“ کیا حال ہے ؟ “
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! دیکھا آپ نے ؟ حضرت امام ابو یوسف ( رضی اللہ
تعالٰی عنہ ) کس قدر ذہین تھے اور عدل ہو تو ایسا کہ کسی بندے کے حق کے
معاملے میں نہایت ہی بےباکی کے ساتھ خلیفہ وقت کے حق میں وزیر خاص کی گواہی
بھی مسترد کر دی ! یہاں واقعی ایک نکتہ ہمارے لئے بھی قابل غور ہے کہ ہم
بھی خوشامدانہ طور پر یا یوں ہی بے سوچے سمجھے اپنے آپ کو ایک دوسرے کا
خادم اور غلام اور سگ وغیرہ کہتے رہتے ہین مگر ہمارا دل اس کے بالکل الٹ
ہوتا ہے کاش! ہمارے دل و زبان یکساں ہو جائیں۔ ہمارے اسلاف دل اور زبان کی
یکسانیت کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے چنانچہ “ کیمیائے سعادت “ میں ہے،
امام المعبرین حضرت سیدنا محمد ابن سیرین ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے ایک
شخص سے پوچھا، کیا حال ہے ؟ وہ بولا کہ اس کا حال ہوگا جس پر پانچ سو درھم
قرض ہو، بال بچےدار ہو مگر پلے کچھ نہ ہو۔ آپ یہ سن کر گھر تشریف لائے اور
ایک ہزار درھم لا کر اس کو پیش کرتے ہوئے فرمایا، کہ پانچ سو درہم سے اپنا
قرض ادا کرو اور پانچ سو اپنے گھر میں خرچ کرو۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ
میں نے اپنے دل میں عہد کیا کہ آئندہ کسی کا حال دریافت نہیں کروں گا۔ امام
غزالی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، امام ابن سیرین ( رضی اللہ
تعالٰی عنہ ) نے یہ عہد اس لئے کیا کہ اگر میں نے کسی کا حال پوچھا اور اس
نے اپنی پریشانی بتائی پھر اگر میں نے اس کی مدد نہیں کی تو میں پوچھنے کے
معاملے میں منافق ٹھہروں گا۔
مظلوم کی مدد نہ کرنے کا عذاب
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جہاں ظلم کرنا بندوں کی حق تلفی ہے وہاں باوجود
قدرت مظلوم کی مدد نہ کرنا بھی جرم ہے۔ چنانچہ “ ابو الشیخ “ کی روایت میں
ہے، حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ تعالٰی عنہما ) کہتے ہیں، رسول
اللہ ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان عبرت نشان ہے،
اللہ ( عزوجل ) فرماتا ہے، “ مجھے میرے عزت و جلال کی قسم میں جلدی یا دیر
میں ظالم سے بدلہ ضرور لوں گا۔ اور اس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجود قدرت
مظلوم کی امداد نہیں کرتا۔“ خلیفہ ء اعلٰیحضرت فقیہ اعظم حضرت علامہ ابو
یوسف محمد شریف کوٹلوی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) اپنی کتاب “ اخلاق الصالحین
“ میں نقل کرتے ہیں، ابو میسرہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، ایک
قبر سے شعلے اٹھ رہے تھے اور میت کو عذاب ہو رہا تھا، مردہ نے پوچھا مجھے
کیوں مارتے ہو ؟ فرشتوں نے کہا کہ ایک مظلوم نے تجھ سے فریاد کی مگر تو نے
اس کی فریاد رسی نہیں کی اور ایک دن تو نے بے وضو نماز پڑھی۔
تہتر مغفرتیں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ مظلوم کی حتی الوسع مدد کرنی
چاہیئے اور مظلوم کی مدد کرنے میں بہت اجر و ثواب ہے، چنانچہ سرکار مدینہ،
قرار قلب و سینہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان مغفرت نشان
ہے، جو شخص کسی غمزدہ بندے کیلئے خوشی کا سامان فراہم کرتا ہے یا کسی مظلوم
