کالے بچھو

کالے بچھو
اس مضمون میں ایک ایسے “واجب“ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ جسے آج مسلمانوں کی غالب اکثریت ترک کئے ہوئے ہے۔ پڑھئے اور خوف خداوندی عزوجل سے لرزئیے !

سرکار (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا عاشق بھی کیا داڑھی منڈاتا ہے
کیوں عشق کا چہرے سے اظہار نہیں ہوتا

الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علٰی سیدالانبیاء والمرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ط

کالے بچھو

کوئٹہ کے ایک قریبی گاؤں میں کسی “ کلین شو “ نوجوان کی لاوارث لاش ملی۔ ضروری کاروائی کے بعد لوگوں نے مل جل کر اسے دفنا دیا۔ اتنے میں مرحوم کے ورثا ڈھونڈتے ہوئے آ پہنچے اور انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اپنے اس عزیز کی قبر اپنے گاؤں میں بنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ قبر سے مٹی کھود کر ہٹا دی گئی اور جب چہرہ کی طرف سے پتھر کی سل ہٹائی گئی تو یہ دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں کہ ابھی جس کلین شیو نوجوان کو دفن کیا تھا اس کے چہرے پر کالی داڑھی بنی ہوئی ہے اور وہ داڑھی کالے بالوں کی نہیں بلکہ کالے بچھوں کی ہے۔ یہ ہو شربا منظر دیکھ کر لوگ استغفار پڑھنے لگے اور جوں توں قبر بند کر کے خوف زدہ لوٹ گئے۔

شادی کا لالچ:
سگ مدینہ عفی عنہ ( راقم الحروف ) کے بیان میں مذکورہ بالا واقعہ سن کر ایک نوجوان نے خوف خدا عزوجل کے سبب داڑھی سجا لی مگر بد قسمتی سے گھر والوں نے داڑھی کی مخالفت کی اور شادی کے لالچ میں آکر اس نے بھی داڑھی منڈوا دی۔ مگر کالے بچھوؤں والا واقعہ اس کے ذہن سے نہیں ہٹتا تھا۔ جب شیو کروانے کے بعد وہ غسل خانے میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی کہ اس کے غسل خانے میں ایک خوفناک کالا بچھو رینگ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس نے اسی وقت داڑھی منڈوانے سے توبہ کی اور الحمدللہ عزوجل دوبارہ داڑھی بڑھانا شروع کر دی۔
محبت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دم بھرنے والو! اللہ عزوجل کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان عالیشان بار بار پڑھو۔
“ مونچھیں خوب پست ( یعنی چھوٹی ) کرو اور داڑھیوں کو معافی دو ( یعنی بڑھاؤ ) یہودیوں کی سی صورت نہ بناؤ “ ( طحاوی شرح معانی الآثار )
قبر کا ہوشربا منظر:
اے غافل بھائی! ذرا ہوش کر ! مرنے کے بعد تیری ایک نہ چلے گی تیرے ناز اٹھانے والے تیرے کپڑے بھی اتار لیں گے۔ تو کتنا ہی بڑا سرمایہ دار سہی، تجھے وہی کورے لٹھے کا کفن پہنائیں گے جو فٹ پاتھ پر دم توڑنے والے لاوارث کو پہنایا جاتا ہے۔ تیری کار ہے تو وہ بھی گیراج میں کھڑی رہ جائے گی۔ تیرے بیش قیمت لباس صندوق میں دھرے رہ جائیں گے۔ تیرا مال و متاع اور خون پسینے کی کمائی پر ورثاء قابض ہو جائیں گے۔ “ اپنے “ اشک بہا رہے ہوں گے۔ “ بیگانے “ خوشیاں منا رہے ہوں گے اور تجھے تیرے ناز اٹھانے والے اپنے کندھوں پر لاد کر چل دیں گے اور ایک ایسے ویرانے میں لے آئیں گے کہ تو کبھی اس ہولناک سناٹے میں خصوصاً رات کے وقت ایک گھڑی بھی تنہا نہ آیا تھا نہ آ سکتا تھا۔ بلکہ تصور سے ہی کانپ جایا کرتا تھا۔ اب تجھے گڑھا کھود کر منوں مٹی تلے دفن کر کے چکے جائیں گے۔ کوئی تیرے پاس ایک رات بھی ٹھہرنے کے لئے راضی نہ ہوگا۔ خواہ تیرا چہیتا بیٹا ہی کیوں نہ ہو وہ بھی بھاگ کھڑا ہوگا۔ اب اس تنگ و تاریک قبر میں نہ جانے کتنے ہزار سال تیرا قیام ہوگا۔ تو حیران و پریشان ہوگا۔ افسردگی چھائی ہو گی۔ قبر بھی بھینچ رہی ہو گی، تو چلا رہا ہو گا، حسرت بھری نگاہوں سے عزیزوں کو نگاہوں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہا ہوگا دل ڈوبتا جا رہا ہوگا۔ اتنے میں قبر کی دیواریں ہلنا شروع ہوں گی۔ دہشت سے تیری گھگھی بندھ جائے گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو خوفناک شکلوں والے فرشتے ( منکر و نکیر ) اپنے لمبے لمبے دانتوں سے قبر کی دیوار کو چیرتے ہوئے تیرے سامنے آ موجود ہوں گے، ان کی آنکھوں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے۔ کالے کالے مہیب بال سر سے پاؤں تک لٹک رہے ہوں گے۔ تجھے جھڑک کر بٹھائیں گے۔ کرخت ( نہایت ہی سخت ) لہجے میں اس طرح سوالات کریں گے “ من ربک ؟“ ( تیرا رب عزوجل کون ہے ؟) “ مادینک ؟“ ( تیرا دین کیا ہے ؟) اتنے میں تیرے اور مدینے کے درمیان جتنے پردے حائل ہوں گے، سب اٹھا دیئے جائیں گے کسی کی موہنی دلربا اور پیاری پیاری صورت سامنے آ جائیگی۔ کیا عجب ! تیری آنکھیں شرم سے جھک جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ تو سوچ میں پڑ جائے کہ نگاہیں اٹھاؤں تو کیسے اٹھاؤں! اپنی بگڑی ہوئی صورت دکھاؤں تو کیسے دکھاؤں! یہ وہی تو میرے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں جن کا میں کلمہ پڑھا کرتا تھا۔ اپنے آپ کو ان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا غلام بھی کہتا تھا۔ لیکن میں نے یہ کیا کیا! میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو فرماتے رہے “ داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں پست کرو، داڑھیوں کو معافی دو یہودیوں یعنی میرے دشمنوں جیسے صورت مت بناؤ، لیکن ہائے میری بد بختی! میں چند روزہ دنیا کی زنیت میں کھو گیا۔ فیشن نے میرا ستیا ناس کر دیا۔ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سختی سے منع کرنے کے باوجود میں نے چہرہ دشمنوں جیسا ہی بنایا ہائے! اب کیا ہوا ؟ کہیں ایسا نہ ہوا کہ میری بھونڈی شکل دیکھ کر سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منہ پھیر لیں اور یہ فرما دیں کہ “ یہ تو میری دشمنوں والا چہرہ ہے میرے غلاموں والا نہیں!!“ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس وقت سوچ تجھ پر کیا گزرے گی۔
نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا عزوجل کی قسم
اگر نبی ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا
ایسا نہیں ہو گا انشاءاللہ عزوجل ہرگز نہیں ہوگا۔ ابھی زندگی باقی ہے مان جا، اپنے کمزور بدن پر ترس کھا، جھٹ ہمت کر، انگریزی فیشن، فرنگی تہذیب کو تین طلاقیں دے ڈال اور اپنا چہرہ میٹھے میٹھے مدنی مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پاکیزہ سنت سے آراستہ کر لے اور ایک مٹھی داڑھی سجالے۔ ہرگز ہرگز شیطان کے اس فریب میں نہ آ اور ان وساؤں کی طرف توجہ مت لا، “ کہ ابھی تو میں اس قابل نہیں ہوا، میری تو عمر ہی کیا ہے ؟ میرا علم بھی اتنا کہاں ہے ؟ اگر کسی نے دین کے بارے میں سوال کر دیا تو مجھے جواب نہیں آئے گا میں تو جب قابل ہو جاؤں گا اس وقت داڑھی رکھوں گا “ یاد رکھ ! شیطان کا کامیاب ترین وار ہے کہ انسان اپنے آپ کو یہ سمجھے کہ “ ہاں، میں اب دین میں قابل ہو گیا ہوں۔“ بھائی !! اپنے آپ کو قابل سمجھنا یہی ناقابلیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ عاجزی اختیار کر۔ اللہ عزوجل کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بھی تو ایسا ہوا کہ لوگوں نے بعض اوقات سوالات کئے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جواب کے لئے وحی کا انتظار فرمایا۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے بھی سوالات کے وقت خاموش ہو جانا ثابت ہے۔ بڑے بڑے علماء کرام بھی ہر سوال کا جواب نہیں دیتے تو کیا ہر سوال کا جواب دیبے کی تونے ذمہ داری لی ہوئی ہے ؟ نفس کی حیلہ بازیوں میں مت آ۔ اور مان جا، خواہ ماں روکے، باپ منع کرے، معاشرہ آڑے آئے، شادی میں رکاوٹ کھڑی ہو۔ کچھ ہی ہو جائے اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حکم ماننا ہی پڑے گا۔ تسلی رکھ، اگر جوڑا لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے تو تیری شادی ضرور ہو جائے گی۔ اور اگر نہیں لکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تیری شادی نہیں کروا سکتی۔ زندگی کا کیا بھروسہ ؟

