معارف الفاتحہ

نقطہ ء آغاز ہر چیز کو اوجِ کمال پر پہنچانے کا سببِ خاص ہے ۔ ہر چیز عالم شباب تک پہنچنے کے لیے اسی آغاز کی محتاج ہے ۔ اگر آغاز مؤثر اور پائیدار ہو گا تو ارتقاء کے بعد انتہا اسی قدرتکمیل کے اعلیٰ درجہ میں ہو گی ۔بالکل اسی طرح قرآن کریم جو کتاب اﷲ ہے ۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی ۔قرآن کریم میں اس کے نزول اور ہر چیز کے علم کو اس میں پوشیدہ رکھنے کے حوالے سے ارشاد ہوا۔
ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شییء(۱)
’’اور ہم نے آپ پر اس کتاب کو نازل کیا ہر چیز کو اس میں بیان کر دیا۔‘‘

قرآن کریم سابقہ کتب کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ، بے مثل، ذریعہء ہدایت، نور، شفاء ، شک و شبہ سے بالاتر، محفوظ اور عالمگیر کتاب ہے ۔اس کے فضائل و مناقب اس قد ر زیادہ ہیں کہ بیان کرنا محال۔ اس کے فیوض و برکات اس قدر کثیر ہیں کہ احاطہ کرنا مشکل ۔ اس میں علوم کا اس قدر ذخیرہ ہے کہ قیامت تک اس کے اسرارو رموز کھلتے چلے جائیں گے۔ قرآن کریم عالمین کا ذکر ہے ۔
ان ھو ذکر للعالمین(۲)
یہ (قرآن)تمام عالمین کا ذکر ہے۔
قرآن کریم کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوا۔سورۂ فاتحہ کو قرآن کا باب (دروازہ) کہا جاتا ہے۔ اس کے فضائل میں متعدد احادیث مبارکہ بیان ہوئیں۔ اس کے موضوعات نازل ہونے سے آج تک اور قیامت تک کھلتے چلے جائیں گے ۔ مفسرین سورۂ فاتحہ کی تفاسیر میں رطب اللسان ہیں ۔ مگر میں یہاں صرف اسمائے سورۂ فاتحہ کا ذکر کروں گا۔
سورۂ فاتحہ کا تعارف
اس سورۃ کا نام فاتحہ ہے اور یہ اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے ۔ فاتحہ اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو ۔ بالفاظ دیگر فاتحہ کا معنی ’’دیباچہ‘‘ یا آغازِ کلام ہے۔(۳)
الفاتحہ کا معنی رحمت و حکمت کے خزانے کھولنے والی(۴)
اس سورت میں 1رکوع، 7آیات، 27کلمے اور 140حروف ہیں۔(۵)
وجہء تسمیہ
اس سورۃ کو فاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ مصاحف ِتعلیم و تلاوتِ قرآن اور نماز میں اسی سے آغاز ہوتا ہے، یا اس لیے کہ حمد سے ہر کلام کی ابتداء ہوتی ہے، یا اس لیے کہ تمام سورتوں سے پہلے نازل ہوئی ،یا اس لیے کہ لوحِ محفوظ پر پہلے اسی کو لکھا گیا ،یا اس لیے کہ دنیا میں ابوابِ مقاصد کا افتتاح اسی سے ہے ،یا اس وجہ سے کہ کتاب کے ابوابِ خزائن اور اسرار کے کھلنے کا وسیلہ یہی سورت ہے ،کیونکہ یہ سورت لطائفِ خطاب کے خزانوں کی کنجی ہے ،یا اس لیے کہ اس کے توسل ا سے اہلِ بیان و عرفان پر قرآن کریم کے مطالب منکشف ہو جاتے ہیں، یا ایک وجہ یہ ہے کہ جس نے اس کے معنی سمجھ لیے ا س پر متشابہات کے تالے کُھل جاتے ہیں اور اس کی نورانیت سے آیات کے انوار کا اقتباس کیا جاتا ہے ۔(۶)
سورۂ فاتحہ کا مقامِ نزول
سورۂ فاتحہ کے نزول کے متعلق متعدد روایات ہیں ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ میں نازل ہوئی ۔ اس لیے محققین کا مؤقف یہ ہے کہ یہ سورت دو بار نازل ہوئی ۔ ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں ۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’الد المنثور‘‘میں ان تمام روایات کو جمع کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
واحد ی نے ’’اسباب النزول‘‘ اور ثعلبی نے اپنی تفسیر میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ سورۂ فاتحہ مکہ میں ایک خزانہ سے نازل ہوئی جو عرش کے نیچے ہے ۔
امام ابن ابی شیبہ نے ’’مصنف‘‘ میں اورابو نعیم اور بیہقی دونوں نے اپنی اپنی ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں واحدی اور ثعلبی کے حوالے سے روایت نقل کی کہ، ازابی میسرہ ، عمر و بن شرجیل سے روایت کرتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا: جب میں خلوت میں ہوتا ہوں تو ایک آواز سنتا ہوں ۔ بخدا!مجھے یہ خدشہ ہے کہ یہ کوئی عجیب وغریب چیز ہے ۔ حضرت خدیجہ نے کہا : معاذ اﷲ، اﷲ تعالیٰ آپ کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا، بخدا! آپ امانت کو ادا کرتے ہیں، صلہ ء رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، اسی اثناء میں ابو بکر آئے ، اس وقت گھر میں رسول اﷲ ﷺ نہیں تھے ۔ حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو بتایا کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہ فرمایا ہے اور کہا آپ محمد ﷺکے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس جائیں، جب رسول ﷺآئے تو حضرت ابو بکر نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ورقہ کے پاس چلیں ، آپ نے پوچھا : تم کو کس نے بتایا ہے ؟ انہوں نے کہا : خدیجہ نے ، پھر دونوں ورقہ کے پاس گئے اور اس کو وا قعہ سنایا ، آپ ﷺنے فرمایا: جب میں خلوت میں ہوتا ہوں تو مجھے اپنے پیچھے سے آواز آتی ہے : یا محمد! یامحمد! تو میں بھاگنے لگتا ہوں ۔ ورقہ نے کہا : آپ ایسا نہ کریں ، جب آپ کے پاس یہ آواز آئے تو آپ ٹھہرے رہیں اور سنیں کہ وہ کیا کہتا ہے ۔ پھر مجھے آ کر بتائیں ، پھر جب آپ ﷺ خلوت میں تھے تو آپ ﷺ کو آواز آئی یا محمد !کہیے: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، الحمد اللّٰہ رب اللعالمیناور اس نے ولا الضالین تک پڑھا، اور کہا کہیے لا الہ الا اللّٰہ پھر آپ ورقہ کے پاس گئے اور یہ واقعہ سنایا، ورقہ نے کہا : آپ ﷺ کو بشارت ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺوہی ہیں جن کے آنے کی ابنِ مریم کو بشارت دی گئی تھی اور آپ کے پاس حضرت موسیٰ کے ناموس کی مثل ہے اور آپﷺ نبی مرسل ہیں۔
امام ابو نعیم نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا کہ جب بنو سلمہ کے جو ان مسلمان ہوئے اور عمرو بن جموح کا بیٹا مسلمان ہوا تو عمرو کی بیوی نے عمرو سے کہا : تم اپنے بیٹے سے پوچھو ،وہ اس شخص سے کیا روایت کرتا ہے ؟ عمرو نے اپنے بیٹے سے کہا : مجھے اس شخص کا کلام سنا ؤ؟ تواس کے بیٹے نے پڑھا :’’الحمد اللّٰہ رب اللعالمین‘‘ اور ’’صراط المستقیم‘‘ تک پڑھا ، اس نے کہا : کہ کتنا حسین اور جمیل کلام ہے ، کیا اس کا سارا کلام اسی طرح ہے؟ اس کے بیٹے نے کہا : اے ابا! اس سے بھی زیادہ حسین ہے اور یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ ان تینوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی۔
امام ابن ابی شیبہ نے ’’مصنف‘‘ میں ابو سعید بن اعرابی نے ’’معجم‘‘ میں اور طبرانی نے ’’اوسط‘‘ میں مجاہد کی سند سے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب فاتحۃ الکتاب نازل ہوئی تو ابلیس خوب رویا اور یہ مدینہ میں نازل ہو ئی۔