کو ظلم سے نجات دیتا ہے اللہ ( عزوجل ) اسے تہتر قسم کی مغفرتیں عطا فرماتا
ہے۔ اور فرمایا، اپنے بھائی کی امداد کیا کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم عرض
کیا گیا، ظالم کی مدد کس طرح کریں ؟ فرمایا، ظلم سے باز رکھنا اس کی مدد
ہے۔ اور فرمایا، اللہ ( عزوجل ) سب سے زیادہ اس نیکی کو پسند کرتا ہے جس سے
کسی مسلمان کا دل خوش کیا جائے۔ حضرت سیدنا بشر حافی ( رضی اللہ تعالٰی عنہ
) فرماتے ہیں، کسی مسلمان کا دل خوش کرنا سو ( نفلی ) حج سے بہتر ہے۔ اللہ
( عزوجل ) کے محبوب دانائے غیوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے
ارشاد فرمایا، “ جس شخص کو مسلمان کی تکلیف کا احساس نہیں وہ ہم میں سے
نہیں۔“ ہمارے بزرگان دین ( رحمھم اللہ ) کو مسلمانوں کی تکالیف کا کس قدر
احساس تھا اس کا اندازہ “ کیمیائے سعادت “ میں بیان کردہ اس حکایت سے
کیجئے۔
مسلمانوں کا غم
ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالٰی عنہ
رو رہے تھے جب رونے کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا، میں ان بےچارے
مسلمانوں کے غم میں رو رہا ہوں جنہوں نے مجھ پر ظلم کئے ہیں کہ کل بروز
قیامت ان سے سوال ہوگا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ ان کا کوئی عذر نہ سنا
جائے گا اور وہ ذلیل و رسوا ہوں گے۔ ایک بزرگ کا واقعہ ہے، ان کی رقم کسی
نے نکال لی تھی اور وہ رو رہے تھے لوگوں نے ہمدردی کا اظہار کیا تو فرمانے
لگے، میں اپنی رقم کے غم میں نہیں بلکہ چور کے غم میں رو رہا ہوں کہ کل
قیامت میں بےچارہ بطور مجرم پیش کیا جائے گا اس وقت اس کے پاس کوئی عذر
نہیں ہوگا۔ آہ! اس وقت اس کی کتنی رسوائی ہوگی!
چوری کا عذاب
چور کی بات نکلی تو چوری کا عذاب بھی عرض کرتا چلوں فقیہ ابواللیث ثمر قندی
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “ قرۃ العیون “ میں نقل کرتے ہیں، اللہ ( عزوجل ) کے
پیارے محبوب دانائے غیوب، منزہ عن کل عیوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم ) نے فرمایا، جس نے کسی کا تھوڑا سا بھی مال چرایا۔ وہ قیامت کے روز
اس مال کو اپنی گردن میں آگ کے طوق کی شکل میں لٹکا کر آئے گا۔ اور جس نے
تھوڑا سا مال حرام کھایا اس کے پیٹ میں آگ سلگائی جائے گی۔ اور وہ اس قدر
خوفناک چیخیں مارے گا کہ جتنے لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے کانپ جائیں گے۔
یہاں تک کہ خدائے احکم الحاکمین جل جلالہ لوگوں کے سامنے جو بھی فیصلہ
فرمائے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بات چلی تھی مسلمانوں کی غمخواری کی۔ اور ہمارے
بزرگان دین رحمھم اللہ مسلمانوں کے گناہوں کے سبب ان پر رحم کرتے اور ان کی
اصلاح کیلئے کڑھتے تھے لٰہذا ہمیں بھی مسلمانوں کی ہمدردی اور غمگساری کرنی
چاہیئے۔ ان کی اصلاح کیلئے ہر دم کوشاں رہنا چاہیئے۔ کڑوی دوا اور انجکشن
وغیرہ کے سبب مریض اگر ڈاکٹر سے کتراتا ہے تب بھی ڈاکٹر اس سے نفرت نہیں
بلکہ پیار ہی سے پیش آتا ہے اسی طرح گناہوں کا مریض چاہے آپ کا مذاق اڑائے
آپ پر پھبتیاں کسے آپ کو بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے۔ اگر آپ کوشش کرتے رہیں
گے اور کسی طرح سے بھی میدان عمل سے دور بھاگنے والوں کو دعوت اسلامی کے
