بھوک
(Muhammad Nawaz, Kamalia)
بھوک انسان کے ساتھ ہی اس جہاں میں اتری ہے ۔دنیا میں آتے ہی جو پہلااحساس انسان کو ہوا وہ بھوک ہی تھا پروین مرد تب سے آج تک بھو کا ہے اس کی بھوک کبھی ختم ہی نہیں ہوئی ،وہ رات پیٹ بھر کر سوتا ہے تو صبح ہوتے ہی اس کی بھوک دو گنا بڑھ چکی ہوتی ہے ۔ |
|
پروین کو اس کے ہمسائے میں رہنے والی ایک
عورت نے بتایا کہ نہر کنارے بنے ہوئے بنگلے میں ایک صاحب آتا ہے جو غریب
پرور بھی ہے اور خدا ترس بھی،اگر توبنگلے والے صاحب کے پاس چلی جائے تو
یقیناً وہ تیرے بچوں کی بھوک مٹا دے گا ۔پروین سے اپنے بچوں کی بھوک دیکھی
نہ جاتی ،بچے بھوک سے بلکتے تواس کا کلیجہ منہ کو آ جاتا ،بچوں کے ساتھ وہ
خود بھی بلکنے لگتی ان کو جھوٹیاں تسلیاں دیتی کہ ان کا باپ آج نہیں تو کل
ضرور ڈھیر سارے پیسے لے کر آئے گا ،پھر وہ ان کو پیٹ بھر کر کھانے کو دے
گی۔بچے اس تسلی کے ساتھ جو بھی کھانے کو روکھا سوکھا ہوتا کھا لیتے اور سو
جاتے سویرے اٹھتے ہی ان کا ماں سے سوال ہوتا اماں ،ابا آیا کہ نہیں ،پروین
بچوں کو مرغی کی مانند اپنے پروں میں چھپا لیتی اور وہی تسلی بھرے الفاظ
دہرا دیتی،بچوں کو امید بندھ جاتی اور وہ اس امید کے ساتھ کہ ابا کل ضرور
آئے گا ،کھیل کود میں مگن ہو جاتے ۔
پروین کا شوہر کا نام صابر کراچی کام کے سلسلے میں گیا ، وہ باقاعدگی کے
ساتھ خرچ بھیجتا، اس کا پروین سے رابطہ بھی رہا پھر اچانک رابطہ ختم ہو گیا
اور خرچ آنا بھی بند ہو گیا ۔صابر کے بارے میں کوئی پتا نہ چلا کہ وہ اچانک
کہاں گیا ۔جس جگہ صابر کام کرتا تھا پروین نے کئی بار وہاں رابطہ کیا مگر
وہ لوگ بھی صابر کے یوں اچانک غائب ہو جانے پر کافی پریشان تھے اور لا علم
بھی ۔انہوں نے پروین کو بتایا کہ صابر ایک شام اچانک کام والی جگہ سے غائب
ہو گیا پھر واپس پلٹ کر نہیں آیا وہ یہی سمجھے کہ شاید صابر گھر چلا گیا ہے
۔بستی میں صابرکے نہ ملنے کی خبر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کان تک
جا پہنچی ۔بستی کی عورتیں جوق در جوق پروین کے پاس غم بانٹنے آنے لگیں
۔بستی کی عورتیں پروین کے پاس آتیں تو غم باٹنے مگرجاتے ہوئے اس کا غم دو
چندکر جاتیں’’پروین میرے میاں بتا رہتے تھے کہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں
،وہاں ہر روز کتنے ہی لوگوں کو قتل کر کے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ تو یہ
بھی بتا رہے تھے کہ لوگوں کو اس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے کہ ان کی شناخت
بھی نہیں ہو پاتی کہ مرنے والا کون تھا؟‘‘ ایک عورت نے اس طرح کہا کہ اس کے
دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اس کے ناک پر دھری تھی گویا یہ اس کااظہار
افسوس کرنے کا اک انداز تھا ۔’’ ہاں پروین یہ ٹھیک کہہ رہی ہے ، میں نے بھی
