تعارف امیر اہلسنت اور امیر دعوت اسلامی
حضرت علامہ مولاناابوالبلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی
الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علٰی سید المرسلین اما بعد فاعوذ
باللہ من الشیطٰن الرجیم ط بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط
دورد پاک کی فضیلت
سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیع روز شمار، دو عالم کے مالک و
مختار، حبیب پروردگار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ رحمت نشان
ہے، “اے لوگوں ! بے شک بروز قیامت اس کی دہشتوں اور حساب کتاب سے جلد نجات
پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دورد
شریف پڑھے ہوں گے۔“ (فردوس الاخبار، الحدیث 8210، ج2، ص471 مطبوعہ دارالفکر
بیروت)
تعارفِ امیر اہلسنت مدظلہ العالی
شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیء دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال
محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی ولادتِ مبارکہ 26
رمضان المبارک 1369ھ بمطابق 1950ء میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ
کراچی میں ہوئی۔
آپ کے آباء و اجداد
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے آباء و اجداد ہند کے گاؤں “کتیانہ
(جوناگڑھ)“ میں مقیم تھے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کے دادا جان عبدالرحیم
علیہ رحمۃ اللہ الکریم کی نیک نامی اور پارسائی پورے “کتیانہ“ میں مشہور
تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ
کے والدین ماجدین ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے۔ ابتدا میں باب الاسلام
(سندھ) کے مشہور شہر حیدر آباد میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد
باب المدینہ (کراچی) میں تشریف لائے اور یہیں سکونت پذیر ہوئے۔
والد محترم
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے والد بزرگوار حاجی عبدالرحمٰن قادری
علیہ رحمۃ اللہ الھادی باشرع اور پرہیز گار آدمی تھے۔ اکثر نگاہیں نیچی رکھ
کر چلا کرتے تھے، انہیں بہت سی احادیث زبانی یاد تھیں۔ دنیاوی مال و دولت
جمع کرنے کا لالچ نہیں تھا۔ آپ علیہ رحمۃ اللہ الھادی سلسلہء عالیہ قادریہ
میں بیعت تھے۔
قصیدہ غوثیہ کی برکت
1979ء میں جب شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ “کولمبو“ تشریف
لے گئے تو وہاں کے لوگوں کو والد صاحب سے بہت متاثر پایا کیونکہ انہوں نے
وہاں کی عالیشان حنفی میمن مسجد کے انتظامات سنبھالے تھے اور اس مسجد کی
کافی خدمات بھی کی تھی۔ کولمبو میں قیام کے دوران امیر اہلسنت دامت برکاتہم
العالیہ کے خالو نے دورانِ گفتگو آپ کو بتایا کہ “میں نے خود اپنی آنکھوں
سے دیکھا ہے کہ جب کبھی چارپائی پر بیٹھ کر آپ کے والد صاحب رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ “قصیدہ غوثیہ“ پڑھتے تو ان کی چارپائی زمین سے بلند ہو جاتی
تھی۔ (سبحان اللہ عزوجل)
سفر حج کے دوران انتقال
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ شیر خوارگی ہی میں تھے کہ آپ کے والد
محترم 1370ھ میں سفر حج پر روانہ ہوئے۔ ایام حج میں منٰی میں سخت لو چلی جس
کی وجہ سے کئی حجاج کرام فوت ہو گئے، ان میں حاجی عبدالرحمٰن علیہ رحمۃ
المنان بھی شامل تھے جو مختصر علالت کے بعد 4 ذوالحجۃ الحرام 1370ھ کو اس
دنیا سے رُخصت ہو گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
الحمدللہ عزوجل ! حاجی عبدالرحمٰن علیہ رحمۃ المنان کس قدر خوش نصیب تھے کہ
وہ سفرِ حج کے دوران اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ سفر حج کے دوران انتقال کر جانے
والے کے بارے میں رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
“جو حج کیلئے نکلا اور مر گیا قیامت تک اس کیلئے حج کا ثواب لکھا جائے گا
اور جو عُمرہ کیلئے نکلا اور مر گیا اس کیلئے قیامت تک عُمرے کا ثواب لکھا
جائیگا اور جو جہاد میں مر گیا اس کیلئے قیامت تک غازی کا ثواب لکھا
جائیگا۔“ (المعجم الاوسط، الحدیث 5321، ج4 ص93، دارالفکر بیروت)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، “جو اس راہ میں حج یا عُمرہ کیلئے نکلا اور
مر گیا اس کی پیشی نہیں ہوگی، نہ حساب ہوگا اس سے کہا جائے گا تو جنّت میں
داخل ہو۔“ (مسند ابی یعلٰی الموصلی، مسند عائشہ، الحدیث 4589، ج4، ص152،
دارالکتب العلمیۃ بیروت)
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
ایمان افروز خواب
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی بڑی ہمشیرہ کا بیان ہے کہ ابا جان
علیہ رحمۃ المنان کے وصال کے بعد میں نے ایک مرتبہ یہ ایمان افروز خواب
دیکھا کہ “اباجان علیہ رحمۃ المنان ایک انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ کے
ساتھ تشریف لائے، میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے، بیٹی ! تم ان کو پہچانتی ہو ؟
یہ ہمارے مدنی آقا میٹھے میٹھے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہیں،
پھر شہنشاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ پر بہت شفقت کرتے
ہوئے فرمایا کہ تم بہت نصیب دار ہو۔
سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر میں تشرہف لاتے ہیں
میرے گھر میں بھی ہو جائے چراغاں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
ننھا سا دل بھر آیا
امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ایک مرتبہ کچھ اس طرح سے بتایا کہ
“میرے بچپن کے دنوں میں ایک بار گھر کے برآمدے کی طرف جاتے ہوئے اچانک میرے
دل میں یہ خیال آیا کہ “سبھی بچے کسی نہ کسی کی طرف پاپا، پاپا کہہ کر
بڑھتے ہیں اور اس سے لپٹ جاتے ہیں پھر ان کے پاپا انہیں گود میں اٹھا کر
پیار کرتے ہیں، انہیں شیرنی دلاتے ہیں اور کبھی کبھی کھلونے بھی دلاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش ! ہمارے گھر میں بھی باپا ہوتے، میں بھی ان سے لپٹتا اور
وہ مجھے پیار کرتے۔“ اس بے تاب آرزو کی وجہ سے میرا دل بھر آیا اور جگر
صدمے سے چُور چُور ہو گیا اور میں نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ میرے
رونے کی آواز سن کر میری بڑی ہمشیرہ جلدی سے وہاں آئیں اور اپنے ننھے یتیم
بھائی کو گود میں لیکر بہلانے لگیں۔
بڑے بھائی کا انتقال پُر ملال
والدِ محترم کے انتقال کے بعد محترم عبدالغنی صاحب جو امیرِ اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ کے ایک ہی بھائی تھے اور عمر میں آپ سے بڑے تھے، وہ بھی
ٹرین کے حادثہ میں انتقال فرما گئے۔
ایصالِ ثواب کی بہار
ایک مُبلغ کا بیان ہے کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ایک بار
دورانِ گفتگو ارشاد فرمایا کہ “بڑے بھائی صاحب کا 15 محرم الحرام 13961ھ
ٹرین کے حادثہ میں انتقال ہوا اور اسی سال جب ماہِ رمضان المبارک کی پہلی
پیر شریف آئی تو دوپہر کے وقت میری بڑی ہمشیرہ صاحبہ نے مجھ سے چند غیر
متوقع سوالات کئے۔ مثلاً ایک سوال یہ تھا کہ “کیا تم کل قبرستان گئے تھے ؟“
میں نے ذرا چونک کر کہا “جی ہاں“ (میرے چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ میری
ہمشیرہ کو تو صرف اتوار شام میرے قبرستان جانے کا علم تھا اور ماہِ رمضان
المبارک میں اتوار کو نمازِ مغرب کے بعد میری گھر پر موجودگی کی وجہ سے
شاید وہ یہ سمجھی ہوں گی کہ میں قبرستان نہیں گیا۔) ہمشیرہ کہنے لگیں کہ تم
مجھ سے چاہے کتنا ہی چھپاؤ مگر مرحوم بھائی جان نے مجھے خواب میں سب کچھ
بتا دیا ہے کہ تم کب کب قبرستان جاتے ہو، اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہاں تم
اسلامی بھائیوں کے ساتھ مل کر نعت خوانی بھی کرتے ہو۔ مزید کہا کہ بھائی
جان نے مجھے خواب میں اپنی قبر کے حالات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ “جب مجھے قبر
میں رکھا گیا تو ایک چھوٹ سا جانور میری طرف لپکا میں نے پاؤں کو زور سے
جھٹکا دے کر اسے ہٹا دیا، اس جانور کا ہٹنا تھا کہ خوفناک عذاب میری طرف
بڑھنے لگا، قریب تھا کہ وہ عذاب مجھ پر مسلط ہو جاتا کہ اتنے میں بھائی
الیاس کا کیا ہوا ایصالِ ثواب آ پہنچا اور وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل
ہو گیا۔ جب دوسری جانب سے عذاب بڑھنے لگا تو وہاں بھی الیاس بھائی کا
ایصالِ ثواب آڑ بن گیا۔ اسی طرح ہر طرف سے عذاب بڑھا مگر الحمدللہ عزوجل ہر
مرتبہ ایصالِ ثواب آڑ بن گیا۔ بالآخر تمام راہیں مسدود پاکر عذاب مجھ سے
دور ہو گیا۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ مرنے کے بعد مجھے میرا بھائی الیاس
کام آ گیا۔
میرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ
انہیں خُلد میں بسانا مدنی مدینے والے
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
والدہ ماجدہ
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی والدہ ماجدہ ایک نیک، صالحہ اور
پرہیزگار خاتون تھیں۔ جنہوں نے سخت ترین آزمائشوں میں بھی اپنے بچّوں کی
اسلامی خطوط پر تربیت کی جس کا منہ بولتا ثبوت خود امیرِ اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔
مادرِ مشفقہ کا انتقال
بھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد 17 صفر المظفر 1398ھ میں مادرِ
مشفقہ بھی انتقال فرما گئیں۔ ایسے اعصاب شکن حالات میں عموماً لوگوں کے
ہاتھ سے دامنِ صبر چھوٹ جاتا ہے اور ان کی زبان سے شکوہ و شکایت کے الفاظ
جاری ہو جاتے ہیں، امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے دل برداشتہ ہونے
کے بجائے اپنے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں
بصورتِ اشعار استغاثہ پیش کیا، ان میں سے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔
گھٹائیں غم کی چھائیں، دل پریشاں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
تمہیں ہو میرے درد و دکھ کا درماں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
میں ننھا تھا، چلا والد، جوانی میں گیا بھائی
بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں چلی ماں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
نسیمِ طیبہ سے کہہ دو دلِ مضطر کو جھونکا دے
بنے شامِ الم، صبح بہاراں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
سفینے کے پرخچے اڑ چکے ہیں زورِ طوفاں سے
سنبھالو ! میں بھی ڈوبا اے مری جاں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
کئی روز تک خوشبو آتی رہی
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ والدہ مشفقہ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہا کا شبِ جمعہ کو انتقال ہوا۔ الحمدللہ عزوجل کلمہ طیبہ اور
استغفار پڑھنے کے بعد زبان بند ہوئی۔ غسل دینے کے بعد چہرہ نہایت ہی روشن
ہو گیا تھا۔ جس حصہ زمین پر روح قبض ہوئی اس میں کئی روز تک خوشبو آتی رہی
اور خصوصاً رات کے اس حصہ میں جس میں انتقال ہوا تھا، طرح طرح کی خوشبوؤں
کی لپیٹیں آتیں۔ تیجا والے دن صُبح کے وقت چند گلاب کے پھول لاکر رکھے تھے
جو شام تک تقریباً تروتازہ رہے جو میں نے اپنے ہاتھ سے والدہ کی قبر پر
چڑھائے۔ یقین جانیں ان میں ایسی عجیب بھینی بھینی ٌخوشبو تھی کہ میں حیران
رہ گیا، کبھی میں نے گلاب کے پھولوں میں ایسی خوشبو نہیں سونگھی تھی نہ
ابھی تک سونگھی ہے بلکہ گھنٹوں تک وہ خوشبو میرے ہاتھوں سے بھی آتی رہی۔
آپ دامت برکاتہم العالیہ مذید ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سب پیارے آقا صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا صدقہ ہے، جس پر بھی سرکار مدینہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی میٹھی میٹھی اور مہکی مہکی نظر کرم ہو
جاتی ہے، وہ ظاہری و باطنی خوشبوؤں سے مہکنے لگتا ہے۔ اور پھر اس کی خوشبو
سے ایک عالم مہک اٹھتا ہے۔
ذرے جھڑ کر تری پیزاروں کے
تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا
بول بالے مری سرکاروں کے
الحمدللہ عزوجل ! امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی والدہ ماجدہ رحمۃ
