ایف آئی اے کا نیا ڈی جی کون؟

وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے ) پاکستان کے ایک بلندپایہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے،اِس ادارے کا قیام ایک پارلیمانی ایکٹ کے تحت عمل میں آیا۔ ایف آئی اے کے مقاصد میں مثالی اور معیاری اقدارکو فروغ دینا، مسلسل پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنا ، موثر داخلی احتساب کو یقینی بنانا، ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی اور ایک بامعنی رائے کے طریقہ کار کو فروغ دینا شامل ہیں۔ پاکستان میں انٹر سروسنز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) کے بعد ایف آئی اے کا ادارہ پاور فل ہے ۔ جس میں ایف آئی اے کے اپنے عملے سمیت سول،سیکرٹریٹ، انکم ٹیکس، کسٹم، انٹیلی جنس بیورو ، ڈی ایم جی یا پولیس گروپ کے افسر ڈیپوٹیشن پر مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں، مگر ادارے کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی )پولیس گروپ کا افسر ہی ہوتا ہے ، یہ عہدہ ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کو خوش رکھ سکے یا کسی اہم شخصیت کا رشتہ دار ہو۔ ماضی سے اب تک ایف آئی اے میں جتنے پولیس افسران کو بھی تعینات کیا جاتا رہا وہ کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کے رشتہ دار یا سفارشی ضرور تھے۔ جیسا کہ موجودہ ڈائریکٹر جنرل نوابزدہ اکبر خان ہوتی سابق گورنر خیبر پختونخواہ نوابزدہ غفور خان ہوتی مرحوم کے صاحبزادے ہیں، اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیرمواصلات ارباب عالمگیر خان کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں کو اُن کی ملازمت کی مدت پوری ہونے پر سات فروری کو ریٹائرڈ کیا جا رہا ہے۔جن کے بعد مذکورہ عہدے کے لئے کئی پولیس افسران اس مرغن عہدے کو حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں، جن میں مسلم لیگ(ن) کے تین جیالے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نسیم الزمان، عابد قادری اور سندھ سے تعلق رکھنے والے اقبال محمود کے نام بھی زیر غور ہیں۔جبکہ خیبر پختونخواہ سے کسی سینئر پولیس افسر کا نام فہرست میں شامل نہیں مگر کئی پٹھان پولیس افسران بھی اس اہم عہدے پر تعیناتی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ مذکورہ عہدے پر تعیناتی وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے لئے ایک اہم امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ ایسے شخص کو تعینات کر سکیں جو اُن کے معاملات کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر سکے۔

ایف آئی اے نے سال 2015ء سے اب تک کئی اہم گرفتاریاں تو کیں ہیں مگر ناقص تفتیش کی بناء پر اب تک کسی ملزم کو سزا نہ ہو سکی ۔ ایف آئی اے کے اہلکاروں کے لئے انسانی اسمگلرز، منی لانڈرنگ کرنے والے عناصر سونے کی کھان ہیں۔ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والاگریڈ بیس کا ایک بااَثر پولیس افسر گزشتہ دس سالوں سے ایف آئی اے کے اہم عہدوں پر ڈائریکٹر تعینات ہوتا آ رہا ہے، جس کو کبھی ڈائریکٹر ایف آئی اے پشاور تو کبھی لاہور تو کبھی اسلام آبادمیں ڈائریکٹر کے عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے ، مذکورہ پولیس افسر کا دوسرا بھائی بھی گریڈ بائیس کا پولیس افسر ہے جو خود کو بھی ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تعینات کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے ۔جبکہ دونوں بھائیوں کے خلاف قومی احتساب بیورو اور انٹیلی جنس ادارے میں ناجائز اثاثے بنانے اور غیر ملکی خفیہ اداروں کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھنے پر انکوائریاں بھی چل رہی ہیں جو کہ تقریباً سرد خانے میں پڑی ہیں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سینئر صحافی نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو مذکورہ با اَثر پولیس افسر کی ایف آئی اے میں طویل تعیناتی اور کرپشن کے بارے میں سوال کی وجہ پوچھی تو وزیر داخلہ نے جواب میں کہا کہ ابھی تک مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں اور اُنہوں نے اس معاملے کی چھان بین کروانے کا وعدہ تو کیا مگر تاحال اُ س وعدے کا پتہ نہ چل سکا۔

بہرحال اس وقت ایف آئی اے کا ادارہ سیاستدانوں کے لئے ایک دوسرے سے انتقام کا ادارہ بن چکا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ اگر حقیقت میں اس ادارے کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کروانا چاہتے ہیں تو وہ کسی غیر سیاسی شخص کو ایف آئی اے کا سربراہ تعینات کریں جو حقیقی معنوں میں مذکورہ ادارے سے گندی مچھلییوں کا صفایا کر سکے۔ اور ایسے تمام افسران کو اپنے اپنے محکموں میں واپس بھجوایا جائے جو گزشتہ کئی سالوں سے ایف آئی اے میں تعینات ہو کر عیاشیاں کر رہے ہیں۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90145 views i am a humble person... View More