کچھ ایسا ہی سنا ہے ،بلکہ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہاں دن دہاڑے چلتے
پھرتے لوگوں کو گولیاں مار دی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پر اللہ نہ کرے صابر کے
ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو‘‘ ایک اور عورت نے پروین کے دل میں ڈر کا بھوت
بٹھاتے ہوئے کہا اس طرح جو بھی عورت پروین کاغم باٹنے آتی مزید بڑھا کر چلی
جاتی اور پروین ان کی باتوں سے یوں ڈر جاتی جس طرح ایک چھوٹا بچہ نیند میں
ڈر جاتا ہے اور زور دار چیخ کے ساتھ اٹھ کر اپنی ماں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے
۔عورتیں جب پروین کو چڑیلوں اور بھوتوں کی مانند ڈرا کر چلی جاتیں تو وہ
اپنے بچوں سے چمٹ کر رونے لگتی ،بچے ماں کی تقلید میں رونے لگتے ۔پروین
بچوں کو چپ کرانے لگتی ،تو ایک دو اور عورتیں چڑیلوں کا لبادہ اوڑھے آن
کھڑی ہوتی ۔یوں ماہ و سال بیتنے لگے اور صابر کی خیر خیریت کی اطلاع ماضی
بعید کا حصہ بن گئی ۔پروین نے بھی بستی کی چڑیل نما عورتوں کے ڈر کو دل میں
جگہ دے کر مان ہی لیا کہ صابر کراچی کے کسی ویران علاقے میں پڑی بوری بند
لاش کی صورت بنا شناخت کے لاوارث سمجھ کر دفنا دیا گیا ہو گا ،ورنہ اگر وہ
زندہ ہوتا اب تک ضرور آچکا ہوتا مگربچوں کے دلوں میں باپ کے واپس آنے کی
امید پروین اب تک بندھائے ہوئے تھی ۔
شوہرکے یوں اچانک غائب ہونے سے پروین کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑنے لگا
۔ضروریات زندگی کا پورا ہونا نا ممکن ہونے لگا جو کچھ گھر میں بچاکچا تھا
ختم ہو گیا ۔دو وقت کی روٹی کا پورا ہونا مشکل ہو گیا۔بستی والوں کو پروین
کی غربت کا احساس ضرور تھا ،مگر کب تک وہ اس کا اور اس کے تین بچوں کا بوجھ
اٹھا سکتے تھے ۔چنانچہ وہ بھی آہستہ آہستہ ہاتھ کھینچنے لگے ۔ایک عورت نے
پروین کو دبے دبے الفاظ میں کہہ بھی دیا ’’پروین تم تو جانتی ہو اس بستی کے
سب باسی تقریباً مزدور ہیں اور مزدور تو صرف دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کر
پاتا ہے ۔تم تو جانتی ہو مہنگائی نے آسمان کو چھو لیا ہے اور آمدن ابھی
زمین پر ہی ایڑیاں رگڑ رہی ہے ‘‘
بستی والوں نے اس کے باوجود پروین اور اس کے بچوں کی دل کھول کر مدد کی تھی
،اب پروین کو اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ خود ہی اٹھانا تھا۔پروین کے
ہمسائے میں جو عورت رہتی تھی ،بستی والوں میں سے سب سے زیادہ اس نے پروین
اور اس کے بچوں کا خیال رکھا تھا ۔وہ پروین کا غم بھی ہلکا کرتی اور بچوں
کو کھانے کیلئے بھی گھر میں جو بچ جاتا لا کر دیتی ،اللہ کے بعد ایک طرح کا
اس نے پروین اور اس کے بچوں کا کافی خیال رکھا اور اب بھی اسی نے پروین کو
نہر والے بنگلے کے صاحب کے متعلق بتا یا تھا ۔
پروین کو خود بھی بہت برا لگتا تھا کہ بستی والے اس کی اسطرح مدد کریں
