ادارۂ شامنامہ کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں آخری قسط قسط نمبر۱۱

خوش قسمت ہے وہ ماں جس کے بطن سے خالد جیسافرزندپیداہوا

مختصر علالت کے بعداسلام کایہ بہادر سپاہی شہادت کی حسرت لئے اﷲ کوپیاراہوگیا۔حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کے وفات کی خبرآناًفاناًسارے عالم اسلام میں پہنچ گئی۔اہل مدینہ افسردہ ہوگئے ، خلیفۃ المسلمین کی آنکھیں بھی اشکبار ہوگئیں۔حمص والوں نے آپ کی آرام گاہ ’’شاہراہِ حَما‘‘ پرایک باغ میں مسجد بنائی جسے لوگ’’مسجد خالد بن ولیدرضی اﷲ عنہ‘‘کہتے ہیں۔آپ نے اٹھاون سال کی عمرپائی۔حضرت خالد کی وفات کے بعد جب ان کے اثاثے کاجائزہ لیاگیاتومعلوم ہواکہ آپ نے ایک غلام،ایک گھوڑااور چندہتھیاروں کے سواکچھ نہیں چھوڑا۔اﷲ اﷲ!دنیاکاسب سے بڑاجرنیل اور ذاتی اثاثے کی یہ کیفیت۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی زندگی کامقصدنہ ذاتی وجاہت تھااور نہ پُرتکلف زندگی۔بلکہ راہِ خدا میں شہادت کی طلب ہی ان کامقصد حیات تھا۔ان کی جان اﷲ کی راہ میں وقف تھی اور مال بھی اﷲ کی راہ میں صرف ہوا۔جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کوان کی وفات کی اطلاع ملی تو بے حد غمگین ہوئے اور انہوں نے فرمایا:’’مسلمانوں کوایک ایسانقصان پہنچاہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ ایسے جرنیل کہ اب شایدہی کوئی ان کی جگہ لے سکے ،وہ دشمن کے لئے مصیبت تھے‘‘۔(سیدناحضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ،ص۱۹)جب حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کاجنازہ اٹھایاگیاتوآپ کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہ بنت ولید اپنے بھائی کی مفارقت میں جگرخراش نالہ وفغاں کرتی تھیں۔اس وقت سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ بھی برداشت نہ کرسکے اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسونکل آئے۔سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا:’’اب مائیں خالد جیسافرزندجننے( دینے) سے معذور ہیں۔حضرت خالد کی موت ناقابل تلافی نقصان ہے۔اے ابوسلیمان خالدتجھے اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے نیک جزاعطاکرے،تونے اسلامی عظمت کوچار چاند لگادیے‘‘۔(نورانی حکایات،ص۵۳)

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کی والدہ کودیکھاکہ بیٹے کے غم میں ہڈیوں کاڈھانچہ رہ گئی تھیں۔آپ نے دریافت فرمایاکہ’’یہ کون بی بی ہیں جواس قدر مغموم وپریشان ہیں؟‘‘لوگوں نے عرض کیاکہ خالدرضی اﷲ عنہ بن ولیدکی والدہ ہیں۔آپ نے فرمایا:’’خوش قسمت ہے وہ ماں جس کے بطن سے خالد جیسافرزندپیداہوا۔پھرفرمایا:جب تک نعمت موجودہو،اس کی قدر کی جاتی لیکن جب وہ ضائع ہوجائے تو اس کی قدر ومنزلت پہچانی جاتی ہے‘‘۔ایک دفعہ عرب کاایک شاعر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ نے فرمایا’’مجھے خالد بن ولیدکے متعلق اپنے اشعار سناؤ‘‘۔وہ عرب کابہترین شاعر تھالیکن اشعار سننے کے بعدسیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:’’تم خالد کاحق ادا نہیں کرسکے‘‘۔(سیدناحضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ،ص۲۰)

حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کے تین بیٹے تھے۔سلیمان آپ کے بڑے بیٹے تھے جومصرکی جنگ میں لڑتے ہوئے شہیدہوئے۔عبدالرحمن جو۴۶؍ھ تک زندہ رہے،حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں کسی نے آپ کوزہردے دیاتھا۔ حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کاایک پوتابھی تھا،آپ کاہم نام تھا،خالدبن عبدالرحمن بن خالدبن ولید۔وہ بھی ان کی طرح بہادر تھے لیکن ان سے نسل آگے نہ بڑھ سکی ۔ (حضرت خالدرضی اﷲ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۴۳)یہ ایسی باتیں ہیں جوکسی بھی قوم کے ہیرواور دنیامیں کسی بھی جرنیل کی زندگی میں نہیں ملتی۔انسانیت کی پوری تاریخ میں صرف حضرت خالدرضی اﷲ عنہ ہی ایک ایسے جرنیل ہیں جنہوں نے سامانِ حرب کی کثرت اور ٹڈی دل دشمن سے کئی بڑی لڑائیاں حسن تدبیر اور شجاعت کے بل بوتے پرفتح کیں اور لکیر کافقیربن کر دوسروں کے بنائے ہوئے قاعدوں اور طریقوں کے مطابق بساطِ جنگ سجانے کی بجائے ایک مجتہد اور مخترع شان سے جنگ کے قاعدے اور نئے اسلوب وضع کئے۔اکثرلڑائیوں کے ذکر میں یہ بات ملے گی کہ انہوں نے اپنے لشکرکوچند قدم پیچھے ہٹاکرفتح حاصل کی۔بعض اوقات عام فوجی اصولوں کے خلاف بالکل معمولی طاقت کے ساتھ دشمن کی بڑی بڑی جماعتوں پرٹوٹ پڑے۔کبھی بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ہفتوں اور مہینوں کی راہ دنوں میں طے کرکے دشمن کی توقع اور اندازے کے بالکل خلاف اسے منزلوں آگے جالیا۔غرض کہ موقع اور ضرورت کے مطابق انہوں نے اپنے خود قاعدے بنالئے اور اس بات کی کبھی پروا نہیں کی کہ دنیاکے ماہرینِ جنگ نے ایسے مواقع کے لئے کیاتدابیربتائی ہیں۔

پھریہ بھی نہیں کہ اس مشہورمقولے کے مطابق’’جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے‘‘انہوں نے ہرچالاکی اور مکاری کوجائز سمجھاہو،صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں باہمی معاہدوں اور وعدوں کاجس قدرلحاظ حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کرتے تھے شاید ہی کسی اور قوم کے ہیرونے کیاہو۔اپنے عہدکاپاس،پاک بازی،فرض شناسی،بالغ نظری،موقع شناسی،اپنی جان کے مقابلے میں اپنے مشن سے محبت،ناقابل شکست اعتمادارو بے نظیرشجاعت،یہ تمام خوبیاں حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کے کردار میں بدرجۂ اتم نظرآتی ہیں۔انہوں نے اپنے مقصد کے مقابلے میں اپنی زندگی کوکبھی عزیز نہیں رکھا۔دوسرے جرنیلوں کی طرح قلب لشکرمیں محفوظ مقام پر رہ کراحکام صادر کرنے کی بجائے وہ ہمیشہ صف میں رہ کردشمن سے دست بدست جنگ کرتے تھے۔انہیں اسلام کی صداقت اور اپنی مہم کی کامیابی کااسی طرح یقین تھا جس طرح دوسرے دن سورج نکلنے کا۔وہ قبل از وقت دشمن کی جنگی چالوں کوسمجھنے میں اپناجواب نہ رکھتے تھے۔انہیں اپنے سپاہیوں کی جان اور عزت کاہروقت خیال رہتاتھا۔ان کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ لڑائی میں فتح ہو،بے غرضی اور اولی الامرکے ساتھ وفاداری کایہ عالم تھاکہ اپنی معزولی کی خبرسن کران کے تیور پربل تک نہیں آیااور نہ ان کی جدوجہداور جنگی مساعی میں فرق آیا۔یہی وہ خوبیاں ہیں،جن کی وجہ سے آج ہرایک مخالف کوکہناپڑتاہے کہ’’خالد دنیاکاسب سے بڑاجرنیل تھا‘‘۔

 

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675078 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More