مدنی قافلوں میں سفر کے عادی بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو انشاءاللہ (
عزوجل ) گناہوں کے مریض ضرور شفایاب ہوتے چلے جائیں گے۔
یاد رکھیئے! بندوں کے حقوق کے معاملہ میں والدین سرفہرست ہیں اس کی تفصیلی
معلومات کیلئے میرا رسالہ “ سمندری گنبد “ پڑھئے اور میرے بیان کا کیسٹ “
ماں باپ کو ستانا حرام ہے “ سماعت فرمائیں یہ رسالہ اور کیسیٹ مکتبۃ
المدینہ سے دستیاب ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اولاد کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق،
قرابت داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ عام بندوں کے حقوق سے زیادہ
اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سارے حقوق اور ان کی تفصیلی معلومات اس مختصر بیان میں
ہم نہیں سیکھ سکتے۔ اس کیلئے مدنی قافلوں میں سفر کرتے رہیں انشاءاللہ (
عزوجل ) حقوق العباد کے بارے میں معلومات کے ساتھ ساتھ احتیاط کا جذبہ بھی
پیدا ہو گا اور جب احتیاط کریں گے تو جنت کا راستہ انشاءاللہ ( عزوجل )
آسان ہو جائے گا۔
اے مسلمانوں کو ستانے والو! اے لوگوں کے دل دکھانے والو! اے لوگوں کے نام
بگاڑنے والو! اے لوگوں پر پھبتیاں کسنے والو! اے لوگوں کی نقلیں اتارنے
والو! اے لوگوں کا مذاق اڑانے والو! سب کان کھول کر سنو اللہ ( عزوجل ) پ26
سورۃ الحجرات آیت نمبر11 میں فرماتا ہے،
یایھاالذین اٰمنوا لا یسخرقوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم ولا نسآء عسی
ان یکن خیرا منھن ج ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب ط بئس الاسم
الفسوق بعد الایمان ج ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون ہ
میرے آقا اعلٰیحضرت امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، پروانہ شمع رسالت، پیر
طریقت، ولی نعمت، عالم شریعت، حامئی سنت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، الحاج
الحافظ حضرت العلام سیدنا و مولیٰنا شاہ احمد رضا خان ( علیہ رحمۃ الرحمٰن
) اپنے شہرہ ء آفاق ترجمہ ء کنزالایمان میں اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں،
“ اے ایمان والو! نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسی ہنسنے
والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں
سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔
کیا ہی برا نام مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم
ہیں۔“
کسی کی ہنسی اڑانا گناہ ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی کی غربت یا کسی کے حسب نسب یا جسمانی عیب
پر ہنسنا گناہ ہے اسی طرح نام بگاڑنا بھی گناہ ہے۔ کسی کو کتا، گدھا، سور
وغیرہ نہیں کہہ سکتے اسی طرح کسی میں عیب موجود ہو تب بھی اس عیب کے ساتھ
نہیں پکار سکتے مثلاً اے اندھے! ابے کانے ! او لمبے، ارے ٹھگنے ! وغیرہ ہاں
پہچان کروانے کیلئے کہنا پڑا اور اس کا دل نہیں دکھا وہ جائز ہے۔ لوگوں پر
ہنسنے برے القاب سے پکارنے اور مذاق اڑانے والوں کو قرآن پاک نے “ فاسق “
کا فتوی اراشد فرمایا ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے اسے ظالم قرار دیا ہے۔ مذاق
اڑانے والو! کان کھول کر سن لو !
مذاق اڑانے کا عذاب
“ احیاءالعلوم “ میں ہے سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار، رسولوں کے سالار،
نبیوں کے سردار، شہنشاہ ابرار، سرکار والا تبار، ہم غریبوں کے غمگسار، ہم
بے کسوں کے مددگار، صاحب پسینہ خوشبودار، شفیع روز شمار جناب احمد مختار (
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کا فرمان عبرت نشان ہے، قیامت کے روز
لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور
کہا جائے گا کہ آؤ آؤ تو وہ بہت ہی بےچینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے
کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو
جائے گا۔ پھر جنت کا ایک دوسرا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا کہ
آؤ ! چنانچہ یہ بے چینی اور رنج و غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے
گا تو وہ دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے
گا۔ یہاں تک کہ جب دروازہ کھلے گا اور پکار پڑے گی تو وہ نہیں جائے گا۔ (
اس طرح وہ جنت میں داخل ہونے سے محروم رہے گا۔ )
معافی مانگ لو !
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! سب گھبرا کر اللہ (عزوجل) کی بارگاہ میں رجوع
کر لو، سچی توبہ کر لو اور ٹھہرو! بندوں کی حق تلفی کے معاملہ میں صرف توبہ
کافی نہیں اس بندے سے معافی مانگنا ہو گی۔ مگر صرف رسمی طور پر ( Sorry )
کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اس کو راضی کرنا ضروری ہے۔ آج تک جس جس کا مذاق
اڑایا، برے القاب سے پکارا، طعنہ زنی اور طنز بازی کی، ایسی نقلیں اتاریں
جس سے دل دکھ جائے۔ دل دکھانے والے انداز میں آنکھیں دکھائیں، گھورا،
ڈرایا، گالی دی، غیبت کی اور اس کو پتا چل گیا۔ تشویش میں ڈالا، جھاڑا،
مارا، ذلیل کیا، الغرض کسی طرح بھی بے اجازت شرعی ایذاء کا باعث بنے ان سب
سے معاف کروا لیں اگر یہ سوچ کر باز رہے کہ معافی مانگنے سے اس کے سامنے
میری “ پوزیشن ڈاؤن “ ہو جائے گی تو یاد رکھئے ! قیامت کے روز جب آپ کی
نیکیاں یہی لوگ حاصل کر کے اپنے گناہ آپ کے سر ڈال دیں گے اس وقت صحیح
معنوں میں آپ کی “ پوزیشن “ کی دھجیاں اڑیں گی اور کوئی ہمدردی کرنے والا
بھی نہ ملے گا۔ جلدی کرو ! جلدی کرو ! اپنے والدین کے قدموں میں گر کر،
اپنے عزیزوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر، اپنے ماتحتوں کو کوئی تحفہ پیش کرکے۔ اپنے
اسلامی بھائیوں اور دوستوں سے گڑگڑا کر ان کے آگے خود کو ذلیل کرکے آج دنیا
میں معافی مانگ کر آخرت کے عزت اور وقار کو حاصل کر لو۔ اللہ ( عزوجل ) کے
پیارے حبیب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں، من تواضع للہ
رفعہ اللہ۔ یعنی جو اللہ ( عزوجل ) کیلئے عاجزی کرتا ہے اللہ ( عزوجل ) اس
کو بلندی عطا فرماتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے معافی مانگ لیجئے اور سب ایک
دوسرے کو معاف بھی کر دیجئے۔
میں نے معاف کیا
جس کے ساتھ لوگ زیادہ منسلک ہوتے ہیں اس سے بندوں کی حق تلفیوں کے صدور کا
امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مجھ سے وابستگان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے نہ
جانے کتنوں کا مجھ سے دل دکھ جاتا ہوگا۔ میں ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں میری
ذات سے کسی کی جان، مال یا آبرو کو نقصان پہنچا ہو مہربانی کرکے وہ بدلہ لے
لے یا مجھے معاف کر دے اگر کسی کا مجھ پر قرض آتا ہو تو ضرور وصول کرلے اگر
وصول نہیں کرنا چاہتا تو معافی سے نواز دے۔ جو میرا قرض دار ہے میں اپنی
ذاتی رقمیں اس کو معاف کرتا ہوں۔ اے اللہ ( عزوجل )! میرے سبب سے کسی
مسلمان کو عذاب نہ کرنا۔ جس نے میری دل آزاری کی یا دل آزاری کرے گا، مجھے
مارا یا آئندہ مارے گا۔ میری جان لینے کی کوشش کی یا آئندہ کرے گا یا کہ
شہید کر ڈالے گا میں نے ہر مسلمان کو اپنے اگلے پچھلے حقوق معاف کئے اے
میرے پیارے پیارے اللہ ! تو بھی مجھ عاجز و مسکین بندے کے اگلے پچھلے گناہ
معاف فرما دے اور میری وجہ سے کسی کو عذاب نہ دینا۔ سب اسلامی بھائی جو اس
وقت سندھ کے تین روزہ اجتماع میں جمع ہیں یا INTERNET کے ذریعے دنیا میں
جہاں کہیں مجھے سن رہے ہیں یا ہر وہ اسلامی بھائی اور اسلامی بہن جو کیسیٹ
کے ذریعہ مجھے سن رہے ہیں یا تحریری بیان پڑھ رہے ہیں وہ توجہ فرمائیں کہ
اگر میں نے کبھی آپ کی حق تلفی کی ہو تو مجھے اللہ ( عزوجل ) کیلئے معاف
فرما دیں بلکہ احسان پر احسان تو یہ ہوگا کہ آئندہ کیلئے بھی معافی سے نواز
دیں۔ برائے کرم دل کی گہرائی کے ساتھ ایک بار زبان سے کہہ دیجئے، “ میں نے
معاف کیا “ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔
رقمیں لوٹانی ہوں گی
جس پر کسی کا قرض آتا ہے وہ چکا کر تاخیر کی معافی مانگے جس سے رشوت لی، جس
کی جیب کاٹی، جس کے یہاں چوری کی، جس کا مال لوٹا ان سب کو ان کے اموال
لوٹانے ضروری ہیں۔ یا ان سے مہلت لے یا معاف کروالے اور جو تکلیف پہنچی اس
کی بھی معافی مانگے۔ اگر وہ شخص فوت ہو گیا ہے تو وارثوں کو دے اگر کوئی
وارث نہ ہو تو اتنی رقم صدقہ کرے۔ اگر لوگوں کا مال دبایا ہے مگر یہ یاد
نہیں کہ کس کس کا مال ناحق لیا ہے تب بھی اتنی رقم صدقہ کرے یعنی مساکین کو
دیدے۔ صدقہ کر دینے کے بعد بھی اگر اہل حق نے مطالبہ کر دیا تو اس کو دینا
پڑے گا۔
جو یاد نہیں ان سے کس طرح معاف کروائیں ؟
جو اسلامی بھائی حقوق العباد کے معاملہ میں خوفزدہ ہیں اور اب سوچ میں پڑ
گئے کہ ہم نے تو نہ جانے کتنوں کی حق تلفی کی ہے اور کتنوں کا دل دکھایا ہے
اب ہم کس کس کو کہاں کہاں تلاش کریں ! تو عرض یہ ہے، کہ جن جن کی دل آزاری
وغیرہ کی ہے۔ اگر ان سے رابطہ ممکن ہے تو ان کو راضی کر لیں اور اگر وہ فوت
ہو گئے ہیں یا غائب ہیں یا یہ یاد ہی نہیں کہ وہ کون کون لوگ ہیں۔ تو ہر
نماز کے بعد ان کیلئے دعائے مغفرت کریں۔ چاہیں تو ہر نماز کے بعد اس طرح
کہہ لیا کریں “ یااللہ ( عزوجل ) میری اور آج تک میں نے جن جن مسلمانوں کی
حق تلفی کی ہے ان سب کی مغفرت فرما۔“ اللہ ( عزوجل ) کی رحمت بہت بڑی ہے
مایوس نہ ہوں، نیت صاف منزل آسان انشاءاللہ ( عزوجل ) آپ کی ندامت رنگ لائے
گی اور میٹھے میٹھے مصطفٰے ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کے صدقے
حقوق العباد کی معافی کے اسباب بھی کرم خداوندی سے ہو جائیں گے چنانچہ
اللہ ( عزوجل ) صلح کروائے گا
امام حاکم مستدرک میں نقل کرتے فرماتے ہیں، کہ حضرت سیدنا انس ( رضی اللہ
تعالٰی عنہ ) فرماتے ہیں، ایک روز سرکار دو عالم ( صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم ) تشریف فرما تھے۔ آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے
تبسم فرمایا۔ حضرت عمر فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) نے عرض کیا،
یارسول اللہ ( عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) آپ ( صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) پر میرے ماں باپ قربان! آپ نے کس لئے تبسم فرمایا
؟ ارشاد فرمایا۔ “ میرے دو امتی اللہ ( عزوجل ) کی بارگاہ میں دو زانو گر
پڑیں گے۔ ایک عرض کرے گا یااللہ ( عزوجل )! اس سے میرا انصاف دلا کہ اس نے
مجھ پر ظلم کیا تھا۔ اللہ ( عزوجل ) فرمائے گا اس کا حق اس کو دے دے۔ وہ
عرض کرے گا۔ یااللہ ( عزوجل ) میری نیکیاں اہل حقوق لے چکے ہیں اب تو میرے
پاس کچھ بھی نہیں۔ اللہ ( عزوجل ) مدعی سے فرمائے گا، اب یہ بے چارہ کیا
کرے اس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں۔ مظلوم عرض کرے گا، میرے گناہ اس کے
ذمے ڈال دے۔ لٰہذا اس کے گناہ ظالم کے ذمے ڈال دئیے جائیں گے۔ اس کے باوجود
حساب صاف نہ ہوگا۔ اتنی بات فرما کر سرکار ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم ) رو پڑے۔ فرمایا وہ دن بہت عظیم دن ہوگا! کیونکہ اس وقت ( یعنی بروز
قیامت ) ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کا بوجھ ہلکا ہو۔ اللہ (
عزوجل ) مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے ؟ وہ عرض کرے گا، اے
پروردگار! میں اپنے سامنے چاندی کے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات جو سونے اور
جواہر اور مروارید سے آراستہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ شہر اور عمدہ محلات کس
پیغمبریا صدیق یا شہید کیلئے ہیں ؟ اللہ ( عزوجل ) فرمائے یہ اس کیلئے ہیں
جو ان کی قیمت ادا کرے۔ بندہ عرض کرے گا ان کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے ؟
اللہ فرمائے گا تو ادا کر سکتا ہے۔ وہ عرض کرے گا وہ کس طرح ؟ اللہ ( عزوجل
) فرمائے گا اس طرح کے تو اپنے بھائی کے حقوق معاف کر دے۔ بندہ عرض کرے گا۔
یااللہ ( عزوجل )! میں نے سب حقوق معاف کئے۔ اللہ ( عزوجل ) فرمائے گا اٹھ
اور اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ دونوں اکھٹے جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکار ( صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، اللہ ( عزوجل ) سے ڈرو اور مخلوق
میں صلح کرواؤ کیونکہ اللہ ( عزوجل ) بھی بروز قیامت مسلمانوں میں صلح
کروائے گا۔
اللہ عزوجل ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں صحیح طریقے سے ادا کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |