ظلم کا انجام حصہ اول

موتیوں والا تاج
“ القول البدیع “ میں ہے، حضرت سیدنا شیخ احمد بن منصور ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) کو بعد وفات کسی نے خواب میں اس حال میں دیکھا کہ وہ جنتی حلہ زیب تن کئے موتیوں والا تاج سر پر سجائے شیراز کی جامع مسجد کی محراب میں کھڑے ہیں، خواب دیکھنے والے نے پوچھا! ما فعل اللہ بک ؟ یعنی اللہ ( عزوجل ) نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ کہا اللہ ( عزوجل ) نے مجھے بخش دیا، میرا اکرام فرمایا اور موتیوں والا تاج پہنا کر داخل جنت کیا۔ پوچھا، کس سبب سے ؟ فرمایا، الحمدللہ ( عزوجل ) میں محبوب رب الانام ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) پر کثرت سے درود و سلام پڑھا کرتا تھا یہی عمل کام آ گیا۔
صلو علی الحبیب! صلی اللہ علٰی محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم )

خوفناک ڈاکو
شیخ عبداللہ شافعی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں۔ ایک بار میں شہر بصرہ سے ایک قریہ ( یعنی گاؤں ) کی طرف جا رہا تھا۔ دوپہر کے وقت یکایک ایک کریہہ صورت خوفناک ڈاکو ہم پر حملہ آور ہوا۔ میرے رفیق کو اس نے شہید کر ڈالا، ہمارا مال و متاع چھین کر میرے دونوں ہاتھ رسی سے باندھے، مجھے زمین پر ڈالا اور فرار ہو گیا۔ میں نے جوں توں ہاتھ کھولے اور چل پڑا مگر پریشانی کے عالم میں رستہ بھول گیا۔ یہاں تک کہ رات آگئی۔ ایک طرف آگ کی روشنی دیکھ کر میں اسی سمت چل دیا۔ وہاں مجھے ایک خیمہ نظر آیا۔ میں شدت پیاس سے نڈھال ہو چکا تھا۔ لٰہذا خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر میں نے صدا لگائی العطش! العطش ! یعنی ہائے پیاس! ہائے پیاس ! اتفاق سے وہ خیمہ اسی خوفناک ڈاکو کا تھا میری پکار سن کر بجائے پانی کے ننگی تلوار لئے وہ باہر نکلا اور چاہا کہ ایک ہی وار میں میرا کام تمام کر دے۔ اس کی بیوی آڑے آئی۔ مگر وہ نہ مانا اور مجھے گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے آیا اور میرے سینے پر چڑھ گیا میرے گلے پر تلوار رکھ کر مجھے ذبح کرنے ہی والا تھا کہ یکایک جھاڑیوں کی طرف سے ایک شیر دہاڑتا ہوا برآمد ہوا۔ شیر کو دیکھ کو خوف کے مارے ڈاکو دور جا گرا، شیر نے جھپٹ کر اسے چیر پھاڑ ڈالا اور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ میں اس غیبی امداد پر خدا ( عزوجل ) کا شکر بجا لایا۔
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے

ظالم کو مہلت ملتی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! دیکھا آپ نے ؟ ظلم کا انجام کس قدر بھیانک ہے۔ حضرت سیدنا محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “ صحیح بخاری “ میں نقل کرتے ہیں، حضرت سیدنا ابو موسٰی اشعری ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے روایت ہے، سرکار مدینہ منورہ، سردار مکہ مکرمہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، بے شک اللہ ( عزوجل ) ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے تو پھر اس کو نہیں چھوڑتا۔ یہ فرما کر سرکار نامدار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے سورہ ء ہود کی آیت 102 تلاوت فرمائی :-
وکذٰلک اخذ ربک اذا اخذ القرٰی وھی ظالمۃ ط ترجمہ کنزالایمان: “ اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب ( عزوجل ) کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر۔“ بہرحال لوگوں پر ظلم کرنا بہت سخت گناہ، دنیا و آخرت کی بربادی کا سبب اور عذاب جہنم کا باعث ہے۔ اس میں اللہ و رسول ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی بھی ہے اور بندوں کی حق تلفی بھی۔ جس خوفناک ڈاکو کا ابھی آپ نے تذکرہ سماعت فرمایا۔ وہ لوٹ مار کی خاطر قتل ناحق بھی کرتا تھا دنیا ہی میں اس نے ظلم کا انجام دیکھ لیا۔ نہ جانے اب اس کی قبر میں کیا ہو رہا ہوگا! نیز آخرت کا معاملہ ابھی باقی ہے۔ آج بھی عموماً ڈاکو مال کے لالچ میں قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھئے! قتل مسلم انتہائی بھیانک جرم ہے۔

اوندھے منہ جہنم میں۔ ۔ ۔ ۔
حضرت سیدنا محمد بن عیسٰی ترمذی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) اپنے مشہور مجموعہ احادیث “ ترمذی “ میں حضرات سیدنا ابو سعید خدری و ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہم ) سے نقل کرتے ہیں، “ اگر تمام آسمان و زمین والے ایک مسلمان کا خون کرنے میں شریک ہو جائیں تو اللہ ( عزوجل ) ان سبھوں کو منہ کے بل اوندھا کرکے جہنم میں ڈال دےگا۔ “

آگ کی بیڑیاں
اے لوگوں کا مال ناحق دبا لینے والو! ڈکیتیاں کرنے والو! چٹھیاں بھیج کر رقموں کا مطالبہ کرنے والو! کان کھول کر سن لو آج تو مال حرام بآسانی گلے کے نیچے اترتا ہوا محسوس ہو رہا ہے مگر بروز قیامت سخت مصیبت میں پڑ جاؤ گے! سنو ! سنو ! حضرت سیدنا فقہیہ ابواللیث سمر قندی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) “ قرۃ العیون “ میں نقل کرتے ہیں، اللہ ( عزوجل ) کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن کل عیوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) فرما رہے ہیں، بے شک پل صراط پر آگ کی بیڑیاں ہیں۔ جس نے حرام کا ایک درھم بھی لیا اس کے پاؤں میں آگ کی بیڑیاں ڈالی جائیں گی۔ جس کے سبب اسے پل صراط پر گزرنا دشوار ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اس درھم کا مالک اس کی نیکیوں میں سے اس کا بدلہ نہ لے لے اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو وہ اس کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے گا اور جہنم میں گر پڑے گا۔

مفلس کون ؟؟
حضرت سیدنا مسلم بن حجاج قشیری ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) اپنے مشہور مجموعہ حدیث “ صحیح مسلم “ میں نقل کرتے ہیں، سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار، رسولوں کے سالار، نبیوں کے سردار، ہم غریبوں کے غمگسار، ہم بیکسوں کے مددگار، شفیع روز شمار جناب احمد مختار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے استفسار فرمایا، کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ صحابہ کرام ( علیہم الرضوان ) نے عرض کیا، یارسول اللہ! ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) ہم میں سے جس کے پاس دراھم و سامان نہ ہوں وہ مفلس ہے۔ فرمایا، “ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزے اور زکوۃ لے کر آیا اور یوں آیا کہ اسے گالی دی، اس پر تہمت لگائی، اس کا مال کھایا، اس کا خون بہایا، اسے مارا۔ تو اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور کچھ اس مظلوم کو۔ پھر اگر اس کے ذمہ جو حقوق تھے ان کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں تو ان مظلوموں کی خطائیں لیکر اس ظالم پر ڈال دی جائیں پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے۔“

لرز اٹھو !
اے نمازیو! اے روزہ دار ! اے حاجیو ! اے سخاوتیں کرنے والو! اے نیک صورت آنے والو مالدارو! ڈر جاؤ! لزر اٹھو! حقیقت میں مفلس وہ ہے جو نماز، روزہ، زکوٰۃ و صدقات، سخاوتوں، فلاحی کاموں اور بڑی بڑی نیکیوں کے باجود قیامت میں خالی کا خالی رہ جائے گا۔ جن کو کبھی گالی دے کر، کبھی بلا اجازت شرعی ڈانٹ کر، بے عزتی کر کے، ذلیل کرکے، مار پیٹ کرکے، عاریۃً چیزیں لیکر واپس نہ لوٹا کر، قرض دبا کر، دل دکھا کر ناراض کر دیا ہوگا۔ وہ ا س کی ساری نیکیاں لے جائیں گے اور نیکیاں ختم ہو جانے کی صورت میں ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر داخل جہنم کر دیا جائے گا۔

“ صحیح مسلم شریف “ میں ہے، اللہ ( عزوجل ) کے محبوب دانائے غیوب، منزہ عن کل عیوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان عبرت نشان ہے، “ تم لوگ حقوق، حق والوں کے سپرد کر دو گے حتٰی کہ بے سینگ والی کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔“ مطلب یہ کہ اگر تم نے دنیا میں لوگوں کے حقوق ادا نہ کئے تو لامحالہ قیامت میں ادا کرو گے، یہاں دنیا میں مال سے اور آخرت میں اعمال سے لٰہذا بہتری اسی میں ہے کہ دنیا ہی میں ادا کر دو ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ نیز اگر دنیا میں سینگ والی بکری نے بے سینگ کی بکری کو سینگ گھونپا تو قیامت میں اس کے سینگ بے سینگ والی کو دے دئیے جائیں گے اور وہ سینگ گھونپ کر بدلہ لے گی۔ مرآۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے، جانور اگرچہ شرعی احکام کے مکلف نہیں ہیں مگر حقوق العباد جانوروں کو بھی ادا کرنے ہوں گے۔ اللہ ( عزوجل ) کا خوف رکھنے والے حضرات حقوق العباد کے بظاہر معمولی نظر آنے والے معاملات میں بھی ایسی احتیاط کرتے ہیں کہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں چنانچہ

آدھا سیب
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) نے ایک باغ کے اندر نہر میں سیب دیکھا۔ اٹھایا اور کھا لیا۔ کھاتے تو کھا لیا مگر پھر پریشان ہو گئے کہ یہ میں نے کیا کیا! میں نے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کیوں کھایا! اگر بروز قیامت اس کے بدلے نیکیاں دینی پڑ گئیں تو کیا کروں گا؟ چنانچہ تلاشتے ہوئے باغ تک پہنچے باغ کی مالکہ ایک خاتون تھیں۔ ان سے آپ نے معذرت طلب فرمائی۔ اس نے عرض کیا، یہ باغ میرا اور بادشاہ کا مشترکہ ہے۔ میں اپنا حق معاف کرتی ہوں لیکن بادشاہ کا حق معاف کرنے کی مجاز نہیں۔ بادشاہ بلخ میں تھا لٰہذا سیدنا ابراہیم بن ادھم ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) نے آدھا سیب معاف کروانے کیلئے بلخ کا سفر اختیار کیا اور معاف کروا کر ہی دم لیا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت میں بغیر پوچھے دوسروں کی چیزیں ہڑپ کر جانے والوں، اناج کی دکانوں سے بغیر اجازت دانے وغیرہ پھانکنے والوں، سبزیوں اور پھلوں کی ریڑھیوں سے چپ چاپ کچھ نہ کچھ اٹھا کر اپنی ٹوکری میں ڈال لینے والوں کیلئے عبرت ہی عبرت ہے۔ بظاہر معمولی نظر آنے والی شے بھی اگر بغیر اجازت استعمال کر ڈالی اور قیامت کے روز پکڑے گئے تو کیا بنے گا؟ چنانچہ حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) “ تنبیہ المغرتین “ میں نقل کرتے ہیں،

ایک تنکے کا وبال
حضرت سیدنا وہب بن منبہص فرماتے ہیں، ایک اسرائیلی نوجوان نے تمام گناہوں سے توبہ کی، ستر سال تک لگا تار اس طرح عبادت کرتا رہا کہ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو جاگ کر عبادت کرتا۔ نہ کوئی عمدہ غذا کھاتا نہ کسی سایہ کے نیچے آرام کرتا۔ اس کے انتقال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا اللہ ( عزوجل ) نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ جواب دیا: “ اللہ ( عزوجل ) نے میرا حساب لیا، پھر سارے گناہ بخش دئیے مگر ایک تنکا جس سے میں نے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر دانتوں میں خلال کر لیا تھا وہ معاف کرانا رہ گیا تھا اس کی وجہ سے جنت سے روک دیا گیا ہوں۔“

سات سو باجماعت نمازیں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ذرا غور تو کیجئے ! ایک معمولی تنکا جنت میں داخلہ سے مانع ہو گیا! کیوں کہ یہ اجازت کے بغیر لے لیا تھا۔ ہاں ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد وہاں سے بغیر پوچھے تنکا ( Tooth Pik ) لے سکتے ہیں کہ وہ کھانا کھانے والوں ہی کیلئے رکھتے ہیں مگر جس نے صرف چائے پی وہ نہ لے کہ چائے دانتوں میں پھنستی نہیں۔ بہرحال تنکے کی تو بات ہی کیا ہے! آج کل تو لوگ بغیر دعوت کے دوسروں کے یہاں کھانا ہی کھا ڈالتے ہیں! اور قرض کے نام پر لوگوں کے ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ابھی تو یہ سب آسان لگ رہا ہوگا۔ لیکن قیامت میں بہت مہنگا پڑ جائے گا۔ اے لوگوں کا قرضہ دبا لینے والو! کان کھول کر سنو! میرے آقا اعلٰی حضرت ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) نقل کرتے ہیں، “ جو دنیا میں کسی کے تین پیسے قرضہ دبا لے گا بروز قیامت اس کے بدلے سات سو باجماعت نمازیں دینی پڑ جائیگی۔“ جی ہاں! جو کسی کا قرضہ دبا لے وہ ظالم ہے۔ اور سخت خسارے میں ہے، حضرت سیدنا سلیمان طبرانی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) اپنے مجموعہ حدیث الموسوم “ طبرانی “ میں نقل کرتے ہیں، سرکار مدینہ منورہ، سردار مکہ مکرمہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے، “ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو، مظلمو کے گناہ ظالم کو دلوائے جائیں گے۔“

فرشتے دعا کرتے ہیں
قرض کی بات چلی ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) “ کیمیائے سعادت “ میں نقل کرتے ہیں، جو شخص قرض لیتا ہے اور یہ نیت کرتا ہے کہ میں اچھی طرح ادا کر دوں گا۔ تو اللہ ( عزوجل ) اس کی حفاظت کیلئے اس پر چند فرشتے مقرر فرما دیتا ہے۔ اور وہ دعاء کرتے ہیں کہ اس کا قرض ادا ہو جائے۔ اور اگر قرضدار قرض ادا کر سکتا ہو تو قرض خواہ کی مرضی کے بغیر اگر ایک گھڑی بھر بھی تاخیر کرے گا تو گنہگار اور ظالم قرار پائے گا۔ خواہ روزے کی حالت میں ہو یا نیند کر رہا ہو اس کے ذمہ گناہ لکھا جاتا رہے گا۔ ( گویا ہر حال میں گناہ کا میٹر چلتا ہی رہے گا ) اور بہر صورت اس پر اللہ ( عزوجل ) کی لعنت پڑتی رہے گی۔ یہ تو ایسا گناہ ہے کہ نیند کی حالت میں بھی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اگر اپنا سامان بیچ کر قرض ادا کر سکتا ہے تب بھی کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کریگا تو گنہگار ہے اگر قرض کے بدلے ایسی چیز دے جو قرض خواہ کو ناپسند ہو تب بھی دینے والا گنہگار ہوگا اور جب تک اسے راضی نہیں کرے گا اس ظلم کے جرم سے نجات نہیں پائے گا کیوں کہ اس کا یہ فعل کبیرہ گناہوں میں سے ہے مگر لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں۔“

غیرتمندی کا تقاضا
افسوس صد ہزار افسوس ! جب مطلب ہوتا ہے تو خوشامد اور جھوٹے وعدے کرکے لوگ قرضہ حاصل کر لیتے ہیں مگر پھر ادا کرنے کا نام نہیں لیتے۔ غیرتمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس سے قرضہ لیا ہے اپنے اس محسن کے گھر جلد تر جاکر شکریہ کے ساتھ قرض ادا کر آتے۔ مگر آج کل حالت یہ ہے کہ اگر قرض ادا کرنا بھی ہے تو بے چارے قرض خواہ کو خوب دھکے کھلا کھلا کر، رلا رلا کر قرض لوٹایا جاتا ہے۔ یاد رکھئے! بلا وجہ قرض خواہ کو دکھے کھلانا بھی ظلم ہے۔ عام طور پر بیوپاریوں کی عادت ہوتی ہے کہ رقم گلے میں موجود ہونے کے باوجود شام کو لے جانا، کل آنا وغیرہ کہہ کر ٹرخاتے اور دکھے کھلاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم کتنا عظیم گناہ اپنے سر لے رہے ہیں اگر شام کو قرض چکانا ہی ہے تو ابھی صبح کے وقت چلا دینے میں حرج ہی کیا ہے !

نیکیوں کے ذریعے مالدار
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بندوں کی حق تلفی بہت زیادہ نقصان دہ ہے، حضرت سیدنا احمد بن حرب ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) فرماتے ہیں، کئی لوگ نیکیوں کی کثیر دولت لئے دنیا سے مالدار رخصت ہوں گے مگر بندوں کی حق تلفیوں کے باعث اپنی ساری نیکیاں کھو بیٹھیں گے یوں غریب و نامدار ہو جائیں گے۔
حضرت سیدنا شیخ ابو طالب محمد بن عطیہ حارثی المکی ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) “ قوت القلوب “ میں فرماتے ہیں، “ زیادہ تر ( اپنے نہیں بلکہ ) دوسروں کے گناہ ہی دوزخ میں داخلے کا باعث ہوں گے جو ( حقوق العباد تلف کرنے کے سبب ) انسان پر ڈال دئیے جائیں گے۔ نیز بے شمار افراد دوسروں کی نیکیاں حاصل کرکے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“ ظاہر ہے دوسروں کی نیکیاں حاصل کرنے والے وہی ہوں گے جن کی دنیا میں دل آزاریاں اور حق تلفیاں ہوئی ہوں گی۔ یوں مظلوم اور دکھیارے فائدے میں رہیں گے۔

اللہ و رسول ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کو ایذا دینے والے
حقوق العباد کا معاملہ بڑا نازک ہے مگر آہ آج کل بےباکی کا دور دورہ ہے عوام تو کجا خواص کہلانے والے بھی عموماً اس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ غصہ کا مرض عام ہے اس کی وجہ سے اکثر خواص بھی لوگوں کی دل آزاری کر بیٹھتے ہیں اور اس کی طرف ان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی کسی مسلمان کی بلاوجہ شرعی دل آزاری کبیرہ گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ میرے آقا اعلٰیحضرت ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) فتاوٰی رضویہ شریف میں طبرانی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں، سلطان دو جہاں ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان عبرت نشان ہے، “ من آذٰی مسلما فقد آذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اللہ “، “ جس نے ( بلا وجہ شرعی ) کسی مسلمان کو ایذاء دی اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ ( عزوجل ) کو ایذاء دی۔“ اللہ و رسول ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کو ایذاء دینے والوں کے بارے میں اللہ ( عزوجل ) پ 23 سورۃ الاحزاب آیت 57 میں ارشاد فرماتا ہے !
ان الذین یئوذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الاٰخرۃ و اعدلھم عذابا مھینا ہ
ترجمہ کنزالایمان: بے شک جو ایذاء دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ ( عزوجل ) کی لعنت ہے۔
دنیا و آخرت میں اور اللہ ( عزوجل ) نے ان کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

دل ہلا دینے والی خارش
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر آپ کبھی کسی مسلمان کی بلاوجہ شرعی دل آزاری کر بیٹھے ہیں تو آپ چاہے کتنے ہی بڑے رتبے کے مالک ہیں، یا اس سے کیسا ہی قریبی رشتہ ہے، بڑے بھائی ہیں، والد ہیں، سسر ہیں یا صدر ہیں وزیر ہیں، شوہر ہیں، استاذ ہیں، پیر ہیں، امام و خطیب ہیں، کچھ بھی ہیں بغیر شرمائے اس بندے کو راضی کر لیجئے ورنہ جہنم کا ہولناک عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ حضرت سیدنا یزید بن سمرہ ( رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) فرماتے ہیں جس طرح سمندر کے کنارے ہوتے ہیں اسی طرح جہنم کے بھی کنارے ہیں جن میں بختی اونٹوں جیسے سانپ اور خچروں جیسے بچھو رہتے ہیں۔ اہل جہنم جب عذاب میں کمی کیلئے فریاد کریں گے تو حکم ہو گا کناروں سے باہر نکلو وہ جوں ہی نکلیں گے تو وہ سانپ انہیں ہونٹوں اور چہروں سے پکڑ لیں گے اور ان کی کھال تک اتار لیں گے وہ لوگ وہاں سے بچنے کیلئے آگ کی طرف بھاگیں گے۔ پھر ان پر کھجلی مسلط کر دی جائے گی وہ اس قدر کھجائیں گے کہ ان کا گوشت پوست سب جھڑ جائے گا۔ اور صرف ہڈیاں رہ جائیں گی پکار پڑے گی، “ اے فلاں! کیا تجھے تکلیف ہو رہی ہے ؟ وہ کہے گا، ہاں۔ تو کہا جائے گا یہ اس ایذاء کا بدلہ ہے جو مومنوں کو دیا کرتا تھا۔“

جنت میں گھومنے والا
کسی مسلمان کو ایذاء دینا مسلمان کا کام نہیں بلکہ اس کا کام تو یہ ہے کہ مسلمان سے ایذاء دینے والی چیزیں دور کرے۔ سیدنا امام مسلم بن حجاج قشیری “ صحیح مسلم “ میں نقل کرتے ہیں، تاجدار مدینہ، قرار قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحب معطر پسینہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان باقرینہ ہے، “ میں نے ایک شخص کو جنت میں گھومتے ہوئے دیکھا کہ جدھر چاہتا ہے نکل جاتا ہے۔ جانتے ہو کیوں ؟ صرف اس لئے کہ اس نے دنیا میں ایک درخت راستے سے اس لئے کاٹ دیا تھا کہ مسلمانوں کو راہ چلنے میں تکلیف نہ ہو۔“

آقا ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کی بے انتہا عاجزی
ہمارے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے اسوہ ء حسنہ کے ذریعے ہم غلاموں کو حقوق العباد کا خیال رکھنے کی کس حسین انداز میں تعلیم دی ہے اس کی رقت انگیز جھلک اس واقعہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت سیدنا ابو سعید خدری ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں ایک مہاجر صحابی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سرکار مدینہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) سے تنہائی میں کچھ عرض کرنا چاہتے تھے۔ سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) اپنے لشکر کے ساتھ ایک سنگلاخ وادی میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے۔ ایک دن اونٹنی پر سوار ہوکر نماز فجر کیلئے چلے تو اسی مہاجر صحابی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کیا، آقا! مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔ ارشاد فرمایا مجھے جانے دو انشاءاللہ ( عزوجل ) کام ہو جائے گا۔ مگر اس شخص نے اونٹنی کی مہار نہ چھوڑی۔ آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک ہلکا سا درہ اسے لگایا اور نماز کیلئے تشریف لے گئے۔ نماز فجر سے فراغت کے بعد ارشاد فرمایا، وہ شخص کہاں ہے جسے میں نے ابھی درہ لگایا تھا۔ آپ نے دوبارہ ارشاد فرمایا، وہ شخص موجود ہو تو کھڑا ہو جائے۔ وہ صحابی گھبرا کر اعوذ باللہ تعالٰی ثم برسولہ یعنی میں اللہ و رسول ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کی پناہ چاہتا ہوں کہتے ہوئے جب قریب حاضر ہوئے تو سرکار نامدار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) اس کے سامنے بیٹھ کر فرمانے لگے، “ یہ کوڑا پکڑ لو اور اپنا بدلہ لے لو۔ انہوں نے پھر وہی عرض کیا مگر آپ نے اصرار کرتے ہوئے فرمایا، نہ مارنے کی ایک صورت ہے کہ تم مجھے معاف کردو۔ انہوں نے عرض کیا میں نے معاف کیا۔ اس کے بعد اللہ ( عزوجل ) کے پیارے حبیب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا، “ اے لوگو! اپنے رب ( عزوجل ) سے ڈرو جو بھی شخص کسی مومن پر ظلم کرے گا۔ اللہ ( عزوجل ) بروز قیامت اس کا بدلہ دلوائے گا۔ ایک روایت میں ہے، قیامت کے دن مظلوم لوگ یقیناً کامیاب ہوں گے۔

بدلہ لے لو !
ہمارے جان سے بھی پیارے آقا مکی مدنی مصطفٰے ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے وفات ظاہری کے وقت اجتماع عام میں اعلان فرمایا، “ اگر میرے ذمہ کسی کا قرض آتا ہو، اگر میں نے کسی کی جان و مال اور آبرو کو صدمہ پہنچایا ہو تو میری جان و مال اور آبرو حاضر ہے، اس دنیا میں بدلہ لے لے۔“ ( سیرت ابن اسحٰق سیرت النبی ج2 ص285 )
صلو علٰی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم )

مسلمان کی تعریف
سیدنا امام محمد غزالی “ احیاءالعلوم “ میں نقل کرتے ہیں، ہمارے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا مدینے والے مصطفٰے ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے صحابہ کرام ( رضی اللہ تعالٰی عنہم ) سے استفسار فرمایا، جانتے ہو “ مسلمان “ کون ہوتا ہے ؟ سب نے عرض کی، اللہ و رسول ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا، “ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“ عرض کیا گیا، “ مومن “ کسے کہیں گے ؟ فرمایا، اسے کہ جس سے مومنوں کو مالی اور جسمانی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ پھر پوچھا مہاجر کون ہوتا ہے ؟ فرمایا، جو برے کام کرنا چھوڑ دے۔ اور ارشاد فرمایا، کہ مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اس طرح اشارہ کرے جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ اور یہ بھی حلال نہیں کہ ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو خوفزدہ کر دے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا محافظ اور غمخوار ہوتا ہے۔ آپس میں لڑنا جھگڑنا یہ مسلمان کا شیوہ نہیں بلکہ اس سے بہت بڑے بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں جیسا کہ محمد بن اسمٰعیل بخاری ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) اپنے مجموعہ احادیث الموسوم “ صحیح بخاری “ میں مقل کرتے ہیں، سیدنا عبادہ بن صامت ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، مکی مدنی آقا ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر بتائیں کہ کس رات میں ہے۔ دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا، میں اس لئے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں مگر فلاں فلاں شخص جھگڑ رہے تھے اس لئے اس کا تعین اٹھا لیا۔

ہم تو شریف کے ساتھ شریف اور
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس حدیث مبارکہ میں ہمارے لئے زبردست درس عبرت ہے کہ ہمارے پیارے آقا ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) شب قدر کی نشاندہی فرمانے والے ہی تھے کہ دو مسلمانوں کا باہم لڑنا مانع ہو گیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شب قدر کو مخفی کر دیا گیا۔ اس سے اندازہ کریں کہ آپس کا جھگڑا کس قدر نقصان دہ ہے۔ مگر آہ! اب مسلمانوں کو کون سمجھائے ؟ آج تو مسلمان بڑے فخر سے یہ کہتا سنائی دے رہا ہے کہ “ میاں اس دنیا میں شریف رہ کر گزارہ ہی نہیں، ہم تو شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمعاش کے ساتھ بدمعاش ہیں! “ اور صرف کہنے پر بھی اکتفا تھوڑے ہی ہے۔ اب تو بسا اوقات معمولی سی بات پر پہلے زبان درازی، پھر دست اندازی، پھر چاقو بازی بلکہ گولیاں تک چل جاتی ہیں۔ افسوس! مسلمان آج مسلمان ہونے کے باوجود کبھی پٹھان بن کر، کبھی پنجابی کہلا کر، کبھی مہاجر ہو کر، کبھی سندھی اور بلوچی قومیت کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ایک دوسرے کی املاک و اموال کو آگ لگا رہا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف نسلی اور لسانی فرق کی بناء پر محاذ آرائی ہو رہی ہے۔ مسلمانو! آپ تو ایک دوسرے کے محافظ تھے۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہمارے پیارے آقا ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان عالیشان تو یہ ہے کہ “ مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔“ ایک شاعر نے کتنے پیارے انداز میں سمجھایا ہے۔
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

پرائی قلم لوٹانے کے لئے سفر
سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان باقرینہ ہے، “ تم لوگ نقال نہ بنو کہ کہو اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، لیکن اپنے نفس کو قرار دو کہ لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو اور لوگ برائی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ ( ترمذی شریف )

حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) ملک شام میں چند روز کیلئے مقیم ہوئے۔ وہاں احادیث مبارکہ لکھتے رہے۔ ایک بار ان کا قلم ٹوٹ گیا لٰہذا عاریتاً ( وقتی طور پر ) کسی اور سے دوسرا قلم مانگ لیا واپسی پر وہ قلم بھولے سے وطن ساتھ لیتے آئے۔ جب یاد آیا تو صرف قلم واپس دینے کیلئے آپ نے اپنے وطن سے ملک شام کا سفر کیا۔

بغیر اجازت کسی کے چپل پہننا کیسا ؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ہمارے اسلاف ( رحمھم اللہ ) پرائی چیز کے معاملہ میں کس قدر ڈرتے تھے۔ مگر اب ہم اس معاملے میں بالکل بےخوف ہوتے جا رہے ہیں۔ یاد رکھئے! دوسروں کی چیزیں رکھ لینا اگرچہ بہت آسان معلوم ہوتا ہے مگر قیامت میں صاحب حق کو اس کا بدلہ چکانا اور اس کو راضی کرنا بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے دوسروں کے ایک ایک دانے اور ایک ایک تنکے کے بارے میں بھی احتیاط کرنی چاہیئے۔ بغیر اجازت کسی کی کوئی چیز مثلاً چادر، تولیہ، برتن، چارپائی، کرسی وغیرہ وغیرہ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے ہاں اگر ان چیزوں کے مالک کی طرف سے اذن عام ہو تو پھر استعمال کرنے میں حرج نہیں۔ مثلاً کسی کے گھر مہمان بن کر گئے تو عموماً ان چیزوں کے استعمال کی صاحب خانہ کی طرف سے اجازت ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ مسجد میں بغیر اجازت مالک دوسروں کے چپل پہن کر استنجاء خانہ چلے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے تو سہی! آپ کسی کے چپل پہن کر استنجاء خانے تشریف لے گئے اور جس کے چپل ہیں وہ باہر جانے کیلئے اپنے چپل کی طرف آیا چپل غائب پاکر یہ سمجھ کر کہ چوری ہو گئے بیچارہ دل مسوس کر رہ گیا اور ننگے پاؤں ہی چلا گیا۔ آپ نے اگرچہ وہ چپل واپس آکر رکھ بھی دئیے مگر اس کا مالک تو انہیں ضائع کر چکا اس کا وبال کس پر ؟ یقیناً آپ پر اور آپ ہی ظالم ٹھہرے۔ اب نہ جانے قیامت میں کتنی نیکیاں لے کر وہ راضی ہو۔ حضرت سیدنا شیخ عبدالوہاب شعرانی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں ، “ بسا اوقات ایک ہی ظلم کے بدلے ظالم کی تمام نیکیاں لے کر بھی مظلوم خوش نہ ہوگا۔“ جبھی تو ہمارے بزرگان دین بظاہر معمولی نظر آنے والی باتوں میں بھی احتیاط فرماتے تھے۔ چنانچہ “ احیاءالعلوم “ میں ہے،

خوشبو سونگھنا
حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی خدمت میں ایک بار مال غنیمت کا مشک لایا گیا۔ آپ نے فوراً اپنی ناک بند کرلی اور فرمایا، خوشبو سونگھنا ہی تو اس کا نفع ہے اور یہ سب مسلمانوں کا حق ہے میں اکیلا اس سے کیسے نفع اٹھاؤں!

مدنی سوچ
“ کیمیائے سعادت “ میں سیدنا امام محمد غزالی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نقل کرتے ہیں، ایک بزرگ رات کے وقت کسی مریض کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے۔ قضائے الٰہی ( عزوجل ) سے وہ بیمار فوت ہو گیا قربان جائیے ان بزرگ کی مدنی سوچ پر کہ انہوں نے فوراً چراغ گل کر دیا اور فرمایا، “ اب اس چراغ کے تیل میں وارثوں کا حق بھی شامل ہو گیا ہے۔“

خوشنما باغ
اللہ اللہ! ہمارے بزرگان دین ( رضی اللہ تعالٰی عنہم ) کتنی عظیم مدنی سوچ کے مالک ہوتے تھے۔ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ حضرات خوف خدا سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہا کرتے تھے۔ موت انکے ہر دم پیش نظر رہتی۔ قبر و حشر کے معاملات سے کبھی غافل نہ ہوتے۔ آہ! قبر کا معاملہ بھی کس قدر تشویش ناک ہے! ہائے ہمارا کیا بنے گا! ہم تو اپنی قبر کو یکسر بھولے ہوئے ہیں “ کیمیائے سعادت “ میں ہے، سیدنا سفیان ثوری ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، “ جو شخص قبر کو اکثر یاد کرتا ہے وہ مرنے کے بعد اپنی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک خوشنما باغ پائے گا اور جو قبر کو بھلا دے گا وہ اپنی قبر کو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک خوفناک گڑھا پائے گا۔“
گورنیکاں باغ ہو گی خلد کا
مجرموں کی قبر دوزخ کا گڑھا

آدھی کھجور
یاد رکھئے! اپنے چھوٹے چھوٹے مدنی منے اور مدنی منیوں کے بھی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ اس معاملے میں بے احتیاطی باعث ہلاکت اور احتیاط سبب دخول جنت ہے۔ چنانچہ سیدنا محمد بن اسمٰعیل بخاری ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) اپنے مجموعہ احادیث الموسوم، “ بخاری “ میں نقل کرتے ہیں۔ ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہا ) نے فرمایا کہ ایک عورت جس کے ساتھ دو بچیاں تھیں اس نے آکر مجھ سے سوال کیا۔ میرے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی وہ میں نے اس کو دے دی اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں آدھا آدھا تقسیم کر دیا۔ جب سیدتنا عائشہ صدیقہ نے اللہ ( عزوجل ) کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن کل عیوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا تو فرمایا، “ جس کو لڑکیاں عطا ہوئیں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لئے جہنم سے ڈھال ہوں گی۔“

