ہندوستانی مدارس اور اصول ہشت گانہ کتنے دور کتنے پاس؟؟؟

ہندوستان کی اسلامی اور علمی تاریخ میں مشترکہ طور پر مدارس کا اہم رول رہا ہے، بلکہ قدیم ہندوستانی تاریخ اور تہذیب وتمدن جس نظام سے زیادہ متأثر ہوئے، وہ مدارس کا نظامِِ تعلیم و تربیت تھا۔ہندوستان میں جب اسلام کی آمد آمد ہوئی اور داعیانِ اسلام کو تبلیغِ دین وشریعت کا مسئلہ درپیش ہوا،نیز پروانۂ اسلام کو سنوارنے اور ان کی زیست کے نشیب وفراز کی گتھیوں کو حل کرنے اور انہیں اسلام کی جامعیت، معنویت اور شریعت کے مفہوم ومطالب سے آگاہ کرنے کا شدید احساس ہوا، تو ان بے لوث خدامِ اسلام نے مدرسے کی بنیاد ڈال کرشجرۂ اسلام کی آبیاری کی اور ہندوستان میں مدارس کے ذریعہ اسلام کی نشأۃِ اولیٰ کی بنیادڈالی ۔ یہ سلسلہ مغلیہ سلطنت کے زوال تک دراز رہا ، مگر جب سرزمین ہند پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا اور وہ شعائر اِ سلام اور نشانِ راہ مستقیم کومٹانے کے در پے ہوئے اور انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا، توہندوستان میں اسلام کی روشنی مدھم ہونے لگی ، جہاں اس کی تیزتر روشنی دور دراز اور نشیب وفراز میں بسنے والے تمام غریب ومالدار ہر کس وناکس کو برابر منور کرتی تھی، اب ناخواندہ اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ اس روشنی سے اپنے دل کے گھر کو منور کرنے کو ترسنے لگے ، ہر طرف کفروالحاد اور ارتداد کا گھٹا ٹوپ بادل اسلام اور مسلمانوں کے سروں پر منڈلانے لگا، تو داعیانِ اسلام ، علما اور صلحا کو بڑی فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں ہندوستان میں بھی بغداد کی تاریخ نہ رقم کردی جائے، تو انہوں نے نورِ اسلام کو اپنے سینے سے لگایا اورجگہ جگہ مکاتب اور مدارس کو قائم کرکے اس سرمدی نورکو فروزاں کیا، اس طرح دوبارہ ہندوستان میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی بنیاد پڑی ۔

مدرسہ
مدرسہ کا لفظ عام ہے ، یہ ہر اس تعلیم گاہ کو شامل ہے جہاں طلبا کو درس کو دیا جاتا ہے اور انہیں علم وعرفاں کی پر نور اور پر کیف وادیوں کا سیر کرایا جاتا ہے ، مگر درحقیقت اس کا استعمال اس درسگاہ کے لیے خاص کیا جاتا ہے جہاں کوکبۂ اسلام اورطالبانِ علومِ نبوی کو نورِ نبوت کا عکس حاصل ہوتاہے، ان کی حیاتِ فانی کو علمِ ربانی کا وجدان ہوتا ہے ، جہاں ایک طالبِ علم پر علمِ حقیقی اور ازلی کا راز ظاہر ہوتا ہے اور اس کا ظاہروباطن ان علوم سے مزین ہوجاتے ہیں جو اس کی اس دنیاوی زندگی کے ساتھ آخرت کے تندوتاریک راستوں کے لیے بھی بمثل روشن آفتاب وماہتاب ہوتے ہیں، مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں جوئے علم کے پیاسوں کو علم ومعرفت کے شیریں چشمہ سے سیراب کیا جاتا ہے ، ان کے خشک تر حلقوم کو محبت والفت، اخوت وبھائی چارگی،آدابِ خلوت وجلوت اور معاشرت ومعاملات کا آبِ کوثر عطا کیا جاتا ہے ۔ مدرسہ کی بنیاد معلّم انسانیت ﷺکی درس گاہِ اوّل ’’دارِ اَرقم‘‘ سے پڑتی ہے اور صفہ کے ذریعہ اس کومنظم ماحول فراہم ہوتاہے ، اسی وجہ سے ’صفہ ‘کو اسلام کا پہلا مدرسہ بھی کہتے ہیں۔ ابتدائے ا سلام میں آپﷺ نے دارِ ارقمؓ کو اپنی اوّلین درسگاہ بنایا ،مگر جب ضرورت اوروقت نے تقاضا کیا تو آپﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اسلام کا پہلا مبلغ بناکر یثرب(مدینہ منورہ) میں اسلام کی ایک اورشاخ کھول دی۔ اور جب خود معلّم انسانیت ؐہی بنفسِ نفیس اس درسگاہ کے معلم بن چکے، تو صفہ کی شکل میں اس کو یہ مقام دیا کہ اب یہی مرکزی مدرسہ ہوگا اور پورے عالمِ انسانیت میں اس کے فیض کو جاری وساری رکھنے کے لیے ، آپﷺ نے اور آپؐ کے بعد آپؐ کے خلفائے راشدین نے کوفہ و بصرہ میں اس کی شاخیں قائم کیں اور جوئے علم کے پیاسوں کواس سے سیراب کیا۔پھر جوں جوں اسلام پھیلتا گیا اسی قدر مدرسہ کا دائرۂ کار بھی بڑھتا اور وسیع سے وسیع تر ہوتا گیااور خطۂ ارضی پوراکا پورا علم وحکمت سے پرہوتا گیا ، ان مدارس نے انسانیت کو قعرِ مذلت اور جہالت کی تندوتاریک کوٹھری سے نکال کر انہیں علم وہدایت کے معراج پر پہنچایا اور انسانیت کو ان کی حقیقت اور اصلیت سے روشناس کرایا؛ بلکہ یہ مدارس ہی تھے جس نے عالمِ اسلام کو علم ومعرفت سے آگاہی عطا کی، چنانچہ فلپ ہتی (Philip Hitti) اپنی کتاب (The Story of the Arabs, 1970) میں رقم طراز ہے :’’ درمیانی صدی میں انسانیت کی نشو و نمااور ان کی ترقی وبہتری میں جس قدر مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ہے، اتنا کسی قوم نے بھی نہیں کیا‘‘۔فرینچ کا مشہور مورخ گسٹیولیبون(Gustave Le-Bon-1841-1931) اپنی کتاب ’’حضارۃ العرب ‘‘میں لکھتا ہے: ’’ ہم یورپ پر عربوں کے اس عظیم احسان کا کیسے تصور کرسکتے ہیں جب وہ تاریکی غار میں تھے اورجب کچھ لوگوں کو اس کا احساس ہو ا ،تو انہوں عربوں کا ہی دروازہ کھٹکھٹایا، یہ صلیبی جنگوں کا ہی نتیجہ اور اس کا ثمرہ تھا کہ ان لوگوں کا تعلق عربوں سے ہوا اور ان لوگوں نے ان سے اپنی علمی تشنگی دور کی‘‘یہ ایک مشہور مقولہ ہے کہ اگر اسپین سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہواہوتا ، تو وہ کئی سال پہلے ہی مریخ سر کر لیے ہوتے ۔نیزقدیم زمانے کے مدارس آج کل کے مدارس کی طرح جمود کے شکار نہیں تھے ؛ بلکہ علم کے دونوں گوشوں سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے جہاں اس نے معلم ومدرس اور مبلغ فراہم کیے،وہیں مجاہدین کے لیے کمک بھی یہیں تیار کیے جاتے تھے، مریضوں کی بیماریوں کا تریاق اور معالج بھی انہیں انہی مدارس سے فراہم کیے جاتے تھے ؛ غرضیکہ مدرسہ مسلمانوں کے تمام معاملات ومسائل کا کفیل بنتا تھا ۔ اس وقت عالمِ اسلام میں جتنے بھی مدارس تھے سب کی حالت تقریبا یکساں تھی ،ان کا نظامِ تعلیم وتربیت نہایت مستحکم اور پُر اثر تھا، ان کے ذمہ داروں کے پیش نظر اختلاف و انتشار سے پرے صرف اور صرف خدمتِ خلق اور پروانہ ہائے اسلام کو علم وحکمت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کرنا تھااور انہوں نے کبھی بھی مدرسہ کی تعمیروترقی میں اپنی انا اور ذات کو حائل نہ ہونے دیا، بلکہ اس کو قوم وملت کا سرمایہ تصور کرتے ہوئے اس کو مسلسل اپنے مشن اور مقصدپرکاربند رکھا ،یہی وجہ تھی کہ جب ہندوستان کی سرزمین پر انگریزوں کے ناپاک وجود کا سایہ پڑا، تو انہوں نے سب سے پہلے مدارس ہی کو نشانہ بنایا اور اس کے نظام میں مخل ہوئے ، مسلمانوں کے دین وایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے مساجد کو مسمار اور مدارس کو مقفل کرنے لگے،کیونکہ انہیں یقینِ کامل تھا کہ اگر صرف یہ مدارس ہی اپنی حالت پر برقرار رہیں، تو ان کی روحانی اولاد ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے باتیں کرسکتے ہیں اور ہندوستان میں ان کے مستقبل کے عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں ۔ اورپھر کچھ ایسا ہی ہوا کہ جب ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا جانے لگا ،ان کے جان ، مال ومتاع اور ایمان ویقین پر یکساں یلغار ہونے لگا ،تومرجع الخلائق اور منبعِ علم وعرفاں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ اٹھے اورمدارس کی بازیابی کے لیے سب سے پہلے آپ ہی کھڑے ہوئے اور مسندِ درس کو چھوڑ کر انگریزوں کے خلاف علی الاعلان علمِ بغاوت بلند کیا ، اپنے بعد اپنے جانشینوں کو یہ تعلیم دے کر اس دارِ فانی سے کوچ کیا کہ تن اور سر کی بازی لگا دینا مگر کبھی بھی اپنے آبا کی میراث کو ضائع مت ہونے دینا، چنانچہ آپ کے بعد آپ کے صاحب زادے نے اس مشن کو زندہ رکھا اور انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا، ان کا فتویٰ کیا تھا گویا ایک برقِ بے اماں تھا جو نخلِ تمنا گر پڑی، انگریزوں کی نیند حرام ہوگئی ، مسندِ درس پر بیٹھ کر قرآن وحدیث کے درس دینے والے علماء کرام، خانقاہوں میں بیٹھ کر اپنے خونِ جگر سے شمعِ اسلام کوسینچنے والے مشائخ عظام اپنے اپنے مدرسوں اور خانقاہوں کو چھوڑ کر انگریزوں کے خلاف صف بستہ ہوگئے اور لوگ آتے گئے کارواں بنتاگیا ،حجۃ الاسلام امام ربانی حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ، جنہوں نے تجدیددین کے شعبہ میں مجدد الف ثانی اور امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے بعد اہم ترین کارنامہ انجام دیا ، انہوں نے اسلام کی آبیاری اور اس کی نشرواشاعت میں جو علمی، عقلی اور فلسفیانہ نظریہ پیش کیا، اس کی مثال ڈیڑھ صدی میں نہیں ملتی ، دفاعِ اسلام اور حفاظتِ شریعت کے لیے قرآن، حدیث، فقہ اور علومِ شرعیہ پر آپ کو ایسی گرفت تھی کہ اس کی مثال کم از اس زمانہ میں نہیں ملتی ہے، آپ کی انہیں کدو کاوش ، ملی اور اسلامی خدمات کی بنا پر انہیں بانیِ تحریکِ مدارس اور علم وعمل دونوں کا سرخیل تسلیم کیا جاتا ہے، بلکہ انگریزوں کے دور میں آپ کا وجودِ مسعود گویا اسلام کہ نشأۃ ثانیہ تھا۔

بانیِ تحریکِ مدارس اور اصولِ ہشت گانہ
تیرہویں صدی ہجری کا یہ سرخیل جس نے اپنے وقت میں عالمِ اسلام کو سب سے زیادہ متأثر کیا، مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی جو حالت ہوئی کہ ہر چہار طرف سے مسلمانوں کے جان مال اور عزت وآبرو پر حملہ کیا جانے لگا اور بڑی تیزی سے غریب مسلمانوں کو عیسائی بھی بنایا جارہاتھا،تو اس وقت مجددِ ملت حجۃ الاسلام امام قاسمؒ نے امتِ وسط اورشعائرِ اسلام کی حفاظت کے لیے جو عملی اقدامات کیے وہ قابلِ تحسین اور آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس نازک اور پُر فتن دور میں جہاں ایک طرف آپ نے اور آپ کے رفقا نے انگریزوں کے خلاف بالکل آمنے سامنے کی لڑائی کے لیے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد پر اُبھارا ، جس کے باوصف میں ہندوستان کی پہلی جنگ ۱۸۵۷ء میں شاملی کے میدان میں لڑی گئی اور مولانا نے بحیثیتِ جرنیل نہ صرف اس میں شرکت کی، بلکہ مجاہدین آزادی کے شانہ بشانہ انگریزوں کا جم کر مقابلہ کیا ۔ ۱۸۵۷ ء کی اس جنگ آزادی میں دو محاذ بنائے گئے تھے ، ایک محاذ انبالہ میں تھا جس کی قیادت حضرت مولانا جعفر تھانیسری ؒ کے پاس تھی ، جبکہ دوسرا محاذ شاملی میں تھا،اس کے قائد محورِ اولیا حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ تھے ، اس جنگ میں دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے جن میں ساڑھے اکاون ہزار علماء کرام تھے ،حضرت قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اسی جنگ میں زخمی ہوئے تھے، جبکہ حضرت حافظ ضامن شہیدؒ نے جامِ شہادت نوش فرمایاتھا۔تووہیں دوسری طرف مسلمانوں کے دین وایمان کی سلامتی کے لیے آپؒ نے بنفسِ نفیس یا اپنے کسی وفد کو بھیج کر عیسائی راہبوں کا راستہ روکنا شروع کیااور ان سے علمی مناظرے کیے ،تاکہ مسلمانوں کو انگریزوں کی دیرینہ سازشوں سے نجات دلایا جا سکے، جس کے لیے انہوں نے اپنے راہبوں کو مسلمان علاقوں میں چھوڑ رکھا تھاتاکہ وہ مسلمانوں کے مابین عیسائیت کی تبلیغ کریں،پھر ان کاعلمی دندان شکن جواب دینے کے لیے اور مسلمانوں کو ان کے شرعی مسائل سے واقف کرانے کے لیے آپ نے از سرِ نو مدارس و مکاتب کے قیام واستحکام کو اپنا اوّلین ہدف بنایا، تاکہ ان کے فضلاء جہاں ایک طرف عوام کے اندر دینی بیداری پیدا کریں، وہیں وہ لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد پر بھی اکسائیں، تاکہ ایک تیر سے دو شکار آسان ہو، اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ نے سن ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ، یہ مدرسہ اپنے روزِ اوّل ہی سے اپنے مقصد مین کامیاب رہا، چنانچہ اس کا پہلا طالبِ علم محمود حسن دیوبندیؒ نے تحریک آزادی میں وہ کارہائے شیشہ وآہن انجام دیا جو اس تحریک کا ایک منفرد باب ہے، تحریکِ ریشمی رومال انگریزوں کے خلاف ایک عالمگیر تحریک انہی کی دقیق نگاہوں کا ثمرہ تھا۔ الغرض حضرت نانوتویؒ نے مدارس کے قیام کو جو اپنا ہدف بنایا یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی اور زندگی کا روشن ترین پہلوتھا۔ تحریک قیام مدارس نے علوم کے حوالے سے عوام کے اندر بیداری کی ایک زبردست لہر برپا کردی ، سیکڑوں مدارس کا قیام عمل میں آیا، لوگ جوق در جوق آتے گئے اور اپنا خرمنِ ایمان ان سے منور کرتے گئے اور ان مدارس نے ہندوستانی مسلمانوں کے لہو کو بالکل گرما دیا اور وہ ہندوستان سے انگریزوں کو بے دخل کرنے میں کامیاب رہے ، اسی وجہ سے اس نازک گھڑی میں ہندوستان کی سرزمین پر مدارس کے قیام کو اسلام کی نشأۃ ثانیہ تصور کیا جاتا ہے۔

حقیقت ہے کہ اگر یہ مدارس نہ ہوتے ، تو نہ ہمارا ملک آزد ہوتا اور نہ ہی ہندوستان کی سرزمین پر آج کوئی خالص مسلمان باقی رہتا۔ مولانا نے ان مدارس کی داغ بیل ڈال کرامت پر بڑا احسان کیا ہے ، نیز انہوں نے مدارس کو ایک فکری بصیرت عطا کی تاکہ اس کی روشنی میں مدارس اپنے ہدف اور مشن میں برابرمحوِ سفررہے اور جس مقصد کے پیشِ نظر مدارس کے سلسلہ کو دراز کیا جارہا ہے وہ ان کو بہ آسانی حاصل کرسکیں ۔اسی فکری بصیرت اور تحریری نمونہ کو اصولِ ہشت گانہ سے تعبیر کرتے ہیں، جن پر دارالعلوم اور دیگر ہندوستانی مدارس کے اصول مرتب کیے گئے۔

اصولِ ہشت گانہ:
(۱) تا بمقدور کارکنانِ مدرسہ کو ہمیشہ تکثیرِ چندہ پر نظر رہے، آپ کوشش کریں، اوروں سے کوشش کروائیں؛ خیراندیشانِ مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے۔ (۲) ابقائے طعامِ طلبا، بلکہ افزائش طلبا میں جس طرح ہو سکے خیر اندیشانِ مدرسہ ہمیشہ ساعی رہیں۔ (۳) مشیرانِ مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ہو، اپنی بات کی پچ نہ کی جائے، خدا نہ خواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی کہ اہلِ مشورہ کو اپنی مخالفتِ رائے اور اوروں کی رائیوں کے موافق ہونا ناگوار ہو تو پھراس کی بنیاد میں تزلزل آجائے گا، القصہ تہ دل سے بروقت مشورہ اور نیز اس کے پس وپیش میں اسلوبیِ مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو اور اس لیے ضروری ہے کہ اہلِ مشورہ اظہارِ رائے میں کسی وجہ سے شامل نہ ہوں اور سامعین بہ نیت نیک اس کو سینبغی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو، بہ دل وجان قبول کریں گے اور نیز اسی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم امور مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کیا کرے ، خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیر مدرسہ رہتے ہیں، یا کوئی واردوصادر جو علم وعقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو۔ اور نیز اس وجہ سے ضروری ہے کہ اگر اتفاقاکسی وجہ سے اہلِ مشورہ سے مشورہ کی نوبت نہ آئے اور بقدرِ ضرورت اہل مشورہ کی مقدارِ معتد سے مشورہ کیا گیا ہو، تو پھر اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا، ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہلِ مشورہ معترض ہوسکتا ہے ۔(۴) یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین باہم متفق المشرب ہوں اور مثل روزگار خود بیں اور دوسروں کے درپہ نہ ہوں، خدا نہ خواستہ جب اس کی نوبت آئے گی پھر اس مدرسہ کی خیرنہیں۔(۵) خواندگیِ مقررہ اس انداز سے جو پہلے تجویز ہو چکی ہے یا بعد میں کوئی اور انداز سے مشورہ سے تجویز ہو پوری ہوجایا کرے ، ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو بے فائدہ ہوگا (۶) اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں ہوتی جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرطہ توجہ الیٰ اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہ ، تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ ، تو پھر یہ خوف ورجا جو سرمایہ رجوع الیٰ اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اورامدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سرو سامانی ملحوظ رہے (۷) سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے ۔ (۸) تا مقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے، جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو، بالجملہ حسنِ نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے۔

حضرت نانوتوی نے اپنے ان زرّیں اصولوں میں عالمِ مدارس کو یہ پیغام دیا ہے کہ مدارس کا صحیح مقصد اور ان کا صحیح نتیجہ اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب مدارس کو اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ چلایا جائے، ان کو امت کا سرمایہ خیال کرتے ہوئے ہمیشہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ملحوظ رہے، ان میں اپنی انا کی خلیج حائل نہ ہونے دیں، نیز ہمہ وقت ظاہری ومعنوی دونوں حیثیت سے طلبا کی افزائش کا خیال رہے اور کبھی بھی مدرسہ اور طلبا کی ترقی میں اپنی رائے کی پچ نہ کی جائے ، اربابِ مدرسہ ہمیشہ طلبا کی تعمیرو ترقی کی فکر میں کوشاں رہیں، چنانچہَ آج دیوبند اور مسلک دیوبند کی جو اتنی مقبولیت ہے ؛ بلکہ پورے چہارِ دانگِ عالم میں علماء دیوبند کی جو شہرت ہے ، اس کے علماء اور فضلاء کو آج جس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، اس میں انہی بزرگوں کے اخلاص اور نیک نیتی کا اثر ہے ۔چنانچہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے اصول پر گامزن تمام مدارس اس وقت تک باطل کی مکمل شرارتوں کے باوجود اپنی منزل اور مقصد کی طرف رواں دواں تھے جب تک کہ ذمہ دارانِ مدارس نے مدرسہ کی خوش اسلوبی کو اپنے پیشِ نظر رکھا، مگرجب ان لوگوں نے ان اصولوں سے انحراف کیا اور مدرسہ کی خوبی اورخوش اسلوبی کے برخلاف اپنی سخن پروری کو ملحوظ رکھا اور مدرسہ کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کرنے لگے، تواس کی بنیاد میں تزلزل آ گیااور جب خود ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد متزلزل ہوگئی، تو اس کا اثرِ بد عالمِ مدارس پر تو ظاہر ہے ۔

اصول ہشت گانہ سے انحراف کے اثراتِ بد عالمِ مدارس پر
آج پورے ہندوستان میں تقریبا پچاس ہزار مدارس ہیں مگر جب ان میں یکجہتی اور ذمہ داروں میں خوفِ الہی باقی نہ رہا تو صرف ایک دارلعلوم نے انگریزوں کو چنے چبانے پر مجبور کردیاتھا، مگرآج اس خطیر تعداد میں مدارس کے ہونے کے باوجود مدارس اور اہل مدارس بھیگی بلیوں کی طرح اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہیں۔ یقیناًحضرت نانوتوی کے روحانی قلم سے نکلنے والے وہ آٹھ اصول اہلِ مدارس کے لیے آب حیات تھے،جس نے مدارس کو زمانے میں پنپنے کی بنیاد عطا کی اور جب تک مدارس اور اہلِ مدارس نے ان اصولِ کو مشعلِ راہ کے طور پر دیکھا اور ان کو اپنی عملی زندگی میں داخل کیا تومدار س کو ارتقا اور بلندی نصیب ہوئی اور ان سے باطل لرزہ براندام رہے، مگر جب انہوں نے ان اصولوں کو اپنے نظام سے برخواست کردیا، تو ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن گئے۔ مدارس کو وجود میں لانے کا مقصد امت وسط کو صراط مستقیم پر گامزن کرنا تھا، مدارس کے سلسلہ کو اس لیے شروع کیا گیاتا کہ لوگ ان کے ذریعہ اپنی علمی تشنگی دور کر سکیں، مگر جب مدارس اپنے اصولوں اور بنیادوں سے گم گشتہ ہوگئے، تو ان سے برکت کو اٹھا لیا گیا ، کبھی مدارس اور طلبۂ مدارس کو منارۂ علم اور آفتاب وماہتاب تصور کیا جاتا تھا ، مگر آج مدارس کو جہالت کی آماجگاہ اور ان سے فارغ ہونے والے طلبا وعلما ء کو جاہل تصور کیا جاتاہے، مدارس کے طلبا فراغت کے بعد مکمل طور پر یا تواحساس کمتریں کے شکار ہوجاتے ہیں، یا گمنامی کی موت کو ترجیح دیتے ہیں ، عالمِ شہرت پر کچھ گنے چُنے لوگ ہی اپنا نام درج کراپاتے ہیں، اس میں بھی وہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں جن کا خاندانی پس منظرلائق اعتنا ہوتا ہے، یا جن کے لوگ مدارس کے ذمہ دار یا ناظم ہوتے ہیں ، اس لیے کہ آج کے نظماء حضرات مدارس کو اپنی خاندانی جاگیر اور میراث تصور کرتے ہیں ، بلکہ بعض مہتممین ایسے ہیں جو اپنی زندگی ہی میں مدرسہ کو اپنی اولاد در اولاد کے نام منسوب کر دیتے ہیں تاکہ ان کی اچانک وفات سے ان کا یہ دھرم شالہ کسی اور کی ملکیت میں نہ پہنچ جائے، نتیجۃ جب ہمارے ذمہ داران مدارس اور اسلامی مراکز کو اپنی جاگیر اور ملکیت تصور کرنے لگے، توان کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں اور مسلم قوم ذلیل وخوار، ر سواوبدنام اور مقہورومغلوب ہونے لگی۔تو آپ کو تعجب ہوگا کہ صرف ایک دارالعلوم کے تربیت یافتہ فضلانے ایونِ باطل میں کھلبلی مچادی تھی اور انگریزی حکومت کے پرخچے اڑادئیے تھے ،جبکہ آج صرف ہندوستان میں0 35,00مدارس ہیں،اس کے باوجود بھی ہماری حالت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ اعدادوشمار 2003 ء کے سروے کے مطابق ہیں اورہر سال اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے نام پر پورے ملک میں سیکڑوں مدارس قائم کیے جاتے ہیں ، اس اعتبار سے موجودہ وقت میں مدارس کی تعداد کم وبیش پچاس ہزار ہوں گی، جن میں تقریبا تیس فیصد مدارس میں موقوف علیہ( مشکات شریف) اور فضیلت تک کی تعلیم ہوتی ہے، یعنی ان پچاس ہزار مدارس میں سے پندرہ ہزار مدارس میں عالیہ درجہ تک کی تعلیم ہوتی ہے، لیکن جب نتیجہ اور رزلٹ پر نگاہ ڈالیں گے تو نتیجہ صفر ہوگا۔ یہ بات میں بلا سند نہیں کہتا، آپ خود ہی تخمینہ لگا کر دیکھ لیجیے کہ ان پندرہ ہزار مدارس میں سے کم از کم دس ہزار طلبا ہر سال سندِ فراغت حاصل کرتے ہونگے ، لیکن آج خود ان مدارس اورپوری امت کے سامنے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ دس ہزار علماء آخر کہاں گم ہوجاتے ہیں؟ سرکاری دفاترمیں تو ان کی تعداد صفرہی ہے ، مدارس اور مساجد میں خدمت کے لیے بھی کوئی نہیں ملتا۔ صرف مہاراشٹرکے کو کن کی ڈیڑھ سو مساجد بغیر امام کی خالی پڑی ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بے شمار مساجد اور مدارس کا بھی یہی حال ہے۔ ان چشم کشاانکشافات کے بعد میری طرح آپ کے ذہنوں میں بھی یہ سوال گردش کرتا ہوگا کہ آخر ہمارے فضلا جاتے کہاں ہیں؟ اَیا ٖفراغت کے بعد وہ خودکشی کر لیتے ہیں، یا ان کو سانپ نگل جاتا ہے ، یا ان کو تاریک وتنگ کوٹھریوں میں پابہ زنجیرکر دیا جاتا ہے ؟ جواب تو میرے ذہن میں بھی کوئی معقول نہیں ہے، البتہ جب ہم سڑکوں اور چھوٹے چھوٹے کارخانو ں اور فیکٹریوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ان کی وضع قطع کی کچھ مبہم اور کچھ معلوم تصویریں میری آنکھوں کے پردے پر چھانے لگتی ہیں اوران سے ملاقات اورگفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ بھی فضلاے مدارس کی اُس صنف کے ایک ستم رسیدہ شخص ہیں ، جس نے در بدر پھرنے کے بجائے اس بے نامی کی زندگی کو ترجیح دی ہے ۔ اس حالتِ زار کو دیکھ کر آنکھیں نمناک ، دل مضطرب اور ذہن پریشان ہوجاتا ہے اورہمارا ساراوجود تھوڑی دیرکے لیے متحیراورساکت وصامت ہوجاتاہے اوریہ سوچتے ہوئے دل پرایک چوٹ سی لگتی ہے کہ جس جماعت کوانسانیت کی رہبری کے لیے منتخب کیا گیا تھا، آج وہ خود رہبر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اس دنیا میں جتنے بھی انبیاء اور رسل تشرف لائے ، گو سب کا مشن اعلائے کلمۃ اللہ اور خدائی دین کی تشہیر وتبلیغ تھا ، مگرسبھوں نے نانِ شبینہ کے لیے کوئی نہ کوئی صنعت اور پیشہ ضرور اختیار کیا، مگرآج کاالمیہ یہ ہے کہ مدارس کے طلبا کو نہ تو کوئی حرفت سکھائی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ فراغت کے بعد معاش کے مسئلہ کو از خود حل کرسکیں ، اگر کسی کا کسی لحاظ سے کچھ معاملہ بنتا بھی ہے ، تو انہیں اس کے لیے اضافی کورسیز کی ضرورت پڑتی ہیں ، بلکہ بعض مدارس کی اسناد بھی اس قابل نہیں ہوتیں کہ اس کی بنیاد پر ان کا طالب علم کسی کالج یا یونیور سیٹی میں داخلہ لے کر اپنی تعلیمی سرگرمی آگے جاری رکھ سکیں ۔ القصہ اگر آپ ان پہلوؤوں پر غور کریں گے ، تو آپ کو واضح فرق یہی معلوم ہوگا کہ ارباب مدارس نے اصول ہشت گانہ سے بے روخی کر لی ہے ، مدارس کو جس مقصد کے لیے وجود میں لایاگیا تھا اس مقصد کو خاک میں ملاکر مدارس کے بیشتر ذمے داران اورمہتممین ان مدرسوں کو اپنی ملکیت اور خاندانی جاگیر سمجھ کرایک’ ڈکٹیٹر‘ کا کردار اداکرتے ہیں، اکثر ذمہ داران انسانیت اور طلبا کی تعمیر وترقی کے بجائے، اپنی ’ظاہری ومعنوی ترقی‘ کو اولین تریح دیتے ہیں،تعلیمی ترقی کے بجائے وہ لوگ مدارس کی عمارت کی ترقی اور زیبائش پر اپنی محنت اور قوم کے سرمایہ کو صرف کرتے ہیں، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

عہدِ قدیم کا دارالعلوم
روزِ اول ہی سے جب حضرت نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، تویہ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ طلباء دارالعلوم کتاب وسنت کے ساتھ ریاضی(Mathematics)، جیومیٹری (Geometry)،ہیئت (Morphology)، فلکیات(Cosmology)، الٰہیات(Metaphysics)، الجبرا(Algebra)، مساحت (Mensuration)، تعمیرونقشہ سازی (Civil Engineering) اور طبِّ یونانی بھی پڑھیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں دارلعلوم میں ان تمام علوم کی باضابطہ تعلیم ہوتی تھی، نیز ان سے متعلق دیگر مضامین کو پرھانے کی تو مکمل تیاریاں بھی ہوچکی تھیں مگر قلتِ وسائل کے باوصف اس کو موخر کردیا گیا ۔ اس کی شہادت اس واقعہ سے بھی ملتی ہے کہ جب ۱۵ اپریل ۱۹۱۲ء میں علاّمہ رشید رضا مصری صاحبِ تفسیر المنار دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تھے ، تو انہوں نے فلسفہ کی کتابوں کے متعلق سوال کیا کہ یہاں اس فن کی کون سی کتاب داخلِ نصاب ہے ، تو اربابِ دارالعلوم دیوبند نے ’النقش فی الحجر ‘نامی کتاب کا حوالہ دیا، تو وہ بہت خوش ہوئے۔درحقیقت ’النقش فی الحجر‘ نامی یہ کتاب آٹھ قسم کے مضامین پر مشتمل تھی اور ہر موضوع کو الگ الگ حصہ میں بیان کیا گیاتھا، چنانچہ پہلے حصہ میں طبعیات کے ابتدائی اصول (Elementry Principles of Physics) ,دوسرے میں کیمسٹری (Chemistry)، تیسرے میں طبعیات(Physics)، چوتھے میں جغرافیۂ طبعی (Physical Geography)، پانچوے میں علمِ طبقات ارض (Geology)، چھٹے میں ہیئت اور فلکیات (Cosmology & Astronomy)، ساتوے میں نباتات )(Botany) اور آٹھوے میں اصولِ منطق (Principles of Logic) جیسے موضوعات نہایت شرح وبسط کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ، صرف یہی نہیں عوام سے یہ بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ دارالعلوم کا دل کھول کر تعاون کریں تاکہ اس میں فنِّ دواسازی کاشعبہ بھی قائم کیا جاسکے، نیز اگر وسائل کی فراہمی زیادہ ہوجاتی ہے ،تو اس سے جراحی کے آلات بھی خریدے جائیں گے تاکہ فضلاء دارالعلوم عالم اور مولوی ہونے کے ساتھ ساتھ سرجن ڈاکٹر بھی ہوں۔اس کے فضلاء علم وعمل کے دونوں شعبوں میںیکساں رول ادا کریں، مگر صد افسوس کہ عہد جدید کے اس دارالعلوم میں نہ صرف یہ کہ یہ علوم نہیں پڑھائے جاتے، بلکہ سرے سے عملاََ ان کا انکار کیا جاتا ہے ،بجائے اس کے کہ حضرت نانوتویؒ کی امیدوں کا یہ تاج محل عالمِ ٹکنالوجی میں اپنا نام پیدا کرتا، آج اس کے فضلاء کو دقیانوسی خیلات کا متحمل تصور کیا جاتا ہے۔ دارلعلوم اور اس کے اصولوں پر کاربند دیگر تمام مدارس کے نظامِ تعلیم وتربیت پر انگشت نمائی کی جاتی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اربابِ دارالعلوم نے اصولِ ہشت گانہ سے منہ موڑ کر اس سے انحراف کرکے اپنے اور طلباء کے مستقبل کو تاریک بنانے کی سعی نا تمام کی ہے۔

اصول ہشت گانہ سے سب سے پہلے کس نے انحراف کیا ؟
اربابِ دارالعوم دیوبند نے اصولِ ہشت گانہ سے انحراف کا ارتکاب تو اسی وقت کردیا جب انہوں نے نصاب سے ان علوم کو خارج کرکے غیر ضروری مباحث کو نصاب میں داخل کردیا، اس میں بھی سیاست کی ایک لمبی داستان ہے ، جس کے باوصف ابتداء میں اختلافات بھی ہوئے، اختلاف تو نازش دارالعلوم دیوبند حضرت امام انور شاہ کشمیری ؒ کے وقت بھی ہوا تھاکہ کسی بات پر جب حضرت نے دارالعلوم میں سبق پڑھانا بند کردیااور دیوبند کی خانقاہ کی مسجد میں رہنے لگے تو طلباء دورۂ حدیث خانقاہ کی مسجد میں بارگاہِ انوری میں حدیث کا درس لینے کے لیے پہنچ گئے،تو اس وقت علامہ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ میں نے دارالعلوم سے استعفیٰ دے دیا ہے ، مگر دارالعلوم سے باہر دیوبند میں ایک سبق بھی پڑھا کر میں دارالعلوم کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا، پھر ڈھابیل گجرات تشریف لے گئے، حالانکہ حضرت علامہ کے درس کی اس وقت جو مقبولیت تھی اگر وہ طلبا کو خانقاہ کی مسجد میں درس دینے لگ جاتے ، تو آج وہ دارلعلوم سے بھی بڑا دارہ ہوتا ، مگر حضرت نے کوئے یار سے فرقت کو تو برداشت کرلیا مگر دارالعلوم دیوبند کی افاقیت اور اجتماعیت پر ایک حرف تک نہ آنے دیا ۔ آج پورے ہندوستان کو چھوڑ کر صرف دیوبند میں تقریبا تین سو مدارس ہیں ، کیا ارباب مدارس کا یہ اقدام دارالعلوم کی افاقیت واجتماعیت کو پاش پاش کرنے کے مترادف نہیں ہے ،تعجب خیز امر یہ ہے کہ آج بشمول ارباب دارالعلوم، دیوبند میں موجود تمام مدارس کے ذمہ داروں نے فکرِ قاسمی کو بھلاکر مدارس کی ترقی میں اپنی انا کی خلیج کو حائل کردیا ہے ، حضرت نانوتوی نے اپنے پہلے منشور میں یہ بات لکھی کہ خیر اندیشانِ مدرسہ ہمیشہ افزائش طلبا کے بارے میں کوشاں رہیں ، مگر تعجب یہ ہے کہ آج دارالعلوم کے قیام کو تقریبا ڈیرھ صدی گذرنے کو ہے مگر طلبا کی تعداد ان دیگر مدارس سے بھی کم ہے جن کا قیام دارالعلوم کے بعد ہوا ہے، اس کے علاوہ آج کچھ لوگوں نے اس کو سیاست کا اڈہ بنادیا ہے ، ہر چہار طرف سے اس پر سیاسی یلغار ہے ، جس کے باوصف یہ ادارہ علاقائی عصبیت کا بھی شکار ہے ، امور تدریس سے لے کر دیگر تمام شعبوں میں بھی علاقائی عصبیت اور درجہ بندی کوملحوظ رکھا جاتا ہے، طرفہ کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کی وفات پر وہاں تعزیتی جلسہ اور سیمینار منعقد کیا جاتا ہے تو اس میں بھی حسب ونسب اور علاقائی عصبیت کا اچھا خاصہ دخل ہوتا ہے، چنانچہ جب مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی ظفیرالدین صاحبؒ ؒ کاانتقال ہوا، تو دارالعلوم کی طرف سے کسی تعزیتی پروگرام کا انعقاد نہیں ہوا ۔ اور وہی دودن بعد جب ایک رکنِ شوریٰ کا انتقال ہو اتو تعلیمات کی طرف سے ایک تعزیتی نششت منعقد کی گئی، گو ساتھ میں حضرت مفتی صاحبؒ کی بھی تعزیت کی گئی، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اربابِ دارالعلوم دیوبند کو یہ کشف ہوگیا تھا کہ حضرت مفتی صاحب ؒ کی وفات کے دودن بعد فلاں رکنِ شوریٰ صاحب کاانتقال ہوگا، پھر ساتھ ہی میں دونوں حضرات کے لیے تعزیتی نششتیں منعقد کی جائیں گی۔ اسی پر بس نہیں ، بلکہ حضرت مفتی صاحبؒ جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے فتاوۂ دارالعلوم دیوبند کو ترتیب دیا تھا ، مگر صد افسوس کہ چند لوگوں نے دانستہ طور پرموجودہ نئے ایڈیشن میں حضرت مفتی صاحبؒ کا نام غائب کردیا۔ اور ظاہرہے کہ جب اس طرح کی حرکت خود دارالعلوم میں ہوگی تو دیگر مدارس کا کیا حال ہوگا۔ دارالعلوم سے اختلاف کرکے دارالعلوم وقف دیوبند نے تو دارالعلوم کی آفاقیت کو مجروح کیا ہی ،وہیں اربابِ دارالعلوم نے بھی اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، مگر دارالعلوم سے الگ ہوکر دارالعلوم وقف نے کس ہرن کا شکار کرلیا ہے ، البتہ یہ تو ہوا ہے کہ قوم کا یہ سرمایہ چند لوگوں کے ارد گرد گھوم کر دارالعلوم اور خود اپنا وقار کھویا ہے ، اگر حضر نانوتویؒ کے ایک ایک منشور پر نظر ڈالیں اور پھر اس کے تناظر میں دارالعلوم وقف کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ مدرسہ نہ صرف حضرت نانوتوی کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتاہو نظر آتا ہے، بلکہ سرے سے اس کا کوئی اصول اور قانون ہی نہیں ہے ، وہاں طلبا کی رہائش کا نہ تو کوئی معقول نظم ہے ، جس کے باوصف طلبا کرایے کے کمروں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں ، حالانکہ ان کے پاس الحمدللہ وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ جب طلبا کسی کی نگرانی میں نہ ہوں ، ان کی اخلاقی حالت یقیناًدیگرگوں ہوجاتی ہے ، تعلیمی معیار بھی کوئی بہت اعلیٰ نہیں ہے ، بلکہ اگر یہ کہ دیا جائے کہ عالمِ مدارس میں اگر کسی مدرسہ کا طالبِ علم سب سے زیادہ احساسِ کمتریں کا شکار ہوتا ہے ، تو وہ طلبائے دارالعلوم دیوبند وقف ہیں ۔ گذشتہ دنوں کی بات ہے کہ جب میرا دارالعلوم دیوبند وقف جانا ہوا ، تو میں نے اپنے اس مقالہ کے تعلق سے کچھ طلبا سے گفتگو بھی کی ، دورانِ گفتگو عجیب قسم قسم کی چشم کشا انکشافات کھل کر سامنے آئیں ، ایک طالب علم تو اس قدر سوزِ دروں سے بول رہا تھا کہ میری آنکھیں بھی اشکبار ہوگئیں ، انہوں نے کہا کہ اربابِ دارالعلوم وقف طلبا کی تعلیمی ترقی پر بالکل توجہ نہیں دیتے ، یہاں نمبرات کا بھی عجیب معیار ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی طالبِ علم اسّی نمبر سے اوپر حاصل نہیں کرسکا جو یہاں کے اول پوزیشن کا معیار ہے ، صرف اس سال ایک طالب علم اکاسی نمبر لاکر اول پوزیشن کاصحیح حق ادا کیا ہے ، یہاں نمبرات دینے میں اس قدر بخالت سے کام لیا جاتا ہے کہ پوزیشن ستر سے پچھہتر کے مابین ہوتی ہے ، بقیہ نمبرات چالیس سے پچاس اور ساٹھ کے درمیان ہوتے ہیں ، ان نمبرات کی بنا پر یک گونہ ہم احساسِ کمتریں کے شکار ہوجاتے ہیں ، ہر جگہ اپنی اس سند اور نتیجۂ امتحان کو چھپائے پھرتے ہیں ، ہم اپنا نمبر کسی کو نہیں دکھاتے ، صرف اس بنا پرکہ شاید ہمارے مخاطب کے دل میں ہمارے تعلق سے کمتری کا احساس پیدا نہ ہوجائے ، نیز ہم اس نمبر کی بنیاد پر کسی کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ کے مجاز بھی نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ ان تعلیمی مراکز میں داخلہ لینے کے جتنے نمبرات کا ہونا شرط ہے ، ہمارا معیار اس سے بہت کمترہوتاہے، اس لیے کہ عموما دوسری جگہوں میں داخلہ لینے کے لیے پچاس فیصد سے اوپرنمبرکا ہونا شرط ہے، جبکہ ہمارے نمبرات چالیس سے پچاس کے درمیان ہوتے ہیں ، کچھ ہی طلبا ایسے ہوتے ہیں جو پچاس اور ساٹھ سے اوپر نمبرات حاصل کرپاتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ دارالعلوم وقف کی اپنی ایک پالیسی ہے کہ جو طلبا تمام کتابوں میں۵۵یااس سے اوپر نمبرات حاصل کریں گے صرف انہیں کے لیے دارالاقامہ کی طرف سے طعام کا نظم کیا جائے گا، اب اگر تمام مستحق طلبا کو ۵۵ سے اوپر نمبرات دے دیے جائیں تو سب کے لیے اقامہ کی طرف سے طعام کا نظم کرنا مشکل ہوجائے گا ۔ اب جبکہ اکثر طلبا اقامہ کی طرف سے طعام سے محروم ہوتے ہیں ، تو ان کی حالت یہ ہے کہ صبح سے لے کر شام تک حتیٰ کہ اوقات درس میں بھی انہیں طعام کے انتظام وانصرام کی فکر لگی رہتی ہے، ہر وقت یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ ہمارے مطبخ میں چاول ہے یا نہیں ، مصالحہ ختم تو نہیں ہوگئے ، نیز ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو روم مالکان کو کرایہ دینے کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے ۔ اس طالبِ علم نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ آپ ہی بتائیں کہ اگر ہم اس قدر تناؤ میں زندگی بسر کریں گے تو پھرہماری علمی ترقی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربابِ وقف دارالعلوم کو ان باتوں کااحساس ہے یا نہیں، اگر انہیں ان باتوں کا احساس ہے تو پھر اس طرف پیش رفت کیوں نہیں کرتے ؟ اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ دارالعلوم وقف کے پاس وسائل کی قلت ہے ، اس لیے وہ تمام طلبا کے لیے قیام وطعام کے انتظام وانصرام سے قاصر ہے ، مگر یہ بات اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ پورے ہندوستان میں ، بلکہ خود دیوبند میں بھی سیکڑوں مدارس ایسے ہیں جن کا قیام وقف دارالعلوم کے بعد ہوا، مگر وہ اپنے روزِ اوّل ہی سے اپنے طلبا کے قیام وطعام کی کفالت کرتے آرہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی شورائی نظام نہیں ہے جو وہان کے تعلیمی اور دیگر اقاماتی حالات کو درست کرسکے اور نہ ہی کوئی ضابطہ اور قانون ہے،جن کا پاس ولحاظ کرنا طلباپر واجب ہو۔ اور جب یہ شورائی نظام نہیں ہے تو اساتذہ اور ملازمین بھی اپنی من مانی کرتے ہیں ، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے سروں پر کوئی نہیں ہے ، تو وہ جیسے چاہتے ہیں بولتے ہیں کوئی بھی ان کو ٹوکنے والا نہیں ، بلکہ تعلیم کے ابتدائی دور میں وہاں کچھ اساتذہ تو ایسے ہیں جو مستقل کئی دنوں تک طلبا کو دارالعلوم میں اختلافات کے اسباب اوراس میں حق پرکون تھے اور کن لوگوں نے ظالمانہ کردار ادا کیا، غرضیکہ یہ ابتدائی مرحلہ ہی میں طلبا کے ذہنوں میں منفی خیالات ڈال کر ان کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں اوریہی وہاں کی سب سے بڑی کمی ہے کہ ان جیسے اساتذہ کی زبانوں پر نہ ہی تو لگام لگایا جاتا ہے اور نہ ہی ان جیسے لوگوں کو معذرت کی جاتی ہے ، اگر اربابِ دارالعلوم وقف ابھی بھی اس سلسلہ میں کچھ اقدام کریں ، تو یہ بعید نہیں کہ قوم وملت کایہ سرمایہ بہت جلد اپنے مقصدکو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ کافی خوش آئند بات ہے کہ گذشتہ سال کچھ لوگوں کے کافی لعن طعن کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،جس کو اربابِ مدرسہ نے شوریٰ سے تعبیرکیا، مگر افسوس کہ اس کی نوعیت ہیئتِ حاکمہ کی نہیں ہے، بلکہ وہ تو مجلسِ مشاورت کی تشکیل تھی ، مجلسِ شوریٰ اور مشاورت میں آسمان وزمین کا فرق ہے کہ شوریٰ میں ہیئت حاکمہ ارکانِ شوریٰ ہوتے ہیں، جبکہ مجلسِ مشاورت میں تمام اختیارات ناظمِ مدرسہ کو حاصل ہوتا ہے ، حالانکہ حضرت نانوتوی نے مدرسہ کے تمام اختیارا ت کا ضامن اصحابِ شوریٰ کو بنایا تھا،بقول مولاناندیم الواجدی صاحب مدیر ترجمانِ دیوبند: ’’ حضرت نانوتوی نے دارالعلوم کا نظام جمہوری بنیادوں پر رکھا ہے، یہاں روزِ اوّل ہی سے شوریٰ قائم ہے جو مہتمم مدرسہ کو مشورہ دیتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے ، اس اصول کے تحت مہتمم کو اس قدر بااختیار قرار نہیں دیا گیا کہ کسی سے مشورہ لیے بغیر خود ہی اہم اور بنیادی فیصلے کرے ، بلکہ اسے یہاں تک ہدایت دی گئی کہ اگر بروقت مستقل اصحابِ مشورہ دستیاب نہ ہوں، تو واردوصادر ذی عقل اور صاحبِ رائے سے مشورہ لے لے ، اہلِ مشورہ کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ صرف اپنی رائے دیں ،اس کی صحت پر اسرار نہ کریں ، اصحابِ شوریٰ کو چاہیے کہ وہ محض مدرسے کا مفاد ملحوظ رکھیں اخلاص کے ساتھ مشورہ دیں ، سننے والے نیک نیتی سے سنیں اور دردمندی اور قبول کریں۔ ‘‘ مگر دارالعلوم وقف آج تک بغیر کسی شوریٰ کے چلتا رہا اور ابھی اس کا خیال بھی ہوا تو انہوں نے مجلس مشاورت بنام مجلسِ شوریٰ کی تشکیل دی، جس نے اپنی اولین مجلس میں حضرت مولانا سفیان صاحب کے اہتمام کا اعلان کردیا ، یہ ڈکٹیٹر شپ نہیں تو اور کیا ہے، کیا اس طرز کو خاندانی وراثت کا نام دینا غلط ہوگا ، اگر اہتمام کا مدار علم اور زیادتیِ ورع اور تقویٰ پر ہے ،نیز دارالعلوم وقف کے منصبِ اہتمام کا صرف اور صرف خانوادۂ قاسم ہی مستحق ہوسکتا ہے ، تو بھی اس منصب عظمیٰ کے لیے حضرت مولانا سالم صاحب دامت برکاتہم کے بعد اگر کوئی ذات تھی تو وہ حضر مولانا اسلم صاحب کی تھی۔

الغرض یہ قصہ کسی ایک مدرسہ اور مکتب کا نہیں ،آج پورے ہندوستان میں جتنے بھی مدارس ہیں اگر سب کا سروے کیا جائے تو آپ مشترکہ طور پر یہی محسوس کریں گے کہ کسی کے والد نے تو کسی کے دادا نے اس مدرسے کی بنیاد رکھی اور آج اس مدرسہ پر بیٹے اور پوتے کی وراثت قائم ہے ، جب اخلاص کا فقدان ہوا توآج ہر سال ہزارون کی تعداد میں طلبا مدارس سے سند عالمیت اور فضیلت حاسل کرکے نکل رہے ہیں ، مگریہ امت ایک بھی مخلص قائد اور صحیح رہبر کی دریافتگی سے محروم ہے اور زندگی کے ہر گوشے میں ان کی کمی کی شدت کااحساس ہوتاہے ، اس لیے اگر ہم پھر سے ان مدارس کے افادہ کو عام کرنا چاہتے ہیں تو اربابِ مدارس اور ذمہ داران مدارس کو سب سے پہلے مدارس کے سلسلہ میں یہ بات اپنے دل سے نکال دینی چاہیئے کہ مدارس ان کی اپنی جاگیر ہے، بلکہ مفادِ عامہ اور خود مدارس کو فائد بہم پہنچانے کے لیے مدارس کو قوم کا سرمایہ اور خود کو اس کا ادنیٰ خادم تصور کریں ، نیزہمہ وقت طلبا کی فلاح وبہبود کے لیے کوشاں ہوں اور اس میں کبھی بھی اپنی انا کی خلیج حائل نہ ہونے دیں ،

بلکہ مدارس کو قوم اور اور مسلمانوں کی جاگیر اور ان کی ملکیت کا خیال رکھتے ہوئے امت کے ہر ہر فرد کے لیے خیر کا پہلو ملحوظ رکھیں ، نیز مدارس کی تعمیرو ترقی ، اس کی بہتری اور افادۂ عام کے لیے حضرت نانوتوی کے الہامی قلم سے جو اصول مرتب ہوئے ہیں ان کو اپنی زندگی اور مدارس کے ضابطۂ حیات اور نظام کے لیے جزء لاینفک بنائیں، اگر ہمارے ذمہ داروں نے ان باتوں کی طرف توجہ دے دیا، تو پھر سے مدارس اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ افق عالم ابھریں گے، لوگوں کے خرمن دل کو علمِ نبوت کی تابانی عطا کریں گے ہرجگہ علم وعمل کا سماں سماں ہوگااور عالمِ انسانیت پر علم والوں کی حکمرانی ہوگی ۔
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.