’’سیف من سیوف اﷲ‘‘سیدناخالدبن ولید رضی اﷲ عنہ کی فتوحات کاراز قسط نمبر۹

دنیائے کفر سے ۱۲۵؍جنگیں لڑنے والامردِمیدان شہید کیوں نہیں ہوا؟

شفاء شریف کی روایت ہے،حضرت سیدناخالد رضی اﷲ عنہ اپنی فتوحات کاراز بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خوش قسمتی سے حضور اکرم نورمجسم ﷺکے موئے مبارک میرے پاس تھے،میں نے ان کواپنی ٹوپی میں آگے کی طرف سی رکھاتھا،ان مقدس بالوں کی برکت تھی کہ عمر بھرہرجہاد میں مجھے فتح ونصرت حاصل ہوتی رہی۔جنگ یرموک میں آپ للکارتے ہوئے لشکرِ کفار کی طرف بڑھے۔ادھر سے ایک پہلوان نکلاجس کانام ’’نسطور‘‘تھا۔دونوں میں دیرتک سخت مقابلہ ہوتارہاکہ آپ کاگھوڑا ٹھوکرکھاکرگرگیااور آپ زمین پرتشریف لے آئے اور آپ کی ٹوپی مبارک زمین پرجاپڑی۔نسطورموقع پاکرآپ کی پیٹھ پرآگیا۔اس وقت آپ پکار پکارکراپنے رفقاء سے فرمارہے تھے کہ میری ٹوپی مجھے دو،خداتم پررحم کرے۔ایک شخص جوآپ کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتاتھادوڑکرآیااور ٹوپی مبارک اٹھاکرآپ کوپیش کردی۔آپ نے اسے پہن لیااور نسطور کامقابلہ یہاں تک کیاکہ اسے جہنم رسیدکیا۔لوگوں کے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا:اس ٹوپی میں حضوراکرمﷺ کے بال مبارک ہیں جومجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، ہرجنگ میں ان مبارک بالوں کی برکت سے میں فتح یاب ہوتاہوں،اسی لئے میں بے قراری سے اپنی ٹوپی کی طلب میں تھا کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کی برکت میرے پاس نہ رہے اور وہ کافروں کے ہاتھ لگ جائے۔(طبرانی وابویعلیٰ،بحوالہ:موئے مبارک،ص۱۳)ایک اور روایت میں ہیکہ سیدناخالد رضی اﷲ عنہ تھوڑی سی فوج ساتھ لئے ملک شام میں ’’جبلہ ‘‘ کی قوم کے مقابلے کے لئے گئے اور ٹوپی مبارک گھرمیں بھول گئے،جب مقابلہ ہواتورومیوں کابڑاافسر ماراگیا،اس وقت جبلہ نے تمام لشکرکوحکم دیاکہ مسلمانوں پریکبارگی سخت حملہ کردو،حملے کے وقت صحابۂ کرام کی حالت انتہائی نازک ہوگئی،یہاں تک کہ سیدنارافع بن عمرطائی رضی اﷲ عنہ نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ سے کہا: آج معلوم ہوتاہے کہ ہماری قضاآگئی ہے۔حضرت خالد نے کہا:سچ کہتے ہو،اس لئے کہ آج میں ٹوپی گھر بھول آیاہوں،ادھر تویہ حالت تھی اور ادھراسی رات مدینے کے تاجدار مصطفی کریم ﷺسیدناابوعبیدہ بن الجراح رضی اﷲ عنہ (جولشکراسلام کے امیر تھے)کے خواب میں تشریف فرماہوئے اور آپﷺنے فرمایا:تم اس وقت سورہے ہواٹھواور خالد کی مددکوپہنچو،کفار نے ان کوگھیرلیاہے۔آپ اسی وقت اٹھے اور لشکر میں اعلان کردیاکہ فوراًتیار ہوجاؤ۔راستے میں انہوں نے ایک سوار کودیکھاجوگھوڑادوڑائے ہوئے ان کے آگے آگے جارہاتھا،چندتیزرفتار سواروں کوحکم دیاگیاکہ اس کاحال معلوم کرو۔سوار جب قریب پہنچے توپکارکرکہا:اے جواں مردسوار!ذراٹھہرو!یہ سنتے ہی وہ ٹھہرگیا،دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ وہ حضرت خالد کی زوجۂ محترمہ تھیں،حضرت ابوعبیدہ کے دریافت کرنے پر انہوں نے کہاکہ اے امیر!جب راتوں کومیں نے سنا کہ آپ نے لشکراسلام کونہایت بے تابی سے حکم فرمایاکہ سیدناخالد کودشمنوں نے گھیرلیاہے تومیں نے خیال کیاکہ وہ کبھی ناکام نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ رسول گرامی وقارﷺ کے موئے مبارک ہیں۔لیکن جوں ہی میں نے دیکھاتومیری نظران کی ٹوپی پر پڑی جس میں موئے مبارک تھے۔مجھے نہایت ہی افسوس ہوااور میں اسی وقت چل پڑی کہ کسی طرح اس ٹوپی مبارک کوان تک پہنچادوں۔امیرقافلہ نے فرمایا:جلدی جاؤ خداتمہیں برکت دے۔سیدنارافع بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:حالت یہ تھی کہ ہم اپنی زندگیوں سے بالکل مایوس ہوگئے تھے کہ اچانک تکبیرکی آوازآئی۔حضرت خالد نے جب آوازکی سمت نظرفرمائی توکیادیکھتے ہیں کہ ایک سوار آرہاہے،آپ اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا:تم کون ہو؟انہوں نے جواب دیاکہ میں تمہاری بیوی ’’ام تمیم‘‘ہوں،تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے دشمنوں پر فتح پایاکرتے ہو۔راویٔ حدیث قسم کھاکرکہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ٹوپی مبارک پہن کرجب کفار پرحملہ کیاتو لشکرِکفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں کوفتح حاصل ہوگئی۔صحابۂ کرام کے نزدیک ان مقدس بالوں کی کتنی قدروشان تھی،اور پھروہ جلیل القدر صحابی جن کوشاہِ امم نے ’’سیف من سیوف اﷲ‘‘(اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار)کے نورانی خطاب سے نوازا۔ان کی یہ حالت ہے کہ ایسے نازک وقت میں جبکہ دشمن خنجر بکف ان کے سر پرتھا،بڑی بے تابی سے ٹوپی طلب فرمارہے ہیں اور صاف صاف فرمارہے ہیں کہ میری ساری فتوحات کاباعث یہی ٹوپی مبارک ہے ۔یہ موئے مبارک کااعجاز ہے کہ ہرمعرکہ پران کی برکت سے فتح وکامرانی سیدناخالد بن ولید کے قدم چومتی رہی۔معلوم ہواکہ تبرکات نبوی ہرمحاذ پر فتح وکامرنی کی ضمانت ہے۔جب موئے مبارک کی تاثیراتنی بااثرہے تو سراپائے رسولﷺکس قدر مؤثرہوگا۔ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ نبی کے قدم تک پہنچ جاناہی اصل کامیابی ہے،اسی میں فتح ونصرت کارازمضمرہے۔ مزید کہتے ہیں کہ میرے اس جملے پرکسی کو تعجب نہیں ہوناچاہئے اس لیے کہ فرمایاگیاکہ ماں قدموں کے نیچے جنت ہے۔جب ماں کے قدموں کایہ عالم ہے تو رسول کائنات ﷺکے قدموں کی کیاشان ہوگی۔اسی لیے دیوان گان عشق مصطفیﷺمصیبتوں،تکلیفوں اور پریشانیوں میں اپنے نبی محترم سے امدادطلب کرتے ہیں اور مولیٰ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبرکے صدقے اپنے بندوں کی مرادوں کوپوری بھی فرماتاہے۔

شہادت کی آرزو
قبول اسلام کے بعدحضرت خالدرضی اﷲ عنہ نے بے شمار جنگیں لڑیں اور معزولی کے بعدچارسال تک غیرفوجی زندگی گزاری۔۲۱؍ھ(۶۴۲ء)میں آپ علیل ہوئے۔خلافت فارقی کے پانچویں یاچھٹے سال آپ کادوست آپ کی عیادت کے لیے آیا،حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کوکچھ سوچ کرروناآگیا،دوست نے دریافت کیا:آپ کیوں روتے ہو؟کیادنیاکاسب سے بڑاجرنیل موت سے خوفزدہ ہے ؟ توفرمایا:افسوس تم میری بے چینی کاسبب غلط سمجھے ہو۔میں نے جب سے رسول اﷲ ﷺکے ہاتھوں میں ہاتھ دیاہے،بیسیوں جنگیں لڑیں ہیں اور ہرجنگ میں اس آرزوکولے کرگیاہوں کہ مجھے میدان جنگ میں شہادت نصیب ہو،لیکن آہ!!میری یہ آرزوپوری نہ ہوسکی،میں موت کوہرمیدان میں ڈھونڈتارہااور وہ مجھ سے بھاگتی رہی،آخرآج اس نے مجھے بستر پرآگھیراہے۔میراجسم کھول کردیکھو،کہیں چپہ بھرجگہ نہ ملے گی جس پرتیر،تلوار،نیزے یاخنجرکازخم نہ ہو۔بزدلوں پرحیف ہے کہ وہ ہرروز مرتے ہیں لیکن بہادروں کی موت صرف ایک دفعہ واقع ہوتی ہے۔دوست نے کہا:خالد تمہیں یادہوگاحضور اکرمﷺ نے تمہیں’’سیف اﷲ‘‘کالقب دیاتھااگرکوئی دشمن تمہیں شہیدکردیتاتواس کامطلب یہ ہوتاکہ دشمن نے اﷲ کی تلوارتوڑدی ہے اور یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔(حضرت خالدرضی اﷲ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۴۲،نورانی حکایات ، ص؍۵۳)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674974 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More