اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن
کریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والوں! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے
لئے سچی گواہی دو خواہ ﴿اس میں﴾ تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں
کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم
خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے
یا ﴿شہادت سے﴾ بچنا چاہو گے تو ﴿جان رکھو﴾ خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے‘‘۔
﴿نسائ :۵۳۱﴾
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قاضی
﴿حاکمانِ عدالت﴾ تین قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک جنت کا مستحق ہے اور دو
دوزخ کے مستحق ہیں۔ جنت کا مستحق وہ حاکم عدالت ہے جس نے حق کو سمجھا اور
فیصلہ کیا۔ اور جس نے حق کو سمجھنے کے باوجود نا حق فیصلہ کیا وہ دوزخ کا
مستحق ہے، اور اسی طرح وہ بھی دوزخ کا مستحق ہے جو بے علم اور ناواقف ہونے
کے باوجود فیصلے کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ ﴿سنن ابنِ ماجہ﴾
حقیقت میں اسلام عدل و انصاف کا ہی دوسرا نام ہے اور کسی بھی نظام کی بقا
کے لئے اُس کا عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے۔ دنیا میں حضرت آدم
علیہ السلام کو خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجنے کا اور پھر اُن کے بعد دوسرے
انبیا علیہم السلام یکے بعد دیگرے بحیثیت خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجتے رہنے کا،
اور ان کے ساتھ بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل کرنے کا اہم مقصد یہی تھا ،
دنیا میں انصاف اور اس کے ذریعے امن و امان قائم ہو، ہر فرد اپنے اپنے
دائرۂ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنا لے اور جو سرکش لوگ تعلیم و
تبلیغ کے ذریعے عدل و انصاف پر نہ آئیں اور اپنی سرکشی پر اڑے رہیں، ان کو
قانونی سیاست اور تعزیر و سزا کے ذریعے انصاف پر قائم رہنے کے لئے مجبور
کیا جائے۔ سورۂ حدید کی پچیسویں آیت میں یہ مضمون اس طرح آیا ہے: ’’یعنی
ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول(ص) نشانیاں دے کر اور اُتاری ان کے ساتھ کتاب
اور ترازو تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر اور ہم نے اُتارا لوہا اس میں بڑا
رعب ہے اور اس سے لوگوں کے کام چلتے ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسولوں کا
بھیجنا اور کتابوں کا نازل کرنا اسی مقصد کے لئے عمل میں آیا ہے، اور آخر
میں لوہا اُتارنے کا ذکر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ سب لوگوں کو
انصاف پر قائم رکھنے کے لئے وعظ و نصیحت ہی کافی نہ ہوگی، بلکہ کچھ شریر
لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کو لوہے کی زنجیروں اور دوسرے ہتھیاروں سے مرعوب
کرکے انصاف پر قائم کیا جائے گا۔
آج اگر پوری دنیا میں عدل و انصاف کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو عملاً
ہر طرف قانون معطل نظر آتا ہے، جرائم میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے، آج ہر
ملک میں قانون سازی کے لئے اسمبلیاں قائم ہیں، اُن پر کروڑوں روپیہ خرچ
ہوتا ہے ان کے نمائندے منتخب کرنے کے لئے الیکشن میں خدا کی پوری زمین ہل
جاتی ہے، اور پھر یہ پورے ’’ملک کا دل و دماغ‘‘، ’’ملک کی ضروریات‘‘ اور
’’لوگوں کے جذبات و احساسات‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ
قانون بناتے ہیں، اور پھر اس قانون کے نفاذ کے لئے حکومت کی لاتعداد مشینری
حرکت میں آجاتی ہے، اس سلسلے میں بڑے بڑے آزمودہ کار لوگوں کی محنتیں بروئے
کار آتی ہیں، لیکن چلی رسوم کی دنیا سے ذرا نظر کو اونچا کرکے دیکھا جائے
اور جن لوگوں کو خواہ مخواہ تہذیب اور شائستگی کا ٹھیکہ دار مان لیا گیا ہے
تھوڑی دیر کے لئے ان کی تقلید سے نکل کر حقیقت کاجائزہ لیا جائے تو ہر شخص
بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ
نگاہِ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے
مِری نظروں میں پھیکا رنگِ محفل ہوتا جاتا ہے
اب سے سو سال پہلے کا ہی موازنہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو
جائے گی کہ جوں جوں قانون سازی بڑھی، اس کی تنفیذ کے ذرائع بڑھے، ایک پولیس
کی بجائے مختلف اقسام کی پولیس حرکت میں آئی، اتنے ہی روز بروز جرائم بڑھے
اور لوگ عدل و انصاف سے دور ہوتے چلے گئے، اور اسی رفتار سے دنیا کی بد
امنی بڑھتی چلی گئی۔
اسکی وجہ یہ ہے اس قسم کی قانون سازیوں سے نہ آج تک عدل و انصاف اور امن و
امان قائم ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ دنیا میں امن و امان کی ضمانت
صرف عقیدۂ آخرت اور خوفِ خدا دے سکتا ہے جس کے ذریعہ سارے فرائض عوام اور
حکومت میں مشترک ہو جاتے ہیں، اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے لگتا
ہے۔ کیونکہ اسلام میں عدل و انصاف کا قائم کرنا اور اس پر قائم رکھنا صرف
حکومت اور عدالت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ
خود انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو انصاف پر قائم رکھنے کی کوشش کرے۔
قرآن حکیم نے ایک طرف تو دنیا کے سارے نظام کا مقصد ہی قیامِ عدل و انصاف
بتلایا اور دوسری طرف ایسا عجیب و غریب اور بے مثال انتظام فرمایا کہ جس پر
اگر عمل کیا جائے تو یہی خونخوار اور بدکردار دنیا ایک صالح معاشرے میں
تبدیل ہو جائے گی۔ اس نظام کا عملی نمونہ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ کی شکل
میں ہمیں عطا فرمایا اور آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین اور دوسرے متبع سنت
سلاطین نے بھی جب اس پر عمل کیا تو لوگوں نے شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر
پانی پینے کا مشاہدہ کیا، غریب امیر، مزدورو سرمایہ کار کا فرق مٹ گیا اور
قانون کا احترام ہر فرد اپنے گھروں کے بند کمروں میں اور رات کی تاریکیوں
میں کرنے لگا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے انک کو
قاضی بنا کر یمن کے لئے روانہ فرمایا تو آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ جب
تمہارے سامنے کوئی مقدمہ اور قضیہ پیش ہوگا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو
گے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب ﴿قرآن مجید کی ہدایت﴾ کے
مطابق فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں تمہیں ﴿اس
بارے میں کوئی حکم اور ہدایت﴾ نہ ملے؟ ﴿تو کیا کرو گے﴾ انہوں نے عرض کیا کہ
پھر میں اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کروں گا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اور اگر
رسول اللہ ﷺ کی سنت میں تمہیں ﴿اس بارے میں﴾ حکم اور ہدایت نہ ملے ﴿تو کیا
کرو گے؟﴾ انہوں نے عرض کیا تو پھر میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لوں گا
اور اجتہاد کروں گا اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اُٹھا
نہ رکھوں گا۔ یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے ان کا سینہ ٹھونکتے ہوئے شاباشی
دی اور فرمایا حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے اپنے رسول کے فرستادہ کو اس
بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔ ﴿جامع ترمذی﴾
’’عدل و انصاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحبِ حق کا حق پورا پورا ادا کیا
جائے، اس کے عموم میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی داخل ہیں اور سب قسم کے
انسانی حقوق بھی، اس لئے ’’قیام بالقِسط ‘‘کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ
کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے،
مظلوم کی حمایت کی جائے، اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے اور
مظلوم کا حق دلوانے کے لئے شہادت کی ضرورت پیش آئے تو شہادت دینے سے گریز
نہ کیا جائے، اور یہ بھی داخل ہے کہ شہادت میں حق اور حقیقت کا اظہار کیا
جائے، خواہ کسی کے موافق پڑے یا مخالف، یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ
میں حکومت اور انتظام ہے جب دو فریق کاکوئی مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو تو
فریقین کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں، کسی ایک طرف کسی کا میلان نہ ہونے
دیں، گواہوں کے بیانات غور سے سنیں، معاملہ کی تحقیق میں اپنی پوری کوشش
خرچ کریں، پھر فیصلہ میں پورے پورے عدل و انصاف کا معاملہ رکھیں‘‘ ۔ ﴿معارف
القرآن﴾
حق تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے: ’’اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی
دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ
نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور
خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘
﴿مائدہ ۸﴾
عدل و انصاف کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بلا افراط و تفریط ایسا معاملہ
کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہو۔ انسان کو عدل سے روکنے کے عادتاًدو سبب ہوا
کرتے ہیں ایک اپنے نفس یا اپنے دوستوں، عزیزوں کی طرفداری۔ دوسرے کسی شخص
کی دشمنی یا عداوت۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے
کہ شدید محبت یا شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑے کو بے
انصافی کے وزن سے نہ جھکا سکے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ قیامت کے دن اللہ کے بندوں میں سب سے افضل اللہ کے نزدیک نرم خو، رحم دل
اور عادل و منصف سربراہِ حکومت ہوں گے ، اور بدترین درجہ میں سخت دل اور
ظالم وغیر منصف سربراہِ حکومت ہوں گے۔
دوسری طرف پورے ملک میں عدل و انصاف کا قیام اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کہ
جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار ہے۔ لہٰذا وہ پہلے اداِ امانات کا فریضہ صحیح
طور پر ادا کریں، یعنی حکومت کے عہدوں پر صرف انہی لوگوں کو مقرر کریں جو
صلاحیت کار اور امانت و دیانت کی رُو سے اس عہدہ کے لئے سب سے زیادہ بہتر
نظر آئیں، دوستی اور تعلقات یا محض سفارش یا رشوت کو آڑے نہ آنے دیں، ورنہ
نتیجہ یہ ہوگا کہ نا اہل ناقابلِ یا خائن اور ظالم لوگ عہدوں پر قابض ہو
جائیں گے، پھر اگر کوئی چاہے بھی کہ ملک میں عدل و انصاف کا رواج ہو تو ان
کے لئے نا ممکن ہو جائے گا، کیونکہ یہ عہدہ دارانِ حکومت ہی حکومت کے ہاتھ
پیر ہوتے ہیں، جب یہ خائن یا نااہل ہوئے تو عدل و انصاف قائم کرنا کیونکر
ممکن ہو سکتا ہے؟
ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی
ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق
کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے، نہ اس
کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے ‘‘﴿جمع
الفوائد﴾۔ بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا
حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل
اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول ﷺ کی اور سب مسلمانوں کی۔
آج یہ جو نظامِ حکومت کی ابتری نظر آتی ہے وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر
انداز کرنے کا نتیجہ ہے، کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم
کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نا اہل اور ناقابل لوگ عہدوںپر
قابض ہوکر خلقِ خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظامِ حکومت برباد ہو جاتا
ہے۔ اسی لئے حضور نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ’’جب دیکھو کہ
کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی ہے جو اس کام کے اہل اور
قابل نہیں تو ﴿اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں﴾ قیامت کا انتظار کرو‘‘. |