میں بہت اداس ہوں۔ ناظمہ طالب کے بہیمانہ
قتل کا ردعمل اتنا ناقص ہے۔ مجھے اس پر شرم آتی ہے۔ کراچی پریس کلب میں
پروفیسر ذکریا ساجد کے یہ الفاظ سن کر ہر شخص اپنی اپنی جگہ شرمسار تھا۔
میں اس شام ریڈیو پاکستان کے نیوز روم میں تھا۔ جب کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کا
شکار ہونے والی جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر ناظمہ طالب
کے بارے میں خبر آئی۔ میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ ناظمہ نے کراچی یونیورسٹی کے
شعبہ ماس کیمونیکشن سے ایم اے کیا تھا۔ مجھے آرٹس لابی کی وہ خوبصورت صبحیں،
اور شام یاد آئی۔ جب گوشہ صحافت میں سارے دوست جمع رہتے تھے۔ کلاس کے بعد
لابی کا یہ گوشہ سب کی پناہ گاہ تھا۔ جماعتی، سرخے، کامریڈ، یہاں سب ایک
تھے۔ ایک ہی رشتہ تھا، دوستی اور محبت کا، سب جدا ہوگئے۔ تیس برس گزر گئے
ہیں۔ لیکن جو بھی ان لمحوں کا شریک تھا۔ اب کہیں بھی ملتا ہے تو اسی
اپنائیت اور محبت سے۔ اس میں طلبہ سے زیادہ اساتذہ کا کمال تھا۔ جو اپنے
طلبہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ آج ناظمہ کو یاد کرنے سارے پرانے دوست اور
ساتھی موجود تھے۔ قیصر محمود، یوسف خان، مہناز فاطمہ، انعام باری، ڈاکٹر
نثار زبیری، پروفیسر توصیف احمد خان، پروفیسر مطاہر حسین، ڈاکٹر سیمیں
نغمانہ، صحافت کے ہر شعبے میں کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سابق
طلبہ موجود ہیں۔ لیکن ناظمہ طالب کی شہادت پر کوئی بڑا ردعمل نہیں آیا۔
بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے بہادر بلوچوں نے ایک نہتی خاتون کو گولی
کا نشانہ بنایا۔ جو ۰۳ برس سے ان کی کئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آرستہ
کررہی تھی۔ اس کے شاگرد کیسے بے حس ہیں۔ جو اپنی پروفیسر کے قتل پر خاموش
ہوکر بیٹھ گئے۔ ایک بیٹے سے اس کی ماں چھین لی گئی۔ صحافتی برادری کی
خاموشی، اور اس سے زیادہ، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی بے حسی ایک
سوالیہ نشان ہے۔ ناظمہ کا قتل ایک سفاکانہ وار ہے۔ جو پاکستان کے جسم پر
کیا گیا ہے۔ قبائلی روایات کے امین بلوچوں نے ایک عورت کو مار ڈالا۔ یقین
نہیں آتا۔ امتیاز فاران پریس کلب کے صدر ہیں۔ ان کی تقریر جذبات سے پر تھی۔
ناظمہ کے بیٹے کے مستقبل کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ کوئی اس کی مالی امداد،
کوئی نوکری، کوئی تعلیم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن میں سوچتا ہوں۔ کیا ان
چیزوں سے اس کی ماں مل جائے گی۔ وہ بچہ عمر بھر اپی ماں کو یاد کرتا رہے گا۔
ناظمہ کرچی آنا چاہتی تھی۔ کراچی یونیورسٹی کا شعبہ بھی سیاست کا شکار ہے۔
عملی زندگی میں ساتھ چلنے والے موقع پاکر پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے نہیں
چوکتے۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ دوستی کی دولت سب سے ارفع اور ہمیشہ رہنے
والی ہے۔ جس سے وہ محروم رہ جاتے ہیں۔ چند سکوں کے لئے دوستی فروخت کردیتے
ہیں۔ شائد یہی دستور زمانہ ہے۔ ناظمہ کراچی نہ آسکی۔ اور اب بہت دور چلی
گئی۔ اس کا نام ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا۔ اس نے جاتے جاتے بلوچستان میں جو
علم کی شمعیں روشن کی ہیں۔ ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جہالت کے اندھیرے
میں نئی صبح ضرور طلوع ہوگی۔ |