نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم اما
بعد
متعلقین دعوت اسلامی سے جہاں اور بہت سے سوالات پوچھے جاتے ہیں وہاں ان سے
ایک سوال عموماً سبز عمامہ شریف کے بارے پوچھا جاتا ہے تو میں نے اس سلسلہ
میں متعدد علماء کرام سے رابطہ کیا۔ تو انہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر
مختلف آراء اور متعدد نکات سے مستفید فرمایا جنہیں میں نے اس رسالہ میں جمع
کردیا ہے تاکہ دوسرے اسلامی بھائی بھی ان سے مستفید ہوسکیں۔ لہٰذا سوال
بمعہ جوابات پیش خدمت ہیں۔
سوال: آپ لوگ سبز عمامہ شریف کیوں باندھتے ہیں۔ جبکہ رسول خدا (صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) باعث تخلیق ارض و سما نے سبز عمامہ شریف نہیں
باندھا آپ دعویدار تو احیاء سنت کے ہیں۔ مگر تمہاری بنیادی بدعت پر ہے؟
الجوابات
اس سوال کے بہت سے جوابات ہوسکتے ہیں۔ مگر چند ذکر کئے جاتے ہیں۔
الجواب 1:۔
جواب سے پہلے تمہید سنت اور بدعت ک لغوی و اصطلاحی معنی ذہن نشین ہونا
چاہئے۔ تاکہ جواب کا سمجھنا آسان ہوجائے۔
سنت کا لغوی معنی :۔
سنت کا لغوی اور بنیادی معنی "رستہ " ہے
سنت کا اصطلاحی معنی:۔
اصطلاحی شرع میں سنت اس نفلی عبادت کو کہتے ہیں جس کے کرنے سے ثواب ہو اور
نہ کرنے سے عقاب نہ ہو۔ اور دین میں ایسی راہ "جس پر پیارے پیارے مدنی آقا
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا ان کے پیارے صحابی چلے ہوں" کو سنت کہتے
ہیں۔
چنانچہ اصطلاحی معنی علماء کرام رحمہم اللہ تعالٰی یوں بیان فرماتے ہیں۔
(1) السنۃ فی الشرع تطلق علی العبادات النافلہ التی یتعلق بفعلھا التواب
ولا یتعلق بترکھا العقاب
(العقد النامی شرح الحصامی 135)
اصطلاح شرح میں سنت اس نفلی عبادت کو کہتے ہیں کہ جس کے کرنے سے ثواب ہو
اور نہ کرنے سے سزا نہ ہو۔
سنت کی تعریف علماء کرام نے یوں بھی فرمائی ہے۔
(2) السنۃ الطریقۃ للسلوکۃ فی لدین سواء سلکھا النبی صلی اللہ علیہوسلم
اولصحابۃ رضی اللہ عنھم
(العقد النامی 123)
سنت دین میں اس راہ کو کہتے ہیں جس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم الاجمعین چلے ہوں۔
سنت کے اقسام
پیارے اسلامی بھائیوں! پیارے پیارے میٹھے میٹھے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سنت ھدٰی یعنی سنت
موکدہ اور دوسری کو سنت موکدہ یعنی غیر موکدہ کہتے ہیں۔
چنانچہ نو الانور شرح منار میں ہے۔
السنہ نوعان سنۃ الھدٰی والثانی الروائد۔
کہ سنت دو قسم پر ہے سنت ھدٰی اور دوسری سنت زوائد۔
(ص 167)
سنت ھدٰی کی تعریف
مولانا عبدالحلیم الکھنوی نور الانوار کے حاشیہ میں اس کی یوں تعریف فرماتے
ہیں
ھی التی واظب علیھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم تعبدا وابتغاء مرضات اللہ
تعالٰی مع الترک مرۃ او مرتین بلا عذر اولم یترک اصلا لکنہ لم ینکر علی
التارک
ص 167 ، حاشیہ 12
سنت ھدٰی وہ ہے جس پر ہمارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
نے عبادت اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے ہمیشگی فرمائی ہو اور
بغیر عذر کے ایک یا دو دفعہ چھوڑا بھی ہو یا کبھی بھی نہ چھوڑا ہو لیکن
کبھی کبھی چھوڑنے والے پر افسوس کا اظہار بھی نہ فرمایا ہو۔ ہاں اگر کوئی
سنت ھدیٰ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو اسے برا بھلا کہا جاسکتا ہے۔
سنت ھدیٰ کا حکم
نور الانوار شرح منار میں اس کا حکم یوں بیان کیا گیا ہے۔
تارکھا یستو جب اساءۃ وکراھۃ کالجماعۃ والاذان والاقامۃ۔ ص 167
کہ اسے چھوڑنے کی عادت بنانے والا مذمت کے لائق ہے۔ جیسے جماعت، اذان اور
اقامت سنت ھدٰی ہیں۔
اگر کسی شہر کے لوگ اسے چھوڑنے کی عادت بنائیں اور اس پر اصرار کریں تو
امام وقت ان سے مسلح جہاد کرسکتا ہے۔
سنت زوائد کی تعریف
سنت زوائد وہ کام ہے جو ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم نے عبادت کی غرض سے نہیں بلکہ عادۃ اور بتقاضائے بشری فرمایا ہو۔
سنت زوائد کا حکم
ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب نور الانوار میں فرماتے ہیں۔
قارکھا لایستو جب اساءۃ کسیر النبی ف لباسہ وقعودہ وقیامہ ص167
کہ اسے چھوڑنے والا سزا کا حقدار نہیں ہوتا۔ جیسے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کے مبارک طریقے پر لباس پہننا بیٹھنا اٹھنا یہ سب سنت زوائدہ سے
ہے۔ سنت زوائد پر عمل کرنیوالا ثواب پائے گا لیکن چھوڑنے والے کیلئے سزا
نہیں ہے اب تک یہ واضح ہوگیا کہ لباس بمعہ عمامہ شریف سنن زوائد سے ہے
چنانچہ ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرما دی ہے۔ فرماتے ہیں۔
ربما ہلبس صلی اللہ علیہ وسلم عمامۃ سوداء وحمراء و کان مقدار ھا سبعۃ اذرع
او اشنی عشر ذراعا او اقل او اکثر فھذا من سنن الزوائد (نور الانوار ص 167)
بسااوقات ہمارے میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سیاہ اور سرخ
عمامہ شریف پہنتے اور اس کی لمبائی سات ہاتھ یا بارہ ہاتھ یا اس سے کم یا
اسے سے زیادہ ہوتی۔ یہ سب سنت زوائد سے ہے۔
پیارے اسلامی بھائیوں! اب بدعت کے تعلق جاننا چاہئیے کہ بدعت کیا ہے؟
کیونکہ آج کے دور میں یہ بات عام ہوگی ہے کہ ہر کام کو بدعت کہہ دیا جاتا
ہے تو آئیے بدعت کا معنی احادیث مبارکہ کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔ اس سے
قبل بدعت کا عامی معنی بیان کی جاتا ہے۔
بدعت کا عامی معنی: عام طور پر بدعت کا معنی یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ہر وہ
شے اور کام جو پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں
نہ ہوا ہو یعنی جسے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کیا ہو، بدعت
ہے۔ لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس معنی سے بہت سی خرابیاں لازم آتی
ہیں۔ مثلاً علم صرف و نحو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اطہر
میں نہ تھے۔ حالانکہ قرآن و حدیث سمجھنے کیلئے ان کا سیکھنا واجب ہے۔ اسی
طرح دور حاضر کی طرز پر مدارس، مساجد، جہاز، گاڑی وغیرہ وغیرہ کچھ نہ تھے
حالانکہ سب مباح ہیں۔ بائیں معنی بدعت کا پر چار کرنے والا بھی ان بدعتوں
میں مبتلا ہے۔ لہٰذا بدعت کا مذکورہ معنی و تعریف صحیح نہں ہے۔ تو آئیے
پیارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالی شان کی
روشنی میں بدعت کا صحیح معنی ڈھونڈتے ہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا صحیح معنی: عام الفاظ میں آپ بدعت کی
تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ ہر وہ کام جس کے کرنے سے قرآں و سنت (موکدہ) کی
مخالفت ہوتی ہو اور وہ اللہ (عزوجل) اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہو کہ جس سے انسان مذمت کے لائق ٹھہرے، بدعت
ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث قوم بدعت الارفع مثلھا من السنۃ
فتمسک بسنۃ خیر من احداث بدعۃ (مشکٰوۃ ص31)
پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی قوم بدعت
ایجاد نہیں کرتی مگر اسی قدر سنت اٹھالی جاتی ہے لہٰذا سنت کو پکڑنا بدعت
کی ایجاد سے بہتر ہے۔
ایک دوسری حدیث مبارکہ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔
من ابتدع بدعۃ لایرضا ھا اللہ ورسلہ (ابن ماجہ شریف 19)
وہ شخص جس نے بدعت ایجاد کی کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم راضی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلوم ہوا وہ کام جس سے سنت کا ارتفاع اور اللہ (عزوجل اور اس کے رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی لازم آتی ہو، بدعت ہے اور وہ کام جس
سے سنت کی اعانت اور تقویت ہو وہ بدعت نہیں ہے۔
بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس گئے گزرے دور میں (جبکہ عمامہ سر پہ سجانے
والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے) عمامہ شریف والی سنت کو زندہ کرنے والے اس
بشارت کے صحیح مصداق ہیں جو پیارے میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنے غلاموں کی دی ہے۔
من تمسک بستی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید۔
(مشکٰوۃشریف باب الاعتصام ص30)
پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری امت کے
بگڑے وقت میری سنت کو مضبوط تھاما تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔
پیارے اسلامی بھائیوں! اگر آپ اس بحث مذکورہ بالا کو یاد کرلیں تو آپ کو
بہت سے اعتراضات کے جواب میں آسانی ہوجائے گی۔ لاتوفیق الاباللہ
جواب:
تو پیارے اسلامی بھائیوں! جب یہ تمہیدی مقدمہ یعنی سنت و بدعت کا مفہوم ذہن
نشین ہوگیا۔ تو سائل کو عرض کریں کہ جناب عالی، عمامہ شریف سنت زوائد سے
ہے۔ اگر بالفرض سبز عمامہ شریف پیارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم نے زیب تن نہ بھی فرمایا ہو تب بھی بدعت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس
سے کسی سنت کا ترک لازم نہیں آتا کہ جس وجہ سے سبز عمامہ شریف سر پہ سجانے
والا ملامت کے لائق ہوکر بدعت کا مرتکب ہو بلکہ ممنوعہ رنگوں (یعنی سرخ اور
زعفران کے رنگے ہوئے زرد رنگ) کے علاوہ جس رنگ کا بھی عمامہ شریف سر پر
سجالیا جائے تو اس سے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت
مبارکہ ہی ادا ہوگی۔
اور جب یہ ثابت ہوجائے کہ سبز عممہ شریف پیارے پیارے میٹھے آقا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے زیب تن فرمایا ہے تو پھر اس کے بدعت ہونے کا
شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔
جیسے حضرت امام علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
دستار مبارک آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اکثر اوقات سفید بودوگاہے
دستار سیاہ و احیانا سبز (ضیاٰ القلوب فی لباس المحبوب مطع مجتبائی ص4)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دستار مبارک اکثر سفید اور کبھی
سیاہ اور کبھی سبز ہوتی تھی۔
بہر حال قطع نظر اس سے کہ پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
نے سبز عمامہ شریف زیب تن فرمایا ہے یا نہیں اسے بدعت نہیں کہا جاسکتا۔
فافھم
دوسرا جواب:
سائل کو کہیں کہ بھائی سبز رنگ ممنوع نہیں ہے بلکہ جائز ہے امام بخآری رحمۃ
اللہ علیہ نے باب الثیاب الخضر کے تحت ایک حدیث نقل فرمائی ہے جس میں حضرت
رفاعہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہما کا واقعہ درج ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے
الفاظ یہ ہیں
قالت عائشۃ وعلیھا خمار اخضر (بخاری شریف ص 866 ، ج 2 )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس عورت (یعنی زوجہ رفاعہ ) پر سبز
اوڑھنی تھی۔
معولم ہوا سبز رنگ جائز ہے ورنہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منع
فرما دیتے۔ بلکہ سبز رنگ تو خود پیار پیارے میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے۔ جیسے حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔
عن بی رمثۃ قالا خرج علینا رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم وعلٰیہ ثوبان
اخضران (ترمذی شریف ص 104 ، ج 2 )
نسائی شریف ص 297 ، ج 2)
حضرت ابی رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر دو سبز رنگ کے کپڑے تھے۔
بلکہ سبز رنگ تو ہمارے پیارے پیارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کا محبوب ترین اور پسندیدہ رنگ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔
عن انس بن مالک قال کانا احب الثیاب الٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان
یلبسھا الحبرۃ (بخاری شریف ص 865 ، ج 2)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب ترین لباس یہ تھا کہ آپ حبرہ
زیب تن فرمائیں
اس حدیث مبارکہ کے تحت امام داؤدی رحمۃ اللہ علیہ حبرہ کا رنگ اور محبوب
ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
لونھا اخفر لانھا لباس اھل الجنۃ (حاثیہ بخاری شریف ص 865، ج 2)
کہ اس حبرہ کا رنگ سبز تھا۔ محبوب اس لئے کہ یہ اہل جنت کا لباس ہے
تیسرا جواب : سائل سے کہیں کہ بھائی بیکسوں کے غمخوار تاجدار مدینہ راحت
قلب و سینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب ترین رنگ ہونے کے ساتھ
آخری لباس مبارک (جس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کفن دیا گیا
تھا) بھی سبز تھا۔ جس وجہ سے محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے
محبوب رنگ کو ہم نے محبوب بنایا اور سر پر بجالیا۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں
آتا ہے۔
عن عائشۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخبرتہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم حین توفی محبی ببرد حبرۃ (بخاری شریف ص 865، ج 2)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ محترمہ جناب رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہا سے بیان
کیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جب وصال فرمایا
حبرہ چادر سے آپ کو کفن پنایا گیا۔
یہ وہ ہی حبرہ ہے جو زندگی مبارکہ میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو
محبوب ترین تھی۔ جس کا رنگ سبز تھا۔
چوتھا جواب:
سائل سے کہیں کہ بھائی بیکسوں کے غمخوار تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیارے پیارے روضہ مبارک کا رنگ سبز ہے اس مناسبت
سے حصول برکت کےلئے سبز عمامہ شریف استعمال کرتے ہیں۔
پانچواں جواب:
سائل سے کہیں کہ بھائی یہ رنگ خالق کائنات عزوجل کو اتنا پیارا ہے کہ اس نے
ہر شے کا تخلیقی رنگ سبز کیا ہے۔ گویا سبز رنگ کو آپ قدرتی رنگ کہہ سکتے
ہیں تو پھر یہ بدعت کیونکر ہوا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
فاخرجنا بہ نبات کل شئی فاخرجنا منہ خضرا
(پ 7 سورۃ النعام آیت نمبر 99 )
تو ہم نے اس (بارش کے پانی) سے ہر اگنے والی چیز نکالی پس ہم نے اس سے سبزہ
نکالا۔
چھٹا جواب:
سائل سے کہیں۔ بھائی اسی رنگ پر تو زندگی کا دارو مدار ہے۔ اور اسی سے
زندگی کی بہار ہے۔ اگر سبز جرثومے خون سے ختم ہوجائیں تو زندگی کا خاتمہ
ہوجاتا ہے۔ اور ایڈز سبز جرثومے ہی ختم کرتی ہے تو پھر سبز رنگ سے نفرت
کیوں؟ اور یہ بدعت کیوں ہوا؟
ساتواں جواب:
سائل سے کہیں بھائی عمامہ شریف تو اللہ تعالٰی کی پاک مخلوق فرشتوں کی سنت
ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔
عن عبادۃ قال قالا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بالعمائم فانھا
سیماء الملائکۃ ورخرھا خلف ظہورکم (مشکٰوۃ شریف کتاب الباس (377)
حضرت عبادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ تم عمامے اختیار کرو کیونکہ یہ فرشتوں کی نشانی ہے اور انہیں
اپنی پیٹھوں کے پیچھے لٹکاؤ۔
اس حدیث مبارکہ میں عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو عمامہ شریف نہیں باندھتے
اور الٹا اس سنت پر عمل کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔
جب عمامہ شریف فرشتوں کی سنت ہوا اور فرشتے تو سبز عمامہ تشریف میں دیکھائی
دیئے گئے ہیں تو پھر یہ بدعت کیونکر ہوگا؟
چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں:
کان سیماء الملائکۃ یوم بدر عمائم بیض ویوم حنین عمائم خضر
(تفسیر خازن شریف سورۃ النفال ص 182، ج 2)
بدرکے دن فرشتوں کی نشانی سفید عمامے اور حنین کے دن سبز عمامے تھی۔
آٹھواں جواب:
سائل سے کہیں کہ بھائی سبز رنگ تو اللہ تعالیٰ کو اتنا پیارا اور محبوب ہے
کہ اس نے اہل جنت کا لباس، بچھونا وغیرہ سب کچھ سبز کیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے۔
ویلبسون ثیابا خضرا من سندس و استبرق
(پ15 سورۃ کہف آیت 31)
اور سبز کپڑے کریب اور قناویز (ریشم) کے پہنیں گے۔ (کنزالایمان)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
متکئین علٰی رفرف خضر ط
(پ 27 سورہ الرحمٰن آیت 76)
تکیہ لگائے ہونے سبز بھچونوں پر (کنزالایمان)
تو جب اللہ تعالیٰ عزوجل کا پسندیدہ رنگ سبز، اللہ کے نبی اور ہمارے آقا
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب ترین رنگ سبز اور ہماری زندگی کا
انحصار سبز رنگ پر ہوا۔
تو پھر یہ بدعت کیونکر ہوگا۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کی ناراضگی کا باعث کیسے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سنت اور بدعت میں فرق
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں!
گزارش ہے کہ مخالف کے پروپیگنڈے کی پرواہ کئے بغیر جماعت کے ساتھ وابستہ
رہو اور یقین کے ساتھ اس کے منشور پر عمل پیرا رہو۔ اور کتاب و سنت کی
ترویج و اشاعت میں مگن رہو۔ امید واثق ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اس سبز
عمامہ شریف والی بہار سے امت مسلمہ پر طاری بد عملی کی تمام خزائیں گریزاں
ہوں گی۔ اللہ عزوجل ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |