چارسدہ یونیورسٹی پرحملہ را نے کرایا ہے

یہ بات شائد ہمارے ذہنوں سے محو ہو چکی ہے کہ جب پاک چائنا کوریڈور معاہدہ ہوا تھا تو ہندوستان نے بر ملا کہا تھا کہ ہم اس کوریڈور کو کسی قیمت پر بننے نہیں دیں گے اور امریکہنے بھی بھی اس معاملے پر کوئیخوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔تاہم ہم نے ہندوستان کی اس بات کو ہوامیں اُڑا کر فراموش کر دیا تھا۔ مگر ہندوستان کی ایجنسیاں اس معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھی ہو ئی ہیں اور و ہ مسلسل اس پر کام بھی کر رہی ہیں۔نریندر مودی کی پاکستان یاترا دنیا دکھاوا کے سوائے کچھ بھی نہیں تھی۔ مگر ہمارے اداروں نے اسے سیریس لے کر ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی۔مگر ہندوستان کومذاکرات کی آڑ میں کُھل کھیلنے کے مکمل مواقع بھی فراہم ہوگئے۔یہ بات ساری دنیا جانتیہے کہ نریندر مودی جیسا انتہا پسند ہندو کبھی بھی پاکستان سے مذاکرات کے لئے دل سے تیار نہ ہوگا۔یہ بات ہمیں بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ہندوستان کے وزیر آظمکیپاکستان یاترا کوئی امن مذاکرات سے خلوص میں نہیں تھی۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس ڈرامہ بھی اسی حصے کی ایک کڑی ہے۔جس کے ضمن میں ہندوستان نے پاکستان کوکوئی مضبوط شواہد بھی پیش نہیں کیئے۔ سوائے امریکہ کی مرضی کے تحت کشمیر کے لئے کام کرنے والے افراد کی پاکستان میں گرفتاریاں کرانے کے سوائے کوئی کام ہی نہیں کیا گیا ہے۔ہندوستان کی تمام کی تمام حکمتِ عملی صرف پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازش کے سوائے کچھ نہیں ہے۔ آج پاکستان کوبین الاقوامی نرغے میں میں پھنسایا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں ابھی کافی عرصہ تک استحکام نہیں آئے گا؟؟؟اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طے شدہ معاملہ ہے کہ پاکستان کو مستحکم نہیں ہونے دیا جائیگا!!!یہ ہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی کرکٹ سیریز پر کوئی توجہ مذاکرات کے ڈرامے کو شروع کرنے کے باوجود، نہ تو دی اور نہ ہی مثبت جواب دیا اور نہ ہی کرکٹ کھلانے پر کوئی اشارا دیا ۔

آج پاکستان میں جس قدر لیڈر شپ کا فقدان ہے اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔خارجہ پالیسی کے میدان میں ہم بالکل کورے کاغذ کی طرح دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ آج دنیا کے کھیل تبدیل ہو رہے ہیں۔جس کا ہمیں ادراک کر لینا چاہئے۔مگر لگتا یوں ہے کہ ہماری قیادت سمجھ بوجھ سیبھی شائد عاری ہے۔جسے دنیا کے کھلاڑیوں کے رُخ بدل لینے کے آثار ہی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔آج میں امریکہ دنیا کا ایک بہت ہی بڑا گیم چینجر ہے۔جو دنیا کے گیممیں اپنی پوزیشن تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔

اس کھیل کی تبدیلی میں ہندوستان، امریکہ اور اس کے حمائیتیوں سے مل کر پاکستان کے خلاف ایک خاموش طرزِ عمل کے تحت معاملات بھگتانے میں لگے ہوے ہیں۔ہندوستان میں پٹھان کوٹ ایئر بیس حملہ بھی اسی ڈرامے کی ایک مضبوط کڑی ہی دکھائی دیتا ہے۔اس حوالے سے ہندوستان کے وزیرِ دفاع منوہر پاریکر نے 22 مئی 2015کوہندوستان کے ایک بڑے انگریزی کے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوے کہا تھا کہ جب دہشت گرد پیسوں میں مل جاتے ہیں تو ہمیں اپنے دشمنوں کے خلاف اُن دہشت گردوں کو ہی استعمال کرنا چاہئے۔ہمیشہ ہمارے جوان ہی کیوں سامنے آئیں۔کیونکہ دہشت گردوں کو دہشت گردوں سے ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔پاکستان کو ہم اس سے کہیں بڑے بقصانات سے دو چار کریں گے۔منوہر پاریکر کا یہ بیان بھی ساری دنیا نے کھلے کانوں اور جھپکتی آنکھوں سے سنا اور میڈیا پر دیکھا بھی۔یہ بیان دے کر وہ ہندوستان کے انتہائی خطر ناک طرزِ عمل کوظاہرکر چکے ہیں ۔گویا پاکستان کو وارننگ دی گئی تھی کہ عنقریب پا کستان کو پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کا جواب دیا جائے گا ۔وقت اور جگہ کب اور کیسے یہ حملہ کرنا ہے ہم خود تعین کریں گے۔پاریکر مسلسل پاکستان کو سبق دینے کا گیت الاپتے رہے ہیں ۔مگر ہمارا دفترِِ خارجہ ہے کہ اُس کو سانپ سونگھ گیا ہے۔اگر ایسی بات پاکستان کی طرف سے کی جاتی تو ہندوستان ساری دنیا کو ڈھنڈھوراپیٹ پیٹ کراپنے سر پر اُٹھا چکا ہوتا اور ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑتا۔