وکیع اور فریابی نے اپنی تفاسیر میں ،ابو بکر بن انباری نے ’’فضائل القرآن‘‘ میں اور امام ابن ابی شیبہ نے ’’مصنف ‘‘ میں عبدبن حمید اور ابن منذر نے اپنی تفسیر میں ، ابو بکر بن انباری نے’’کتاب المصاحف‘‘ میں ابو نعیم نے حلیہ میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ فاتحۃ الکتاب مدینہ میں نازل ہوئی۔(۷)
سورۂ فاتحہ کے اسماء
سورۂ فاتحہ کے متعدد اسماء ہیں، اور کسی چیز کے زیادہ اسماء اس چیز کی فضیلت اور شرف پر دلالت کرتے ہیں۔ ان اسماء کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔ فاتحۃ الکتاب
فاتحۃ الکتاب کے نام سے اس سورت کو اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کا افتتاح اس سورت سے ہوتا ہے، تعلیم کی ابتداء بھی اسی سورت سے ہوتی ہے اور نماز کی قراء ت کا افتتاح بھی اسی سورت سے ہوتا ہے اور ایک قول کے مطابق کتاب اﷲ کی سب سے پہلے یہی سورت نازل ہوئی تھی اور بہ کثرت روایات میں اس کی تصریح موجود ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے سورت کو فاتحۃ الکتاب فرمایا۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص نے فاتحۃ الکتاب کو نہیں پڑھا اس کی نماز (کامل ) نہیں ہوئی۔(۸)
اس حدیث کو ابن ماجہ(۹) اور امام احمد (۱۰) نے بھی روایت کیا۔
۲۔ اُم القرآن
کسی چیز کی اصل اور مقصود کو ام کہتے ہیں اور پورے قرآن کا مقصود چار چیزوں کو ثابت کرتا ہے۔
(الف) الوہیت (اﷲ تعالیٰ کی ذات صفات)
(ب) معاد (مرکر دوبارہ اٹھنا)
(ج) نبوت
(د) قضاء و قدر
سورۂ فاتحہ میں الحمد اللّٰہ رب اللعالمین۔الرحمٰن الرحیم۔الوہیت پر دلالت ہے اور مالک یوم الدین معاد پر دلالت ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعینکی اس پر دلالت ہے کہ ہر چیز اﷲ کی قضاء اور قدر سے ہے اور انسان مجبور ِمحض ہے اور اپنے افعال کا خالق نہیں ہے اور اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیھم ۔ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین(۱۱)کی نبوت پر دلالت ہے۔(۱۲)
نبی اکرمﷺ نے اس سورت کو ’’ام القرآن‘‘ فرمایا۔ اس ضمن میں حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ الحمد اللّٰہ’’ام القرآن‘‘ہے اور’’ ام الکتاب‘‘ ہے اور’’ سبع المثانی‘‘ ہے۔(۱۳)

۳۔ سورۂ الحمد
اس سورت کا نام’’ سورۂ الحمد‘‘ بھی ہے کیونکہ اس سورت میں اﷲ تعالیٰ کی حمد ہے ۔ جیسے سورۂ بقرہ کو ا س لیے بقرہ کہا جاتا ہے کہ اس سورت میں بقرہ(گائے ) کا ذکر ہے ۔ اسی طرح سورۂ اعراف، سورۂ الانفال اور سورۂ توبہ کے اسماء ہیں۔ نیز سابقہ حدیث بحوالہ ’’سنن دارمی‘‘ نبی کریم ﷺ نے اس سورت کو ’’الحمد اللّٰہ‘‘ سے تعبیر فرمایا۔
۴۔ سبع المثانی
قرآن کریم میں ارشاد ہوا۔
ولقد اتینک سبعا من المثانی(۱۴)
’’ہم نے آپ کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں۔‘‘
امام بخاری نے روایت کیا :
رسول اﷲﷺ نے فرمایا : الحمد اللّٰہ رب العالمین، السبع المثانیہے اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے ۔(۱۵)
سنن دارمی کی مذکور حدیث میں بھی رسولِ مکرم ﷺ نے اس سورت کو السبع المثانی فرمایا۔(۱۶)