شاہی تھپڑ کا انجام
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) حقوق العباد کے معاملہ میں کسی کی رعایت نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ شاہ غسان نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور اس سے سیدنا فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کو بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کیوں کہ اس کے سبب اب اس کی رعایا کے ایمان لانے کی امید پیدا ہو گئی تھی۔ دوران طواف شاہ غسان کے کپڑے پر کسی غریب اعرابی کا پاؤں آگیا، غصہ میں آکر اس نے ایسا زوردار طمانچہ مارا کہ اعرابی کا دانت شہید ہو گیا۔ اس نے سیدنا عمر فاروق ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کی بارگاہ میں فریاد کی۔ شاہ غسان نے طمانچہ مارنے کا اعتراف کیا تو آپ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے مدعی یعنی اس مظلوم اعرابی سے فرمایا کہ آپ شاہ غسان سے قصاص یعنی بدلہ لے سکتے ہیں۔ یہ سن کر شاہ غسان نے برا مناتے ہوئے کہا کہ ایک معمولی شخص مجھ جیسے بادشاہ کے برابر کیسے ہو گیا جو اس کو مجھ سے بدلہ لینے کا حق حاصل ہو گیا! آپ نے فرمایا، اسلام نے تم دونوں کو برابر کر دیا ہے۔ شاہ غسان نے قصاص کیلئے ایک دن کی مہلت لی اور رات کے وقت نکل بھاگا اور مرتد ہو گیا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیدنا فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے شاہ غسان کی ذرہ برابر بھی رعایت نہ فرمائی اور اس بدنصیب کے اسلام سے پھر کر دوبارہ کفر کے گڑھے میں کود جانے سے اسلام کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا۔ بلکہ اگر سیدنا فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) رعایت فرما دیتے تو شاید اسلام کو ضرر پہنچتا اور لوگوں کا اس طرح ذہن بنتا کہ اسلام کمزور کو طاقتور سے معاذاللہ حق نہیں دلوا سکتا۔

فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سادگی
یہ عادلانہ نظام ہی کی برکت تھی کہ ایک روز حضرت سیدنا فاروق اعظم بغیر کسی محافظ کے بے خوف و خطر گرمی کے موسم میں ایک درخت کے نیچے پتھر پر سرمبارک رکھ کر سو رہے تھے کہ روم کا قاصد ان کی تلاش میں ادھر نکلا اور انہیں اس طرح سوتا دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس سے ساری دنیا لزرہ براندام ہے! پھر وہ بول اٹھا، اے عمر! آپ عدل کرتے ہیں حقوق العباد کا خیال رکھتے ہیں تو آپ کو پتھروں پر بھی نیند آ جاتی ہے اور ہمارے بادشاہ ظلم کرتے ہیں بندوں کے حقوق پامال کرتے ہیں لٰہذا انہیں مخملیں بستروں پر بھی نیند نہیں آتی!

برے خاتمے کے اسباب
ظلم کی نحوست بھی تو دیکھئے “ شاہ غسان “ کا ایمان ہی برباد ہو گیا! حضرت سیدنا ابو بکر وراق ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، “ بندوں پر ظلم کرنا اکثر سلب ایمان کا سبب بن جاتا ہے۔“ حضرت سیدنا ابوالقاسم حکیم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے کسی نے پوچھا، کوئی ایسا گناہ بھی ہے جو بندے کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے ؟ فرمایا، بربادی ایمان کے تین اسباب ہیں۔ (1) ایمان کی نعمت پر شکر نہ کرنا (2) ایمان ضائع ہونے کا خوف نہ رکھنا (3) مسلمان پر ظلم کرنا۔

خود کو کسی کا “ غلام “ کہنا کیسا ؟
ہمارے بزرگان دین ( رضی اللہ تعالٰی عنہم ) نے حقوق العباد کے معاملہ میں احتیاط کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ چنانچہ سیدنا امام ابو حنیفہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے مشہور شاگرد قاضی القضاۃ یعنی ( Chief Justice ) حضرت سیدنا امام ابو یوسف ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے خلیفہ ہارون الرشید ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے معتمد وزیر فضل بن ربیع کی گواہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے جب گواہی قبول نہ کرنے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا، ایک بار میں نے خود اپنے کانوں سے سنا کہ وہ آپ سے کہہ رہا تھا، “ میں آپ کا غلام ہوں “ اگر وہ اس قول میں سچا تھا تو وہ آپ کے حق میں گواہی دینے کے نااہل ہوا کیوں کہ آقا کے حق میں غلام کی گواہی نا مقبول ہے۔ اور اگر بطور خوشامد اس نے جھوٹ بولا تھا تب بھی اس کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی کہ جو شخص آپ کے دربار میں بے باکی کے ساتھ جھوٹ بول سکتا ہے وہ میری عدالت میں جھوٹ سے کب باز رہے گا۔
Muhammad Owais Aslam
About the Author: Muhammad Owais Aslam Read More Articles by Muhammad Owais Aslam: 97 Articles with 687735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.