ماہ جنوری 2016کے گذشتہ بیس دنوں کے دوران پاکستان میں 4 چھوٹے بڑے دہشت گرد حملے (راکی معاونت میں)کئے جا چکے ہیں۔مگر ہماری موجودہ قیادت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے اور ہمارے حکمرانوں پر شائد اس کا کوئی اثر بھی نہیں پڑاہے۔کوئٹہ حملے میں ایک درجن کے قریب شہادتیں ہوئیں اسی طرح کل پیشاور میں 11سکورٹی اہل کار شہید کر دیئے گئے۔مگر ان تمام حملوں پر مذمت کے سوائے ہمارے حکمرانوں کی زبان سے کوئی اور بات نکلی ہی نہیں۔چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ بھی ہندوستان کی سوچی سمجھی سازش کاہی حصہ ہے ۔اس حملے میں بھی ہندوستان نے آرمی بلک اسکول اور بڈ بیر ائیر بیس پر حملہ کی طرح کا ہی حملہ کرایا ہے۔جس میں20قیمتی جانوں نے شہادت پائی ہے اور 30سے زیادہ افراد زخمی کر دیئے گئے ہیں۔ان جانوں کے زیاں میں ایک کیمسٹری کے ڈاکٹر،جوان سال پروفیسر،کئی چوکیدار اور بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے طالبعلم شامل ہیں۔ کرائے کے دشت گردوں نے جو اپنے آپ کو مام نہاد اسلام کے مجاہد کہتے ہیں۔کفر کی قوتوں کی مدد کر کے اور بے گناہوں کو شہید کر کے اپنے لئے جہنم خریدر ہے ہیں۔

پاریکر کے کہنے کے مطابق یہ زر خرید کفار کے ایجنٹ عمر منصور کے لوگ تھے۔ جس نے چار سدہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ہندوستان اس گروپ کو ایک مدت سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ عمر منصور کا گروہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے وہ طالبان ہیں جنہیں پاکستان میں جائے پناہ نہ ملی تو وہ افغانستان فرار ہوگئے اور اب وہاں سے پاکستان کے خلاف کرائے کے ٹٹووں کے طور پر پاکستان میں اپنی مذموم کاروائیاں کر رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ باچا خان یونیورسٹی میں چار دہشت گردوں نے یونیورسٹی کی پچھلی جانب سے دیواریں پھلانگ کریونیورسٹی کیمپس اور اس کے ہاسٹل پر حملہ صبح 9بجے کیا۔جن کا ابتدائی مقابلہ یونیورسٹی گارڈز سے ہوا۔ جس میں یونیورسٹی کے چاروں گارڈ شہید ہوگئے۔اسی طرح مبینہ طور پر ہاسٹل میں ایک طالب علم کے پاس پسٹل تھی اس نے پسٹل سے ہی دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ پسٹل کی گولیاں ختم ہونے کے نتیجے میں وہ بہادر طالبِعلم دادِ شجاعت دیتے ہوے شہید ہوگیا۔جب وہ دہشت گردوں کے نرغے میں آگیاتو دہشت گردوں نے اُسے ذبحہ کر دیا۔تھوڑی ہی دیر میں پاک فوج نے کاروائی شروع کی تو چاروں دہشت گردوں کو تھوڑی دیر کی ہی کاروئی میں ہلاک کر کے جہنم رسید کردیا گیا۔سیکورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے پاس سے دو موبائل فون بھی قبضے میں لے لئے ہیں۔پاکستان کا ہر فرد اس بزدلانہ دہشت گردی پر افسردہ ہے۔جس میں 20قیمتیجانیں لُقمہِ اجلبن گیئں۔

پاکستان خطے میں امن کی خواہش کے تحت نہ تو افغانستان کو اورنہ ہی ہندوستان کو جن کی ایجنسیاں پلانگ کے تحت پاکستان میں ثبوتاج اوردہشت گردوں کو افغانستان کی سرحدیں عبور کرا کے پاکستان میں داخل کرا کے دہشت گردی کروا رہی ہیں۔ہندوستان کی را اور افغانستان کی ایجنسیاں مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروارہی ہیں۔ہماری حکومت کو چاہئے کہ عالمی برادری کے سامنے اس دہشت گردی کے ثبوت پیش کر کے دونوں ممالک کی دہشت گردانہ کار وائیوں کا بین الاقوامی برادری سے کہہ کر خاتمہ کرانے کی کوشش کرے۔ہم پاکستانیوں یہ رائے ہے کہ چارسدہ دہشت گرد حملہ ہندوستان کی را نے ہی کرایا ہے۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 212967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.