،بستی کے جس گھر سے کھانا یا ضرورت کی کوئی چیز آتی پروین ان کے گھر جا کر
گھر کے کام میں ہاتھ بٹا دیتی۔خاتون خانہ اگر کپڑے دھو رہی ہوتی تو اس کے
ساتھ کپڑے دھلانے میں جٹ جاتی ۔صفائی ستھرائی ،جھاڑو پوچا بھی لگا دیتی۔مگر
ایسا کب تک چلتا ،انسان کو دو وقت کی روٹی کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں کی
ضرورت ہوتی ہے ،جن کا پورا کرنا ان حالات میں نا ممکن تھا۔جب کبھی اس کے
بچوں کو بخار ہو جاتا تو ان کے دوا دارو کیلئے پیسے تک نہ ہوتے۔بدن کو
ڈھاپنے کیلئے کپڑوں کا مسئلہ الگ تھا۔ایک بار جب پروین بستی کے ایک گھر میں
کام کر رہی تھی اس کی نظر گھر میں پڑے پرانے کپڑوں پر پڑی جنہیں وہ مالکن
کی اجازت سے اٹھا لائی ،کپڑے اتنا خستہ تھے کہ ایک دھو کے بعد ہی پھٹ
گئے۔وہ ان کو بار بار پیوند لگاتی اور بچوں کو پہنا دیتی ۔آدھے ڈھکے اور
آدھے ننگے بچے ماں سے کئی ایک سوال کرتے جن کاماں کے پاس سوائے دلاسہ دینے
کے اور کوئی جواب نہ ہوتا۔
یہی سوچ کر کہ نہر والے بنگلے میں جو صاحب رہتے ہیں اگروہ اس کی مدد کرنے
کیلئے راضی ہو گئے تو وہ اس کے عوض بنگلے کا ساراکام کاج کر دیا کرے گی
۔کڑی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں پروین بنگلے آن پہنچی وہاں پر موجود
چوکیدار نے بتایا کہ بنگلے میں رہنے والے صاحب آرام کر رہے ہیں ۔پروین نے
واپس جانے کی بجائے وہیں بیٹھ کر انتظار کرنا مناسب سمجھا اور ایک درخت کے
سائے میں بیٹھ گئی ۔بنگلہ نہر کے کنارے دو اڑھائی سال پہلے بنایا گیا تھا
اور اسی نام سے منسوب ہو گیا ۔بنگلے میں رہنے والوں کے متعلق بہت کم لو گ
جانتے تھے۔درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھی پروین کو بنگلے کی شان و شوکت سے
کوئی غرض نہ تھی اس کا دل اور دماغ بچوں کی بھوک مٹانے کی طرف لگا تھا آج
بھی جب بچے بیدار ہوئے تھے تو ان کے کھانے کو دینے کیلئے کچھ نہ تھا ۔اس کی
پڑوسن سوکھی روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے لائی ،ان ٹکڑوں کو گرم پانی میں بغیر
نمک، مرچ اور گھی کے پکا کے دیا اور خود بھی ان ہی ٹکڑوں سے زہر مار کیا۔
خوراک کی کمی کی وجہ سے بچوں کے ساتھ ساتھ پروین بھی لاغر ہو رہی تھی۔تیس
سالہ پروین پچاس سالہ لگنے لگی تھی چند ہی سالوں میں چہرے پر جھریاں
اترآئیں اور بال بھی تیزی سے سفید ہونے لگے تھے۔آج رات بچوں کوکھانے کو
دینے کیلئے گھر میں کچھ نہ تھا ۔وہ بیٹھی دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی کہ
خدایا میرے بچوں کی بھوک مٹا دے ۔ ان کیلئے کھانے کا بندو بست کر دے ،سوکھے
ٹکڑے کھا کھا میرے بچوں کے پیٹ دکھنے لگے ہیں ،ان کی ہڈیاں نظر آنے لگی ہیں
اور جلد سوکھ کر ہڈیوں کے ساتھ چپک گئی ہے ‘‘ اس کی دعا رب سے شکوہ میں بدل
گئی ۔اس نے بنگلے کی طرف دیکھا اور دل میں گویا ہوئی ’’ میرے خدایا !
غریبوں کو اتنے بڑے امتحان میں کیوں ڈالتا ہے ؟ جس سے وہ ساری عمر نہیں نکل
سکتے ، خدایا تیری مخلوق تو ایک طرح کی ہے لیکن ان کے دو نام کیوں ہیں ،ایک
کا نام دولت مند اور دوسرے کا غریب ،ایک کا نام بادشاہ دوسرے کا فقیر ،ایک
کا نام سیر شدہ اور دوسرے کا نام بھوکا۔ایک کے تن پے کپڑے دوسرا ننگا۔ایک
کیلئے بنگلہ دوسرے کیلئے جھونپڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگربنگلے والے صاحب نے بھی
مدد نہ کی تو میں آج بچوں کو کھانے کو کیا دوں گی ؟ ‘‘
چوکیدار نے آواز دے کر پروین کو بلایا اور کہا کہ صاحب بیدار ہو گئے ہیں
۔چوکیدار پروین کو صاحب کے پاس لے آیا ۔پروین نے صاحب سے اپنی درد بھری
داستان بیان کی ۔صاحب نے ایک آدمی کو آواز دے کر کہا کہ وہ پروین اور اس کے
بچوں کیلئے کھانے اور پیسوں کا بندو بست کر دے۔تھوڑی دیر کے بعد وہ آدمی
بہت ساراشن اور کچھ روپے لے آیا ۔پروین کی آنکھیں شکرانے کے آنسوؤں سے بھر
آئیں ۔پروین جب راشن اٹھا کر جانے لگی تو صاحب نے کہا جب راشن اور پیسے ختم
ہو جائیں تو پھر آ کے اور لے جانا‘‘
اس رات پروین کے تینوں بچوں نے خوب سیرہوا کر کھانا کھایااور خود پروین نے
بھی،جو بچ رہا وہ پڑوسن کے ہاں بھیج دیا ۔بھوکے بچوں کے چہرے خوشی سے کھل
اٹھے وہ اپنی ماں سے سوال کرنے لگے کہ کیا ان کا باپ آ گیا ہے ؟ ان میں جو
بڑی بچی جس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی کہنے لگی ’’نہیں باپ ابھی نہیں آیا پر
اس نے بہت سارا کھانا بھیجا ہے‘‘ پروین نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی ۔بچوں کو
یوں خوش دیکھ کر پروین کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ خوشی سے رونے لگی
۔رونے کے ساتھ ساتھ نہر والے بنگلے کے صاحب کو دعائیں بھی دینے لگی۔اگلی
صبح جب اس کی پڑوسن اس سے ملنے آئی تو پروین نے متشکر ہو کو اس کے ہاتھ
اپنے ہاتھوں میں تھام لیئے اور سسکیوں اور خوشی کے ملے جلے احساس سے اس کا
شکریہ ادا کرنے لگی۔
اگلی بار جب پروین نہر والے بنگلے میں گئی توصاحب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد
کہنے لگی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے چھوٹے موٹے کام کر دیا کرو ں
،صاحب نے اجازت دے دی،پروین اب ہر روز صبح ہی چلی جاتی اور بنگلے کی صفائی
ستھرائی میں جٹ جاتی ۔ جھاڑ پونجھ کرتی اور دل ہی دل میں صاحب کی عمر درازی
کیلئے دعا بھی کرتی جاتی۔ایک روز صاحب جاتے ہوئے پروین سے کہنے لگا ’’
پروین اس بیگ میں تمھارے اور تمھارے بچوں کیلئے نئے کپڑے ہیں ،جاتے ہوئے لے
جانا ‘‘ پروین کی زبان تھی کہ صاحب کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتی تھی۔پروین
کے بچوں نے جب نئے کپڑے دیکھے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔اس دن
پروین کے گھر میں عید کا سماء تھا۔سب بچے مارے خوشی کے گھر بھر بھاگتے پھر
