اسلام کا کارواں

صدیوں پہلے دنیا میں اسلام کی آواز بے کسی کے عالم میں بلند ہوئی۔ جن سعادت مندوں نے عناد کا پردہ ہٹا کر اس آواز کو سُنا، یہ اُنکے دل میں اُترتی چلی گئی اور اسلام کا یہ قافلہ بڑھتا چلا گیا۔ تاہم جس پاک سر زمین پر یہ آواز بُلند ہوئی وہاں ابھی کفر کا قبضہ تھا، اسلام کے کارواں میں شامل ہونے والے ابھی بے کسی کے عالم میں تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے ظلم سہہ سہہ کر شہادت پائی، وہ بھی تھے جنہیں دربدر کیا گیا، اور وہ بھی تھے جنہیں شعلے برساتی گرمی و تپش میں آگ اگلتی ریت پر لٹا دیا جاتا۔ لیکن کوئی حربہ اور طاقت اسلام کی محبت ان کے دلوں سے کھرچ نہ سکی۔ حجاز کی زمین جب ان پر تنگ کر دی گئی تو اس مبارک کارواں کا ایک قافلہ حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اس قافلہ کو بلایا، ہجرت کی وجہ دریافت کی تو مشہور صحابی حضرت جعفر طیار(رض) کھڑے ہوئے اور تقریر کی، جس میں عصرِ جاہلیت کا نقشہ اور اسلامی قدروں کی تصویر کشی بڑے مؤثر اور جامع انداز میں فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے:

ُُاے بادشاہ! ہم جاہل تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بے حیائی کا ارتکاب کرتے تھے، قرابتوں کو قطع کرتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے، قوی ضعیف کو کھا جاتا تھا، ہم جاہلیت کی اس وحشت کا شکار تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرمایا، ایسا پیغمبر کہ جس کی حسب اور جس کا نسب، جس کا صدق اور جس کی دیانت، جس کی امانت اور جس کی عفت، سب سے ہم خوب واقف ہیں۔اس نے ہمیں توحیدِ ربّانی اور عبادتِ الہیٰ کی دعوت دہی، ہم اور ہمارے آباؤ اجداد جن بے جان پتھروں اور بتوں کی پرستش کرتے تھے، ان سب کو یکلخت چھوڑ دینے کی ہدایت کی، بات کی سچائی اور امانت کی ادائیگی، اپنوں کے ساتھ صلہ رحمی اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک، حرام کاموں سے رکنے اور فساد و خون ریزی سے بچنے کی تاکید کی اور ہمیں حکم دیا کہ ہم ایک اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، صرف اسی کی عبادت کریں اور نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں اور روزہ رکھیں۔ چنانچہ ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لائے اور اللہ کی جناب سے وہجو کچھ لے کر آئے اس کی پیروی کی، سو اب ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، شرک سے بچتے ہیں، حلال کوحلال سمجھتے ہیں اور حرام سے رکتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی۔ اس نے ہمیں تکلیفیں دیں اور ہمیں اپنے دین کے متعلق طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا، وہ چاہتی ہے کہ ہم پھر سے بے جان بتوں کی عبادت شروع کر دیں، پھر سے خبائث کو حلال سمجھنے لگیں اور ایک بار پھر ان رسومات میں مبتلا ہو جائیں.......‘‘۔ یہ حق کی نوا تھی جو دل سے نکلی تھی اور دل پر جا لگی تھی، نجاشی کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تھیں، اس کی شاہانہ نظریں اسلام کی روشنی دیکھ چکی تھیں، اس کادل اسلام کی حقانیت کا گواہ بن کر اپنے لئے سعادت ابدی کا اعلان کرچکا تھا۔

اسلام کے کارواں کے مسافر سرکارِ دو عالم ﷺ کی قیادت میں جب اس راستے پر چلے تو اپنے پیچھے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گئے جو تا حیات اس سفر پر چلنے والوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں اور اسلام سے محبت کی ایسی ایسی مثالیں قائم کر گئے جو قیامت تک مسلمانوں کے لئے باعثِ فخر و اعزاز ہیں۔ ہادی عالم ﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی یہ کارواں اپنا مقصد نہیں بھولا۔ آپ ﷺ کے جانثار اسے لے کر بڑھے اور پورے عالَم پر چھا گئے اور چار سُو اسلام کا علَم بُلند ہو گیا۔ یہاں تک کہ اسی سفر میں اُنہوں نے اپنی زندگیاں تمام کر دیں۔ وقت گزرتا رہا، اسلام اپنا سفر طے کرتا رہا اور اس کارواں کے مسافر بدلتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ لادینی اور جہالت کے اندھیرے چھانے لگے، چاروں طرف اُٹھنے والے فتنوں کی آندھیاں اسے اپنی لپیٹ میں لینے لگیں، فرقہ ورایت اور خود غرضی نے اس کارواں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ہر ایک نے اپنے راستے جدا جدا کر لئے، خواہشات کی رکاوٹیں ان مسافروں کی راہ میں حائل ہونے لگیں اور دنیا کی محبت نے ان کے پائوں میں زنجیریں ڈال دیں اور یوں آخرت کے مسافر دنیا کے مقیم بنتے گئے اور اپنا مقصدِ حیات بھی بھول گئے۔ ان کی مثال اُس مسافر کی سی ہوگئی جو کسی ویرانے جنگل میں بھٹک گیا ہو لیکن اُسے اپنے بھٹکنے کا شعور بھی نہیں، وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ کونسے سفر پر نکلا تھا؟ وہ اپنا راستہ بھی بھول گیا اور اپنی منزل بھی، اُس کے قدم پھر اُسی سمت اُٹھنے لگے ہیں جہاں سے ہادی عالم ﷺ نے موڑ کر اسے سفرِ آخرت پر روانہ فرمایا تھا۔ اس کارواں کے مسافر کتنے بدل گئے! آج اگر ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم پھر سے اُسی دور کی طرف لوٹتے جا رہے ہیں جس کو ہر مسلمان جاہلیت کا دور سمجھتا ہے۔ حضرت جعفر(رض) کی تقریر میں جاہلیت کے دور کی کتنی بُرائیاں ایسی ہیں جو آج ہم میں پائی جاتی ہیں؟ اور اسلام کی کتنی اقدار ہیں جو آج ہم کھو چکیںہیں۔ آئیے ایک مختصر جائزہ لیںکہ اسلام کے اس کارواں کے وہ مسافر جن سے اس کی ابتدائ ہوئی تھی، اُن میں اور آج کے کارواں میں کتنا فرق ہے۔

اُن مسافروں میں حضرت ابو بکر(رض) ہی تھے جنہوں نے اپنا سارا مال رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر کر کے عرض کیا کہ گھر میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ ﴿کی رضا﴾ کو چھوڑا ہے اور آج ایک روپیہ بھی اللہ کے لئے دیتے ہوئے ہمارا دل دُکھتا ہے۔ اُن میں حضرت عمر(رض) بھی تھے جن سے اگر کبھی شیطان کا سامنا بھی ہوتا تھا تو وہ بھی راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے چلنے لگتا تھا اور آج ہم نے اپنے آپ کو نفس و شیطان کا غلام بنا رکھا ہے۔ اور حضرت عمر(رض) کے دورِ خلافت میں آپ کے عدل و انصاف کی بدولت اس کارواں پر وہ وقت بھی آیا کہ زکوٰۃ دینے والے تو بہت ہوتے لیکن زکوٰۃ لینے والاکوئی ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا اور آج مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جو اپنی تجوریاں بھرتے بھرتے مر جاتے ہیں اور ایسے بھی جو فاقوں سے تنگ آکر اپنے بچوں کو قتل کرنے اور خودکشی پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ اُن میں حضرت عثمان(رض) بھی تھے جو اتنے حیا دار تھے کہ فرشتے بھی اُن سے حیا کرتے تھے اور آج چاروں طرف فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب آیا ہواہے۔ اُن میں حضرت علی(رض) بھی تھے جن کے گھر کئی کئی دن فاقہ رہتا اور وہ اور اُن کی بیوی حضرت فاطمہ (رض) دونوں روزہ رکھتے لیکن جب افطاری کے وقت کسی سائل کی صدا آتی تو جو کچھ ہوتا وہ دے دیتے اور خود بھوکے رہتے۔ حضرت علی(رض) فرماتے تھے کہ مجھے تین چیزیں پسند ہیں مہمان کی خدمت، گرمی کا روزہ اور دشمن پر تلوار، اسکے برعکس ہم کسی کو ایک گھونٹ پانی نہیں پلا سکتے اور روزے رمضان کے بھی نہیں رکھے جاتے اور تلوار کو تو نعوذبااللہ ہم نے اخلاق سے بھی خارج کر دیا ہے۔اُن میں کو صحابیات(رض) بھی تھیں کہ جب پردے کا حکم نازل ہوا تو اُسی وقت چادریں منگوا کر اوڑھ لیں اور کہا کہ جب اللہ کا حکم آگیا تو پھر ہمارا ایک قدم بھی اس کے خلاف نہیں اُٹھ سکتا۔ اور آج پردہ تو دور کی بات بے پردگی سے بھی آگے کی حدود پھلانگنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اُن میں وہ صحابی بھی تھے جو چلتے ہوئے اپنی نگاہ اپنے پاؤں پر رکھتے تھے تاکہ کسی نا محرم پر نظر نہ پڑے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بہن بیٹی سے زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اُن میں وہ مسلمان بھی تھے جنہوں نے ایک یہودی کو ایک مسلمان عورت کو بے پردہ کرنے پر قتل کر دیا اور جب جواباً یہودیوں نے مل کر اُن کو مار ڈالا تو حضور اکرم ﷺ نے مجاہدین کا لشکر لے کر اُنکا محاصرہ کر لیا اور آج کشمیر، افغانستان اور عراق وغیرہسے مسلمان عورتوں کی چیخ و پُکار سُن کر بھی عالمِ اسلام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اُس کارواں کے مسافر تو ایسے جا نثار تھے کہ جب اُن سے حضور اکرم ﷺ نے لڑائی کے بارے میں مشورہ کیا تو اُنکا جواب یہ تھا ’’خدا کی قسم ہم ہرگز اس طرح نہیں کہیں گے جیسے موسیٰ(ع) کی قوم نے کہا تھا کہ آپ خود جا کر لڑ لیجئے ہم تو یہیں ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں ہم آپ ﷺ کے دائیں بائیں اور سامنے لڑیں گے، اگر آپ ﷺ سمندروں کوبھی عبور کریں گے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ سمندر میں اُتر جائیں گے، اگر آپ ﷺ پہاڑوں پر چڑھیں گے تو وہاں بھی ہم آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہیں گے اور اگر آپ ﷺ برک غماد کا بھی رُخ کریں گے تو وہاں بھی ہم آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے ہوں گے‘‘۔ اور آج ہمارا طرزِ عمل کیسا ہے، اُن عاشقانِ رسول ﷺ جیسا یا قومِ بنی اسرائیل جیسا؟ ہائے ہائے !کیا وہ وقت پھر پلٹ کرنہیں آسکے گا؟
ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح شام تو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

ہاں آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ابھی تک اس کارواں سے جُڑے ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنے مقصد کو یاد رکھا ہے، اکثر لوگ اُن کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن وہ آخرت کے مسافر ابھی تک اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ آج پھر یہ کارواں لوگوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے، غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی ان کے دُشمن ہو گئے۔ اسلام کا یہ مسافر آج پھر تنہا ہے، چاروں طرف اسکی بیگانگی، اجنبیت اور مسافرانہ بیکسی نظر آرہی ہے، لیکن بیگانگی کاروانِ اسلام کے لئے باعثِ خلش نہیں کیونکہ یہ بیگانے باعثِ مبراکباد قرار دیے گئے ہیں، آج سے صدیوں پہلے زبانِ نبوت سے اس کی پیشین گوئی ہو چکی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اسلام کا آغاز مسافرانہ بے کسی میں ہوا اور پھر وہ مسافرانہ بے کسی میں ہوگا پس مسافرت کے بے کسوں کو مبارکبادہو ‘‘ ﴿صحیح مسلم﴾۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210650 views A Simple Person, Nothing Special.. View More