داڑھی منڈواتے ہی موت:
کسی نے سگ مدینہ ( راقم الحروف ) کو یہ واقعہ سنایا کہ بنگلہ دیش میں ایک نوجوان نے داڑھی رکھی تھی، جب اس کی شادی کا وقت قریب آیا تو والدین نے داڑھی منڈوانے پر مجبور کیا۔ بادل نخواستہ نائی کے پاس گیا اور داڑھی منڈوادی۔ گھر کی طرف آ رہا تھا، سڑک عبور کر رہا تھا کہ کسی تیز رفتار گاڑی نے کچل کر رکھ دیا۔ شادی کے ارمان خاک میں مل گئے۔ ماں باپ کیا کام آئے ؟ نہ شادی ہوئی نہ داڑھی رہی۔ تو بھائی! ہوش میں آ۔ اللہ عزوجل پر بھروسہ کرکے آج ہی عہد کر لے کہ اب سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت میں گردن تو کٹ سکتی ہے مگر میری داڑھی اب دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے جدا نہیں کر سکتی۔ شاباش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبارک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبارک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبارک
داڑھی منڈوں سے آقا ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کی نفرت کا عبرتناک واقعہ:
سگ ایران خسرو پرویز کے پاس حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تبلیغی نامہ مبارکہ پہنچا تو اس ظالم و گستاخ نے نامہ مبارکہ کو دیکھتے ہی غصہ سے شہید کر ڈالا اور اس بدزبان نے کہا،
( ۔ ۔ ۔ ۔ پرویز کا بے ادبانہ جملہ نقل کرنے کی ہمت نہیں لٰہذا حذف کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ )
اس کے بعد سگ ایران خسرو ( پرویز ) نے باذان کو جو یمن میں اس کا گورنر تھا اور عرب کا تمام ملک اس کے زیر اقتدار سمجھا جاتا تھا یہ حکم بھیجا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ( یہاں پر بھی سگ ایران پرویز کی بکواس حذف کی جاتی ہے۔)

باذان نے ایک فوجی دستہ مامور کیا جس کے افسر کا نام خرخسرہ تھا۔ نیز سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اثر و سوخ پر گہری نظر ڈالنے کے لئے ایک ملکی افسر بھی اس کے ساتھ جس کا نام بانویہ تھا۔ یہ دونوں افسران جس وقت سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں پیش کئے گئے تو رعب نبوت مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وجہ سے ان کی گردن کی رگیں تھر تھرا رہی تھیں۔ یہ لوگ چونکہ آتش پرست پارسی تھے۔ اس لئے داڑھیاں منڈی ہوئیں اور مونچھیں بڑھی ہوئیں تھیں اور اپنے بادشاہ پرویز کو رب کہا کرتے تھے۔ ان کے چہرے دیکھ کر پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی، کراہت کے ساتھ فرمایا، “ تم پر ہلاکت ہو کہ ایسی صورت بنانے کا تم سے کس نے کہا ہے ؟“ انھوں نے جواب دیا “ ہمارے رب پرویز نے “ پیارے آقا صلی اللہ* ****************�� �*********علیہ وسلم نے فرمایا “مگر میرے رب تعالٰی نے تو مجھے یہ حکم دیا ہے کہ داڑھی بڑھاؤں اور مونچھیں کترواؤں۔“ ( تاریخ الخمیس و طبری )

پیارے اسلامی بھائیو! اس واقعہ پر غور فرمائیے۔ سمجھ میں نہ آیا تو دوبارہ پڑھیئے۔ خوب غور کیجئے۔ دو
ایسے اشخاص جو ابھی کافر ہیں مسلمان نہیں ہوئے۔ احکام شریعت سے ناواقف بھی ہیں اور مکلف بھی نہیں۔ مگر چونکہ انھوں نے فطری وضع کے ساتھ زیادتی کی، چہرہ کے قدرتی حسن کو برباد کیا۔ سرکار عالی وقار ****************�� �****************� ��****** کی طبیعت مبارکہ کو ان کا یہ ( داڑھی منڈوانے کا ) فعل انتہائی ناگوار گزرا اور باوجود رحمۃ للعٰالمین ہونے کے فرمایا، “ تم پر ہلاکت ہو۔“ ذرا سوچئے ! غور کیجئے! جب میدان قیامت میں جمع ہوں گے نفسی نفسی کا عالم ہو گا ماں بیٹے سے اور بیٹا باپ سے بھاگ رہا ہوگا۔ اس وقت ایک ہی تو ذات پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہو گی جو عاصیوں کی امیدگاہ ہو گی۔ اسی سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سب کو حاضری دینی ہو گی۔ یاد رکھئے جو جس حال میں مرے گا اسی حال میں قیامت کے روز اٹھایا جائے گا۔ داڑھی والا داڑھی کے ساتھ اٹھے گا اور داڑھی منڈا، داڑھی منڈا ہی اٹھے گا۔

اے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت کو پامال کرنے والو! اگر پیارے سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آپ سے استفسار فرما لیا، “ کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟“

ظاہر ہے انکار تو کر ہی نہیں سکتے یہی عرض کریں گے، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! آپ ہی ہمارے سب کچھ ہیں۔ ہم آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے ماں باپ، مال، اولاد سب سے عزیز تر سمجھتے ہیں۔ سرکار! دنیا میں ہم تو جھوم جھوم کر عرض کیا کرتے تھے،،
مرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمت عالم!
میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لئے
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم!ہماری بےتابی کا عالم تو یہ تھا کہ بے قرار ہو کر عرض گزار ہوا کرتے تھے،،
غلام مصطفٰے (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) بن کر میں بک جاؤں مدینے میں
محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) نام پر سودا سر بازار ہو جائے !
اور آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب محبت کچھ زیادہ ہی جوش مارتی تھی تو یہ تک کہہ دیتے تھے،،
جان بھی تو دے دوں خدا عزوجل کی قسم!
کوئی مانگے اگر مصطفٰے ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کے لئے!
یہ سب کچھ سن کر ( اللہ نہ کرے ) آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر بالفرض یہ ارشاد فرمائیں،
“ اے میرے غلامو! اگر واقعی تم مجھے ماں، باپ اور مال و اولاد سب سے زیادہ عزیز تر سمجھتے تھے اور صرف میری ہی خاطر دنیا میں موجود تھے۔ نیز میرے نام پر بکنے بلکہ جان تک دینے کے لئے تیار تھے تو پھر آخر کیا وجہ تھی کہ شکل و صورت میرے دشمنوں جیسی بنائے پھرتے تھے۔ کیا تم تک میرے ارشادات نہ پہنچے تھے کہ:
(1) “ مونچھیں خوب پست ( یعنی چھوٹی ) کرو اور داڑھیوں کو معافی دو ( یعنی ان کو بڑھنے دو ) اور یہودیوں کی سی صورت مت بناؤ۔“ ( لمعۃ الضحٰی )
اور یہ ارشاد نہ سنا تھا کہ:
(2) “ جو میری سنت اختیار کرے وہ میرا اور جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ میرا نہیں۔“ ( ابن عساکر )
(3) “ جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں۔“ ( ابن ماجہ )
اگر آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روٹھ گئے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
فیشن پر مرمٹنے والو! یہ ارشادات عالیہ یاد دلانے کے بعد اگر خدانخواستہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روٹھ گئے تو آپ کیا کریں گے ؟ کس کے دروازے پر فریاد کریں گے؟ اگر خدا نہ کرے ناراض ہو کر یہ بھی ارشاد فرما دیا تو کیا کریں گے؟ اور وہ ارشاد یہ ہے۔
“ یعنی جس نے میری سنت کو ضائع کیا اس کے لئے میری شفاعت حرام ہے۔“ ( مکاشفۃالقلوب )
محبت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دم بھرنے والو! سوچو ! غور کرو !! پھر کس کے دروازے پر شفاعت کی بھیک لینے جاؤ گے؟ کون اللہ عزوجل کے قہر و غضب سے بچانے والا ہوگا؟ ابھی موقع ہے، جب تک سانس باقی ہے، وقت ہے، جھٹ پٹ توبہ کر لو، اپنے چہرے کو پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی میٹھی میٹھی سنت سے آراستہ کر لو، اپنے چہرے پر محبت کی نشانی سجا لو۔ یہ خوش فہمی ختم کر دو کہ ابھی تو عمر ہی کیا ہے؟ بعد میں رکھ لیں گے، شادی کے بعد دیکھی جائے گی! بھولے بھالے بھائیو! شیطان کے چکر میں مت آؤ۔ وہ کیسے ہی عزیز کی زبانی تمہیں یہ باور کروانے کی کوشش کرے کہ ابھی تمہاری عمر داڑھی رکھنے جتنی نہیں ہوئی ہے، بعد میں رکھ لینا۔ یہ شیطان کا بے حد کامیاب وار ہے۔ اس وار سے اس مردود نے نہ جانے کتنوں کو تباہ کر دیا۔ آئیے! آپ کو ایک عبرتناک واقعہ سناؤں۔

مرنے سے پہلے شامت
ایک نوجوان “ دعوت اسلامی “ کے پاکیزہ ماحول میں آنے جانے لگا اور باقاعدگی سے اجتماع میں شرکت شروع کر دی چہرے پر داڑھی سجا لی۔سال بھر تک مسلسل “ دعوت اسلامی “ کے سنتوں بھرے مدنی ماحول سے وابستہ رہا۔ پھر نہ جانے کیا سوجھی ؟ شاید برے دوست مل گئے۔ معاذاللہ عزوجل داڑھی صاف کرادی۔ شب جمعہ کو کراچی کے ہفتہ وار اجتماع میں غیر حاضر رہا۔ جمعہ کے روز دوستوں کے ساتھ کراچی کی مشہور تفریح گاہ “ ہاکس بے “ کے ساحل سمندر پر پکنک منانے کے لئے چلا گیا۔ اور آہ! بے چارہ ڈوب کر موت کا شکار ہو گیا۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی نوجوان کیسے کیسے!

عبرت ہی عبرت:
اس مرحوم نوجوان کی عمر تقریباً بیس سال ہو گی۔ کیا عمر تھی؟ شاید داڑھی رکھنے کی ابھی عمر نہیں آئی تھی! کہیں اس لئے تو انتقال سے صرف پندرہ روز پہلے داڑھی صاف نہیں کروا دی تھی؟ نہیں ہرگز نہیں۔ بس بےچارے کے نصیب! بری صحبت کا اثر! اللہ عزوجل! اس بےچارے کی مغفرت کرے۔ یہ ڈوبنے والا نوجوان ہم سب کو ابھارنے کے لئے بہت کچھ سامان عبرت چھوڑ گیا جو کوئی دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے دور ہونے کا خیال کرے یا سیر و تفریح کے شائقین دوستوں سے رشتہ جوڑے اسے چاہئے کہ اس واقعہ پر اچھی طرح غور کرلے کہ کہیں میں بھی دوسروں کے لئے سامان عبرت نہ بن جاؤں! کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے یہ فیشن پرست دوست خود تو ڈوبے ہیں مجھے بھی نہ لے ڈوبیں! اور غور کرے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری زندگی کے دن پورے ہونے کو آگئے ہوں اور اسی وجہ سے شیطان اپنا پورا زور مجھ پر لگا رہا ہو، کہیں چند روز کی بری صحبت کی نحوست کے ذریعے وہ میری زندگی کی کمائی پر پانی نہ پھیر دے۔
داڑھی صرف مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پسند کی رکھو:

اے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! کے چاہنے والو! مان جاؤ ! اپنی جوانی پر مت اتراؤ ! دنیوی مجبوریوں کو حیلہ مت بناؤ! آؤ ! آؤ ! محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دامن کرم سے لپٹ جاؤ! ان سے معافی مانگ لو! ان کے پروردگار عزوجل سے بھی معافی طلب کر لو۔ یہ بارگاہ کرم والی بارگاہ ہے۔ یہاں سے کوئی سائل مایوس نہیں جاتا۔ سنت کی خیرات لے لو۔ اپنے چہرے سے دشمن خدا عزوجل و مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نحوست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دھو ڈالو اور پیاری پیاری سنت چہرے پر سجا لو۔ اور ہاں! خیال رکھنا! شیطان بڑا مکار و عیار ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ انگریزوں اور یہودیوں سے تو دامن چھڑالیں اور داڑھی سجا لیں مگر شیطان دوسرے زوائیے سے آپ کو پھر گھیر لے اور آپ کو کہیں فرانسیسیوں کے قدموں میں نہ پٹخ دے۔ مطلب یہ کہ کہیں “ فرنچ کٹ “ یعنی خشخشی داڑھی نہ رکھ لینا کہ داڑھی منڈوانا اور کتروا کر ایک مٹھی سے چھوٹی کر دینا دونوں حرام ہے۔ داڑھی رکھو اور ضرور رکھو۔ مگر میٹھے میٹھے مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پسند کی رکھو یعنی ایک مٹھی پوری رکھو۔“
داڑھی چھوٹی کر ڈالنا کسی کے نزدیک حلال نہیں:

“ در مختار“، “ فتح القدیر “، بحرالرائق “ وغیرہ معتبر کتب فقہ میں لکھا ہے کہ “ جب تک داڑھی ایک مٹھی سے کم ہے اس میں سے کچھ لینا جس طرح کہ بعض مغربی مخنث کرتے ہیں۔ یہ کسی کے نزدیک حلال نہیں۔ اور بس لے لینا یعنی بالکل ہی منڈوا لینا آتش پرستوں، یہودیوں، ہندوؤں اور بعض فرنگیوں ( یعنی انگریزوں ) کا فعل ہے۔“
داڑھی کو چھوٹی کروا دینے والے بلکہ صاف کروا دینے والے لوگ فقہائے کرام رحمھم اللہ کے ارشاد بالا سے عبرت حاصل کریں۔ بلکہ عبرت بالائے عبرت تو یہ ہے کہ حضرت امام اہلسنت نے “ لمعۃ الضحٰی “ میں حضرت سیدنا کعب احبار رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ کا قول نقل کیا ہے کہ:
بد نصیب لوگ:
“ آخر زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے کہ داڑھیاں کتریں گے۔ وہ نرے بے نصیب ہیں۔ یعنی ان کے لئے دین میں کوئی حصہ نہیں اور آخرت میں ( بھی ) بہرہ ( یعنی حصہ ) نہیں۔ ( لمعۃ الضحٰی )
دیکھا آپ نے؟ گویا داڑھی کو کتروا کر ایک مٹھی سے کم کر دینے والے دین و دنیا اور آخرت میں بد نصیب ہیں۔
مدنی التجا:
الحمدللہ عزوجل علی احسانہ! جب کو توفیق ملی انھوں نے اپنا چہرہ دشمنان مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نحوست سے پاک کر کے سنے سجا لی۔ اب انھیں چاہئے کہ عمر بھر میں جب تک داڑھی منڈاتے رہے ہیں اس کی توبہ بھی کر لیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کوشش کریں کہ اپنے سر کے بال انگریزی وضح کے نہ رکھیں۔ بلکہ سنت کے مطابق زلفیں رکھیں۔ انگریزوں کی طرح ننگے سر بھی نہ پھرا کریں۔ ہر وقت عمامہ شریف باندھا کریں کہ ہمیشہ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سر اقدس پر ٹوپی کے اوپر عمامہ شریف سجائے رکھا۔ عمامہ شریف سنت لازمہ دائمہ متواترہ ہے، مدینے کے تاجدار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں، “ عمامہ باندھو تمہارا حلم بڑھے گا۔“ ( یعنی قوت برداشت بڑھے گی ) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔ “ عمامہ کے ساتھ دو رکعت نماز بے عمامہ کی ستر (***70) رکعتوں سے افضل ہیں۔“ نیز لباس بھی سفید اور ہر قسم کی فینسی خراش سے منزہ اور بالکل سادہ زیب تن کریں اور انگریزی لباس سے پرہیز کریں۔ روزانہ پانچوں نمازیں تکبری اولٰی کے ساتھ باجماعت ادا کیا کریں۔ ہنسی مذاق اور فضول گوئی کی عادت ترک کر دیں۔ انشاءاللہ عزوجل باوقار مسلمان بن کر معاشرہ میں ابھریں گے۔
برائے خاک مدینہ! جہاں کہیں “ دعوت اسلامی “ کے سنتوں بھرے اجتماعات ( مثلاً کراچی میں فیضان مدینہ محلہ سودا گران سبزی منڈی میں ہر جمعرات کو نماز مغرب کے بعد اجتماع ہوتا ہے ) میسر آئیں ضرور شرکت فرمائیں۔ دعوت اسلامی کے سینکڑوں مدنی قافلے شہر بہ شہر اور گاؤں بہ گاؤں سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ سنتوں کی تربیت کے لئے ضرور ضرور جائیں۔ اور اپنی آخرت بہتر بنائیں۔
Muhammad Owais Aslam
About the Author: Muhammad Owais Aslam Read More Articles by Muhammad Owais Aslam: 97 Articles with 687721 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.