اللہ علیھا پر رب عزوجل کا کتنا کرم ہے کہ ان کا انتقال کلمہ طیبہ اور
استغفار پڑھنے کے بعد ہوا۔ مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے، “جس کا آخر کلام لاالہ الااللہ
(یعنی کلمہء طیبہ) ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (سنن ابی داؤد، کتاب
الجنائز، باب فی التلقین، الحدیث 3116، ج3 ص255، داراحیاء التراث العربی
بیروت
امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی کا شوقِ علم
سرکارِ مدینہ، فیض گنجینہ، صاحب معطّر پسینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا، “اللہ تعالٰی جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ
عطا فرما دیتا ہے۔“ (صحیح بخاری، کتاب العلم، الحدیث71، ج1، ص42 دارالکتب
العلمیۃ بیروت)
امیر المؤمنین مولا مشکل کشا سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم سے
مروی ہے کہ رسول اکرم، نور مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: “جس نے دنیا سے بے رغبتی اختیار کی، اللہ تعالٰی اس
کو بغیر تعلیم حاصل کئے علم عطا فرما دیتا ہے اور بغیر ظاہری اسباب کے صحیح
راستہ چلاتا ہے اور اس کو صاحبِ بصیرت بنا دیتا ہے اور اس سے جہالت کو دور
فرماتا ہے۔“ (الجامع الصغیر، الحدیث 8725، ص528، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ دورِ شباب ہی میں علوم دینیہ کے زیور
سے آراستہ ہو چکے تھے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے حصولِ علم کے ذرائع میں
سے کتب بینی اور صحبت علماء کو اختیار کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ
استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقار الدین قادری رضوی علیہ
رحمۃ اللہ القوی سے کیا اور مسلسل 22سال آپ علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی صحبت
بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے حتٰی کہ انہوں نے قبلہ امیرِ اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ کو اپنی خلافت و اجازت سے بھی نوازا۔
مطالعہ کی لگن
الحمدللہ عزوجل ! کثرتِ مطالعہ، بحث و تمحیص اور اکابر علماء کرام سے تحقیق
و تدقیق کی وجہ سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مسائل شرعیہ اور تصوف و
اخلاق پر دسترس ہے۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ
رحمۃ اللہ القوی کی شہرہء آفاق تالیف “بہارِ شریعت“ کے تکرارِ مطالعہ کے
لئے آپ دامت برکاتہم العالیہ کے شوق کا علم دیدنی ہے، امام اہلسنّت، مجدد
دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے فتاوٰی کے عظیم
الشان مجموعے “فتاوٰی رضویہ“ کا مطالعہ آپ کا خاص شغفِ علمی ہے۔ حجۃ
الاسلام امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی کتب بالخصوص “احیاء
العلوم“ کو آپ زیرِ مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنے متوسلین کو بھی پڑھنے کی
تلقین فرماتے رہتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر اکابرین دامت فیوضہم کی کتب بھی
شامل مطالعہ رہتی ہیں۔ منجیات، مثلاً صبر، شکر، توکل، قناعت اور خوف و رجا
وغیرہ کی تعریفات و تفصیلات اور مہلکات مثلاً جھوٹ، غیبت، بغض، کینہ اور
غفلت وغیرہ کے اسباب و علاج آسان و سہل طریقے سے بیان کرنا آپ دامت برکاتہم
العالیہ کا خاصہ ہے۔
تحریر و تالیف
شہنشاہ مدینہ، قرار قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نزول سکینہ، فیض
گنجینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “جب آدمی مر جاتا
ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا
سلسلہ جاری رہتا ہے:۔ (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے
(3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ،
باب مایلحق الانسان، الحدیث 1631، ص886، دار ابن حزم بیروت)
علمائے کرام دامت فیوضہم نے اس حدیث میں بیان کردہ فضیلت کو پانے کے لئے
دیگر علمی کاموں کے ساتھ ساتھ کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ الحمدللہ عزوجل !
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ بھی صاحبِ قلم عالم دین ہیں۔ آپ دامت
برکاتہم العالیہ کوصفِ مصنفین میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ جس موضوع پر قلم
اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا یہی وجہ ہے کہ عوام و خاص دونوں آپ دامت
برکاتہم العالیہ کی تحریروں کے شیدائی ہیں اور آپ دامت برکاتہم العالیہ کی
کتب و رسائل کو نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو مطالعے کی تریب
دلانے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خرید کر مفت تقسیم بھی کرتے ہیں۔
کتب و رسائل اور تحریری بیانات
تادمِ تحریر درجنوں موضوعات پر آپ دامت برکاتہم العالیہ کی منفرد اسلوب کی
حامل متعدد کتب و رسائل اور تحریری بیانات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ مثلاًں
آپ کی مایہ ناز تالیف “فیضان سنّت“ (جلد اوّل) جو چار ابواب اور 1548 صفحات
پر مشتمل ہے،
(1) بسم اللہ شریف کے فضائل پر مشتمل “فیضان بسم اللہ“
(2) کھانے پینے کی سنتوں اور آداب پر مشتمل “آدابِ طعام“
(3) صحت مند رہنے کے اصولوں پر مبنی “پیٹ کا قفلِ مدینہ“
(4) ماہِ رمضان کے فضائل و مسائل کے لئے “فیضانِ رمضان“
اس کے علاوہ نماز، وضو، غسل، جنازہ وغیرہ کے شرعی احکام پر مشتمل “نماز کے
احکام“، کفریہ کلمات کی نشاندہی کرنے والا رسالہ “28 کلمات کفر“ وقت کی
اہمیت اجاگر کرنے کے لئے “انمول ہیرے“ غصے پر قابو پانے کے لئے “غصے کا
علاج“ اپنا ظاہر و باطن سنوارنے کے لئے “میں سدھرنا چاہتا ہوں“، “نیک بننے
کا نسخہ“ اور “گناہوں کا علاج“ قبر میں پیش آنے والے حالات سے آگاہی کے لئے
“قبر کا امتحان“، “مُردے کے صدمے“ ، “مُردے کی بے بسی“ خوابِ غفلت سے جگانے
کے لیے “غفلت“ شیطان کے جال سے بچنے کے لئے “شیطان کے چار گدھے“ توبہ کی
طرف مائل کرنے کے لئے “نہر کی صدائیں“، گانے باجے کی ہلاکتیں آ شکار کرنے
کیلئے “گانے باجے کی ہولناکیاں“ اور “ٹی وی کی تباہ کاریاں“ اَمرد پسندی کی
تباہ کاریاں“ حب دنیا کے علاج کے لئے “ویران محل“، “بادشاہوں کی ہڈیاں“،
حسن اخلاق کی برکتیں لٹانے کیلئے “میٹھے بول“، مسلمانوں میں عزت و احترام
کی فضا ہموار کرنے کیلئے “احترامِ مسلم“، مصائب و آلام پر صبر کرنے کا ذہن
بنانے کیلئے “خودکشی کا علاج“ راہِ خدا عزوجل میں قربانیاں دینے کا جذبہ
پانے کیلئے “جوشِ ایمانی“ ، “نابینا علمدار“ اور “ابو جہل کی موت“ ظلم و
ستم کی آندھیوں کو روکنے کیلئے “ظلم کا انجام“، پردے کی اہمیت اجاگر کرنے
کے لئے “پردے سے متعلق سوال و جواب“ اور “زخمی سانپ“، مسجدوں کو بدبو سے
بچانے کیلئے “مسجدیں خوشبودار رکھئے“ فتاوٰی رضویہ سے اخذ کردہ مدنی پھولوں
کی خوشبو سے معطر معطر “ذکر والی نعت خوانی“ نعت خوانی کی اجرت کے حکمِ
شرعی کے بیان کے لئے “نعت خوان اور نذرانہ“ آپس میں جھگڑے کے پائیدار حل کے
لئے “ناچاقیوں کا علاج“ شہیدِ کربلا رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظمت کے بیان
پر مشتمل رسالہ، “امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرامات“، اجارے کے
احکامِ شرعی کی معلومات کے لئے “ملازمین کے 21 مدنی پھول“ آسان ترین اسلوب
میں حج و عُمرہ کے تفصیلی مسائل کے لئے “رفیق الحرمین“ اور “رفیق
المعتمرین“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے علاوہ بھی آپ کی کثیر تالیفات اپنی بہاریں لٹا
رہی ہیں۔
آپ کی تحریر کی ایک نمایاں خصوصیّت یہ ہے کہ آپ دورانِ تحریر مشکل الفاظ پر
اعراب لگانے کا بھی التزام فرماتے ہیں جس کی وجہ سے کم پڑھے لکھے لوگوں کے
لئے بے حد آسانی ہو جاتی ہے۔ ایک اسلامی بھائی نے “فیضانِ رمضان“ میں کتاب
پڑھنے کی نیّتوں والے صفحہ پر لگائے گئے اعراب گنے تو ششدر رہ گئے کہ 378
سے زائد اعراب لگائے گئے تھے۔
مدنی بہاریں
الحمدللہ عزوجل! امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ان کتب و رسائل کی
برکت سے لاتعداد مسلمانوں کو توبہ نصیب ہوئی اور ان کی زندگیوں میں مدنی
انقلاب برپا ہوگیا، اس کی چند جھلکیاں “خوش نصیب میاں بیوی“ (مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ) نامی رسالے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ رسائلِ امیرِ اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ کی دو مدنی بہاریں آپ کے گوش گزار کی جاتی ہیں:۔
میں سدھرنا چاہتا ہوں
باب المدینہ (کراچی) کے ایک دکاندار اسلامی بھائی (جو اپنے پاس امیرِ
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے رسائل تحفے میں دینے کے لئے رکھا کرتے
تھے) نے بتایا کہ میرے پاس ایک نوجوان موبائل فون یہ کہہ کر بیچنے کے لئے
آیا کہ میں مجبوری کے تحت بیچ رہا ہوں۔ مگر مجھے شبہ ہوا ہے کہ شاید یہ
موبائل چرا کر یا کسی سے چھین کر لایا ہے، ورنہ اتنا سستا نہ بیچتا۔ بہرحال
میں نے موبائل خریدنے سے انکار کرتے ہوئے اسے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم
العالیہ کے تحریری بیان کا رسالہ “میں سدھرنا چاہتا ہوں“ تحفے میں پیش
کردیا۔ کچھ دیر بعد جب میں نماز ادا کر کے قریب ہی واقع مزار شریف پر حاضری
کے لئے پہنچا تو اسی نوجوان کو مزار کے احاطے میں بیٹھے دیکھا،اس کے ہاتھ
میں وہی رسالہ تھا۔ میں نے بعدِ سلام خیریت دریافت کی تو وہ دھیمے لہجے میں
کہنے لگا: “میں نے آپ کے پیش کردہ رسالہ کا مطالعہ کیا، اس نے مجھے لرزہ
دیا ہے، میری اس وقت عجیب حالت ہے، کبھی میں بھی سیدھا سادھا نوجوان تھا
مگر اب بُری صحبت کی وجہ سے معاشرے کا انتہائی بُرا فرد بن چکا ہوں، لوگوں
کو لوٹنا، چوریاں کرنا، ڈاکے ڈالنا میری عادت ہے، یہ موبائل فون بھی کسی سے
چھینا ہے اس بے چارے کا بار بار فون آ رہا ہے کہ کچھ رقم لے لو اور میرا
موبائل واپس کردو، آپ کے دئیے ہوئے رسالے کو پڑھ کر اس بُری زندگی کو
چھوڑنے کا ذہن بنا ہے۔“ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ دوبارہ موبائل پر بیل
بجی، اس نے اس مرتبہ فون بند کرنے کے بجائے مجھ سے میرا نام اور دکان کا
پتا معلوم کیا اور فون پر جواب دیا کہ میں تمہارا موبائل اس دکاندار کو دے
کر جا رہا ہوں، آ کر حاصل کر لو اور مجھے معاف کر دینا، مجھ میں یہ تبدیلی
رسالہ “میں سدھرنا چاہتا ہوں“ پڑھ کر آئی ہے اور اسی وجہ سے میں موبائل
واپس کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ پھر مجھے وہ موبائل دے کر لوٹ گیا اور میں امیرِ
اہلسنّت مدظلہ العالی کی پُر تاثیر تحریر کی برکات سے مستفیض ہونے والے خوش
نصیب نوجوان کو دیکھ رہا تھا۔
احترامِ مسلم
تحصیل ٹانڈا ضلع آمبیڈ کرنگر (یوپی ہند) کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح
بیان ہے کہ میں کفر کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہا تھا، ایک دن کسی نے امیرِ
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے تحریری بیان کا رسالہ احترامِ مسلم تحفے
میں دیا میں نے پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ جن مسلمانوں کو میں نے ہمیشہ
نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے ان کا مذہب “اسلام“ آپس میں اس قدر امن و آشتی کا
پیام دیتا ہے ! رسالے کی تحریر تاثیر کا تیر بن کر میرے جگر میں پیوست ہو
گئی اور میرے دل میں اسلام کی محبت اور میرے دل میں اسلام کی محبت کا دریا
موجیں مارنے لگا۔ ایک دن میں بس میں سفر کر رہا تھا کہ چند داڑھی اور عمامے
والے اسلامی بھائیوں کا قافلہ بھی بس میں سوار ہوا، میں دیکھتے ہی سمجھ گیا
کہ یہ مسلمان ہیں، میرے دل میں اسلام کی محبت تو پیدا ہوہی چکی تھی لٰہذا
میں احترام کی نظر سے انہیں دیکھنے لگا، اتنے میں ایک اسلامی بھائی نے نبی
پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعت شریف پڑھنی شروع کر دی،
مجھے اس کا انداز بے حد بھلا لگا، میری دلچسپی دیکھ کر ان میں سے ایک نے
مجھ سے گفتگو شروع کردی۔ وہ تاڑ گیا کہ میں مسلمان نہیں ہوں، اس نے مسکراتے
ہوئے بڑے دلنشین انداز میں مجھ سے کہا، میں آپ سے اسلام قبول کرنے کی
درخواست کرتا ہوں، میں رسالہ “احترامِ مسلم“ پڑھ کر چونکہ پہلے ہی دلی طور
پر اسلام کا گرویدہ ہو چکا تھا، اس کے عاجزانہ انداز نے دل پر مزید اثر
ڈالا، مجھ سے انکار نہ بن پڑا۔ الحمدللہ عزوجل یہ بیان دیتے وقت مسلمان
ہوئے مجھے چار ماہ ہو چکے ہیں میں پابندی سے نماز پڑھ رہا ہوں، داڑھی سجانے
کی نیّت کر لی ہے، دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر مدنی قافلوں
میں سفر کی سعادت بھی پا رہا ہوں۔
کافروں کو چلیں، مشرکوں کو چلیں
دعوت دین دیں قافلے میں چلو
دین پھیلائے، سب چلے آئیے
مل کے سارے چلیں قافلے میں چلو
سنتّوں بھرے بیانات
نیکی کی دعوت دینے کا ایک مؤثر ذریعہ بیان بھی ہے۔ الحمدللہ عزوجل ! امیرِ
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ بھی ان علماء میں سے ہیں جن کے بیانات سننے
والوں پر جادو کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ کے سنتّوں بھرے اصلاحی بیانات
کو سننے والوں کی محوّیت کا عالم قابلِ دید ہوتا ہے۔ تبلیغ قرآن و سنّت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنتّوں بھرے بین الاقوامی اور
صوبائی سطح کے اجتماعات میں بیک وقت لاکھوں مسلمان آپ کے بیان سے مستفیض
ہوتے ہیں، بذریعہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ، بیان سننے والوں کی تعداد اس کے
علاوہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے بیانات بذریعہ کیسیٹ گھروں، دکانوں،
مساجد، جامعات وغیرہ میں بھی نہایت شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بیانات کی ان
کیسیٹوں اور سی ڈیز کو مکتبۃ المدینہ شائع کرتا ہے۔ آپ کا انداز بیان بے حد
سادہ اور عام فہم اور طریقہ تفہیم ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے
دلم میں تاثیر کا تین بن کر پیوست ہو جاتا ہے۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات
کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پر آ چکے ہیں۔ آپ کے بیان کی ایک مدنی بہار
ملاحظہ ہو :۔
نمازی ڈاکو
باب المدینہ (کراچی) کے ایک ذمہ دار اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میرا ایک
جگری دوست بہت زیادہ ماڈرن جُوا اور شراب کا عادی اور معاذاللہ عزوجل
گناہوں میں بڑا دلیر تھا۔ کسی طرح باز نہ آتا تھا، یوں تو وہ باب المدینہ
(کراچی) سے تعلق رکھتا تھا مگر کاروبار کے لئے اس نے کولمبو میں مقامی
خاتون سے شادی کر رکھی تھی۔ ایک بار باب المدینہ سے کولمبو روانگی کے وقت
میں نے اس کے سامان میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے سنّتوں بھرے
بیان کی کیسٹ “نمازی ڈاکو“ ڈال دی۔
کولمبو پہنچ کر اس نے کیسٹ ٹیپ ریکارڈ میں لگائی۔ امیر اہلسنّت دامت
برکاتہم العالیہ کے الفاظ تاثیر بن کر اس کے جگر میں پیوست ہونے لگے۔ اس
بیان کی برکت سے اس میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب آ گیا۔ یہاں تک کہ
کولمبو جیسے فحاشی و عریانی سے بھرپور علاقے میں اس نے داڑھی اور سبز عمامہ
شریف کا مدنی تاج مستقل طور پر سجا لیا۔ دعوت اسلامی کے مدنی کاموں میں
مشغولیت اختیار کرلی اور امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے بیعت ہو کر
عطاری ہونے کی سعادت بھی پالی۔ 10 جولائی2003ء کو وہ بلند آواز سے کلمہ
طیبہ کا ورد کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے۔“
خوفِ خدا عزوجل
سورہء رحمٰن میں ارشاد رب العزت ہے:۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتن (پ27، الرحمٰن: 46)
ترجمہء کنزالایمان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو
جنتیں ہیں۔
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ عالم، نور
مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی
فرماتا ہے، “مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! میں اپنے بندے پر دو خوف جمع
نہیں کروں گا اور نہ اس کے لئے دو امن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے
بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلاء کروں گا اور اگر وہ دنیا
میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا۔“ (شعب
الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالٰی الحدیث 777، ج1، ص483 )
بچپن کی کیفیت
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے بچپن ہی سے خوفِ خدا عزوجل کی صفت
سے متصف ہیں چنانچہ ابھی آپ دامت برکاتہم العالیہ بہت چھوٹی عمر میں تھے کہ
کسی بات پر ہمشیرہ نے ناراض ہو کر یہ کہہ دیا کہ تم کو اللہ عزوجل مارے گا
(یعنی سزا دے گا) کم سن ہونے کے باوجود یہ سن کر آپ دامت برکاتہم العالیہ
خوفِ خدا عزوجل سے سہم گئے اور ہمشیرہ سے اصرار کرنے لگے: “بولو، اللہ
عزوجل مجھے نہیں مارے گا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بولو، اللہ عزوجل مجھے نہیں مارے گا،
۔۔۔۔۔۔ بولو، اللہ عزوجل مجھے نہیں مارے گا۔“ آخرِ کار ہمشیرہ سے یہ کہلوا
کر ہی دم لیا۔
رقّت آمیز فکرِ مدینہ
عَرب اَمارت میں تحریری کام کے دوران جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم
العالیہ کی نگاہ سے سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی یہ
تحقیق گزری کہ موت کی وجہ سے عقل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، صرف بدن اور
اعضاء میں تبدیلی آتی ہے۔ لٰہذا مُردہ زندوں ہی کی طرح عقلمند، سمجھدار اور
تکالیف و لذّات کو جاننے والا ہوتا ہے، عقل باطنی شے ہے اور نظر نہیں آتی۔
انسان کا جسم اگرچہ گل سڑ کر بکھر جائے پھر بھی عقل سلامت رہتی ہے۔ (احیاء
علوم الدین، کتاب ذکر الموت و مابعدہ، ج4، ص420، دارالفکر بیروت)
تو آپ فکرِ مدینہ میں ڈوب گئے کہ “بعدِ موت غسلِ میّت، تدفین اور منکر نکیر
کے سوالات کے جوابات کے وقت کی سختیاں اور ان عظیم آزمائشوں کے وقت عقل اور
محسوس کرنے کی صلاحیت جوں کی توں باقی رہے گی تو کیا حال ہوگا ؟“ یہ سوچ کر
آپ پر بڑی رقّت طاری ہوئی اور آپ پر خوفِ خدا عزوجل کا اس قدر غلبہ ہوا کہ
آپ نے بالکل خاموشی اختیار فرمالی اور بے قرار رہنے لگے۔
(کچھ عرصہ گزرنے کے بعد) آپ نے کچھ اس طرح سے فرمایا کہ “اس کیفیت کے باعث
میں نے محسوس کیا کہ ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ خوف خدا عزوجل سے کس قدر
لرزاں و ترساں رہا کرتے تھے، اب میں کھانا بھی کھا رہا ہوں، سو بھی رہا
ہوں، مگر ایسا لگتا ہے کہ کھانے کی لذّتیں اور سونے کا لطف جاتا رہا ہے، اب
کسی چیز میں مزہ نہیں آ رہا، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی غم لگ گیا ہے۔“ (یہی
وجہ ہے کہ) اکثر آپ کو کمرے میں تنہا مُناجات کرتے اور روتے ہوئے دیکھا
گیا۔ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے خوفِ خدا عزوجل سے معمور
بیانات “اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر“اور “مُردے کے صدمے“ وغیرہ سننے سے تعلق
رکھتے ہیں۔ |