اس سورت کو سبع المثانی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی سات آیات ہیں ، ہر آیت قرآن پاک کے ساتویں حصے کے برابر ہے ،یا اس کی تلاوت کرنے والے پر دوزخ کے ساتوں دروازے بند ہو جاتے ہیں ۔ یہ سبع کے وجوہ ہیں اور مثانی اس کو اس لیے کہتے ہیں نماز میں دوبار پڑھی جاتی ہے ، یا اس لیے بھی اسے سبع المثانی کہتے ہیں کہ اس سورت کا نزول دوبار ہوا۔(۱۷)
یا اس سورت کو سبع المثانی اس لیے کہا گیا۔
۱۔ اس سورت میں نصف اﷲ تعالیٰ کی ثنا ہے اور نصف میں اﷲ سے دُعا ہے۔
۲۔ ہر دو رکعت نماز میں اس کو دوبار پڑھا جاتا ہے ۔
۳۔ یہ سورت دوبار نازل ہوئی۔
۴۔ اس سورت کو پڑھنے کے بعد نماز میں دوسری سورت کو پڑھا جاتا ہے ۔(۱۸)
۵۔ اُم الکتاب
سنن دارمی کی مذکور الصدر حدیث میں اس سورت کو نبی کریم ﷺ نے ’’اُم الکتاب‘‘فرمایا(۱۹) اورصحیح بخاری میں رقم ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے ایک شخص پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا جس کو بچھو نے کاٹا ہوا تھا اور فرمایا: میں نے حرف’’اُم الکتاب‘‘ پڑھ کر دم کیا ہے ۔(۲۰)
۶۔ الوافیہ
سفیان بن عینیہ نے اس کا نام ’’سورۂ وافیہ‘‘ رکھا کیونکہ صرف اس سورت کو نماز میں آدھا آدھا کر کے نہیں پڑھا جا سکتا لیکن یہ توجیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سورۂ الکوثر کو بھی ایک رکعت میں ا ٓدھا آدھا کر کے نہیں پڑھا جا سکتا لہذا یوں کہنا چاہیے کہ اس سورت کے مضامین جامع اور وافی ہیں اس لیے اس کو وافیہ کہا جاتا ہے۔
۷۔ الکافیہ
اس سورت کو کافیہ اس لیے کہتے ہیں کہ دوسری سورتوں کے بدلہ میں اس سورت کو پڑھا جا سکتا ہے اور اس سورت کے بدلے میں کسی سورت کو نہیں پڑھا جا سکتا ۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: ’’اُم القرآن‘‘ دوسری سورتوں کا عوض ہے اور دوسری کوئی سورت اس کا عوض نہیں۔(۲۱)
۸۔ الشفاء
امام دارمی کی روایت میں ہے : حضرت عبد الملک بن عمیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: فاتحۃ الکتاب ہر بیماری کی شفاء ہے۔(۲۲)
اس سورت میں امراضِ جسمانی و روحانی دونوں کا علاج موجود ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے منافقین کے بارے ارشاد فرمایا۔
فی قلوبھم مرض(۲۳)
’’ان کے دِلوں میں بیماری ہے۔‘‘
اور اس سورت میں اصول و فروغ کا ذکر ہے ۔ جن کے تقاضوں پر عمل کرنے سے روحانی امراض میں شفاء حاصل ہوتی ہے اور اس سورت میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ثنا اور اﷲ سے دعا ہے۔ جس سے جسمانی اور دیگر ہر قسم کی بیماریوں کے لیے شفاء حاصل ہوتی ہے ۔
۹۔ سورۃ الصلوٰۃ
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے اس سورت پر صلوٰۃ کا اطلاق کیا ہے۔ امام مسلم نے ابو ہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے : میں نے رسول ﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا ہے ،اﷲ فرماتا ہے کہ نماز ( سورۂ فاتحہ) کو میرے بندہ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کیا گیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے ۔ جس کا وہ سوا ل کرے ، پس جب بندہ کہتا ہے الحمد اللّٰہ رب العالمین تومیں کہتا ہوں: بندے نے میری حمد کی۔(۲۴)
۱۰۔ سورۃ الدعاء