رہے تھے۔بچوں کے قہقوں کی آوازوں میں ماضی کا غم دفن ہو گیا ۔
ایک دن حسب دستور پروین بنگلے کے کام کاج میں مصروف تھی اور وہ سوٹ زیب تن
کیئے ہوئے تھی جو بنگلے کے صاحب نے اس کو پہننے کو دیا تھا ،اس سوٹ میں
پروین کسی نئی نویلی دلہن کی طرح لگ رہی تھی ،پروین سے مخاطب ہوا ’’ پروین
۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمھارے بچوں کی بھوک مٹ گئی ؟‘‘ ’’جی صاحب جی ‘‘پروین نے اپنے
دوپٹے کے پلوں سے اپنا جسم ڈھانپتے ہوے کہا’’ اور تمھاری ۔۔۔۔۔؟‘‘ ’’ جی وہ
بھی ۔۔۔۔۔‘‘ صاحب نے پروین کو بیٹھنے کا کہا اور خود بھی ایک صوفے پر بیٹھ
گیا ۔ ’’ پروین میری بھوک نہیں ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ ’’ میں آپ کو کھانا بنا دوں صاحب
جی ‘‘ ’’ہاں بنا دو ‘‘ پروین جھٹ سے گئی اور صاحب کیلئے کھانا بنا لائی
،صاحب نے کھانا کھا یا اور پھر پروین سے کہنے لگا ’’ پروین ۔۔۔۔۔ میری بھوک
اب بھی باقی ہے ‘‘ ’’ میں اور کچھ کھانے کو بنا دوں ‘‘ ’’ نہیں ‘‘ ’’ میری
یہ بھوک کھانے سے نہیں مٹے گی ‘‘ ’’ پھر کس چیز سے مٹے گی آپ کی بھوک صاحب
جی ‘‘ ’’انسان کی بھوک کبھی نہیں مٹتی پروین ۔۔۔۔۔۔۔۔ پل بھر کیلئے انسان
سمجھتا ہے کہ اس کی بھوک مٹ گئی،حلانکہ بھوک کبھی نہیں مٹتی، انسان کو جلد
ہی بھوک کا احساس ہونے لگتا ہے اور کسی ایسی چیز کی طلب بڑھ جاتی ہے جس سے
بھوک مٹ سکے ‘‘ پروین بٹر بٹر صاحب کی باتیں سن رہی تھی بھوک کے لفظ سے اس
کو اپنے بچوں کی بھوک یاد آجاتی۔ صاحب وقفے وقفے سے بات کر رہا تھا ۔’’
پروین بھوک دو طرح کی ہوتی ہے ایک پیٹ کی اور دوسری جسم کی، پیٹ کی بھوک
کھانے پینے سے ختم ہو جاتی ہے مگر جسم کی بھوک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ صاحب نے بات
ادھوری چھوڑ دی اور پروین کو چلے جانے کا کہا ۔پروین نہر والے بنگلے سے گھر
واپس آئی تو اس کا چہرہ اتر ا اترا تھا ،اس کا دل بجھ گیا ،اس کو اپنے بچوں
کے چہرے پر پھیلی خوشیاں ماند پڑتی دکھائی دینے لگیں ،پھر گھر میں بھوک
کاسائیہ پھیلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔پروین سیدھی پڑوسن کے پاس آگئی اور اس
سے صاحب کی ساری باتیں کہہ دیں ۔
’’ پروین بھوک انسان کے ساتھ ہی اس جہاں میں اتری ہے ۔دنیا میں آتے ہی جو
پہلااحساس انسان کو ہوا وہ بھوک ہی تھا پروین مرد تب سے آج تک بھو کا ہے اس
کی بھوک کبھی ختم ہی نہیں ہوئی ،وہ رات پیٹ بھر کر سوتا ہے تو صبح ہوتے ہی
اس کی بھوک دو گنا بڑھ چکی ہوتی ہے ۔تم صاحب کی بھوک مٹا دو ورنہ تیرے بچوں
کی بھوک کبھی نہیں مٹے گی،سوکھی روٹیاں کھاکھا کر سوکھی لکڑی بن جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین تم بھی تو صابر کے بعد کئی سالوں سے بھوکی ہو
تیری اپنی بھوک بھی تو نہیں مٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ |
|