وجودِ انس سے ہے کائنات موجود

ابتداءِ آفرینش سے لے کر آج تک دنیا کے طول وعرض میں بسنے والا ہر انسان خواہ وہ جس قبیلہ اور خاندان، فرقہ اور ذات سے تعلق رکھنے والا ہو،ان تمام کی نسلیت اورنسبت صرف ایک مرد اور عورت سے ملتی ہے، جنہیں مسلمان آدام وہوا علیہما السلام سے جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ دنیا کے مختلف خطوں اور شعبوں میں بسنے والے انسانوں نے گرچہ ان دونوں مقدس ہستیوں کے الگ الگ نام اور ہیئت متعین ومختص کررکھا ہے، تاہم ان کی اصلیت وہی ہے جسے اللہ نے اپنے ابدی کلام’انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘ میں بیان کیا ہے؛ چنانچہ چہار دانگ عالم میں بسنے والا ہر انسان بالواسطہ اور بلاواسطہ ان ہی دونوں کی اولاد ہے،وقت اور زمانہ ان کی تعدادمیں اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ انسانوں کی ایک جم غفیر نے اس کائنات ارضی کو اپنے پاؤں تلے روند دیا اوروہ اپنی مرضی سے دنیا کے طول وعرض علاقوں میں پھیلنے اور بسنے لگے، جوں جوں وہ اپنی اصلیت اور نسلیت سے دور ہوتے گئے ان میں اقربہ پرستی اور خاندانی وقار کا مزاج بنتا گیا، پھر اس نے ان کو گرہوں اور فرقوں میں منقسم کردیااور یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب بھی کوئی اس کا مقابل یا ضد وجود میںآتا ہے تو وہ اس کو مغلوب ومجبور کرنا چاہتاہے۔

کچھ یہی قصہ ملک اور صوبوں میں بسنے والے انسانوں کے ساتھ ہو اکہ ایک صوبہ اور ملک کا بسنے والا انسان دوسرے ملک اور صوبے میں بسنے والے انسانوں کو اپنے سے کمتر اور ذلیل سمجھنے لگے اور جب انسان کے اندر یہ تصور جاگزیں ہوجاتا ہے، تو اس کو انسانیت کی حرمت کا بھی پاس ولحاظ نہیں ہوتااور وہ اپنے مقابل کو زیر کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اپناتا ہے جس سے وہ اپنے مقابل کو زیر کرسکے، خواہ وہ اس کو مقام انسانیت ہی سے کیوں نہ گرادے۔اور جب انسان نسلیت ولسانیت سے ہٹ کر قومیت اور مذہب میں فرقہ بند ہوگئے تو اس میں اور ترقی ہوئی ،چنانچہ ایک مذہب کاانسان اپنے مقابل مذہب کے لوگوں کی حرمت وعزت کی پرواہ کیے بغیر اس پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیساکہ وہ اس کے مملوک ہوں اور اس کی خدمت کے لیے ان کی تخلیق ہوئی ہو۔ تاریخ میں یہ و ضاحت نہیں ملتی کہ مذہب کے نام پر پہلی اور اولین لڑائی کب ہوئی اور کس کے ساتھ ہوئی؟ تاہم یہ روایت نہایت قوی ہے کہ ان میں جو زیادہ طاقتور ثابت ہوا وہ اپنے مقابل پر قہر بن کر برسا یہاں تک اس کے وجود کے لالے پڑ گئے اور یہ بات بھی عجب بات ہے کہ ہمیشہ اہل حق ہی باطلوں کے ہتھے چڑھے، شاید ان کا امتحان مقصود ہو، تاکہ اس کے نتیجہ میں کوئی گراں قدر انعام ملنے والاہواور ان شاء اللہ انہیں ان کے صبرواستقامت کا صلہ مل کر رہے گا۔البتہ اتنی بات ضرور ہے جب بھی اہل حق کا غلبہ ہو اتو انہوں نے حرمت انسانیت کی پامالی نہیں کی، بلکہ باطل کی توقع سے زیادہ ان کی خاطر مدارات کی، عہد رسالتﷺ سے لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی تک جتنے بھی خلفاء اور امراء وسلاطین نے ضما م حکومت سنبھالاسبھوں کی تاریخ اٹھاکر
دیکھیں کہیں بھی ظلم وجور کا شائبہ تک نظر نہیں آئیگا،خود سلاطین ہند نے بھی یہاں کے ہندؤوں کے ساتھ وہی نرم خوئی کا معاملہ روا رکھا، تبھی تو انہوں نے یہاں تقریبا آٹھ سوسال تک حکومت کی، ہاں آپ کو یہ بارہامحسو س ہوگا کہ ایک بادشاہ نے اپنی بادشاہت کو قائم ودائم رکھنے کے لیے اپنے بے شمار بھائیوں کو قتل کروایا، اسے جلاوطن کیااور اس کے خلاف سازشیں کیں ، تاہم پوری تاریخ میں یہ بات مشترکہ طور پرمساوی آئے گی کہ ہر ایک نے اپنے قیدی اوردشمن عوام کے سلسلے میں ہمیشہ اسلامی روایت کو ملحوظ رکھا، اس کے بر خلاف اگرکوئی ایک آد ھ نادر واقعہ پیش آگیا ہو،تویہ شاذ ہی ہوگا جو کبھی بھی کلی حکایت کے خلاف دلیل نہیں بن سکتا؛لیکن اس کے برعکس بے شمار واقعات سننے اور پڑھنے کو ملیں گے کہ جب باطل کو اہل حق پر غلبہ ہوا، تو انہوں نے ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا، ان کے بچے بوڑھے مرد اور عورتوں کا بے دریغ قتل کیا، ان کی عورتوں کے گوہرعصمت کو تارتار کیا، ان کی زندگی کے سارے تانے بانے بکھیڑ دیئے اور یہ تک نہ سونچا کہ وہ بھی تو انہیں کے سلسلہ کی کسی حد پران کا قرابت دار ہیں۔

آج پوری دنیا میں اہل حق کے ساتھ جو گھناؤنابرتاؤ کیا جارہا ہے، اس سلسلہ کا ہر واقعہ اپنی ایک الگ تاریخ رقم کرتا ہے،ہر چہار طرف سے مسلمانوں پر یلغار ہے، کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں، اگر کوئی مسلمانوں کے نام پر ملک ہے بھی، تو وہ اپنی زندگی میں مست ومگن ہے،بلکہ خواب خرگوش میں مبتلا ہیں ، اگر کبھی بیدار ہوئے بھی، تواس وقت تک کچھوے میدان جیت چکے ہونگے۔ ارض مقدس فلسطین،شام ، عراق، ایران، پاکستان، افغاستان ، چین اور برما ہر جگہ مسلمانوں کو اس بڑے پیمانے پر ہلاک وبرباد کیا جارہا ہے کہ اس کوزبان اور قلم سے بیان کرنا محال معلوم ہوتا ہے ، خصوصاشام و فلسطین اوربرما میں مسلمان مردوعورت، بوڑھے جوان اور بچوں کوجس بے دردی سے مارا کاٹا اور زک پہنچایا جارہاہے، کہ شاید تاریخِ انسانی میں اس کی مثال ملنی مشکل ہو، زندہ بچوں اور جوانوں کو آگ کا ایندھن بنایا جارہا ہے اور کوئی بھی ان کی دادرسی کرنے والا نہیں اور کوئی نہیں جو ان کے غم پر آنسوبہائے۔ ہم دوسروں کاکیا رونا روئیں خود ہمارے ملک ہندوستا ن میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو اکلوتے پن کا رویہ اختیار کیا گیا ہے ، وہ شاید تاریخ انسانی کا ایک گھناؤنہ باب ہو،آزادی کے بعد سے اب تک زندگی کے ہر موڑ پر انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی، کبھی دہشت گردی کے نام پر ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ناپاک سازش کی گئی، تو کبھی لو جہاد کے نام پراس کے جوانوں کو حراساں کیا گیا اور انہیں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیکر ان کی جان، مال اور عز ت وآبرو پر کھلم کھلا ڈاکہ ڈالا گیا، کیا بھاگلپور، گجرات اور مظفرنگر کے فرقہ وارانہ فسادات اس کی کھل کر شہادت پیش نہیں کرتے ؟حالیہ میں تلک پوری میں ہوئے ایک معمولی حادثہ یا واقعہ کو فرقہ پرستی کا نام دے کراس پر جو سیاست کا ماحول گرم ہوا، اس کے پیچھے بھی در اصل یہی معاملہ تھا کہ وہاں کی ہندو عوام کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاکر ان کے خون سے تلک پوری کی سرزمین کو لالہ زار بنایا جائے ،مگر ان کی سازش ناکام ہوگئی کیوں کہ وہاں کے غیور باشندوں نے بروقت اس سیاست کو محسوس کرلیا ، حالانکہ اس کے لیے پیسے لے دے کر میدان بھی ہموار کیے جا چکے تھے، پھر بھی وہ واقعۂ خونچکا رونما ہوتے ہوتے رہ گیا۔

اس طرح کے بے شمار واقعات پچھلی حکومت میں بھی رونما ہوئے ، بلکہ شمار سے زیادہ ہوئے ہیں، لیکن موجودہ حکومت میں جس تیزی سے ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے،اگر آپ حکومت کے ایام اور ان چھوٹے بڑے تمام واقعات کا حساب لگائیں تو شاید حکومت کے ایام سے زیادہ یہ ناپاک سازشیں دیکھنے کو ملیں؛ چونکہ موجودہ حکومت کی بنیاد ہی مسلم مخالفت ہے، اس لیے جب نظام حکومت ان کے ہاتھ میں آیا تو اپنی دشمنی کا اظہار تو ظاہر ہے۔ مگرسوال یہ ہوتا ہے کہ یہ ظالم حکمراں ظلم کی کہانی لکھنے سے پہلے کیا یہ کبھی تصور نہیں کرتے کہ جن کے خون سے یہ اپنی داستان مکمل کرنے جارہے ہیں وہ بھی اسی خطہ کا ایک فرد ہے،ان کے آباء واجداد بھی وہی ہیں جو ان کے تھے، کیا ظلم کی داستان دہرانے سے پہلے ان کے ذہنوں میں یہ سوال گردش نہیں کرتا کہ ہمارے ہاتھ ہمارے اپنوں ہی کے خون میں ڈوبیں گے؟اگر انہیں اپنوں کا خیال نہیں تو کیا ان کو انسانیت کا بھی پاس ولحاظ نہیں! اگر ان کا معیار زندگی جانوروں سے بھی نیچے گر چکا ہے تو انہیں انسان کی صورت میں انسانی سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں! اختلاف کی بنیاد اگر نسل اور مذہب ہی ہے توپھر کیوں اپنی خواہشات کی پوجا کرتے ہو؟ اس معبود کی کیوں نہیں مانتے جس کی ویدوں میں’ اکم برہم دوتیا ناستے نہ ناناستے کنچن ‘ اور بائبل میں ’ شما ازرائیل ادونی الاہین ادونی اخت ‘ کے ذریعہ انسانیت کو ایک معبود کی عبادت کی تعلیم دی گئی ہے اور اسی معبود نے ساری انسانیت کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے، اس تناظر میں پوری انسانیت ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں، پھر اپنوں سے غداری کیسی؟ حقیقت یہ ہے کہ انہیں بھی یہ ساری باتیں معلوم ہیں، مگربات صرف انا کی ہے ، انسان اگر اپنے اندر سے انا کو نکال باہر کردے اور تمام انسان کو اپنی برابری کا تصور کرے تو خدا کی یہ پاک سرزمین جس کو اللہ نے اپنی خلافت کے لیے منتخب کیا تھا کبھی ظلم وستم کی آماجگاہ نہ بنے اور ہر شخص کو اگر یہ خیال ہو کہ اس کو اپنے کیے کا جواب دینا ہے تو کبھی بھی زمین کی پشت پر برائی کا وجود نہ ہو، اے کاش ہمارے سیاست داں عقل وخرد سے کام لیتے!!!
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.