جنگ احد کے شہیدوں کا جذبہ اور
سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط بنانے
کی حکمت عملی ۔۔۔
انصار میں سے عمرو بن ثابت نامی ایک شخص جن کی عرفیت ”اصیرام“ تھی ہجرت کے
بعد جب ان کے سامنے اسلام پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر
دیا لیکن جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم احد کے لئے نکلے تو ان کے دل
میں نور ایمان جگمگا اٹھا۔ انہوں نے تلوار اٹھائی اور نہایت سرعت کے ساتھ
لشکر اسلام سے جا ملے، مردانہ وار جنگ کی اور زخموں کی تاب نہ لاکر گر پڑے۔
جب مسلمانوں نے اپنے مقتول سپاہیوں کو میدانِ جنگ میں ڈھونڈنا شروع کیا تو
اس وقت ان کو بھی دیکھا کہ ابھی زندہ ہیں، لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ
”تم نے اپنے قبیلہ کی حمایت میں جنگ کی ہے یا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ انہوں
نے جواب دیا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں میں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھ دیا
ہے اور اب اپنے خون میں غلطاں ہوں۔“ ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ وہ شہید
ہوگئے، جب ان کا واقعہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا گیا تو
آپ نے فرمایا: ”کہ وہ جتنی ہے جی ہاں! قبل اس کے کہ وہ نماز پڑھے اور خدا
کے لئے سجدہ کرے، اس نے جنت کی راہ لی، اس نے صرف ایک سجدہ کیا وہ بھی خوں
بھرا سجدہ محراب عشق میں۔“ (عشق ابن ہشام ج۲ ص ۹۰)
ایک مالدار عقلمند کی شہادت
”مخیرق“ ایک یہودی دانشمند اور مال دار آدمی تھے خرمے کے درخت اور اچھے
خاصے مال و متاع کے مالک تھے جب احد کا دن آیا تو انہوں نے یہودیوں سے
مخاطب ہو کر کہا کہ ”خدا کی قسم تمہیں خوب معلوم ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی نصرت تم پر واجب ہے۔ یہودیوں نے عذر پیش کیا کہ آج شنبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس اب دوسرا شنبہ نہیں ہے۔ پھر انہوں نے لباس جنگ
زیب تن کیا اپنے جسم پر ہتھیار سجائے اور احد کی طرف روانہ ہونے کے لئے
تیار ہوئے نکلنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ” اگر میں آج قتل کر دیا
جاؤں تو میرے سارے مال کا اختیار محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔ وہ
جہاں چاہیں خرچ کریں۔ اس کے بعد وہ احد کی طرف چل پڑے اور مجاہدین راہ خدا
سے جا ملے، جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
ان کی وصیت کے مطابق ان کے مال کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ابن اسحاق کی
تحریر کے مطابق رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے اوقاف اور مدینہ
میں جو امور خیریہ انجام دیئے ہیں وہ انہیں کے اموال سے تھے۔ (تاریخ طبری
ج۲ ص ۵۳۱)
ایک عارف بوڑھے کی شہادت
خیثمہ بوڑھے تھے مگر صاحب معرفت تھے ان کے بیٹے بدر کی لڑائی میں شہادت کے
درجہ پر فائز ہو چکے تھے لشکر اسلام کی احد کی طرف روانگی سے قبل انہوں نے
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا” کل رات خواب میں میں نے اپنے
بیٹے کو دیکھا، کہ وہ بہشت کے باغوں میں چلا جا رہا ہے۔ بہشت کے درختوں کے
نیچے اس کی نہروں کے کنارے ٹہل رہا ہے، میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ بابا
جان! ہمارے پاس آجائیے کہ ہم نے خدا کے وعدہ کو سچا پایا۔ اے اللہ کے رسول
میں اس بات کا مشتاق ہوں کہ اپنے بیٹے کے پاس پہنچ جاؤں ۔اے پیغمبر خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم میری داڑھی سفید ہے، میری ہڈیاں کمزور ہو چکی ہیں میں
چاہتا ہوں کہ آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ خدا مجھے شہادت نصیب کرے۔ پیغمبر
نے فرمایا” خدایا اس شخص کی آرزو پوری کر دے۔ چنانچہ وہ احد کی جنگ میں
شہید ہوگیا۔
حجلہ خون
حنظلہ 25سالہ جوان، جنگ احد کی آگ بھڑکانے والوں میں سے ایک شخص ابو عامر
فاسق کے بیٹے تھے، جس وقت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جہاد
کےلئے عام تیاری کا اعلان ہوا، اس وقت جناب حنظلہ، عبداللہ ابن ابی کی لڑکی
سے شادی کرنے جا رہے تھے۔ ان کے باپ کے برخلاف جو کافر اور منافق تھا یہ
دولہا دلہن اسلام اور پیغمبر پر مکمل ایمان رکھتے تھے۔ جس وقت محاذ جنگ پر
جانے کی دعوت کی صدا جناب حنظلہ کے کانوں سے ٹکرائی اس وقت وہ حیران ہو گئے
کہ اب کیا کریں؟ ابھی تو شادی کے مراسم ادا ہوئے ہیں، اب وہ حجلہ عروسی میں
جائیں یا محاذ جنگ پر؟ انہوں نے بہتر سمجھا کہ رسول خدا سے اجازت لے لیں
تاکہ شب زفاف مدینہ میں رہیں اور اس کے دوسرے دن میدان جنگ میں حاضر ہو
جائیں۔
پیغمبر نے اجازت دے دی، صبح سویرے غسل کرنے سے پہلے اپنی دلہن سے محاذ جنگ
پہ جانے کے لئے خدا حافظ کہا، دلہن کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اپنے شوہر سے اس
نے چند منٹ ٹھہرنے کو کہا اور اپنے ہمسایوں میں سے4 آدمیوں کو بلا لائی
تاکہ وہ اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان گواہ رہیں۔ حنظلہ نے دوسری بار خدا
حافظ کہا اور محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔
دلہن نے ان گواہوں کی طرف رخ کیا اور کہا کہ کل رات میں نے خواب میں دیکھا
کہ آسمان شگافة ہوگیا اور میرا شوہر اس میں داخل ہوگیا اس کے بعد آسمان پھر
جڑ گیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ شہادت کے درجہ پر پہنچے گا۔ جناب حنظلہ لشکر
اسلام سے جا ملے اور انہوں نے ابوسفیان پر حملہ کیا، ایک تلوار جو اس کے
گھوڑے پر پڑی تو وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ابو سفیان کی چیخ پکار پر چند مشرکین
اس کی مدد کو بڑھے اور اس طرح ابوسفیان کی جان بچ گئی۔ دشمن کے ایک سپاہی
نے جناب حنظلہ کو نیزہ مارا، حنظلہ نے نیزہ کا شدید زخم لگنے کے باوجود اس
نیزہ بردار پر حملہ کیا اور تلوار سے اس کو قتل کر ڈالا۔ نیزہ کے زخم نے
آخرکار اپنا کام کر ڈالا اور جناب حنظلہ حجلہ خون میں عروس شہادت سے جا
ملے۔
پیغمبر نے فرمایا کہ” میں نے دیکھا کہ حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے تھے، اس
وجہ سے ان کو حنظلہ غسیل الملائکہ کہتے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۷۴)
دولہا دلہن کا اخلاص اور ان کا ایمان واقعی بڑا تعجب انگیز ہے ہمارے محاذ
جنگ پر لڑنے والے پیکر ایثار و قربان مجاہدین، ان کے خاندان والوں اور ان
کی بیویوں کےلئے الہام بخش اور مقاومت کا نمونہ ہے۔
مدینہ میں منافقین کی ریشہ دوانیاں
جنگ احد کے سلسلہ میں عبداللہ بن ابی اور اس کے تمام منافق ساتھیوں نے
سرزنش اور شماتت شروع کر دی اور جو مصیبت مسلمانوں کے سروں پر آن پڑی تھی
اس پر یہ لوگ خوش تھے۔ یہودی بھی بدزبانی کرنے لگے اور کہنے لگے کہ” محمد
سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آج تک کوئی پیغمبر اس طرح زخمی نہیں ہوا۔ وہ
خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے اصحاب بھی مقتول اور زخمی ہیں۔ وہ رات بڑی
حساس رات تھی ہر آن یہ خطرہ منڈلا رہا تھا کہ کہیں منافقین اور یہود،
مسلمانوں اور اسلام کے خلاف شورش نہ برپا کر دیں اور اختلاف پیدا کر کے اس
شہر کے سیاسی اتحاد و ثبات کو نہ ختم کر دیں۔
مدینہ سے20 کلومیٹر دور ”حمراءالاسد“ میں جنگی مشق
یکشنبہ8 شوال 3 ہجری ۔
ہر طرح کی داخلی و خارجی ممکنہ سازش کی روک تھام اور مکمل طور پر ہوشیار
اور آمادہ رہنے کے لئے اوس و خزرج کے سربرآوردہ افراد نے مسلح افراد کی ایک
جماعت کے ساتھ مسجد اور خانہ پیغمبر کے دروازہ پر رات بھر پہرہ دیا۔ یکشنبہ
کی صبح کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز صبح ادا کر کے جناب بلال
کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو دشمن کے تعاقب کے لئے بلائیں اور اعلان کریں کہ
ان لوگوں کے سواء اور کوئی ہمارے ساتھ نہ آئے جو کل جنگ میں شرکت کرچکے
ہیں۔ بہت سے مسلمان شدید زخمی تھے لیکن فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور جنگی لباس
زیب تن کر کے اسلحہ سے آراستہ ہو کر تیار ہو گئے۔ پیغمبر نے پرچم جناب مولا
علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ میں
اپنا جانشین معین فرمایا” اس حیرت انگیز روانگی کی وجہ یہ تھی کہ رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ قریش کے سپاہیوں نے مدینہ
لوٹ کر اسلام و مسلمانوں کا کام تمام کر دینے کا ارادہ کرلیا ہے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حمراء الاسد تک پہنچے اور وہاں آپ نے حکم
دیا کہ ہمارے سپاہی وسیع میدان میں بکھر جائیں اور رات کے وقت اس وسیع و
عریض زمین پر آگ روشن کر دیں، تاکہ دشمن کو یہ گمان ہو کہ ایک بہت بڑا لشکر
ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تین رات وہاں ٹھہرے
رہے اور ہر رات اس عمل کو دھرایا جاتا رہا۔
اس جگہ معبد خزاعی نے پیغمبر کی خدمت میں پہنچ کر خبر دی کہ قریش دوبارہ
مدینہ پر حملہ کرنے کا قصد رکھتے ہیں۔ پھر معبد نے ابو سفیان سے جا کر کہا
کہ میں نے لشکر بے کراں اور غیظ و غضب سے تمتماتے چہرے دیکھے ہیں۔ ابو
سفیان اس خبر سے وحشت زدہ ہوگیا اور مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے باز
رہا۔ اس جنگی مشق (پریڈ) نے مجاہدین اسلام اور اہل مدینہ کے حوصلوں کو
بڑھایا، ان کے دل سے خوف کو دور کیا اور دشمن کے دل میں اور زیادہ خوف بٹھا
دیا اور وہ اس طرح کہ جب تین دن کے بعد مسلمان مدینہ پلٹ کر آئے تو ان کی
حالت ایسی تھی کہ گویا ایک بہت بڑی فتح حاصل کرکے لوٹے ہیں۔ (طبقات ابن سعد
ج۲ ص ۴۸)
ابو عزہ شاعر کی گرفتاری و قتل کا حکم
بلبل زباں ابو عزہ نامی شاعر جو کہ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں
اسیر ہو کر آیا تھا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر تاوان کے اسے
اس شرط پر آزاد کر دیا تھا کہ وہ کسی کو مسلمان کے خلاف نہیں ورغلائے گا۔
لیکن اس نے عہد شکنی کی اور جنگ احد کے لئے مشرکین کو اسلام کے خلاف لڑنے
کی اپنے اشعار کے ذریعہ دعوت دیتا رہا۔ وہ حمراءالاسد میں لشکر اسلام کی
اسیری میں آگیا اور دوبارہ معافی کا خواستگار ہوا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے
دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ اس کے بعد آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔
(سیرت حلبی ج۲ ص ۲۵۹)
جنگ احد کے بارے میں جو آیتیں نازل ہوئیں وہ سورہ آل عمران کی 60 آیتیں
(140 سے197 تک) ہیں۔ اس سال جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے پیغمبر کا
حصہ بنت عمر کے ساتھ ماہ شعبان میں عقد اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ آپ کا
نکاح ہے۔ (سیرت حلبی ج۲ ص ۲۵۸)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |