سیدالکائنات کا اسوہ تبلیغ
(munawar ahmed khurshid, LONDON)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسوہ حسنہ
آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کو اللہ تعالی نے طہ کامل مرد کے عظیم الشان خطاب سے
نوازا ہے جبکہ اس کے مقابل پر سب بنی نوع انسان کو خلق الانسان ضعیفا کے
مطابق کمزور پیدا کیا ہے۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا۔لایؤمن احدکم حتی أنا آکون
احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔
کوئی انسان ایک کامل مؤمن نہیں بن سکتا جب تک وہ مجھے اپنے ماں باپ، بچوں
اور سب لوگوں سے زیادہ عزیز نہ رکھے۔
کیونکہ جب انسان کسی سے شدید محبت کرتا ہے تو اس کی اتباع اور پیروی میں
قدم مارنے کی کوشش کرتا ہے۔تو اس صورت میں اس کے محبوب کی غلطی اس کی
گمراہی اور کمزوری کا سبب بن سکتی ہے۔
لقد کا لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
پھر اسی مذکورہ بالا مضمون کو مزید واضح کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا۔کہ
یاد رکھو ۔دنیا جہان میں ایک ہی ذات اور ایک ہی وجود ہے جس کی اتباع اور
پیروی بنی نوع انسان کے لئے باعث نجات ہے۔
حضرت زید کا قبول اسلام
حضرت زیدؓ کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا۔ان کواس زمانہ کے دستور کے مطابق
کسی طرح ان کو کسی نے اغوا کرلیا اور بعدازان بکتے بکتے مختلف مقامات پر
گئے۔ایک دفعہ حضرت خدیجہؓ کے چچازاد بھائی نے ان کو خرید کر حضرت خدیجہؓ کی
خدمت میں دیدیا ۔اس کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے عقد نبویﷺ کے بعد ان کی خدمت
اقدس پر پیش کردیا تھا۔
آپ کے والدین بھی آپنے لخت جگر کی تلاش میں سر گردان تھے۔کسی طرح ان کوعلم
ہوا کہ آپ کا گمشدہ بیٹا مکہ میں ہے جو محمد بن عبداللہ کے گھر میں غلام کی
حیثیت میں رہ رہا ہے۔ اس پر ان کے والدین مکہ آئے۔اور آنحضور ﷺ کی خدمت
اقدس میں حاضر ہوکر اپنے بیٹے کی آزادی کے لئے درخواست کی۔اس پر حضور ﷺ نے
فرمایا کہ زید میری طرف سے آزاد ہے۔اس کواپنے ساتھ جانے کی اجازت ہے۔
والدین خوشی کے عالم میں حضرت زیدؓ کے پاس آئے۔اوراپنے بیٹے کو آزادی کی
خوشخبری سنائی اور اس کوساتھ چلنے کے لئے کہا۔حضرت زیدؓ نے اپنے والدین سے
کہا کہ میں اپنے پیارے آقا کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاسکتا۔اسپر ان کے
والدین نے ان کو بہت سمجھایا بجھایا مگر آپ نے ان کو صاف صاف بتادیا کہ میں
اپنے س پیارے آقاکو چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔اس پر وہ لوگ مایوس ہو کر
اپنے وطن واپس چلے گئے۔
اس پر جب حضرت نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے حضرت زیدؓ کو اپنا
بیٹا مونہہ بولا بیٹا بنانے کا اعلان فرمادیا۔اور پھر ساری عمر اس رشتہ
کودونوں جانب سے خوب نبھایا گیا۔
الفت کا تب مزہ ہے کہ دونوں ہوں بے قرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہو
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا قبول اسلام
آنحضرت نبی کریم ﷺ بچپن نیک اور سعید فطرت کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ۔
کنند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر با ز با ز با باز
حضرت ابوبکرؓ آپ ﷺ کے بچپن کے دوست تھے۔اس لئے انہوں نے آپ کے اخلاق عالیہ
کا شروع سے بہت قریب سے مشاھدہ کیا۔
جب آنحضور ﷺ نے دعوی نبوت کاا علان فرمایا۔ان ایام میں حضرت ابوبکرؓ کسی
غرض سے مکہ سے باہر تھے۔آپ کی واپسی پر آپ کے کسی ملنے والے والے نے آپ کو
بتایا کہ آپ کے دوست نے نبوت کا دعوی کیا ہے۔اس پر آپ کو ملنے کے لئے روانہ
ہوئے، حضرت ابوبکرؓ نے آپ سے اعلان نبوت کے بارے میں استفسار کیا۔آپ ﷺ نے
جواب دینا چاہا مگر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی مجھے صرف یہ بتا دیں کہ کیا آپ
نے یہ اعلان فرمایا ہے یا کہ نہیں۔پھر حضور ﷺ نے دوبارہ اپنے دعوی کے بارے
میں وضاحت کرنا چاہی۔اس پر حضرت ابوبکرؓ بول اٹھے۔اور عرض کی مجھے صرف بتا
دیں کہ آپ نے اعلان کیا ہے یا نہیں۔اس پر آنحضور ﷺ نے اثبات میں جواب دیا
۔اس پر آپ نے فورا ایمان لانے کا اعلان کرکے سابقون الاولین میں شامل
ہوگئے۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کے اخلاق حسنہ اور نیک نمونہ کے زریعہ
بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔
عفو ودرگزر
ہمارے سید وآقا ﷺ پر جسقدر شدائد ومصائب کے پہاڑ اھل مکہ نے توڑے ۔وہ ہر کس
و ناکس کے علم میں ہیں۔پھر خاص طور پر عمروبن ھشام رئیس الکفا ر( ابوجھل )
کے ظلم وستم کی داستان کسقدر خون آلشام ہے۔ کہ ان واقعات کو سن کر اورپڑ
ھکر انسان پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔
فتح مکہ کے تاریخ ساز موقع پر جب کہ کفار مکہ کے ظلم وستم کے زخم ابھی تازہ
تھے۔ محسن انسانیت ﷺ نے لا تثریب علیکم الیوم کا ایک ایسا پر شوکت نعرہ
بلند کیا۔جس کی عظمت اور جلال سے بنی نوع انسان آج تک نا آشنا تھی ۔اآپ نے
یک جنبش لب سے اپنے سب خون کے پیاسے دشمنوں کو معاف فرما دیا۔ علیک الصلوۃ
علیک السلام
اس نازک موقع پر ابوجھل کا بیٹا اپنے انجام سے خوب واقف تھا۔اس نے مکہ سے
بھاگنے کا ارادہ کرلیا۔لیکن اس دوران اس کی بیوی نے آنحضور ﷺ کی طرف سے عام
معافی کے اعلان کا سنا۔ تو اس نے فوری طور پر عکرمہ کو پیغام بجھوایا۔کہ
محمد ﷺ نے سبک معاف فرما دیا ہے تم بھی واپس آجاؤ۔ مگر عکرمہ کا یقین نہ
آتا تھا۔ کیونکہ اس نے دنیا میں ایسے موقعوں پر خون کی ندیاں بہتی دیکھی یا
سنی ہیں نہ کہ معافی کے اعلانات۔مگر مرتا کیا نہ کرتا۔واپس آگیا ۔آپﷺ کی
خدمت اقدس میں موت وحیات کی کیفیت میں حاضر ہوا۔اور ڈرتے ڈرتے۔پوچھا ۔کہ
آیا آپ نے یہ اعلان فرمایا ہے؟۔آپ وﷺنے سب زخم بھول کر فرمایا کہ ہاں میں
نے سب کو عام معافی دے دی ہے ۔جو چاہے مکہ میں امن وسکون سے رہ سکتا ہے۔
اس پر عکرمہ نے کو حوصلہ ملا اور اس نے جرأت کرکے کہا میری ایک شرط ہے آپ
نے فرمایا ۔ بتاؤکیا شرط ہے اس پر عکرمہ نے کہا ۔میں اپنے قدیم دین پر ہی
قائم رہوں گا۔آپ نے اسلامی تعلیم لا اکرا ہ فی الدین کے ارشاد کے مطابق
فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ کو اجازت ہے۔اس پر عکرمہ بہت زیادہ حیران ہوئے۔اس کے دل
میں اسلام کی عظمت ،رواداری ، انصاف پسندی، اعلی تعلیم اورخاص طور پر
آنحضور وﷺکے اخلاق عالیہ اور اس دشمنون سے حسن سلوک اور عام معافی کے عجیب
و غریب اعلان نے وہ جادو اثر دکھایا کہ اعکرمہ کے دل میں اسلام کے خلاف
جسقدر کدورتیں اور نفرتیں تھیں دھل کر آئینہ کی طرح شفاف ہوگئیں اور پھر
انہوں نے پورے انشراح صدر اوربشاشت قلب کے ساتھ کلمہ شھادت پڑھا اور اسلام
کے فدائیوں اور جانثاروں میں شامل ہوگئے۔
یہ انداز تبلیغ کس قدر کامیاب اور دل فریب ہے۔ اسلام مخالف مؤرخین کو ان
باتوں پر غور کرنا چاہیے۔کہ ہمارے پیارے قا ﷺ نے تیغ وتفنگ کی بجائے دشمنوں
سے حسن سلوک ، عفو ودرگزر اور محبت اور الفت کے جاموں کے زریعہ روحانی
پیاسوں کو اسلام کا جام حیات پلایا ہے۔
ثمامہ بن اثال ؓ کا قبول اسلام
ثمامہ ایک شدید مخالف اسلام تھا۔اور ہمیشہ اسلام کو ختم کرنے کے لئے شب
وروز کوشاں رہتا تھا۔اس نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا بھی عزم کر رکھا تھا
اور اس کے لئے تیاری کررہا تھا۔ ایک بار مسلمانوں کے قابو آگیا۔آں حضورر ﷺ
نے اسے بجائے کسی جگہ قید کرنے مسجد نبوی یں ہی ایک طرف باندھ دیا ۔ اس میں
یہ حکمت تھی تا وہ مسلمانوں کی طرززندگی اور عبادت وریاضت کا قریب سے
مشاھدہ کرتا رہے۔اور اس کے بعد اس کی بارے میں اچھائی یا برائی کا فیصلہ
اپنے ضمیر کے مطابق خودکرے۔اس دوران مسلمانوں کا سلوک اس سے بہت اچھا
رہا۔وہ پانچوں وقت مسلمانوں کو نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے دیکھتا۔اس دوران
روزانہ حضور ﷺ اس کے پاس آکر اس کا حال احوال پوچھتے اور اسلام کی تعلیم
پیش کرتے رہے ۔مگر وہ انکا ر کرتا رہا، آخر ایک روز حضور نے فرمایا اثمامہ
کو کھول دیا جائے،اس پر وہ مسجد سے باھر چلا گیا۔صحابہ سمجھے کہ وہ بھاگ
گیا ہے۔حضورﷺ نے فرمایا نہیں وہ ضرور واپس آئے گا۔کچھ دیر بعد صحابہ نے
دیکھا کہ وہ نہادھو کر واپس آرہا ہے۔ اس نے مسجد میں واپس آکر آنحضورﷺ کے
سامنے اپنے اسلام لانے کا اعلان کردیا،یہ بھی حضور ﷺ کی اپنے جانی دشمن کے
ساتھ حسن سلوک کرنے پھر اس کومعاف کرکے آزاد کردینے کی عجیب مثال ہے۔اس
اعلی حسن سلوک نے اس مخالف اسلام دل کو بدل کر اس میں اسلام کی محبت بھر
دی۔علیک الصلوۃ علیک السلام
بادشاہ کا قبول حق
مدینہ میں ایک پگلی عورت رہتی تھی ۔جو وہاں گلی کوچوں میں سر گرداں
رہتی۔ایک روز آنحضرت ﷺ کے ایک معزز مہمان آپ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے
ہوئے تھے۔آپ ﷺ نے اسلامی ارشاد اکرام ضیف اذا جاء کریم القوم فأکرموہ کے
مطابق اسے اپنے دولت کدہ پر کھانے کی دعوت دی۔جب اسے ساتھ لیکر اپنے گھر کی
طرف روانہ ہوئے۔رستہ میں پگلی عورت سے آپ کی ملاقات ہوگئی۔وہ خاتون آپ سے
کہنے لگی اے محمد میں نے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔آپ نے فرمایا ٹھیک ہے
۔آؤ جہاں چاہتی ہو ادھر بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں۔وہ آپ ﷺ کو ساتھ لیکر ایک
طرف گلی میں بیٹھ گئی اور کافی دیر تک اپنے خاص انداز میں باتیں کرتی
رہی۔جب اس نے اپنی ساری بات مکمل کر لی تو حضور نے پوچھا کیا اب مجھے جانے
کی اجازت ہے۔اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ ﷺ واپس اپنے معزز مہمان کے
پاس تشریف لائے اور اس سے اسطرح انتظار کی زحمت پر معذرت کی۔آپ کے معزز
مہمان نے جب یہ واقعہ دیکھا کہ ایک پگلی عورت جس سے آپ کو کسی قسم کے فائدہ
کی توقع نہ تھی۔آپ کا اس طرح پیار محبت اور سکون کیساتھ اس معذور عورت کی
دلجوئی کرنا اور اپنے قیمتی وقت کو ایک معذور انسان کی خوشنودی کے کئے صرف
کردینا یہ کسی عام آدمی کا کام نہیں ہے۔اس انسانی ہمدردی کے واقعہ نے تو اس
کی دنیا ہی بدل دی۔کہ جس نبی کے اسقدر اعلی اخلاق ہیں وہ کس طرح جھوٹ بول
سکتا ہے ۔اس پر اس اپنے اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیا۔
اسلام امن کا پیغام ہے۔محبت کا جام ہے۔اسے پیار سے ہی غیروں کے سامنے پیش
کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے آقا ھادی و مرشد ﷺ کے اسوہ کے مطابق یہ
جانفزا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اللھم صلّ علی محمد وعلی آلِ محمد وبارک وسلّم انَّک حمید مجید |
|