یہ سورت اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا سے شروع ہوتی ہے پھر بندے کی عبادت کا ذکر ہے ، پھر اﷲ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی دعا ہے۔ دعا اور سوال کا یہی اسلوب ہے کہ پہلے داتا کی حمد و ثنا بیان کی جائے پھر دستِ طلب بڑھایا جائے۔
قرآن کریم کی دوسری مثالوں کو دیکھیے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ۔ پھر اپنے لیے دعا کی۔
الذی خلقنی نھود مھدین۔ والذی ھو یطعمنی ویسقین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واجعلنی من ورثۃ جنۃ النعیم(۲۵)
’’وہ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہی مجھے ہدایت دیتا ہے اور وہی مجھے کِھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاؤں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے وفات دے گا اور پھر زندہ فرمائے گا اور اسی سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن وہی میری خطائیں معاف فرمائے گا۔ اے میرے رب!مجھے حکم عطا فرما اور مجھے نیکوں کے ساتھ لا حق کر دے اور میرے بعد آنے والی نسلوں میں میرا ذکر جاری رکھ اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل کر دے۔‘‘
حضرت یوسف ؑ نے دعا کی:
فاطر السمٰوٰت والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین(۲۶)
’’اے آسمان و زمین کو پیدا فرمانے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے میری وفات اسلام پر کر اور مجھے نیکوں کے ساتھ لاحق کر دے ‘‘۔
سابقہ آیات کی روشنی میں دعا کا یہی طریقہ ہے کہ پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جائے پھر اس سے سوال کیا جائے اور سورۂ فاتحہ میں اسی طریقہ سے دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اس لیے اس کو سورۃ الدعا کہتے ہیں ۔
علامہ بقاعی نے سابقہ تمام اسماءِ فاتحہ کا ذکر کر کے سورۂ فاتحہ کے اسماء میں اساس، کنز، واقیہ، رقیہ اور شکر کا بھی ذکر کیا ہے۔(۲۷)
علامہ بقاعی نے ان اسماء میں نظم اور ربط کو بیان کرتے ہوئے لکھا ۔
۱۔ فاتحہ کے اعتبار سے ہر نیک چیز کا افتتاح اس سورت سے ہونا چاہیے۔
۲۔ اور’’اُم ‘‘ کے لحاظ سے سے یہ ہر خیر کی اصل ہے۔
۳۔ اور ہر نیکی کی اساس ہے۔
۴۔ اور مثنی کے لحاظ سے دوبار پڑھے بغیر یہ لائقِ شمار نہیں۔
۵۔ اور کنز کی حیثیت سے یہ ہر چیز کا خزانہ ہے۔
۶۔ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔
۷۔ ہر مہم کے لیے کافی ہے ۔
۸۔ ہر مقصود کے لیے وافی ہے۔
۹۔ واقیہ کے لحاظ سے ہر برائی سے بچانے والی ہے۔
۱۰۔ رقیہ کے اعتبار سے
۱۱۔ ہر آفتِ ناگہانی کے لیے دم ہے ۔
۱۲۔ اس میں حمد کا اثبات ہے جو صفاتِ کمال کا احاطہ ہے۔
۱۳۔ اور شکر کا بیان ہے جو منعم کی تعظیم ہے۔
۱۴۔ اور یہ بعنیہ دعا ہے جو مطلوب کی طرف توجہ ہے اور ان تمام امور کی جامع صلوٰۃ ہے۔(۲۸)
سورۂ فاتحہ کے فضائل
امام بخاری نے روایت کیا:
حضرت ابو سعید بن معلی ؓ، بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا (دورانِ نماز) نبی اکرم ﷺ نے مجھے بلایا ، میں حاضر نہ ہوا ، میں نے عرض کی ’’یا رسول اﷲ!میں اُس وقت نماز پڑھ رہا تھا ،تو آپﷺ نے فرمایا۔کیا اﷲ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا
استجیبو ا ﷲ وللرسول اذا دعا کم(۲۹)
’’اﷲ اور رسول کے بلانے پر فوراً حاضر ہو جاؤ۔‘‘
پھر فرمایا : سنو! میں تم کو مسجد سے باہر نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت کی تعلیم دوں گا، پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا، جب ہم نے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کی : یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ نے فرمایا تھا ،میں تم کو قرآن کی سب سے عظیم سورت کی تعلیم دوں گا ، آپ ﷺنے فرمایا’’الحمد اللّٰہ رب اللعالمین‘‘یہ سبع مثانی ہے اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔(۳۰)
نیز امام بخاری نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم ایک سفر میں تھے ، ہم نے ایک جگہ قیام کیا ، ایک لڑکی نے آکر کہا کہ قبیلہ کے سردار کو ایک بچھو نے ڈس لیا ہے اور ہمارے لوگ حاضر نہیں ہیں ۔ کیا تم میں سے کوئی شخص دم کر سکتا ہے ؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ گیا جس کو اس سے پہلے ہم دم کرنے کی تہمت نہیں لگاتے تھے، اس نے اس شخص پر دم کیا جس سے وہ تندرست ہو گیا اور سردار نے اسے تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہم کو دودھ پلایا، جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا: کیا تم پہلے دم کرتے تھے ؟ اس نے کہا: نہیں، میں نے تو صرف ’’ام الکتاب‘‘ (سورۂ فاتحہ) پڑھ کر دم کیا ہے ، ہم نے کہا: اب اس کے متعلق کوئی بحث نہ کرو۔ حتیٰ کہ ہم نبی مکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق پوچھ لیں، ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے نبی مکرمﷺ سے اس کے متعلق پوچھا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: اس کو کیا معلوم کہ یہ دم ہے (ان بکریوں کی) تقسیم کرواور ان میں سے میرا حصہ بھی نکالو۔(۳۱)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اور میرے بندے کے درمیان صلوٰۃ(سورۂ فاتحہ) کو آدھا آدھا تقسیم کر دیا گیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کر ے اور جب وہ کہتا ہے الحمد اللّٰہ رب اللعالمینتواﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی اور جب وہ کہتا ہے ’’الرحمٰن الرحیم‘‘ تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی اور جب وہ کہتا ہے ’’مالک یوم الدین‘‘ تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعظیم کی ، اور ایک بار فرمایا: میرے بندے نے (خود) کو میرے سپرد کر دیا ، اور جب وہ کہتا ہے ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جس کا وہ سوال کرے اور جب وہ کہتا ہے ۔اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘ تو اﷲ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کرے ۔(۳۲)
سنن نسائی کی روایت میں ہے :
حضرت عباس ؓ سے روایت ہے کہ جس وقت جبرئیل ؑ نبی مکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے اوپر کی جانب سے ایک چر چراہٹ کی آواز سنی، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے اور آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا ۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہو ا۔ حضرت جبرئیل نے کہا : یہ فرشتہ جو زمین کی طرف نازل ہوا ہے ۔ یہ آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا تھا۔ اس فرشتے نے آکر سلام کیا اور کہا : آپ ﷺ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ ﷺ کو دیئے گئے ہیں اور آپﷺ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے ایک فاتحۃ الکتاب اوردوسرا سورۂ البقرۃ کی آخری آیتیں ہیں ، ان میں سے جس حروف کو بھی آپ پڑھیں گے وہ آپ کو دے دیا جائے گا۔(۳۳)
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں ’’اُم القرآن‘‘ کی مثل کوئی سورت نازل نہیں فرمائی۔(۳۴)
شعیب الایمان کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لیے شفاء ہے ۔(۳۵)

سورۂ فاتحہ کے مضامین
سورۂ فاتحہ کے مندرجہ ذیل مضامین ہیں۔
۱۔ اس سورت میں اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کا بیان ہے ۔
۲۔ اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، اس کے رحمن اور رحیم ہونے، نیز مخلوق کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور قیامت کے دن ان کے اعمال کی جزاء ملنے کا ذکر ہے ۔
۳۔ صرف اﷲ تعالیٰ کا عبادت کے مستحق ہونے اور اس کے حقیقی مددگارہونے کا ذکر ہے۔
۴۔ دعا کے آداب کا بیان اور اﷲ تعالیٰ سے دین حق اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت ملنے، نیک لوگوں کے مال سے موافقت اور گمراہوں سے اجتناب کی دعا مانگنے کی تعلیم ہے۔(۳۶)
مندرجہ ذیل سطور میں سورۂ فاتحہ کے اجمالی مضامین کا ذکر ہے حالانکہ اس سورت کی تفسیر کے بارے میں متعدد صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کے اقوال منقول ہیں ۔ امام جلال الدین سیوطی ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں۔
امیر المؤمنین حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجھہ فرماتے ہیں : اگر میں چاہوں تو ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر سے ستر اُونٹ بھروا دوں۔(۳۷)
امیر المؤمنین حضرت علی ؓ کے قول کی تشریح کرتے ہوئے امام احمد رضا بریلوی لکھتے ہیں ۔ ایک اونٹ کتنے ہی من بوجھ اُٹھاتاہے اور ہر من میں (لکھے ہوئے )کتنے ہزار اجزاء ہوں گے اور حساب سے تقریباً پچیس لاکھ جز بنتے یں یہ فقط سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے۔(۳۸)

نتائج ِ تحقیق
نزولِ سورۂ فاتحہ کے حوالے سے مختلف آراء ہیں کہ یہ سورت سب سے پہلے نازل ہوئی ، مگر قولِ راجیح یہ ہے کہ سب سے پہلے وحی سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ سورۂ فاتحہ دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مکہ میں اور دوسری بار مدینہ میں اور اسی بات پر محققین و مفسرین کا اجماع ہے۔ سورۂ فاتحہ کا ایک رکوع، سات آیات، ستائیس کلمے اور ایک سو چالیس حروف ہیں۔فضائل ومناقب کے حوالے سے یہ سورت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس سورت کو بائیس سے زائد ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے، اور ان میں سے اکثر نام احادیث مبارکہ سے ہی ماخوذ ہیں۔
سورۂ فاتحہ کی آیات میں فقہا کا اختلاف ہے ۔شوافع اور حنابلہ کے نزدیک بسم اﷲ الرحمن الرحیمسورۂ فاتحہ کا جز ہے اور اس سمیت سورۂ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ جبکہ احناف اور مالکیہ کے نزدیک بسم اﷲ الرحمن الرحیمسورۂ فاتحہ کا جز نہیں ہے۔ ۱؂ ان کے نزدیک صراط الذین انعمت علیھم ایک آیت ہے اور اول الذکر کے نزدیک صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولاالضالین مل کر ایک آیت ہے۔

۱؂ قدامہ، موفق الدین، عبد اﷲ بن احمد، المغنی، دارالفکر بیروت، ۱۴۰۵ھ، ج1، ص284
حوالہ جات
۱۔ القرآن ۴۱:۸۹
۲۔ القرآن یوسف :۱۰۴
۳۔ سورۂ فاتحہ https://www.ur.wikipedia.org/wiki/
۴۔ الازہری، کرم شاہ ، پیر، ضیاء القرآن ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور (س۔ن)، ج ا، ص ۲۰
۵۔ بغدادی، علاء الدین، علی بن محمد ، تفسیر خازن، مطبعہ میمنیہ مصر، ۱۳۱۴ ھ ، ج ا ،ص ۱۲
۶۔ بروسی، اسماعیل حقی، شیخ ،روح البیان (مترجم: محمد فیض احمد اویسی)، مکتبہ غوثیہ کراچی، جنوری۱۹۵۹ء، ج ا، ص ۲۸
۷۔ سیوطی ، جلال الدین، شافعی، الدر المنثور، دارالفکر بیروت، ۱۴۵۳ھ، ج ا،ص ۳
۸۔ ترمذی، محمد بن عیسیٰ ، ابو عیسیٰ ، جامع ترمذی، نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی، (س۔ ن)، ص ۶۳
۹۔ ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی،(س۔ ن) ،ص ۶۰
۱۰۔ احمد بن حنبل، مسند احمد، مکتبہ اسلامی بیروت ۱۳۹۸ھ ،ج۲، ص ۴۲۸
۱۱۔ القرآن ۱:۱-۷
۱۲۔ روح البیان ج۱،ص ۲۹
۱۳۔ دارمی، عبد الرحمٰن، ابو عبد اﷲ، سنن دارمی، نشر السنۃ، ملتان،(س۔ ن) ،ج ۲، ص ۳۲۱
۱۴۔ القرآن الحجر:۸۷
۱۵۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، ابو عبد اﷲ ، صحیح بخاری، نور محمد اصح المطابع کراچی،۱۳۸۱ھ، ج ۲، ص ۷۴۹
۱۶۔ سنن دارمی، ج ۲، ص ۳۲۱
۱۷۔ روح البیان ج۱، ص ۲۹
۱۸۔ سعیدی ، غلام رسول ، تبیان القرآن، فرید بک سٹال، اُردو بازار لاہور، جون ۱۹۹۹ء، ج ا، ص ۱۳۴
۱۹۔ سنن دارمی ج ۲ ،ص ۳۲۱
۲۰۔ صحیح بخاری ج ۲، ص ۷۴۹
۲۱۔ رازی، فخر الدین ،محمد بن ضیاء الدین ، تفسیر کبیر، دارالفکر بیروت، ۱۳۹۸ھ، ج ا، ص۹۰
۲۲۔ سنن دارمی ج ۲، ص ۳۲۰
۲۳۔ القرآن البقرۃ:۱۰
۲۴۔ مسلم بن حجاج ، قشیری، صحیح مسلم، نور محمد اصح المطابع کراچی،۳۷۵اھ، ج ا، ص ۱۷۰۔۱۶۹
۲۵۔ القرآن الشعراء ۸۵۔۷۷
۲۶۔ القرآن یوسف: ۱۰۱
۲۷۔ بقاعی، ابراہیم بن عمر ، ابو الحسن، نظم الدرر، دارالکتاب الاسلامی قاہرہ ،۱۴۱۳ھ، ج ا، ص ۱۹
۲۸۔ نظم الدرر، ج ا ، ص ۲۰
۲۹۔ القرآن الانفال:۲۴
۳۰۔ صحیح بخاری ج ۲، ص ۷۴۹
۳۱۔ ایضاً
۳۲۔ صحیح مسلم ج ا، ص ۱۶۹
۳۳۔ نسائی، احمد بن شعیب ، ابو عبد الرحمٰن ، سنن نسائی ، نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی،(س۔ ن)، ج ۵، ص ۱۳۔۱۲
۳۴۔ جامع ترمذی، باب کتاب التفسیر ،حدیث ۳۱۳۶
۳۵۔ بیہقی ، احمد بن حسین، ابو بکر ، شعیب الایمان، دارلکتب العلمیہ بیروت،۱۴۱۷ھ، ج ۲، ص ۴۵۰، حدیث ۲۳۷۰
۳۶۔ القادری ،محمد قاسم، ابو صالح، صراط الجنان فی تفسیر القرآن، مکتبۃ المدینہ کراچی، مئی ۲۰۱۳، ج ا ، ص ۳۹
۳۷۔ سیوطی ، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، دارالفکر بیروت ،۱۴۲۳ھ، ج ۲، ص ۵۶۳
۳۸۔ بریلوی، احمد رضا ، امام ، فتاویٰ رضویہ، رضا فاؤنڈیشن لاہور ،(س۔ ن )، ج ۲۲، ص ۶۱۹
Mirza Hafeez Aoj
About the Author: Mirza Hafeez Aoj Read More Articles by Mirza Hafeez Aoj: 6 Articles with 29163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.