جشنِ میلادالنبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم عیدِ مسرّت ہے عیدِ شرعی نہیں:-
جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدِ شرعی ہے نہ ہم اِسے عیدِ
شرعی سمجھتے ہیں، لیکن یہ عید شرعی سے بھی زیادہ عظمت والا اور کئی گنا
زیادہ قدر و منزلت والا دن ہے۔ اِس لیے اس دن خوشیاں منانا ایک فطری عمل ہے،
اور اگر اِسے عید مسرت بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ عید
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہیں جب کہ
محافلِ میلاد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور سیرت کا بیان سال
بھر جاری رہتا ہے، اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ مگر تاجدارِ
کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کو عید کا نام اِس
لیے دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ہر بڑی خوشی اور فرحت کے اِظہار کے لیے لفظِ
عید اِستعمال کرتے ہیں۔
یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف معنی میں عید کا دن ہے،
جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے!
آپ کا ملنا عید ہے! عربی زبان کا یہ شعر اس معنی کی صحیح عکاسی کرتا ہے :
عيد وعيد وعيد صرن مجتمعة
وجه الحبيب وعيد الفطر والجمعة
’’ہمارے لیے تین عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں : محبوب کا چہرہ، عید الفطر اور یومِ
جمعہ۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عیدِ
نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف
دو ہی عیدیں ہیں : عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔ حالاں کہ بنظر غائر دیکھا
جائے تو یومِ میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رُتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں تمام عیدیں، تمام
تہوار اور اسلام کے تمام عظمت والے دن نصیب ہوئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی ولادت نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوتی نہ
قرآن نازل ہوتا، نہ معراج ہوتی، نہ ہجرت ہوتی، نہ جنگ بدر میں نصرتِ
خداوندی ہوتی اور نہ ہی فتحِ مبین ہوتی۔ یہ تمام چیزیں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے تصدق و توسل سے نصیب
ہوئی ہیں۔
عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محافلِ میلاد ہر اُس موقع پر منعقد
کرتے ہیں جس میں خوشی، فرحت اور سرور ہوتا ہے اور یہ مسرت و شادمانی کا
احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہِ ولادت ’’ربیع الاول‘‘ میں اور
بڑھ جاتا ہے اور بروز پیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے دن خوشی
و مسرت کے لطیف جذبات اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کرنا
کہ محافلِ میلاد کیوں منعقد کی جاتی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس سوال
سے مراد گویا یہ پوچھنا ہے کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت کے دن پر کیوں خوش ہوتے ہو؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ تمہیں صاحبِ
معراج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں یہ خوشی اور مسرت کیوں حاصل
ہوئی؟ کیا کسی مسلمان کو یہ سوال زیب دیتا ہے؟ اس لایعنی سوال کے جواب میں
اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر مسرور
اور خوش ہونے کی وجہ سے محفلِ میلاد منعقد کرتا ہوں، میں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں مومن ہوں۔ بلاشبہ محافلِ میلاد
اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس کا انعقاد، سرورِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و مدحت سننے سنانے کے لیے جلسۂ و جلوس کا
اہتمام، غریبوں کو کھانا کھلانا اور اہل اسلام کے لیے اجتماعی طور پر خوشی
اور مسرت کا سامان پیدا کرنا جائز اور مستحسن عمل ہے! یہ بھی فطری اَمر ہے
کہ ماہِ ولادت باسعادت (ربیع الاول) میں ذکرِ جمیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے اسباب زیادہ قوی اور مضبوط ہوتے ہیں کیوں کہ اس مناسبت سے لوگ
ایسی محفلوں میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ لوگ شعوری طور پر اس بات کے قائل
ہیں کہ بعض لمحات کسی خاص مناسبت کی وجہ سے دوسرے لمحات و اوقات سے زیادہ
شان اور شرف کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کی نسبت سے وہ زیادہ پرکشش اور
کیف آور یادیں لے کر آتے ہیں۔ اور اِسی طرح لوگ حال کو ماضی کے ساتھ ملا کر
اور موجود کو غائب کی طرف منتقل کر کے ذکرِ یار کی لذت سے اِنتہائی کیف و
سرور حاصل کرتے ہیں۔ بقول شاعر :
باز گو اَز نجد و اَز یارانِ نجد
تا دَر و دیوار را آری بہ وجد
(شہرِ دِل بر اور اِس میں بسنے والے اَحباب کا ذِکر کرتے رہیے تاکہ اِس کے
در و دیوار یک گونہ کیف و مستی سے وجد میں آجائیں۔)
محافلِ میلاد کے اِجتماعات دعوت اِلی اللہ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ
لمحات درحقیقت اُن کیفیاتِ جذب و مستی کے امین ہوتے ہیں جنہیں ہر گز ضائع
نہیں کرنا چاہیے۔ خطباء و علماء اور اہلِ علم حضرات کے لیے تو لازم ہے کہ
وہ اِن محافل کے ذریعے اُمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَخلاق و
آدابِ نبوی، سیرتِ طیبہ، معاملات و عباداتِ نبوی جیسے اَہم امور کی یاد
دلاتے رہیں۔ لوگوں کو بھلائی، نیکی اور خیر و فلاح کی تلقین کرتے رہیں۔ نیز
ان کو امت مسلمہ پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا
الصلوۃ والسلام کو کمزور اور بے جان بنا دینے والی گمراہیوں، اسلام میں
پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں اور اپنوں بیگانوں کے اٹھائے ہوئے شر اور
فتور کی آگ سے اپنے خرمنِ ایمان کو بچانے کے لیے پند و نصائح کیا کریں۔
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِن اِجتماعات کا مقصد محض اکٹھے
ہونا اور لوگوں کو دکھانا یعنی گفتند، نشستند، برخاستند نہیں ہونا چاہیے۔
بلکہ ضروری ہے کہ یہ مقدس اِجتماعات اَعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور
وسیلہ بنیں۔ پس جو شخص اِن اِجتماعات سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ کر سکا وہ
میلاد شریف کی خیر و برکت سے محروم رہا!
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شرعی دلیل طلب کرنے والوں کی خدمت
میں:-
اَحکامِ اِلٰہیہ سے مستنبط اُصول و قوانین ہر شرعی عمل کی اَساس ہیں اور ہر
عمل سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہی اس
دین کی حقانیت و صداقت کی وہ بیّن دلیل ہے جو اسے دیگر اَدیانِ باطلہ سے
ممتاز کرتی ہے۔ اِس ضمن میں ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ
طور عید منانے اور اِظہار مسرت کرنے کی بابت نصوصِ قرآن و حدیث کے ساتھ
تفصیلی بحث کر چکے ہیں لیکن ایسے حضرات کے لیے جو بلاوجہ میلاد شریف کے
موقع پر فتویٰ بازی سے جمہور مسلمانوں کو کفر و شرک اور بدعت کا مرتکب
ٹھہراتے ہیں اور ہر بات پر قرآن و سنت سے دلیل طلب کرتے ہیں اُن کے دل و
دماغ تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ بزعم خویش یہ سوچتے ہیں کہ اِس عمل کا
کوئی شرعی ثبوت نہیں؟ اُن سے بہ قولِ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ بس اِتنی گزارش
ہے :
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں
اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 335 / 43
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمی پر شکرانے کے ثبوت طلب
کرنے والے نادان اور کم نصیب لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں
ہزارہا دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن و حدیث کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ
لیں کہ اِس کا ذکر اِن میں ہے یا نہیں؟
1۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کبھی ایک مدت کے بعد اولاد پیدا ہو تو
مٹھائیاں بانٹی جاتیں اور دعوتیں دی جاتیں ہیں؟ کیا اُس وقت بھی کتبِ حدیث
اٹھا کر یہ ثبوت طلب کیا جاتا ہے کہ آیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم یا کسی صحابی نے بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی تھی؟
2۔ ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے
کیا کبھی قرآن و حدیث سے اِس بارے میں بھی ثبوت تلاش کیا ہے؟
3۔ عام معمول ہے کہ جب کسی کی شادی قریب ہوتی ہے تو کئی کئی مہینے اِس کی
تیاریوں میں گزرتے ہیں۔ اِشتہار اور دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، رسم و
رواج اور تبادلہ تحائف پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنے جاتے
ہیں۔ ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اپنے خویش و اَقارب اور دوست و
اَحباب کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ کیا اس موقع پر بھی ہم نے کبھی قرآن
و حدیث سے دلیل طلب کی کہ شادیوں پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے یا ان کے غلاموں نے ایسی خوشیاں منائی تھیں یا نہیں؟ کیا انہوں نے بھی
اتنے مہنگے اور پرتکلف کھانے تیار کرائے تھے؟ یہاں اِس لیے ثبوت طلب نہیں
کیے جاتے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے اور بات اپنے گھر تک
پہنچتی ہے مگر میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثبوت یاد آجاتا ہے
کیوں کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا معاملہ ہے۔
4۔ 23 مارچ کو آزادی کے حصول کے لیے قرارداد پاس ہوئی اور جدوجہد آزادی کا
آغاز ہوا تھا۔ اِس کی خوشی میں ہر سال ملک کے طول و عرض میں سرکاری و غیر
سرکاری سطح پر تقریبات، جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس دن 14
اگست غیروں کے تسلط سے آزادی ملی اور مملکتِ خداداد پاکستان کی صورت میں اﷲ
تعالیٰ کی نعمت ملی تو اُس دن ہر سال پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا
ہے، بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں، جگہ جگہ جہازوں، ٹینکوں اور گاڑیوں کی
سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش ہوتے ہیں۔ یومِ دفاع (6 ستمبر) کی خوشی
میں پاک فوج کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر اِجتماعات ہوتے
ہیں۔ یہ سب اُمور اگرچہ درست ہیں مگر اِن قومی تہواروں کے لیے عہدِ نبوی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہدِ صحابہ سے ثبوت تلاش نہیں کیے جاتے۔
5۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حصولِ آزادی کی جدو جہد میں کام
کرنے والے رہنماؤں کے یومِ ولادت پر پورے ملک میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔
دفاتر، تعلیمی اور صنعتی اِدارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلسوں کا انعقاد کیا
جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے دور دور سے
دانش وروں اور زعماء کو بڑے اہتمام سے دعوتیں دے کر بلوایا جاتا ہے اور ان
کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں قرآن و حدیث یا اُسوئہ صحابہ
رضی اللہ عنھم سے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بجا طور پر
سمجھا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے رہبروں کی ملی خدمات کو سراہا جانا چاہیے
لیکن پوری انسانیت بلکہ کائناتِ ہست و بود کے محسنِ اَعظم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا یومِ ولادت آئے تو اُن کی یاد میں محافلِ میلاد اور خوشی کرنے
پر ہمیں ثبوت یاد آنے لگتے ہیں اور دلیلیں طلب کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا
ہے۔ اَعلیٰ حضرت اِمام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے کیا خوب
لکھتے ہیں :
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی اِحسان گیا
احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 33
6۔ جب ملک کا یوم تاسیس آئے یا بیرونِ ملک سے کوئی مہمان آئے (خواہ مسلم ہو
یا غیر مسلم) اُسے اِکیس توپوں کی سلامی دی جائے تو اُس وقت قرآن و حدیث سے
جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔
7۔ ملک کے صدر، سربراہِ ریاست یا بہت بڑے لیڈر کے اِنتقال پر بڑے اِعزاز کے
ساتھ اُس کی تدفین عمل میں آتی ہے، اُس کی وفات پر سوگ کے جلوس نکالے جاتے
ہیں، میت پر ماتمی دھنوں سے بینڈ باجے، توپوں کی سلامی ہوتی ہے، پھولوں کی
چادریں چڑھتی ہیں، گل پاشیاں اور نہ جانے کیا کیا تقریبات ہوتی ہیں۔ علماء
و غیر علماء سب اِن تقریبات میں شریک ہوتے ہیں مگر کسی نے کبھی فتویٰ صادر
نہیں کیا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُسوئہ صحابہ رضی اللہ
عنھم سے کبھی سند تلاش نہیں کی۔ اِس لیے کہ اِس میں ملک کا اِعزاز اور
مرحوم لیڈر کی خدمات کا اعتراف تھا، اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار تھا اور
اقوام عالم کے سامنے اپنے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور
ہمارے نزدیک بھی یہ غلط نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے مگر اَمر زیرِ بحث یہ ہے
کہ کسی صدر مملکت کے لیے ایسا اہتمام ہو تو کوئی ثبوت نہیں مانگے جاتے لیکن
باعثِ موجودات حضرت محمد علیہ الصلوٰت والتسلیمات کے یوم ولادت کے سلسلے
میں دلائل اور فتووں کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ آقائے دوجہاں رحمۃ للعالمین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا دن آئے تو خوشی منانے کے لیے دلائل و براہین
اور ثبوت مانگے جائیں، اس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ہر موقع پر خوشی تھی بس
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے میں دل اِحساسِ مسرت سے محروم
ہوگیا اور حکمِ خداوندی۔ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا
يَجْمَعُونَ(1) یاد نہ رہا۔ اَعمالِ حسنہ، عبادت و ریاضت میں کثرتِ ذکر پر
بھروسہ کافی محسوس ہونے لگا اور دل اس احساس سے خالی ہوگیا کہ دنیا کی سب
سے پیاری، سب سے معظم اور سب سے زیادہ واجب التعظیم ہستی آقا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی اساس ہے اور ایمان دل کی وہ حالت ہے
جسے کیفیت یا حال کہتے ہیں، جسے لگن بھی کہتے ہیں اور لگاؤ بھی، محبت بھی
کہتے ہیں اور محبت کا الاؤ بھی۔ یہ الاؤ دل میں جل اٹھے تو مومن اپنی زندگی
کے ہر لمحے کو عید میلاد بنا کر مناتا رہے اور اپنے در و دیوار کو آخرت کا
گھر سمجھ کر سجاتا رہے۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان خشک و بے مغز
عبادتوں کے ذخیروں کے مقابلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر
خوشی کرنا اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ اَفضل عمل ہے۔
يونس، 10 : 58
اَفسوس کہ کفر و شرک کے فتاویٰ صادِر کرنے والے منکرِ میلاد بدعتیوں نے
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی خوشیوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے تو کوئی چیز
رکاوٹ نہ بنی لیکن محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت جلوہ فگن
ہوا تو اِس کے اہتمام پر خود خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس سے منع
کرتے رہے۔ یاد رہے کہ کوئی خوشی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
آمد کی خوشی سے بڑی نہیں، اس کے مقابلے میں دنیا و جہان کی ساری خوشیاں ہیچ
ہیں۔
جاری ہے--- |