوں پر محیط ہے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی تاریخ تک یہ سلسلہ محیط ہے اور آگے نہ جانے ابھی کتنا انتظار اور کرنا پڑے گا کہ عدالت کے اس تاریخی فیصلے پر عملی طور پر عملدرآمد ہوگا اور عوام آئین شکن کی بجائے خود کو آئین کا پاسدار سمجھیں گے ۔

قارئین!! ہمیشہ اس ملک میں ہر کام غلط سے صحیح کی جانب آتا ہے ہم نے اپنے دستور میں قومی زبان اردو لکھی ہوئی ہے تا کہ ہم تمام قومی کام اردوزبان میں سر انجام دیں گے مگر آپ معاشرے میں ہونیوالے تمام کاموں پر اگر نگاہ دوڑائیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اردو زبان کو صرف بولنے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے اور کہیں بھی اس کا عملی طور پر نفاذ نظر نہیں آتا آپ اگر معمولی سی نوکری کی تلاش میں ہی نکل کھڑے ہوں تو آپ کو ممکن نہیں کہ اچھی اردو بولنے پر نوکر ی میسر آجائے بلکہ آپ کی گفتگو میں انگلش کی تاثیر کو پرکھا جائے گا اور آپکی گفتگو کے تلفظ میں انگلش کی تاثیر نہیں تو پھر آپکی اپوائنٹمنٹ خطرے میں ہو جائے گی یہی وجہ ہے کہ انگلش سیکھنے کا بخار ہر پاکستانی شہری پر جادو کی طرح سر چڑھ کا بول رہا ہے اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے کہ ہماری عدلیہ نے تاریخ ساز فیصلہ سنا کر تاریخ کے صفحات میں ایک نمایاں مقام بنا لیا ہے جسے تاریخ دان اور آنیوالی نسلیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے ۔

قارئین آئیں دیکھتے ہیں کہ زبان کے بارے میں سائنس کی ریسرچ کیا کہتی ہے حال ہی میں جرمنی کے سائنسدانوں کی ایک ریسرچ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس ریسرچ کی قیادت ورزبرگ یونیورسٹی کیتھلین کے ڈاکٹر ورمک نے کی ہے ڈاکٹر ورمک کے مطابق
’’ بچے رحم مادر میں ہی اپنے والدین کی زبان کے تلفظ کو سیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور رونے میں وہ اپنے والدین کے تلفظ کو ہی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس پر تحقیق کیلئے ڈاکٹر ورمک کی ٹیم نے60بچوں پر ریسرچ کی جو جرمن اور فرنچ خاندانوں میں پیدا ہوئے تھے ۔پیدائش کے بعد فرنچ نسل کے بچے ذرا اونچے لہجے میں روئے جبکہ جرمن نسل کے بچوں میں لہجہ حسب معمول نیچا تھا‘‘

محترمہ درمک کے مطابق’’نوازئیدبچے اپنے والدین کی نقل کرنے پر بہت زیادہ مائل ہوتے ہیں تاکہ وہ ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرکے آپسی بندھن کو مزید مضبوط کر سکیں۔چونکہ بچوں میں ان کی ماں کے سروں کا خاکہ ہی ایک ایسا پہلو ہے جس کی وہ نقل کر سکیں اسلئے شاید وہ ابتداسے ہی ایسا کرناشروع کر دیتے ہیں ۔‘‘

ریسرچ کے مطابق یہ بات پہلے سے پتہ ہے کہ جنین حمل کے آخری تین ماہ کے دوران رحم مادر میں ہی باہری دنیا کی آوازوں کو یادکر سکتے ہیں خاص طور پر موسیقی اور انسانی سروں کے تئیں وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں اس سے پہلے تحقیق سے پتہ چل چکا ہے کہ بچے اپنی زندگی کے بارہویں ہفتے میں حروف علت کی آواز کو میچ کرسکتے ہیں اگر بڑے انہیں بتائیں ۔

ہینگو یونیورسٹی میں ریسر چ فیلوڈ یبی ملز کا کہنا ہے کہ یہ بہت ہی دلچسپ ہے کہ کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رحم مادر میں ہی آوازیں نکالنے لگتے ہیں اور جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سیکھنے لگتے ہیں جو غیر فطری عمل نہیں ہے ۔ڈیبی کے مطابق یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ان بچوں پر ایک ماہ بعد بھی ریسرچ ہوتا ہے کہ پتہ چل سکے ان میں اپنی مادری زبان میں سروں کو نکالنے کا رحجان اب بھی ہے یا نہیں ۔

قارئین !! یہ تحقیق کرنے والوں کی تحقیق ہے کہ جس میں انہوں نے سائنسی طریقہ کار سے یہ ثابت کیا ہے کہ بچہ کس طرح رحم مادر میں رہ کر اردگرد کے ماحول سے مانوس ہوتا ہے اس سے تو باتیں ثابت ہو گئیں کہ ایک بچے کی بہتر پرورش اسی صورت ممکن ہے کہ بچے کو رحم مادر سے ہی ایسا ماحول میسر آئے کہ جو اسکی زندگی کو آئیڈیل بنا سکے اور دوسری بات یہ کہ بچہ رحم مادر میں وہی زبان سیکھتا ہے جو اسکے گھر میں بولی جاتی ہے یا جو اسکے والدین بولتے ہیں اگر سائنسدانوں کی اس بات پر نگا ہ دوڑائی جائے تو پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچہ بہتر زبان وہی بول سکتا ہے جو اس نے رحم مادر میں سیکھی اور قارئین وطن عزیز میں رہنے والے بچے رحم مادر میں کونسی زبان سیکھتے ہیں ہم اپنے گھروں میں کونسی زبان بولتے ہیں سبھی یک زبان یہی کہیں گے کہ ہم اپنے گھروں میں اردو زبان بولتے ہیں یا پھر پنجابی یا پھر علاقائی زبان مگر ان تمام علاقائی زبانوں میں سے جو زبان بھی بولی جائے ان سب کے تلفظ اردو زبان سے ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اردو زبان بچے کیلئے بولنے اور سیکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی بس لہجے کا فرق ہے الفاظ میں تھوڑا بہت ہیر پھیر ہے باقی یہ تمام زبانوں کا مرکب ہے جو ہمارے وطن میں بولی جاتی ہے تو اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنی اس زبان کو قومی زبان کا عملی طور پردرجہ دینا ہوگا تاکہ ہمارے تعلیمی، معاشرتی اور معاشی نظام کو ترقی مل سکے ۔

قارئین ہر قوم کو اپنی زبان پر ناز ہوتا ہے کیونکہ کسی قوم کی شناخت اس قوم کی زبان کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ جس قوم نے اپنی زبان کو عزت اور اسے اس کا جائز مقام دیا اس زبان نے اس قوم کو ہمیشہ کیلئے تاریخ کے اوراق میں سنہرے الفاظ سے یاد کیا اور جنہوں نے اپنی زبان ترک کر دی یا اسے اس کا جائز مقام نہیں دیا اور اس کے مقابلے میں کسی دوسری زبان کو ترجیح دی اور عالم میں اپنی عزت اور وقار کا ذریعہ سمجھ کر کسی اجنبی زبان کو اختیار کیا وہ قوم بام عروج سے پستی میں جاگری ۔

زبان ایک علاقے اور خطہ کے لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کاموثر ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نووارد کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس خطہ کی زبان سیکھے یا اپنے لئے کوئی ترجمان تلاش کرے ۔ ایسا تو نہیں کیا جا سکتا کہ باہر سے آنے والوں کی آسانی کے لئے پوری قوم کو اس نووارد کی زبان سیکھنے کے لئے مشکل میں ڈالا جائے اور بڑے تو بڑے، معصوم بچوں سے ان کی اصل زبان چھین کر اس کی جگہ ان کو اجنبی زبان سیکھنے کی اذیت سے دوچار کیا جائے اور یہ نفسیاتی دباؤ زندگی کے ابتدائی سالوں میں مسلسل روا رکھا جائے۔

اﷲ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو ان کے ہم زبانوں میں بھیجا اور یہ اگر ایک طرف نبی اور قوم کے درمیان افہام و تفہیم کا بہترین ذریعہ اور طریقہ کار تھا تو دوسری طرف خدا کے نزدیک اس زبان کی اہمیت تھی کہ قوم کے ساتھ اسی بولی میں بات کی جائے جو وہ بولتے ہیں نہ کہ کوئی نئی زبان ان پر مسلط کی جائے اور پھر اﷲ کے پیغام سے کس کا پیغام زیادہ اہم ہو سکتا ہے ؟

ہمارے وطن عزیز پاکستان میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں، اگر کمی ہے تو وہ یہ کہ ہماری اپنی زبان نہیں۔ یہاں کسی کو اگر اپنی زبان پہ فخر ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزی زبان جانتے نہیں یا وہ لوگ جو اردو ادب سے وابستہ ہیں جیسے شعراء اور نثر نگار وغیرہ۔ ورنہ عمومی طور پر ہر تعلیم یافتہ شخص نے اپنے لئے اور ناخواندہ نے اپنی اولاد کے لئے انگریزی زبان میں برملا نہ صرف اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے بلکہ اسے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے انتہائی ضروری سمجھ رکھا ہے ۔ کسی اجنبی زبان کو سیکھنے میں کوئی حرج نہیں، جتنی زبانیں انسان سیکھ سکتا ہے سیکھنے کوشش کرے اس کے متعدد فوائد ہیں نقصانات نہیں۔ خود حضور اکرم ﷺ نے حضرت زید کو یہودیوں کی زبان عبرانی سیکھنے کا حکم دیا ۔ حکم کی تعمیل میں انہوں نے سترہ دنوں میں وہ زبان ایسی سیکھ لی کہ حضرت زید حضور اکرم ﷺ کے لئے اس میں خط لکھتے اور جو خطوط ان کی طرف سے آتے ان کو پڑھ کر سناتے۔

قومی زبان کے علاوہ دیگر زبانیں سیکھنا کوئی جرم نہیں تاہم کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زبان کو معتبر سمجھا جائے اور اسی زبان کو اپنے علوم و فنون میں ترجیح دی جائے تاکہ آنیوالی نسلوں تک ہماری ثقافت کی باقیات باقی رہیں اگر ہم نے ہی اپنے کلچرو ثقافت کو ترک کر دیا تو آنیوالی نسلوں سے کیا توقع روا رکھی جا سکتی ہے اسلئے ضروری ہے کہ قومی زبان پر تکیہ کیا جائے ۔زیادہ دور جانے کی نہیں آپ شمالی کوریا چلے جائیں ،جنوبی کوریا چلے جائیں ،چین چلے جائیں ،ایران چلے جائیں ،سعودی عرب چلے جائیں آپ دیکھیں کہ ان سب ممالک میں انکی قومی زبان ہی بولی جاتی ہے اور اسی زبان میں ہی سب کاروبار زندگی چلتے ہیں مجھے اﷲ تعالیٰ نے 2009ء میں عمرہ کی سعادت بخشی تو وہاں میں بیمار ہو گیا اور بیماری کے عالم میں میں نے روایتی انداز میں مدینہ منورہ کے ایک بازار کے میڈیکل سٹور سے دوائی طلب کی تو انہوں نے مجھے عربی میں جواب دیا جو میری سمجھ سے باہر تھا میں نے یہ پریکٹس دو تین میڈیکل سٹورز پر کی مگر کہیں سے دوائی نہ ملے ۔آخر کار اﷲ بھلا کرے ایک پاکستانی کی جس نے میری مدد کی اور مجھے دوائی میسر آئی یہاں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دیگر ممالک اپنے قومی زبان کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں ۔

سپریم کورٹ نے دوٹوک الفاظ میں حکومت کو دفتروں میں اردو زبان رائج کرنے کا حکم دیکر نئی داغ بیل ڈالی ہے بلکہ یہاں تک کہہ کر اسے حکم کو سنجیدہ بنایا ہے کہ آرٹیکل251کی حکم عدولی کی گنجائش نہیں ،تمام قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کیاجائے ۔مقابلے کے امتحانات اردو میں کروائے جائے اور عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے بعد ہی حکومتی حلقوں میں ہلچل مچی ہے اور اب دستور کو بھی اردو میں مکمل کیا جا رہا ہے ۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے عملی نفاذ کے بعد قوم کو محسوس ہوگا کہ اس ایک قطع نظری کے باعث اس قوم نے گزشتہ سالوں میں اپنا کتنا نقصان کیا ہے اور آئندہ کتنے نقصان سے بچ گئی ہے ۔اردو زبان کے رائج ہونے کے بعد سکولوں ،کالجوں میں طلبا و طالبات کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملے گااور دوسری جانب خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔سکولوں میں بچوں کو میٹرک تک تعلیم انکی مادری زبان میں دینے سے وطن عزیز کی ترقی خوشحالی میں ایک نیا باب رقم ہوگا اور یوں برطانوی نظام کا وہ بوسیدہ نصاب بھی اپنی موت آپ مر جائے گا اور ایک نئے سلیبس کے ساتھ طلبا و طالبات کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملے گا جبکہ دوسری جانب اعلیٰ عہدوں پر فائض افسران اور عوام میں رابطہ بھی تیزی سے بڑھے گا کیونکہ عوام اور بیوروکریسی کے درمیان جو حد فصیل اس وقت قائم ہے اسکی بنیادی وجہ انگریزی نظام ہے جس دن یہ نظام دم توڑ گیا اس دن عوام اور بیوروکریسی کے درمیان حد فصیل دم توڑ جائے گی اور یوں دونوں کے باہمی تعاون سے ایک پر امن اور منظم معاشرہ تشکیل پائے گا۔اردو زبان کی تشکیل کیلئے اب سماجی ،ادبی ،مذہبی تنظیموں کو چاہئے کہ اپنا کردار اداکریں تاکہ اردو زبان جلد از جلد رائج ہوسیاسی جماعتوں کے زعماء کو بھی چاہئے اس پر خصوصی توجہ دیں تاکہ ایک خوشحال پڑھا لکھا اور مہذب پاکستان پوری دنیا کے نقشے پر اپنا مقام حاصل کرے اور دنیا بھر میں جو گرین پاسپورٹ کی بے قدری نظر آتی ہے اسکا خاتمہ ہو اور وطن عزیز سے دور رہنے والے اوورسیز پاکستانیز بھی سکھ کا سانس لیں ۔
Sardar Asghar Ali Abbasi
About the Author: Sardar Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Sardar Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 24004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.